حضرت مولانا ابو عبدالغفار نور احمد قاسمی ملاح ۱۹۳۷ء رحیم کے گوٹھ (خیر پور ناتھن شاہ ضلع دادو) میں تولد ہوئے
تعلیم و تربیت:
ابتدائی تعلیم مولانا محمد انور لغاری سے حاصل کی۔ اس کے بعد استاد العلماء حضرت مولانا مفتی غلام محمد قاسمی لغاری (خیر پورناتھن شاہ) سے تعلیم حاصل کی۔ مفتی صاحب نے حج بیت اللہ کیلئے سفر اختیار کیا تو آپ نے مولانا محمد اسحاق کھونھارو کیجانب رجوع فرمایا، علم کی تڑپ نے آپ کو فارغ بیٹھنے نہ دیا، ان کی خدمت میں رہ کر فیضیاب ہوئے۔ اس کیب عد اعلیٰ تعلیم کیلئے سندھ کی نامور دینی درسگاہ ’’جامعہ عربیہ قاسم العلوم‘‘ درگاہ عالیہ حضرت مشوری شریف (لاڑکانہ) می۹ں داخلہ لیا ۔ فقیہ اعظم ، تاج العافرین، بحر العلوم و الفیوض استاد الاساتذہ حضرت علامہ الحاج مفتی خواجہ محدم قاسم مشوری قدس سرہ الاقدس کی خدمت عالیہ میں رہ کر علوم عقلیہ و نقلیہ میں تکمل کرکے فارغ التحصیل ہوئے۔
بیعت:
فارغ التحصیل ہونے کے بعد آپ سلسلہ قادریہ راشدیہ میں حضرت قلہ عالم، فقیہ اعظم سرکار مشوری قدس سرہ کے دست مبارک پر بیعت ہوئے۔
درس و تدریس:
بعد فراغت پوری عمر عزیز درس و تدریس میں صر فکی ، بالکل سادہ ، بناوٹ سے آزاد، نرم طبیعت ، اخلاق حسنہ سے مزین، سراپا محبت و ادیب تھے، سادات کرام کا نہایت احترام فرمایا کرتے تھے، رحیم کے گوٹھ، میانی کے گوٹھ (دادو) ، خانپور، دادو شہر میں احمد خان سیال کی مسجد شریف میں، مدرسہ چراغ الاسلام بوبک (تحصیل سیوہن شریف) ، کرمپور کے مدرسہ شمس العلوم قاسمیہ، مدرسہ جیلانیہ لاڑکانہ شہر اور درگاہ مرتضائیہ جیلانیہ گمبٹ وغیرہ مقامات پر درس و تدریس، امامت و خطابت کی خدمات انجام دیں اور عوام و خواص کو مستفیض فرمایا۔
آخر عمر میں خیر پور ناتھن شاہ (ضلع دادو) میں ’’مدرسہ انوار الہدیٰ قاسمیہ‘‘ اور مسجد شریف قائم فرمائی۔
تلامذہ:
آپ کے تلامذہ کی فہرست میں سے تین نام معلوم ہو سکے جو کہ درج ذیل ہیں:
٭ خلیفہ قاضی جمال اللہ میانی کے گوٹھ
٭ حکیم عبداللطیف عباسی (نے بخاری و ہدایہ پڑھی) بوبک اسٹیشن
٭ مخدوم زادہ عبدالفتاح عباسی بوبک اسٹیشن
اولاد:
رب کریم نے آپ کو پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں عطا فرمائیں ان میں سے تین بیٹے حافظ القرآن اور ایک بیٹا مولوی اورع ایک بیٹی حافظ القرآن ہے۔
حرمین شریفین:
۱۹۸۰ء میں حکومت کے خرچہ پر حج بیت اللہ اور روضہ رسول ﷺ کی حاضری کی سعادت سے فیضیاب ہوئے۔
اوراد و وظائف:
آپ اپنے پیر و مرشد سے بے حد محبت و عقیدت رکھتے تھیاور مرشد کریم سے نسبت پر ناز کرتے تھے اور ان کی تعلیمات پر زندگی گزارتے تھے اور ان کے بتائے گئے اوراد و وظائف ، ذکر واذکار، تسبیح و تحلیل، حزب البحر اور دلائل الخیرات کا روزانہ پابندی سے ورد کرتے تھے۔
وصال:
انتقال سے قبل خوب میں دیکھا کہ مرشدکریم قبلہ عالم ، فیض گنجور حضرت سرکار مشویر علیہ الرحمہ تشریف لائے ہیں اور فرمایا : بیٹا آپ کے وصال کیلئے محرم شریف کا مہینہ مقرر ہے‘‘ اورع ہوا بھی ویسا ہی ۱۸ محرم الحرام ۱۴۱۵ھ بمطابق ۲۹ جون ۱۹۹۴ء میں وصال ہوا۔
انتقال سے قبل مسجد شریف میں طلباء کو صرف کے صیغے یاد کرا رہے تھے کہ اچانک دل میں درد ہوا علاج معالجہ سے افاقہ نہ ہوا اور تاریخ مذکورہ پر اس دنیا فانی سے عالم برزخ کی جانب رحلت فرمائی۔
آپ کی آخری آرام گاہ خیر پور ناتھن شاہ میں مدرسہ نوار الہدیٰ قاسمیہ کے متصل مسجد شریف کے احاطہ میں ہے۔ انتقال کے بعد اس طرح خواب میں نظر آئے کہ قبر میں سرجھکائے بیٹے ہیں اور تسبیح پر کچھ پڑھ رہے ہیں۔
(حافظ عبدالغفار ملاح بن مولانا نور احمد قاسمی نے ۱۹۹۴ء میں سکندر علی چانڈیو کی تحریک پر مواد بھجوایا تھا اسی سے یہ مضمون ماخوذ ہے)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )