راٗس الافاضل حضرت مولانا محمد صالح قادری
راٗس الافاضل حضرت مولانا محمد صالح قادری (تذکرہ / سوانح)
مرد مومن ، فقیر حق ، عالم گر حضر ت مولانا محمد صالح مہر قادری بن میاں جی مصری فقیر مہر گوٹھ قاضی بادل مہر ( ضلع گھوٹکی ) میں ۱۳۳۱ھ بمطابق ۱۹۱۳ء کو تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
قرآن مجید کی تعلیم اپنے والد مرحوم کے شاگرد حاجی سہراب سے حاصل کی ۔ میاں احمد فقیر کے پاس فارسی کی تعلیم حاصل کی ۔ قاطع رفض و بدعت مفتی اعظم خیر پور ریاست علامہ مفتی محمد سعد اللہ انصاری ( مصنف توب محمد ی ) کو حضرت شمس العلماء پیر سید شاہ مردان شاہ اول راشدی المعروف پیر صاحب پگارہ کوٹ دہنی نے درگاہ راشدیہ پیران پگارہ کے مدرسہ میں مدرس و مفتی مقرر کیا ۔ مولانا محمد صالح نے ان کی خدمت بابرکت میں ڈیڑھ سال رہ کر بقیہ فارسی اور عربی کی ابتدائی کتب پڑھیں ۔
مولانا محمد صالح کی زندگی ایک مجاہد کی زندگی تھی ، کبھی جیل میں ، کبھی سفر میں ، کبھی مدرسہ میں ، وہ دور تحریکی دور تھا حر تحریک اپنے جو بن پر تھی ، اس لئے آپ کی تعلیم وقتی طور پر متاثر ہوتی رہی ۔ لیکن آپ نے جو ان مردی سے ایسے مراحل میں بھی تعلیم کو جاری رکھا۔ ان دنوں گورنمنٹ برطانیہ حر مجاہدین کو لوڑھوں میں قید کر رہی تھی مولانا صاحب بھی انگریز سا مراج کے ظلم و ستم سے بچ نہ سکے اور جو ہی کے لوڑھے میں جب قید ہوئے تو وہاں حضرت مولانا محمد یوسف جیسا مشفق و مہربان استاد ملا پھر وہیں تعلیم کا سلسلہ جوڑ لیا۔پاکستان بننے کے بعد درگاہ راشدیہ کی بحالی اور صاحبزادگان کی آزادی کے سلسلہ میں جماعت کی نمائندگی کرتے ہوئے آپ نے حکومت و گورنر سندھ دین محمد شیخ سے مذاکرات میں پیش پیش تھے اس لئے کراچی میں قیام کیا۔ ان دنو ں کراچی میں مفتی اعظم پاکستان علامہ مفتی محمد صاحبداد خان جمالی تدریسی مصروفیات میں مشغول تھے۔ مولانا محمد صالح نے تمام مصروفیات کے باوجود مفتی صاحب کے پاس فقہ و حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ ( الراشد صفر ۱۳۹۷ھ)
بیعت :
مولانا محمد صالح ، امام انقلاب ، حر تحریک کے قائد ، آزادی کے ہیرو ، شیخ طریقت حضرت مجاہد ملت پیر سید صبغت اللہ شاہ راشدی شہید المعروف پیر صاحب پگارہ ششم پگ دہنی یعنی صاحب دستار ، ؒ ( ۲۰، مارچ ۱۹۴۳ء ) سجادہ نشین درگاہ عالیہ راشدیہ پیران پگارہ پیر جو گوٹھ (ضلع خیر پور میرس ، سندھ ) کے دست اقدس پر سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ میں بیعت ہوئے اور مرشد کریم کی سر براہی میں تحریک آزادی میں سر گرمی سے حصہ لیا۔
تلامذہ :
آپ کے شاگردوں کی فوج ظفر فوج میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں :
٭ مفتی محمد رحیم سکندری
مہتمم جامعہ راشدیہ درگاہ شریف راشدیہ پیر جو گوٹھ
٭ مفتی عبدالرحیم سکندری
مہتمم مدرسہ صبغۃ الھدیٰ شاہ پور چاکر
٭ مفتی در محمد سکندری
مہتمم مدرسہ صبغۃ الاسلام سانگھڑ
٭ مفتی غلام قادر سکندری
لیکچرار گورنمنٹ عبداللہ ہارون کالج لیاری کراچی
٭ مفتی عبدالکریم سکندری ( میر پور خاص )
صوبائی خطیب محکمہ اوقاف سندھ
٭ مولانا سید غوث محمد شاہ جیلانی مرحوم
٭ مولانا صوفی علی شیر
مدرس مدرسہ حزب الاسلام تلوبھانڈو تحصیل کنگری
٭ مولانا مخدوم منور الدین
درگاہ در بیلو ضلع نوشہرو فیروز
٭ مولانا محمد قاسم مصطفائی
مہتمم مدرسہ انوار مصطفی میر پور ماتھیلو
٭ مولاناغلام عباس قادری
پروفیسر سراج الدولہ کالج کراچی
٭ مولانا حافظ اسد اللہ سکندری
پیر جو گوٹھ
٭ مولانا عبدالرزاق سکندری
مہتمم دارالعلوم قادریہ شہداد پور
٭ مولانا احمد علی سکندری
مدرس مدرسہ صبغۃ النور کھپرو
٭ مولانا غلام حیدر سکندری
٭ مولانا عبدالطیف سکندری
خطیب درگاہ جئے شاہ جیلانی پرانہ سکھر
٭ مولانا عبدالواحد سکندری عباسی
خطیب منارہ مسجد غریب آباد سکھر
٭ مفتی نذیر احمد سکندری
مدرس مدرسہ انوار المجتیٰ خیر پور میرس
٭ پروفیسر مولانا بشیر احمد سکندری منگر یومر حوم
حیدر آباد
٭ مولانا حافظ نور احمد جیسر سکندری
احسان واہن ضلع لاڑکانہ
٭ مولانا میر محمد قاسمی
کراچی
٭ مولانا نور محمد سکندری
خطیب جامع مسجد جیسلمیر ریاست ( انڈیا )
٭ مولانا قائم الدین سکندری
خطیب ناچنہ تحصیل ریاست جیسلمیر
٭ مفتی الہی بخش ملاح سکندری
بھلیڈنہ آباد ضلع جیکب آباد
٭ مولانا علی محمد سمیجو سکندری
مدرسہ انوار مدینہ عمر کوٹ
٭ مولانا عبدالجلیل سکندری
ٹنڈو رحیم خان کا چھو تحصیل جو ہی
٭ مولانا عبدالکریم سکندری مرحوم
خطیب جامع مسجد شاہی بازار جھڈو
٭ مولانا حافظ کریم ڈنہ سکندری سولنگی
تحصیل گمبٹ
خد مات جلیلہ :
مولانا محمد صالح میں اللہ تعالیٰ نے کوٹ کوٹ کر خوبیاں بھر ی تھیں اور تعمیر ی ذہن سے نوازا تھا۔ ان کے سامنے اہل سنت و جماعت کے لئے وسیع و جامع پروگرام تھا ۔ وہ درگاہ راشد یہ پیران پگارہ کی جامع مسجد کے صرف امام نہ تھے ، وہ جامعہ راشدیہ کے صرف مدرس مہتمم نہ تھے بلکہ وہ امام انقلاب کے تحریکی ساتھی تھے، حر جماعت کے امین ، درگاہ شریف اور حضرات پیر ان پگارہ کی عظمت با کمال اور تاریخ کے حافظ بھی تھے۔ درج ذیل کا رکردگی ان کی خدمات کا منہ بولتا چمکتا دمکتا ثبوت ہے۔
٭ بحیثیت مہتمم جامعہ راشدیہ کی تعلیم و ترقی انتظام و اہتمام کا اہم کام سر انجام دیا۔
٭ جامعہ راشدیہ میں درس و تدریس ۔
٭ جامع مسجد راشدیہ میں امامت و خطابت
٭ امام انقلاب کی شہادت کے بعد یہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے حر جماعت کی صحیح رہنمائی کی اور ان کو متحدو منظم کیا۔
٭ حر جماعت انگریز کی مارشل لاایکٹ کے تحت لوڑہوں (concentration camps میں قید تھی ان میں تعلیم قرآن و تربیت کا سلسلہ شروع کرایا۔
٭ حر جماعت کے گوٹھوں ( گاوٗ ں ) میں جامعہ راشدیہ کی شاخ قائم کرنے میں بڑی ہمت و جراٗت کی ضرورت تھی آپ نے ایسی پچاس شاخیں اندرون سند ھ میں قائم کی ۔
٭ جامعہ کی تمام قائم کردہ شاخوں کے نام بزرگان پیران پگارہ کے اسماء گرام ( ٭صبغۃ الھدیٰ ، صبغۃ الاسلام ، صبغۃ العرفان ، صبغۃ الفیض ، حزب الاسلام ، حزب الاحناف وغیرہ ) پر تجویز کئے ۔
٭ جامعہ راشدیہ مع شاخوں کے فضلاء کو متحد و منظم و متحرک رکھنے کے لئے ’’جمعیت علماء سکندریہ ‘‘ نام سے تنظیم قائم کی۔
٭ جامعہ کے فضلاء کو ’’سکندری ‘‘ کاخطاب دیا۔
٭ جامعہ راشدیہ میں ’’شعبہ نشر و اشاعت ‘‘ قائم کیا۔
٭ امام العارفین قدس سرہ کی ملفوظات شریف کے بقیہ حصوں کا سندھی ترجمہ اپنے ہونہار شاگرد مفتی در محمد سکندری سے کرایا۔
٭ قیام پاکستان کے بعد درگاہ راشدیہ کو بحال کرانے کیلئے بڑی جدوجہد کی۔
٭ قیام پاکستان کے بعد آپ جامعہ راشدیہ کے پہلے مہتمم مقرر ہوئے۔
وصال :
حضرت مولانا فقیر محمد صالح قادری کو پچیس سال سے ذیابیطس کی تکلیف تھی ، چھ سات برس سے بے خوابی ، خون کی خرابی اور پیچس کی شکایت تھی ۔ دوڈ ھائی برسوں سے انتقال کو شدت سے محسوس کر رہے تھے بلکہ انہیں انتقال کے وقت کا بھی پتہ تھا ۔ ( الراشد شعبان ۱۳۹۷ھ)
بستر مرگ سے فرمایا: پس زندگی کی کوئی حسرت باقی نہیں ( تمام آرزو ئیں پوری ہوئیں ) آخری آرزویہ ہے کہ آخری گھڑیاں جامعہ راشدیہ میں نصیب ہوں اور یہیں سے میرا جنازہ اٹھایا جائے۔
(الراشد ۱۴۱۷ھ)
مولانا محمد صالح نے ۶ ، ذوالقعد ۱۳۹۶ھ مطابق ۳۰ ، اکتوبر ۱۹۷۶ء بروز ہفتہ ۸۹ سال کی عمر میں جامعہ راشدیہ میں وصال کیا ۔ مفتی محمد رحیم سکندری نے نماز جنازہ کی امامت کے فرائض انجام دیئے ۔ نماز جنازہ میں علماء مشائخ سادات ، حفاظ اور جماعت کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ ( الراشد صفر ۱۳۹۷ھ)
پیر جو گوٹھ کے قبر ستان میں آپ کی مزار مرجع علماء ہے۔
حضرت مولانا عبدالرحمن ضیائی نے قطعہ تاریخ وصال کہا:
مولوی صالح محمد آنکہ بود از صالحاں
سکہ صدق و صفا ہر دل اہل جہاں
وارث علم نبی و عالم جملہ علوم
در تورع در برھد بود چوں پیشینیاں
صورتش چوں سیرتش بر سنت خیر البشر
یاد حق مے آمدے از دیدن اور بیگماں
راشدیہ مدرسہ از حسن سعیش در وجود
از برائے خدمت دیں بود اوبستہ میاں
باتصلب باتورع تابع دین حنیف
از برائے اہل حدیث وخیث بود از دشمناں
معتقد شاہ مرداں شاہ ثانی پیر خلق
زیں سبب جملہ جماعت بود از و بس شادماں
چوں ندائے ارجعی درگوش جان او رسید
باہزاراں شادمانی رفت درباغ جناں
ششم از ذوالقعدو وقت چاشت روز شنبہ بود
از تلامیذو محباں کرد روئے خود نہاں
باسر جو دو لیاقت ھاتفتم سالش بگفت
جنت الفردوس جائے مرد مان صالحاں
بادل پر درد مے خواہد ’’ضیائی‘‘ صد دعا!
