حضرت فاضل جلیل مولانا محمد شریف نقشبندی ڈسکہ
حضرت فاضل جلیل مولانا محمد شریف نقشبندی ڈسکہ (تذکرہ / سوانح)
حضرت فاضل جلیل مولانا محمد شریف نقشبندی ڈسکہ علیہ الرحمۃ
استاذ العلماء حضرت مولانا ابو اسحاق محمد شریف نقشبندی بن حضرت مولانا صوفی ضمیر احمد قادری نقشبندی، رمضان المبارک مارچ ۱۳۴۳ھ / ۱۹۲۵ء میں موضع باجڑہ گڑھی ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔
آپ کے والد ماجد اگرچہ باقاعدہ درس نظامی کے فاضل نہیں تھے: تاہم انہوں نے مقامی عالمِ دین سے ابتدائی کتب پڑھیں اور پھر کتب فقہ و تصوّف اور قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر کا مطالعہ کرنے سے دین کی کافی سمجھ پیدا کرلی۔ آپ عقائدِ اہل سنّت پر پختگی اور عمل کی دولت سے مالا مال تھے۔
علامہ مولانا محمد شریف نقشبندی نے فارسی صرف و نحو اور فقہ کی ابتدائی کتب فقیہ اعظم حضرت مولانا علامہ شریف محدّث کوٹلوی رحمہ اللہ (والد ماجد حضرت سلطان الواعظین مولانا محمد بشیر مدظلہ کوٹلی لو ہاراں) سے پڑھیں، باقی تمام کتبِ فنون مدرسہ عالیہ نقشبندیہ علی پور سیداں شریف میں حضرت مفتی آل حسن سنبھلی مراد آبادی، سراج الملّت حضرت مولانا الحاج پیر حافظ محمد حسین شاہ مدظلہ، علامہ حافط محمد عبد الرشید جھنگوی اور حضرت مولانا پیر اختر حسین شاہ مدظلہ سے پڑھ کر محدّثِ اعظم حضرت مولانا محمد سردار احمد قدس سرہ کی خدمت میں جامعہ رضویہ مظہرِ اسلام فیصل آباد حاضر ہوئے جہاں آپ نے سراجی، شرح عقائد اور صحاح ستّہ کا درس لے کر ۱۹۵۰ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔
فراغت کے بعد آپ نے اپنے مشائخ و اساتذہ کے ارشاد کے مطابق منڈی وار برٹن میں جامع مسجد مدینہ کی بنیاد رکھی۔ یہاں آپ کو تبلیغی مشن میں اس قدر کامیابی ہوئی کہ صرف چھ ماہ کے عرصہ میں مخالفین اہلِ سنت کو محلّہ عید گاہ کا مدرسہ عربیہ دینیہ اور جامع مسجد غلہ منڈی خالی کرنا پڑی جہاں آپ نے حضرت علامہ مولانا نور محمد قادری کو خطیب اور مدّرس مقرر کیا تو آج تک وہاں تبلیغی سر گرمیوں میں مصروف ہیں۔
منڈی وار برٹن میں سات سال قیام کے بعد آپ ڈسکہ ضلع سیالکوٹ میں منتقل ہوگئے جہاں آپ نے ’’جامع مسجد نور‘‘ کے نام سے ایک مسجد تعمیر کرائی اور ایک دار العلوم قائم کیا۔ اس دار العلوم میں حضرت علامہ کے علاوہ سات دیگر مدرسین تدریسی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ آپ فقہی مسائل پر فتویٰ نویسی کے علاوہ جامع مسجد میں خطابت اور درس قرآن کے ذریعے تبلیغِ اسلام کا فریضہ احسن طور پر انجام دے رہے ہیں۔
تحریکِ پاکستان میں آپ نے دیگر علمأ اہل سنت اور بالخصوص امیر ملّت حضرت پیر جماعت علی شاہ محدّث علی پوری قدس سرہ کی قیادت میں بھر پور حصّہ لیا۔
تحریکِ ختم نبوّت ۱۹۵۳ء اور ۱۹۷۴ء میں مقامِ مصطفےٰ کے تحفظ کی خاطر تین ماہ پابندِ سلاسل رہے اور اس پاکیزہ مشن کی خاطر قید و بند کی صعوبتوں کو خندہ پیشانی سے قبول کیا۔
تحریکِ نظام مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم (۱۹۷۷ء) میں ڈسکہ شہر کی کار کردگی پورے ملک میں مشہور ہے آپ نے اس تحریک میں بھر پور حصہ لیا، بلکہ جمعیت علما پاکستان کے ضلعی صدر ہونے کی وجہ سے آپ تحریک کے قائدین میں سے تھے۔ اس تحریک میں اپنی شرکت کے بارے میں آپ نے راقم کے نام اپنے مکتوب میں لکھا ہے:
’’میں نے تحریکِ نطام مصطفےٰ میں جو کام کیا ہے، اگر قبول ہوجائے، تو امید ہے کہ میری بخشش کے لیے یہی ایک کام کافی ہے۔‘‘
آپ کو سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت امیر ملّت پیر سیّد جماعت علی شاہ محدّث علی پوری قدس سرہ سے بیعت کا شرف حاصل ہے، جبکہ حضرت پیر حافظ محمد حسین شاہ قدس سرہ سجادہ نشین و خلف الرشید حضرت محدّث علی پوری رحمہ اللہ سے سلسلۂ نقشبندیہ میں اور حضرت محدّثِ اعظم مولانا محمد سردار احمد رحمہ اللہ سے سلسلۂ عالیہ قادریہ رضویہ میں آپ مجاز ہیں۔
آپ پہلی مرتبہ ۱۹۵۵ء میں اور دوسری مرتبہ ۱۹۷۳ء میں حج بیت اللہ شریف اورزیارت روضۂ پاک علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسّلام سے شرف یاب ہوئے۔
آپ کے تلامذہ کافی تعداد میں ملک کے اطراف و اکناف میں تبلیغِ دین میں مصروف ہیں۔ [۱]
[۱۔ مکتوب حضرت مولانا محمد شریف نقشبندی، بنام مرتب مورخہ ۳؍ جولائی ۱۹۷۸ء۔]
(تعارف علماءِ اہلسنت)