حضرت مولانا محمد اسماعیل خان عاقل اکبر آبادی
حضرت مولانا محمد اسماعیل خان عاقل اکبر آبادی (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا محمد اسماعیل خان عاقل اکبر آبادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مولانا محمد اسماعیل خان عاقلؔ اکبر آبدی بن بحر طریقت کے شناور حضرت مولانا احمد سعید خان افغانی نقشبندی مجددی علیہ الرحمۃ (بانی و مہتمم دار العلوم مجددیہ انجمن نصر الاسلام آگرہ) آگرہ (یوپی۔ بھارت) کے محلہ میں ۱۹۲۲ء کو (شناختی کارڈ کے مطابق) تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
غالباً اپنے والد کی قائم کردہ درسگاہ کے فاضل تھے۔
بیعت:
غالباً اپنے والد سے بیعت رکھتے ہوں۔
محفل میلاد:
سید فاروق احمد قادری اکبر آبادی لکھتے ہیں: اکبر آباد(آگرہ) کی فضائوں میں سیرت النبی ﷺ کے جلسے اور میلاد خوانی کی برکات محلہ محلہ اور گھر گھر پھیلی ہوئی تھیں۔ حصول برکات اور کسب فیض روحانی کیلئے سال کے بارہ مہینوں میں یہ محافل کمال عقیدت اور اہتمام سے منعقد ہوتی تھیں۔ میری معلوما ت کے مطابق مولانا سراج الدین سراج ، حضرت مولانا عبدالغنی ضیاء (میرے مرشد گرامی) حاجی محدم علی خان ندا اکبر آبادی اور حضرت مولانا محمد اسماعیل خان اکبر آبادی ان محافل کی جان و آبرو ہوا کرتے تھے۔ (گلدستہ نعت)
اس کا مطلب مولانا عاقل نے اکبر آباد اور کراچی میں گھر گھر میلاد خوانی کی محافل برپا کی ۔ ذکر رسول روح کی غذا ہے اور آپ نے اس غذا کو عام کرکے مسلمانوں کے قلب و روح کو معطر و منور کیا۔
بین الاقوامی سیرت النبی ﷺکانفرنس:
ڈاکٹر سید امام علی ضیائؔ لکھتے ہیں: آپ نے ۱۹۵۶ء کو بین الاقوامی سیرت النبی کانفرنس کی کراچی میں داگ بیل ڈالی اور بالآخر آپ کی شبانہ روز کی انتھک کوششوں سے ۱۹۵۹ء کو ایک عظیم الشان سہ روزہ بین الاقوامی سیرت النبی ﷺ کانفرنس بمقام کے جی اے گرائونڈ کراچی میں منعقد ہوئی۔ جس میں مقامی علماء کے علاوہ مختلف ممالک کے اسکالرز اور علماء شریک ہوئے۔ صدر پاکستان فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے بہ نفس نفیس شرکت کرکے دربار رسالت ﷺ میں اپنا نذرانہ عقیدت بصورت خطبہ پیش کیا۔ (گلدستہ نعت)
اس کے بعد سیرت النبی کانفرنس حکومت کی سطح پر ہونے لگی ہیں لیکن اولیت کا سہرا مولانا عاقل کے سر پر ہے۔
نعتیہ شاعری:
جناب شہزاد احمد لکھتے ہیں: ’’ وہ خوش نصیب شاعر ہیں جن کی فکر کا محور و مرکز ابتداء سے نعت گوئی رہا۔ آپ پاکستان کے ابتدائی معروف نعت گو شعراء میں شمار کئیے جاتے ہیں۔ آپ پہلے محرک اور بانی بین الاقوامی سیرت النبی ﷺ کانفرنس ہیں۔ آپ کی زیر ادارت ماہنامہ اذان کراچی بڑی آب و تاب کے ساتھ شائع ہوتا تھا۔ آپ مکتبہ فیضان ادب اور ضیاء پریس کراچی کے مالک بھی تھے۔
(نبی الحرمین ص صوفی رہبر چشتی)
پروفیسر سید علی احمد صابرؔ لکھتے ہیں:
’’حضرت مولانا عاقل اکبر آبادی جن کو عشق رسول ﷺ آبائو اجداد سے ورثہ میں ملا تھا، نعت گو تھے اور غزل گو بھی۔ ان کے طریق اظہار، طرز ادا، اور اسلوب بیان میں دھیما پن، سنجیدگی اور ہلکے سرون کی نغمگی تھی۔ اظہار جذبات میں ایک رکھ رکھائو تھا۔ لہجہ ٹھہرائو اور بیان میں سلیقہ ادب و آداب کی پاسداری تھی۔‘‘
اکمل و اقدس طاہر و اطہر رشک مسیحا خضر کے رہبر
نوح کے ہمدم کون محمد ﷺ
کس نے دکھائی راہ شریعت،کس نے سکھائی رمز طریقت
رہبر اعظم کون محمد ﷺ
شان نبوت،جان رسالت،مخزن حکمت،منبع رحمت
افضل و اکرم کون محمد ﷺ
عاقل کو کس کا ہے سہارا،شاہ تمہارا،شاہ تمہارا
شافع اعظم کون محمد ﷺ
آپ نے جو کچھ کہا ہے بہت سوچ سمجھ کر کہا ہے ان کی حمد ہو یا نعت ،غزل ہو یا نظم روحانیت کی بلندی سے معمور ہے۔ تصوف کے مضامین کو ایسی خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ ان کو پڑھ کر وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ فرماتے ہیں :۔
یہ دن یہ رات ہیں پر تو تمہارے جلووٗ ں کے
وہ صبح چہرہ یہ زلفوں کی شام کیا کہنا
اس آئینہ میں نظر آتے ہو تمہیں مجھ کو
نگاہ دل کی طرف جب جھکائی جاتی ہے
خود آشنا ہوئے، تو خدا آشنا ہوئے
پہچاننے لگے ہیں خدا کو خودی سے ہم
صحافت :
رئیس الشعراء صبا اکبر اابادی مرحوم لکھتے ہیں : ’’ مولانا نے جو گر انقدر ملکی ، سیاسی ، سماجی اور مذہبی خدما ت انجام دی ہیں ان سے صرف نظر کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ اکبر آباد میں جناب عاقل اکبر آبادی کا شغل ذکر رسول کی محافل و اجلاس برپا کرنا اور اپنے جریدے فیضان کے ذریعے سے ان تقریبات کی بیخ کنی کرنا تھاجو ہنود فلموں کے وسیلے سے اسلامی اقدار کو مسخ کرنے کے لئے اختیار کئے ہوئے تھے ‘‘۔ (گلدستہ نعت)
مولانا نے ۱۹۴۱ء کو آگرہ سے ہفت روزہ فیضان جاری کیا اور بعد میں جیکب لائن کراچی سے اور آخر میں فیڈرل کیپٹل ایریا بلاک ایچ میں گورنمنٹ کی طرف سے ایک چھوٹا سا کوار ٹر الاٹ ہوا تو یہیں سکونت اختیار کی تو یہاں سے تاحیات فیضان جاری رکھا۔ بہر حال وہ جہاں بھی رہے فیضان کو اپنے ساتھ رکھا اورفیضان کے ذریعہ مسلمانوں کو فیضیاب کیا اور ان کی دینی و سیاسی رہنمائی کی۔ ۱۹۴۱ء تا ۱۹۵۹ء تک ۱۹ سال تک آگرہ سے جاری رکھا اور کراچی سے ۱۹۵۱ء تا ۱۹۵۸ء تک آٹھ سال جاری رکھا۔ فیضان کے بند ہونے کے بعد ۱۹۶۱ ء تا ۱۹۶۴ء تک ماہنامہ اذان جاری رکھا۔ مولانا اول آخر مسلم لیگی تھے لہذا عقائد و معمولات اہل سنت اصلاح معاشرہ کے ساتھ ساتھ انہوں نے تحریک پاکستان کی بھر پور حمایت کی اور حمایت میں بلند پایہ شعور بیدار مضامین بھی شائع کئے تھے ۔ افسوس!کہ فیضان کا قائل ہماری نظر میں نہیں ، ورنہ فقیر ضرور استفادہ کرتا اور ضروری اقتباس نقل کرتا۔
انہوں نے اپنی جمع پونجی بھی فیضان پر نثار کی بلکہ غربت کے باوجود اپنا جگر کاٹ کاٹ کے فیضان و اذان کو جاری رکھا۔ فقیر جب ان کے شکست و بوسیدہ کو ارٹر حالات لینے گیا تو محسوس ہوا کہ مولانا نے مشکل حالات کے باوجود جو ان ہمت سے فیضان و اذان کو جاری رکھا ہوگا۔
گویا فیضان و اذان کو جاری رکھنا ان کامشن تھا، عشق کی معراج تھی ۔
تحریک پاکستان :
صبا اکبر آبادی لکھتے ہیں ۔ ’’تحریک پاکستان میں مولانا عاقل نے ایک پر جوش کارکن اور سپاہی کی حیثیت سے جو خدمات انجام دی ہیں ان کو دیکھنے اور ان سے متاثر ہونے والے ہنوز زندہ اور سلامت ہیں ‘‘۔ (گلدستہ نعت )
مولانا اسد لکھتے ہیں :
’’ مولانا عاقل اکبر آبادی ایک ہمہ صفت انسان تھے ، مستند عالم ہونے کے ساتھ ساتھ کہنہ مشق شاعر، عظیم صحافی اور سیاسی فہم و بصیرت کے مالک تھے ۔ مولانا جو تحریک پاکستان کے ایک عظیم کارکن ہی نہیں بلکہ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز بھی رکھتے تھے‘‘۔
قیام پاکستان کے بعدبھی جیکب لائن کراچی وارڈ نمبر ۲۸ سٹی مسلم لیگ صوبہ سندھ کراچی کے صدر تھے ۔ بانی و جنرل سیکریٹری آل انڈیا مسلم فلم اصلاحی بورڈ ۱۹۴۵تا ۱۹۴۷ء ۔ کونسلر سٹی مسلم لیگ آگرہ یوپی ۱۹۴۵ تا ۱۹۴۷ء (عارف خان )
خطابت :
مولانا اسد لکھتے ہیں : ’’مولانا عاقل کا پر جوش طرز خطاب حاضرین کو بیحد متاثر کر دیتا تھا۔ آپ کے نعت شریف پڑھنے کا انداز بھی بڑا والہانہ تھا، بڑے سوزو گداز کے ساتھ نعت پڑھتے تھے کہ سننے والے جھوم جاتے تھے ۔ ‘‘ (گلدستہ نعت )
تعمیر مسجد:
مولانا نے فیڈرل کیپٹل ایریا بلاک ایچ میں جب رہائش اختیار کی تو علاقہ میں مسجد کی ضرورت محسوس کی لہذا گھر کے قریب ’’جامع مسجد مکہ ‘‘ کی بنیاد رکھی اور مخیر حضرات کے تعاون سے تمام تعمیری مراحل طے کئے ۔ آپ نے اس مسجد میں جمعہ کو خطبہ بھی دیا اور محافل میلاد کا بھی سلسلہ جاری رکھا۔
(رابیعہ بیگم )
عادات و خصائل :
’’مولانا ہمیشہ سے سادہ زندگی بسر کرنے کے عادی تھی ۔ اس وقت بھی جب اسی کراچی میں مولانا کو ایک بڑے کاروباری شخصیت کی حیثیت میں دیکھا گیا اور بعد میں بھی جب کہ سیرت النبی کی تبلیغ اور فیضان کیلئے مولانا نے سب کچھ (اثاثہ ) قربان کر دیا تھا وہی سادگی اور سنجیدگی مولانا کا شعار تھا۔ مولانا ایک باحمیت انسان تھے ۔ اپنے لئے کچھ نہیں کیا جب کہ مولانا کے بعض مفاد پر ست ساتھیوں نے مولانا اور فیضان کے حوالہ سے بہت کچھ فائدہ اٹھایا‘‘۔ (گلدستہ نعت)
تصنیف و تالیف :
فیضان میں طویل عرصہ سے آپ کے فکر انگیز چھپنے والے مضامین کو اگر جمع کیا جائے تو یقینا کئی جلدیں تیار ہو سکتی ہیں ۔
گلدستہ نعت :
آپ کی شاعری کا مجموعہ ہے ۔ پہلی بار ۱۹۵۲ء کو شائع ہوا اس کے بعد مزید دو ایڈیشن شائع ہوئے ہیں ۔
رابیعہ بیگم کے پاس فقیر نے دو کاپیاں دیکھی جس میں مولانا کی شاعری محفوظ ہے ۔ اگر اس وقت شائع ہو جائے تو محفوظ ہو جائے گی ورنہ بعد میں ضائع ہونے کا قوی امکان ہے۔ اور انہوں نے بتایا کہ مولانا مرحوم کے دوست جمیل احمد صدیقی جمالی کراچی (۱۹۹۸ئ) مولانا کے انتقال کے بعد ایک بار تشریف لائے اور ہمیں یقین دلایا کہ وہ مولانا پر کام کریں گے ، سوانح لکھیں گے اور ان کے کتب شائع کریں گے لہذا ان کے اسرار کے پیش نظر مولانا کی کتب اور مسودے ان کے سپرد کئے گئے ، لیکن افسوس کہ کام اب تک سامنے نہ آسکا۔ ہم نے ان پر بھروسہ کیا لیکن انہوں نے ہمارے اعتما د کو ٹھیس پہنچائی۔
اولاد:
آپ نے ایک شادی کی اہلیہ کا نام افسری بیگم تھا وہ بھی انتقال کر چکی ہیں آپ کو ایک بیٹا احمد رشید خان تولد ہوا لیکن بیماری کے سبب جوانی میں انتقال کر گیا۔
وصال:
مولانا محمد اسماعیل عاقل نے ۱۴، اکتوبر ۱۹۹۴ء ؍ جمادی الاول ۱۴۱۵ھ کو سانس کی تکلیف کے سبب عثمان میموریل ہسپتال کریم آباد میں انتقال کیا۔ اس وقت آپ کی عمر ۷۲ سال تھی ۔ عمر کا آخری حصہ ضعف کمزوری کے ساتھ کسمپری میں گذار ۔ خاموش کالونی قبرستان ( لیاقت آباد) میں مدفون ہیں ۔ (بروایت عارف خان )
[محترم الحاج شمیم الدین پاکستان ہاوٗ س نارتھ ناظم آباد کراچی نے ’’گلدستہ نعت ‘‘کتاب کے ابتدائی صفحات برائے مطالعہ فراہم کئے جس کے سبب مضمون ترتیب دینے میں آسانی رہی ۔ مزید تشنگی کے لئے محمد اسحاق خان مرحوم کی بیٹی رابعہ بیگم جو کہ مولانا عاقل کی لے پالک بیٹی کہلاتی ہے۔ آج کل یہی مولانا کی وارث ہیں ۔ ان سے ۲۰۰۵۔۰۲۔۲۱ کو ملاقات کر کے مزید معلومات حاصل کی۔ رابعہ بیگم کے بڑے بیٹے کا نام محمد عارف خان ہے انہوں نے بھی تعاون کیا۔ فقیر تمام معاونین کا مشکور ہے۔]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)