بار دائم مسکن نیکوئے او اندر جناں
۱۳۹۶ھ
استاد العلماء مفتی سید مسعود علی قادری
مولانا مفتی سید مسعود علی بن حافظ سید احمد علی بن سید قاسم علی بن سید ہاشم علی یوپی کے مشہور شہر علی گڑھ کی ایک ریاست بوڑھا گاوٗں ( یہ لفظ دراصل بھڑ گاوٗ ں تھا بھڑ کے معنی ریت کے ہیں چونکہ یہ دیہات دریائی کنارے پر واقع ہے ا س لئے اس میں ریتیلا علاقہ بہت زائد تھا پھر لفظ بگڑتے بگڑتے بوڑ ھا ہو گیا ) میں ۱۹۰۹ء کو سادات کرام کے ایک علمی گھرانے میں تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت :
تعلیم کی ابتدا مار ہر ہ ضلع ایٹہ سے ہوئی ، عربی کی تعلیم مدرسہ لطیفہ جامع مسجد علی گڑھ میں شروع کی، عربی کے پہلے استاد مولانا عبدالرحمن تھا ۔ عربی کی تعلیم کا آغاز ۱۹۱۹ء سے ہوا، ۱۹۲۱ء کو نواب ابو بکر خان صاحب کے قائم کردہ مدرسہ عربیہ حافظیہ سعید یہ دادوں ضلع علی گڑھ روانہ ہوئے۔ یہاں آپ کو علامہ و جیہ الدین احمد خان رامپوری ، مولانا نعمانی اور قاری محی الدین جیسے فاضل اور مشفق اساتذہ کا شرف تلمذ حاصل ہوا۔ ۱۹۲۸ء تا ۱۹۳۱ء تک مدرسہ عالیہ رامپور میں تعلیم حاصل کی ، دیگر اساتذہ کے علاوہ علامہ فضل حق رامپوری اور ان کے صاحبزادے علامہ افضال الحق رامپوری سے تعلیم حاصل کر کے فارغ التحصیل ہوئے۔
بیعت:
آپ اپنے استاد محترم مولانا وجیہ الدین احمد خان رامپوری ( متوفی ۱۴۰۷ھ ، بانی جامعہ فرقانیہ رامپور، سابق پرنسپل مدرسہ عالیہ رامپور) کے پیر حضرت مکھن میاں بریلوی رحمتہ اللہ علیہ سے سلسلہ عالیہ قادریہ میں مرید اور صاحب مجا ز خلیفہ تھے۔ لیکن آپ نے زندگی میں بہت کم لوگوں کو مرید کیا۔
درس و تدریس :
۱۹۳۲ء کو استاد محترم مولانا وجیہ الدین کے حکم پر آپ مدرسہ نعمانیہ دہلی تشریف لے کر آئے اور یہاں ۱۹۳۴ء تک خدمت تدریس انجام دی ۔ ۱۹۳۴ء تا ۱۹۴۱ء تک مدرسہ عالیہ قادریہ بدایون میں مسند تدریس و افتا ء پر فائز ہوئے ساتھ میں مدرسہ کا انتظام و انصرام بھی فرماتے رہے ۔ ۱۹۴۱ء تا۱۹۵۰ء تک مدرسہ عربیہ دادوں ضلع علی گڑھ میں درس و تدریس وافتاء کے علاوہ مدرسہ کا انتظام و انصرام بھی سنبھالتے رہے۔ ۱۹۵۱ء تا ۱۹۷۰ ء تک بیس (۲۰) سال مدرسہ اسلامیہ عتبیہ انوار العلوم ملتان میں شیخ الحدیث علامہ سید احمد سعید کاظمی ؒ کی دعوت پر تدریس و فتویٰ نویسی کے علاوہ نائب مہتمم کی حیثیت سے خدمات جلیلہ تاریخ میں رقم فرماتے رہے۔ ۱۹۷۰ء کو آپ کے عارضہ ذیابیطس میں اضافہ ہو گیا اور ساتھ میں عارضہ قلب بھی لاحق ہوگیا۔ پھر آپ کے بڑے صاحبزادے خطیب اسلام ترجمان اہل سنت علامہ سنت علامہ سید سعادت علی قادری بسلسلہ تبلیغ بیرونی ممالک کے سفر پر روانہ ہو گئے ، ان تمام حالات سے مفتی صاحب گہرے متاثر ہوئے چنانچہ وہ اپنے چھوٹے صاحبزادے مفتی سید شجاعت علی قادری کی گذارش پر مع اہل وعیال کراچی تشریف لائے اور دارالعلوم امجد یہ میں مسند تدریس وافتاء سنبھالا اور جامع مسجد قصابان صدر میں خطابت و امامت کے فرائض انجام دیتے رہے ۔
مفتی صاحب نے ۴۵ سال تک جملہ علوم دینیہ کا درس دیا اس طویل عرصے میں بے شمار علماء و فضلاء نے آپ سے کسب فیض کیا۔ مفتی صاحب ابتداہی سے جمعیت علماء پاکستان کے ساتھ وابستہ رہے اور تمام عمر اہل سنت و جماعت کی تنظیم کے لئے سر گرم عمل رہے۔
عادات و خصائل :
مفتی صاحب عالم باعمل متقی پرہیز گار تھے۔ بے حد ذہین ، محنتی استاد ، ماہر علوم و فنون ، نکتہ دان مفتی ، باخبر فقیہ تھے۔ خوش اخلاق ، خوش پوش ، غیور ، خوددار اور جسمانی طور پر تندرست و توانا نیز بے حد حسین و جمیل اور چہرہ نورانی تھا ۔
اولاد :
آپ کی اولاد میں سے چار صاحبزادیاں اور پانچ صاحبزادے آپ سے یاد گار ہیں ، صاحبزادگان کے اسماء گرامی یہ ہیں :
۱۔ علامہ سید سعادت علی قادری موٗلف تفیسر یایھا الذین امنوا ( ۲جلدیں )
۲۔ علامہ مفتی سید شجاعت علی قادری بانی دارالعلوم نعیمیہ کراچی
۳۔ سید طارق علی ایم اے اکنامکس
۴۔ سید خوشنود علی قادری ۵۔ سید عتیق علی
تلامذہ :
آپ کے تلامذہ کی کثیر جماعت میں سے بعض کے اسماء گرامی معلوم ہو سکے جو کہ درج ذیل ہیں :
٭ خطیب اہل سنت مولانا عزیز الرحمن ڈیرہ اسماعیل خان ( سرحد )
٭ مولانا مفتی غلام سر ور قادری مہتمم جامعہ غوثیہ رضویہ گلبرگ لاہور
٭ مولانا سید محمد فاروق القادری ایم اے گڑھی اختیار خان ضلع رحیم یار خان
٭ مولانا مفتی غلام مصطفی رضوی رئیس دارالافتاء انوار العلوم ملتان
٭ مولانا محمد حسن حقانی مہتمم جامعہ انوار القرآن مدنی مسجد گلشن اقبال نمبر ۵ کراچی
تصنیف و تالیف :
مفتی صاحب نے ہندوستان ملتان اور کراچی میں دوران قیام فتاویٰ جاری فرمائے وہ بلند پایہ علمی شاہکار ہیں ، انہیں ’’فتاویٰ مسعودیہ ‘‘ کے نام سے مرتب کر کے شائع کیا جا سکتا ہے لیکن نہ معلوم اس طرف متوجہ ہونے میں کیا چیز مانع ہے۔
وصال :
مفتی سید مسعود علی قادری نے ۵، محرم الحرام ۱۳۹۳ھ بمطابق ۹، فروری ۱۹۷۳ء مسجد قصابان صدر کراچی کے مکان میں نماز جمعہ پڑھانے کے بعد بعارضہ قلب وفات پائی۔ دو مرتبہ نماز جنازہ ہوئی ایک مرتبہ صدر میں قائد اہل سنت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی نے پڑھائی اور دوسری مرتبہ قبرستان میں صاحبزادے مفتی سید شجاعت علی قادری نے ، آپ کے لئے سخی حسن قبر ستان ( نارتھ ناظم آباد کراچی ) میں ایک الگ قطع زمین حاصل کیا گیا جہاں آپ آرام فرماہیں ۔
آپ کے انتقال پر حضرت صابر براری ( کراچی ) جناب جامی مار ہروی اور مولانا سید حبیب احمد افق کاظمی سابق ناظم اعلیٰ مدرسہ انوار العلوم ملتان نے قطعات تاریخ وفات کہے ۔ ان میں سے آخر الذکر ’’افق ‘‘ اور عزیز کے قطعات درج ذیل ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
عالم دیں مفتی شرع نبی
سید مسعود علی قادری
ماہر تدریس علوم و فنون
واقف اسرار و رموز خفی
حق بکند مغفرتش ازکرم
اذن دہد ’’ادخلی فی جنتی‘‘
حق رفاقت بمودی او
ختم سخن کن ’’افق کاظمی‘‘
فکر چو کر دم پئے تاریخ نقل
در سن اسلامی وہم عیسوی
درد و مصاریع بگوشم افق
آمدہ از غیب ندائے خفی
شد بسکوں داخل خلد بریں
مفتی با شرع مسعود علی
۱۹۷۳ء
۱۳۹۳ھ
محترم عزیز حاصل پوری مرحوم نے اپنے جذبات کااظہار یوں کیا ہے:
دے گئے داغ فراق آج اچانک ہم کو
آہ اک عالم دیں مفتی مسعود علی
ناگہاں آئی اجل ہو گئے آنا فانا
عازم خلد بریں مفتی مسعود علی
موجزن سینے میں تھا قلزم انوار علوم
تھے اجالوں کے امیں مفتی مسعود علی
اپنے عرفان کی ضو چھوڑ گئے ذہنوں میں
علم کے ماہ مبیں مفتی مسعود علی
بچھ گئی عالم اسلام میں چادر غم کی
کر گئے سب کو غمگیں مفتی مسعود علی
ہو گئے گرچہ نگاہوں سے بظاہر اوجھل
ہیں دلوں میں تو مکیں مفتی مسعود علی
ملنے والوں سے ملا کرتے تھے ہنس ہنس کے سدا
خندہ لب خندہ جبیں مفتی مسعود علی
آج یوں محفل احباب ہے سونی سونی
آج محفل میں نہیں مفتی مسعود علی
یاس کے سر سے کہو مصرع تاریخ ’’عزیز‘‘
واقف راہ یقیں مفتی مسعود علی
۱۳۹۳ھ
مفتی سید مسعود علی قادری مضمون نگار مفتی سید شجاعت علی قادری ماہنامہ ترجمان اہل سنت کراچی مارچ ۱۹۸۳ء سے ماخوذہے]
تاج العلماء مفتی محمد عمر نعیمی
آپ کی ولادت ۲۷، ربیع الآخر ۱۳۱۱ھ کو مراد آباد ( یوپی ، انڈیا) کے ایک متوسط خاندان میں ہوئی ۔ آپ کے والد ماجد جناب محمد صدیق صاحب عمارتی لکڑی کے تاجر تھے۔ مفتی صاحب اپنے والد کے اکلوتے فرزند تھے۔ اسی وجہ سے خاندان والوں کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور تھے۔آپ کی پیدائش سے پہلے آپ کے کئی بھا ئی صغر سنی میں انتقال کر چکے تھے۔ اس لئے آپ کے نانا جان نے منت مانی تھی کہ اگر میری بیٹی کے یہاں اولاد نرینہ زندہ رہی تو میں دین مصطفوی کی تبلیغ و اشاعت کیلئے وقف کردوں گا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ زندہ رہے لہذا حسب منت آپ کے نانا اور والدین نے زیور تعلیم سے آراستہ کرایا۔
تعلیم و تربیت :
آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت جناب منشی شمس الدین صاحب نے فرمائی ۔ اس کے بعد آپ کو فخر اسلام ، مرجع علماء اعلام ، دافع اوھام ، فاتح اعدائے رسول انام ، صدر الافاضل ، بدر الممائل ، راٗس المفسرین ، رئیس المحدثین حافظ قاری مولانا سید محمد نعیم الدین صاحب مراد آبادی ؒ کی خدمت اقدس میں پیش کر دیا گیا۔ استاد محترم کی جو ہر شناس نظر نے اندازہ لگالیا کہ اس ہونہار اور ذہین بچے کی صحیح تعلیم و تربیت ملک و ملت کے لئے مفید ثابت ہوگی ۔ لہذا استاد مکرم نے نہ صرف از اول تا آخر تعلیم و تربیت سے نوازا بلکہ اپنے پس ماندگان اور اولاد سے یہ فرما کر کہ محمد عمر کی محبت ، امانت و دیانت میری آزمائی ہوئی ہے نہ صرف تاج العلماء ؒ کو تمام شاگردوں میں ممتاز کر دیا بلکہ سچااور صحیح جانشین ہونے پر بھی مہر تصدیق ثنت فرما دی ۔ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء
استادمکرم کا احترام و ادب :
بالکل ابتدائی بات ہے جب کہ آپ کے نانا شیخ کرامت علی صاحب آپ کو لے کر صدر الافاضل ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے علمی صلاحیت جانچنے کے لئے آپ سے کوئی سوال دریافت فرمایا جس کا جواب مفتی صاحب موصوف اپنی صفر سنی کی وجہ سے درست نہ دے سکے تو صدر الافاضل ؒ نے فرمایا کہ کیا یہی تمہارے استاد نے پڑھایا ہے۔ تاج العلماء ؒ نے عرض کیا کہ استاد محترم نے تو صحیح پڑھایا تھا مگر مجھے یہی یاد رہا ۔ اللہ اللہ !استاد مکرم کا یہ ادب و احترام ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے محبوب ﷺ نے سچ فرمایا۔ الدین ادب دین سراپا ادب ہے۔
حضرت حافظ شیرازی ؒ نے صحیح فرمایا:
ادب تاحبیست از لطف الہی
بنہ برسربرو ہر جاکہ خواہی
درس نظامی کی تکمیل اور دستار فضیلت :
تقریبا انیس سال کی عمر شریف میں آپ نے علوم عالیہ اور علوم الہیہ کی تکمیل فرما کر سند فراغ حاصل کر لی۔ اس لئے بڑی خوش نصیبی اور کیاہوگی کہ جلسہ دستار فضیلت منعقدہ ۱۳۲۹ھ؍ ۱۹۱۱ء میں اعلیٰ حضرت ، مجدد دین و ملت امام اہلسنت احمد رضا خان محدث بریلوی ؒ مراد آباد تشریف لائے اور اپنے دست مبارک سے تاج العلماء کے سر پر دستار فضیلت باندھی۔
مسند درس پر آپ کا رونق افروز ہونا:
آپ جب اپنی خداد اد صلاحیت ، ذہانت و ذکاوت کی وجہ سے تمام علوم و فنون میں مہارت تامہ اور ملکہ کاملہ حاصل کر نے کے بعد استاد محترم کے ارشاد کے مطابق انہیں قائم کردہ مدرسہ میں جو اس وقت انجمن اہل سنت و جماعت کے نام سے موسوم تھا ( بعد میں اس ادارہ کا نام تبدیل کر کے جامعہ نعیمیہ مراد آباد رکھا گیا ) درس و تدریس کی خدمت سر انجام دی۔ یہ سلسلہ تعلیم و تربیت نصف صدی سے زائد عرصے تک جاری رہا اور اس مدت طویلہ میں ہزار ہاتشنگان علوم دینیہ کو سیراب فرمایا۔ یوں کہنا چاہئے کہ آپ تمام نعیمی شاگردوں کے استاد مکرم ہیں ۔
خدمت افتاء :
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پاک صاحب لولاک ﷺ کے دین کی خدمت کیلئے جہاں قرآن عظیم اور احادیث رسول کریم ﷺ میں کمال عطا فرمایا تھا وہیں آپ کو کتب فقہ میں بھی کمال مرحمت فرمایا تھا۔اسی نعمت غیر مترقبہ کی بدولت آپ نے نصف صدی سے زائد یعنی آخری عمر تک مسند افتاء کو رونق بخشی ۔ اور اسی وجہ سے آپ کو آپ کے استاد مکرم اور دیگراکابر علماء اہل سنت نے ’’تاج العلماء ‘‘ کے لقب سے ممتاز و سر فراز فرمایا۔
ایں سعادت بزور بازو و نیست
تانجشد خدائے بخشند
اس سلسلے میں ناظرین کے لئے یہ واقعہ خالی از دلچپسی نہ ہو گا کہ مدرسہ عالیہ کلکتہ میں وائس پرنسپل کی جگہ خالی ہوئی تو حاجی لعل خاں صاحب مرحوم کے بھتیجے اور فرزند نسبتی حاجی عبدالعزیز خاں صاحب نے مفتی صاحب موصوف کو اس جگہ کے لئے راضی کر لیا ۔ لیکن جب مفتی صاحب موصوف نے حضرت صدر الافاٗضل سے مشورہ فرمایا تو انہوں نے فرمایا مولانا اگر آپ وہاں ایک کثیر مشاہرہ کی وجہ سے چلے گئے تو یہاں دین کی خدمت کرنے کیلئے کون آئے گا؟
ادھر آپ کی والدہ محترمہ نے فرمایا میاں اگر پتھر بھی ایک جگہ پڑا رہتا ہے تو وہ نشان راہ بن جاتا ہے۔ تم نے عمر عزیز کے بیشتر سال اس ادارہ کی خدمت میں صرف کئے ہیں لہذا تمہارا یہیں رہنا زیادہ مناسب ہے رہا دنیا کا سوال تو وہ آتی جاتی ہے ۔ قدرت کو اگر دینا ہے تو یہیں انتظام کرائے گی ۔ ان مشوروں کے بعد آپ نے وہاں جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔
استاد محترم سے والہانہ عقیدت و محبت :
اپنے استاد محترم سے والہانہ عقیدت و محبت کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے کہ آپ نے مادر علمی اور استاد مکرم کے قائم کردہ ادارہ ( دارالعلوم نعیمیہ ) میں برسوں قلیل مشاہرہ پر درس و تدریس ، افتاء و اہتمام کے فرائض بحسن و خوبی انجا م دیئے ۔ باوجود اس بات کے کہ برصغیر کے مختلف دینی اور علمی اداروں کی طرف سے آپ کو خطیر مشاہروں کی پیش کش کی گئی مگر آپ نے کمال استغنا سے ٹھکرا کر استاذ محترم کی صحبت و محبت کو فوقیت دی تو دوران درس میں مفتی صاحب کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’’ میں تو جوتیوں میں بیٹھنے کے لائق تھا مگر صدر الافاضل ؒ کی کفش برداری کاصدقہ ہے کہ میں آج ا س مسند درس و تدریس اور رشد و ہدایت پر متمکن ہوں ‘‘۔ اس کے علاوہ اسباق شروع کرانے سے پہلے اپنے استاد محترم کی روح پر فتوح کے لئے ایصال ثوا ب فرماتے اور ا س کے بعداسباق کا آغاز فرماتے ۔ اللہ اللہ اس عقیدت و محبت کی بھی کوئی انتہا ہے۔
شرف بیعت :
آپ کو شرف بیعت و خلافت قدوۃ السالکین زہدۃ العارفین ، واقف اسرار شریعت و طریقت ، ماہر ر موز معرفت و حقیقت ، شبیہ غوث الاعظم ، حضرت سید علی حسین صاحب اشرفی جیلانی قدس سرہ الربانی سے حاصل تھی گویا کہ اللہ تعالیٰ نے علوم ظاہری و علوم باطنی کی نعمت سے سر فراز فرمایا تھا ۔ شیخ المشائخ نے فرمایا تھا کہ مولانا نہ آپ کو مشائخ کی طرح عبادت و ریاضت یہ ہے کہ درس و تدریس کی خدمت انجام دیتے رہیں ۔ یہی بہت بڑی عبادت و ریاضت ہے۔ مگر اس کے باوجود احقر کے خیال میں مفتی صاحب ؒ نے بہت کم لوگوں کو شرف بیعت سے نواز ۔
ذہانت و زکاوت اور قوت حافظہ :
قسام ازل نے کسی کو ذہانت کی دولت سے نوازا اور کسی کو قوت حافظہ کی نعمت سے سر فراز فرمایا۔ لیکن مبداء فیاض نے اپنی بے پناہ نوازشوں اور بیکراں عنایتوں سے تاج العلماء ؒ کو دونوں نعمتوں سے حصہ وافر مرحمت فرمایا۔ تمام علوم عقلیہ و نقلیہ کے علاوہ بے شمار عربی و فارسی کے اشعار بھی آپ کو ازبر تھے۔
لیس علی اللہ بمستنکر
ان یجمع العالم فی واحد
حضور اکرم ﷺ سے تاج العلماء کی عقیدت و محبت:
اللہ تعالیٰ نے مفتی محمد عمر صاحب ؒ کو بیشمار خوبیوں سے نوازا تھا۔ ان خوبیوں میں سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پیارے حبیب ﷺ سے بے پناہ عقیدت و محبت سے بہرہ ور فرمایا تھا۔ احقر نے بار ہایہ منظر بھی دیکھا کہ تفسیر و حدیث شریف پڑھاتے وقت جب بھی حضور انور ﷺ کا نام نامی اسم گرامی آتا فرط عقیدت و محبت سے سر جھک جاتا تھا آنکھیں پر نم ہو جاتیں ۔ یہی وجہ تھی کہ تنقیص الہی اور توہین رسالت پنا ہی کرنے والوں سے ہمیشہ تہذیب و اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کی اصلاح پر بھر پور توجہ فرمائی۔ اور ہمیشہ درس و تدریس ، تحریر و تقریر کے ذریعہ شان الہی اور احترام رسالت پناہی سے مسلمانان اہلسنت کے قلوب و اذہان کو منور فرمایا۔بقول شاعر مشرق :
محمد از تو یتحواہم خدارا
خدایا از تو عشق مصطفی را
برادر گرامی حضرت مولانا محمد اطہر صاحب نعیمی کے بیان کے مطابق حج بیت اللہ کی حاضر ی سے قبل بھی جب کہ فقہ و حدیث کی کتابوں سے کتاب الحج پڑھاتے توس وہاں کے مناظر کی ایسی منظر کشی فرماتے جیسے کہ آپ نے یہ مقامات اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں ۔ حضرت صدر الافاضل ؒ کے خادم خاص حاجی احمد حسین صاحب جو مفتی صاحب کے حج پر جانے سے قبل ایک مرتبہ تنہا اور ایک مرتبہ حضرت صدر الافاضل کے ساتھ سفر حج کی سعادت حاصل کر چکے تھے ، کہتے تھے مولانا آپ تو ایسی منظر کسی کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ان مقامات کی زیارت کی ہے۔ یہ سن کر مفتی صاحب فرمایا کرتے تھے حاجی صاحب جب میں پڑھا تا ہوں تو میں بظاہر یہاں ہوتا ہوں لیکن میرا دل وہیں رہتا ہے۔
سفر حرمین شریفین :
آپ دو مرتبہ زیارت حرمین شریفین سے مشرف ہوئے ایک مرتبہ ۱۹۳۸ء اور دوسری مرتبہ ۱۹۶۳ء میں ۔ پہلا سفرحج ہندوستان سے جس میں استاد محترم صدر الافاضل ؒ کی معیت کا شرف حاصل ہوا اس کا کئی مرتبہ بطور تحدیث نعمت احقر اور دوسروں کے سامنے تذکرہ فرماتے تھے ۔ اور دوسری مرتبہ جب پاکستان سیس اس مبارک سفر پر تشریف لے گئے تو راقم الحروف کو آپ کی معیت کا شرف حاصل ہوا۔ احقر نے ان گنہگار آنکھوں سے تاج العلماء ؒ پر مکہ مکرمہ اور مدینہ میں جو جذب و کیف اور وجد و سرور کا عالم دیکھا ا س کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا مکہ مکرمہ میں اور دیگر مقامات پر مناسک حج ادا کرتے ہوئے اگر تصویر حیرت نظر آئے تو مدینہ طیبہ میں آپ کو بار گاہ نبوت و رسالت میں پیکر ادب و احترام پایا صلوۃ و سلام پیش کرتے ہوئے آنکھوں کو پر نم اور زبان کو التجا کناں پایا۔ اللہ ! اللہ حضور اکرم ﷺ سے ادب و احترام کا عالم کہ مسجد بنوی شریف میں رسول اکرم ﷺ کے مصلیٰ و محراب میں جب نفل ادا کرنے کے لئے تاج العلماء ؒ حاضر ہوتے ہیں تو آپ اپنا سر مبارک سجدہ کی حالت میں اس جگہ پر رکھتے ہیں جہاں رسول مقبول ﷺ اپنے قدم میمنت لزوم رکھا کرتے تھے اور کیوں نہ ہو کہ یہ بار گاہ عظمت پناہ وہ ہے جس کے لئے ڈاکٹر اقبال مرحوم بھی پکارا ٹھے ۔
خطابت:
مولائے کریم نے جہاں آپ کو درس و تدریس میں مہارت سے نوازا تھا وہاں آپ کو تحریر و تقریر کی خوبی سے بھی سر فراز فرمایا تھا آپ کی تقریر فصاحت و بلاعت کا احسن و دلنشین مرقع ہوتی تھی ۔ مترادف الفاظ اور نادر جملوں کا شاہکار ہوتی تھی ۔ اس میں سب سے بڑی خوبی یہ کہ مضامین کی آمد ہی آمد ہوتی تھی آور دکو بالکل دخل نہ تھا۔ اسی جوہر کی بنا پر آپ نے برسہابرس تک مراد آباد میں قلعہ والی مسجد میں اعزازی طور پر خطابت کے فرائض انجام دیئے ۔ اور پاکستان میں تشریف لانے کے بعد اہلسنت کی مرکزی جامع مسجد آرام باغ میں تقریبا پندرہ سال تک اعزازی طور پر مسند خطابت کو رونق بخشی ۔ آپ بھی آرام باغ کے درو دیوار اور جمعہ و عیدین کے اجتماعات میں شریک ہونے والے گواہی دے سکتے ہیں کہ آپ کی تقریر دل پذیر کلام الہی ، احادیث نبوی اور مسائل فقہی سے پر ہوا کرتی تھی۔
تصنیف و تالیف :
آپ کی تحریر بھی بڑی پاکیزہ شستہ اور شگفتہ ہوا کرتی تھی ۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ موتیوں کو لڑی میں پرو د یا گیا ہے ۔ میرے اس دعویٰ پر دلیل مراد آباد سے مسلسل گیارہ سال تک جاری رہنے والا اہلسنت کا بلند پایہ اور مایہ ناز دینی ، علمی اور ادبی مجلہ ’’ماہنامہ سواد اعظم ‘‘ہے۔ جس کے مدیر ہی نہیں بلکہ سب کچھ حضرت تاج العلماء ؒ تھے ۔ اکثر پرچوں میں کبھی ایک اور کبھی ایک سے زائد مضامین موصوف کے قلم گوہر بار سے تحریر شدہ ہوتے تھے ۔ آٹھ دس پرچے جو احقر کے پاس ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ شدھی کی تحریک ، سیتارتھ پر کاش کے قرآن کریم پر اعتراضات اور دیگر فتنے جو اس وقت رونما ہوتے ان کا رد کیا جاتا ۔ اس دورمیں پیش آنے والے ملی مسائل پر بے لاگ تبصرہ کیا جاتا اور دینی مسائل پر تفصیلی بحث کی جاتی تھی ۔
حضرت مفتی صاحب ؒ نے کوئی بسیط کتاب تحریر نہیں فرمائی چند رسائل مرتب فرمائے ۔ جن میں ’’تفرقہ اقوام ‘‘ جو اس دور کی ایک اہم ضرورت ہے۔ جس میں ذات برادری کی لعنت کا سد باب کیا گیا تھا ۔ زیور طبع سے آراستہ ہوا۔
در حقیقت ہندوستان میں آپ کو درس و تدریس ، افتاء اور آل انڈیا سنی کانفرنس کے دفتر ی مسائل کی وجہ سے اتنا وقت ہی نہ ملتا تھا جو اس کام کے لئے دے سکتے ۔ علاوہ ازیں میں نے حضرت مفتی صاحب کو پاکستان میں بہت سے مصنفین حضرات کے مسودوں پر نظر ثانی کرتے دیکھا ہے۔
کنز الایمان اور خزائن العرفان :
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی ؒ نے جب ترجمہ قرآن کنز الایمان تحریر فرمایا تو اس کو چھا پنے کا شرف بھی قبلہ مفتی صاحب ہی کو حا صل ہوا۔ اس کو پہلی مرتبہ اپنے نعیمی پریس مراد آباد سے تاج العلماء نے ہی شائع فرمایا۔ اس کے بعد جب صدر الافاضل ؒ کی مایہ ناز مختصر و جامع تفسیر خزائن العرفان کی تحریر میںبھی مفتی صاحب موصوف کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ آپ استاد کے مزاج شناس تھے۔ استاد مکرم کو آپ کی صحیح نویسی اور خوش نویسی پر اتنا اعتماد تھا کہ بے شمار تلامذ ہ کے ہوتے ہوئے نظر انتخاب تاج العلماء پر پڑی ۔ انداز یہ ہوتا کہ صدر الافاضل بولتے جاتے تھے اور مفتی صاحب موصوف لکھتے جاتے اور مختصر سی مدت میں یہ بلند پایہ تفسیر زیور طباعت سے آراستہ ہو کر قصہ شہود پر آئی۔ اور اب تک عوام و خواص اہلسنت اس سے مستفید ہور ہے ہیں اور قیامت تک ہوتے رہیں گے۔
بلوح الخط فی القر طاس دھوا
وکاتبہ رمیم فی التراب
برصغیر کی تقسیم کے بعد ۱۹۴۸ء میں حضرت محدث اعظم کچھو چھوی صدر آل انڈیا سنی کانفرنس اور حضرت صدر الافاضل مولانا محمد نعیم الدین صاحب ناظم اعلیٰ آل انڈیا سنی کانفرنس کی معیت میں پاکستان تشریف لائے ۔ ان حضرات نے یہاں مختلف تبلیغی مراکز قائم فرمائے جو بعض ناگفتہ حالات کی وجہ سے بعد میں بند ہو گئے ۔
تقسیم کے بعد آپ نے ہندوستان ہی میں قیام کو ضروری سمجھا اور انتہائی انہماک کے ساتھ دارالعلوم نعیمیہ کی خدمت فرماتے رہے چونکہ اہل وعیال ۱۹۵۱ء میں کراچی آچکے تھے اس لئے مراد آباد سے بغداد شریف جانے کے لئے براستہ کراچی سفر اختیار فرمایا ۔ کراچی میں قیام کے دوران ہندوستانی حکومت نے سرحدوں پر فوجیں ڈال دی تھی۔ اس لئے اعزہ و احباب کے علاوہ حضرت مولانا عبدالعلیم صاحب صدیقی کے اصرار پر ہندوستان واپسی کا ارادہ مضمحل ہوا۔ اور مولانا صدیقی نے مفتی صاحب کو پاکستان میں قیام کی اجازت دلوا کر واپسی کا ارادہ ختم کرادیا۔
مولانا صدیقی نے فرمایا’’مفتی صاحب مجھے آپ کے آنے سے اپنے خواب کی تعبیر ظاہر ہوتی معلوم ہو رہی ہے ۔ میری دیرینہ خواہش ہے کہ ایک ایسا ادارہ قائم کروں جو ایسے مبلغ تیار کرے جو غیر ممالک میں میرے ممدو معاون ثابت ہوں میں اب تک اس سلسلے میں قدم اٹھاتے ہوئے اس لئے ہچکچاتا تھا کہ کوئی قابل اعتبار اور باصلاحیت شخصیت نظر نہ آتی تھی ۔ آپ کے تشریف لانے سے میری مشکل آسان ہو گئی ‘‘۔
افسوس ہے کہ مولانا صدیقی چند وجوہ کی بنا پر اس ادارہ کو نہ بنا سکے اور یہ کام بھی حضرت مفتی صاحب کے ہاتھوں انجام پایا۔
مخزن عربیہ بحر العلوم کا قیام :
آپ جب کراچی تشریف لائے تو سب سے پہلا کام یہی کیا کہ بالکل بے سرو سامانی کے عالم میں محرم الحرام ۱۳۷۱ھ مطابق ۱۹۵۱ء ایک مختصرسی جگہ واقع راپس روڈ عقب جامع کلاتھ مارکیٹ میں درس و تدریس کے لئے دارالعلوم مخزن عربیہ بحرالعلوم کا قیام فرمایا۔ (اور تادم وصال جامع مسجد آرام باغ میں خطابت اور مخزن عربیہ بحر العلوم میں درس و تدریس اور افتاء کی خدمات خالصتا لوجہ اللہ انجام دیتے رہے) دارالعلوم کی تشکیل فرما کر چند طلبہ سے درس نظامی کا آغاز فرمایا اور اس طرح کراچی میں اہلسنت کی معیاری دینی درسگاہ وجود میں آئی فللہ الحمد احقر نے اپنی آنکھوں سے یہ دیکھا کہ مفتی صاحب اپنی کبر سنی کے باوجود ایک وقت میں میزان سے لے کر دورہ حدیث تک سولہ سولہ اسباق پڑھاتے تھے۔ آپ کے انتقال کے بعد یہ مدرسہ ختم ہو گیا ۔
کتابوں کی اشاعت :
مفتی صاحب نے کراچی آنے کے بعد نہ صرف درس و تدریس ، افتاء اور وعظ و خطابت تک ہی اپنی خدمت کو محدود رکھا۔ بلکہ عوام اہلسنت کو مسلک اہلسنت سے باخبر رکھنے کے لئے علماء اہلسنت کی تصنیفات اور تالیفات سے روشناس کرانے کے لئے از ہر بک ڈپو قائم فرمایا۔ اردو ، سندھی اور گجراتی میں کتابیں شائع کرائیں جن میں ترجمہ کنز الایمان اعلیٰ حضرت ، اطیب البیان ، الکلمیۃ العلیاء ، شان حبیب الرحمان ، رحمت خدا بسطنت مصطفی ، سوانح کر بلا اردو ، گجراتی ۔ کتاب العقائد اردو و سندھی ۔ کشف الحجاب اردو، سندھی ، حدائق بخشش قابل ذکر ہیں۔
قید و بند کی آزمائش:
خدمت دین انجام دیتے ہوئے کبھی کبھی ابتلا ء و آزمائش کی کٹھن اور پر خار وادیوں سے گذرنا پڑتا ہے کہ زبانی جمع خرچ کرنے والوں اور خدا اور رسول کے راستے میں سردھڑ کی بازی لگانے والوں کو ایک دوسرے سے ممتاز کر دیا جائے ۔ لہذامفتی صاحب پر بھی ایسا آزمائش کا وقت آیا یعنی ۱۹۵۳ء میں تحریک ختم بنوت کے پر آشوب زمانے میں جب کہ سیکڑوں توحید کے متوالوں اور شمع رسالت کے پروانوں نے جام شہادت نوش فرمایا۔ اور ہزاروں نے قید و بند ، طوق و سلاسل کی صعوبتوں کو خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ آپ کی پوری زندگی اس بات کی شاہد ہے کہ آپ نے کبھی بھی ملکی سیاست میں عملی حصہ نہیں لیا۔ لیکن جہاں تحفظ ناموس رسالت کا موقع آیا آپ نے ہر ممکن طریقے سے جان کی بازی لگا کر اسلام اور عظمت رسول کا تحفظ کیا۔ تحریک ختم نبوت کے موقع پر آپ نے انگریزوں کے خود کاشتہ پودے اور خود ساختہ نبی مرزا پر قرآن و حدیث اور اقوال علماء کی روشنی میں تنقید کی۔ اس وقت کے حکام کو یہ بات بری معلوم ہوئی اقتدار کی پیشانی پر شکیں پڑگئیں ۔ اور اس کے نتیجے میں آپ کو حق گوئی کی سزا کراچی سینٹرل جیل میں قید و بند کی شکل میں دی گئی۔ جس کو آپ نے شان نبوت اور ختم نبوت کے تحفظ کے سلسلے میں تمغہ و نجات و سعادت خیال کرتے ہوئے قبول فرما لیا اور کم و بیش ایک ماہ تک قید و بند کی تکلیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ جیل کی تنگ و تاریک کو ٹھری میں ایک رات خواب میں اپنے استاد محترم کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ استاد مکرم کو مسکراتے ہوئے دیکھ کر اندازہ لگا لیا اور رفقاء جیل سے فرمایا کہ اب عنقریب اس قید و بند سے رہائی نصیب ہونے والی ہے ۔ اور ایسا ہی ہوا کہ ابھی اس خواب کو دیکھے ہوئے چند ہی روز ہوئے تھے کہ ایک دن اچانک پروانہ رہائی آیا اور آپ کو عزت رہا کر دیا گیا۔ اس وقت قبلہ مفتی صاحب کے حال پر یہ شعر صادق آتا ہے:
خون نکردہ ایم کسے رانہ کشتہ ایم
جرمم ہمیں کہ عاشق روئے تو گشتہ ایم
وصال :
اب وہ منزل اور وہ وقت بھی آگیا جس سے ہر ذی روح کو گذرتا ہے لہذا اسی قانون کے مطابق تاج العلماء ، جانشین صدر الافاضل ، مفتی محمد عمر نعیمی کی طبیعت مبارکہ ناساز ہوتی ہے اور روز بروز نصف و اضمحلال بڑھتا گیا تا آنکہ وہ وقت موجود بھی آہی گیا۔ تقریبا ۴ ۷ برس کی عمر شریف پا کر یہ آفتاب علم و فضل ، بروز جمعرات ۲۳، ذوالقعدہ ۱۳۸۶ھ مطابق ۷، مارچ ۱۹۶۶ء کو غروب ہوا۔ آپ کی وفات حسرت آیات کی خبر تھوڑی سی دیر میں پورے کراچی میں پھیل گئی ۔ دوسرے دن پورے پاکستان اور دوسرے ممالک میں پہنچ گئی ، نماز جنازے میں ہزاروں افراد اشکبار شامل ہوئے۔
آپ کا جنازہ جلوس کی شکل میں آپ کے دولت کدہ سے اٹھا یا گیا۔ صلوۃ و سلام پڑھتے ہوئے عید گاہ ناظم آباد نمبر ۳ پٹرول پمپ لایا گیا۔ اور اس وسیع و عریض میدان میں ہزار ہا افراد نے آپ کی نماز جنازہ پڑھی ۔ نماز جنازہ کے فرائض آپ کے خلف اکبر مولانا محمد اطہر نعیمی صاحب نے انجام دیئے ۔ اس کے بعد آپ کے جنازے کو، مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام ۔ پڑھتے ہوئے مسجد دارالصلوۃ جو کہ آپ کے دولت کدے سے قریب ہے اور جس میں ایک عرصے تک لوجہ اللہ امامت کے فرائض بھی انجام دیتے رہے اس سے متصل ہی آپ کی تدفین کی گئی ۔ آج بھی آپ اپنے مرقد اقدس میں زبان حال سے مترنم ہیں ۔
بعد وفات تربت ما در زمین محو
در سینہ ہائے عارف مردم قرار ما
[الحاج حضرت علامہ جمیل احمد صاحب نعیمی مدطلہ نے اپنے استاد محترم کے متعلق تفصیلی معلومات فراہم کی ا ن کا تہہ دل سے مشکور ہوں ]
ہائے افسوس ! مسجد دارالصلوۃ ( نزد گجر نالہ ، ناظم آبا د ) جس میں آپ برسوں سے امامت و خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے اب اس پر دیوبندیوں کا قبضہ ہے ۔ اسی طرح ۔۔۔اسلام جامعہ مجددیہ حیدرآباد اور جامعہ غوثیہ رضویہ سکھرکی متصل مساجد پر بھی قبضہ گروپ کا قبضہ ہے۔
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )