حضرت مولانا قاری محمد طفیل نقشبندی
حضرت مولانا قاری محمد طفیل نقشبندی (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا قاری محمد طفیل نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
قاری محمد طفیل نقشبندی بن حاجی عبدالرحمن ۱۹۰۵ء کو امر تسر (پنجاب ، انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد حاجی عبدالرحمن نقشبندی مجددی جماعتی ، امیر ملت حضرت مولانا پیر سید جماعت علی شاہ علی پوری رحمۃ اللہ علیہ (علی پور شریف ضلع نارووال ، پنجاب) کے مرید اور خلیفہ تھے۔ حیدرآباد (سندھ) میں ان کا وصال ہوا اور وہیں مدفون ہوئے۔ جدامجد حاجی اللہ رکھا جنت المعلیٰ قبرستان مکہ مکرمہ میں مدفون ہوئے۔
تعلیم و تربیت :
قاری صاحب نے دس سال کی عمر میں ڈیڑھ سال کے مختصر عرصے میں قرآن پاک حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم قاری کریم بخش شاگرد قاری عبدالخالق سہارنپوری ، قاری خدا بخش اور قاری ظفر علی سے حاصل کی۔ روایت حفص قاری عبدالرزاق لکھنوی سے حاصل کی ۔ جنگ جرمن (۱۹۳۹ء سے لے کر ۱۹۴۱ء تک) کے عرصے میں قاری صاحب حرمین شریفین میں رہے اور مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے مدرس شیخ حسن بن ابراہیم الشاعر سے روایت حفص کی تکمیل کی ۔ آپ اپنے شاگردوں کو روایت امام حفص کی جو سند دیتے تھے وہ انہی کے واسطہ سے حضور نبی اکرم ﷺ تک پہنچتی ہے۔ اس سند کا خلاصہ یہ ہے:
’’مجھے مدینہ منورہ کے شیخ القراء حسن بن ابراہیم الشاعر نے قرآن پاک پڑھایا۔ انہوں نے شیخ حسن محمد بیومی سے انہوں نے شیخ محمد سابق سکندری سے ، انہوں نے شیخ خلیل مطوبسی سے، انہوں نے شیخ علی ابیاری سے پڑھا اور ان کی سند نبی اکرم ﷺ تک پہنچتی ہے۔ آپ نے جبرائیل علیہ السلام اور انہوں نے لوح محفوظ سے اور اللہ رب العزت سے حاصل کیا‘‘۔
آپ ۱۹۴۱ء سے ۱۹۴۶ء تک جامع مسجد وزیر خان لاہور میں نائب خطیب اور مدرس کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ اس عرصے میں غازی کشمیر ، مفسر قرآن علامہ ابوالحسنات سید محمد احمد قادری اور علامہ مفتی ابو البرکات سید احمد قادری سے دینی تعلیم بھی حاصل کرتے رہے۔
قاری صاحب نے اردو خطاطی منشی فیض احمد امر تسری سے اور عربی خطاطی مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ کے قاری امین الدین سے سیکھی ۔ فیروز سنز کے کاتب منشی عبدالرشید عادل گڑھی کے پاس بھی خط نسخ کی مشق کی ۔ حدیث شریف غزالی زماں شیخ الحدیث علامہ سید احمد سعید کاظمی ملتانی سے پڑھی ۔ قاری صاحب نے قراٗت سبعہ مدرسہ فخر یہ عثمانیہ مکہ مکرمہ میں قاری محمد اسحاق سے پڑھیں ۔ قاری مجیب الرحمن سے بھی استفادہ کیا۔ ( بقول قاری محمد سلیمان اعوان ) ، قاری صاحب نے قراٗت عشرہ کی تکمیل شیخ حسن بن ابراہیم الشاعر سے کی۔
درس و تبلیغ قرآن :
قاری صاحب نے ابتدا امر تسر میں تجوید و قراٗ ت کی تعلیم کیلئے ’’مدرسہ قرآنیہ رحمانیہ ‘‘ قائم کیا۔ ۱۹۴۱ء سے ۱۹۴۶ء تک جامع مسجد وزیر خاں لاہور میں رہے۔ ۱۹۴۰ئ؍۱۹۴۱ء میں حرم مکہ شریف میں امام کعبہ ابو سمع مصری اور عبدالرحمن اظھر رئیس المعلمین تراویح پڑھاتے اور مذہب شافعی کے مطابق ایک رکعت و تر پڑھتے تھے ، جب کہ قاری محمد طفیل حنفی مذہب کے مطابق تین رکعت و تر پڑھاتے تھے، نیز ایک قرآن پاک ستائیس راتوں میں سناتے اور ایک تین راتوں میں ، حاضرین کا جم غفیر جماعت میں شریک ہوتا۔ ہر روز پیدل چل کر عمرہ کرتے اور ہر روز عصر اور مغرب کے درمیان ایک گھنٹہ حرم مکہ میں تلاوت کرتے اور مدینہ منورہ حاضری دیتے تو مسجد نبوی شریف میں روزانہ ایک گھنٹہ تلاوت کرتے ۔
آریہ اپنے جلسے کا آغاز ہار مونین اور طبلہ پر آرتی اتار کر کرتے ۔ مسلمانوں کے جلسے میں قاری صاحب تلاوت کرتے ۔ قرآن کریم کی برکت اور قاری صاحب کی سحر انگیز آواز کا یہ اثر ہوتا کہ بہت سے آریہ مسلمان ہو جاتے ۔ انہیں پاک و ہند کے مختلف شہروں مثلا دہلی ، کلکتہ ، مدارس ، بمبئی ، امر تسر ،حیدر آباد دکن ، بنگلور ، میسور ، لاہور ، ملتان ، حیدرآباد اور کراچی میں تراویح پڑھانے اور بڑی بڑی محفلوں میں تلاوت کرنے کا موقع ملا ۔ ڈپٹی عزیز الدین کے صاحبزادے شیخ عبدالمجید وکیل کی دعوت پر قاری صاحب امر تسر سے لاہور تشریف لائے اور لاہور ریڈیو کے افتتاح کے موقعہ پر تلاوت کی۔ ۱۹۴۶ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں مسلم لیگ کا آخری جلسہ امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ علی پوری کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں بھی قاری صاحب نے تلاوت کی سعادت حاصل کی ۔ قیام پاکستان کے موقع پر قاری صاحب تراویح پڑھانے کیلئے بنگلور گئے ہوئے تھے۔ وہاں سے آپ حیدرآباد سندھ تشریف لے گئے ، جہاں مدرسہ قرآنیہ رحمانیہ کے نام سے تعلیم القرآن کا کام شروع کر دیا۔
۱۹۵۰ء کو آپ جامع مسجد مائی خیری ، فقیر کا پڑحیدرآباد کے متولی مقرر ہوئے تو مدرسہ اس مسجد میں منتقل کر دیا۔ ۱۹۵۴ء کو آپ ملتان چلے گئے اور کپڑے کے کاروبار کے ساتھ جامع مسجد پتراں والی میں تدریس شروع کر دی۔
۱۹۵۸ء کو آپ پھر حیدرآباد تشریف لے گئے ۔ مسجد مائی خیری میں قائم مدرسہ کام کرتا رہا اور آپ ہی اس کے مہتمم تھے۔ ۱۹۶۰ء کو ’’محکمہ اوقاف ‘‘ قائم ہوا جس نے مسجد و مدرسہ اپنی تحویل میں لے لیا۔ آپ کو اسٹیشن روڈ حیدرآباد میں ایک وقف بلڈنگ مل گئی ۔
۵، مارچ ۱۹۶۲ء کو اس میں مدرسہ قرآنیہ رحمانیہ کا آغاز کر دیا۔ اس کے ساتھ جامعہ مجددیہ رکن الاسلام ہیر آباد حیدرآباد میں بھی پچیس تیس سال کا عرصہ پڑھاتے رہے۔ ۱۹۸۴ء کو جناح مسجد برنس روڈ کراچی میں تشریف لے گئے اور تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ وصال سے دو ماہ پہلے الانہ مسجد رامسوامی رنچھوڑلائن میں تدریس شروع کی اور اسی جگہ داعی اجل کو لبیک کہا۔
بیعت:
بچپن میں ہی حضرت امیر ملت کے دست اقدس پر سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت ہوئے۔
سفر حرمین شریفین :
۱۹۴۶ء کو حضرت امیر ملت مولانا پیر سید جماعت علی شاہ علی پوری ایک سومریدین کے ہمراہ حج و زیارت کیلئے تشریف لے گئے تو قاری صاحب کو بھی مرشد گرامی کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا۔
تجارت:
اگر چہ کپڑے کی تجارت بھی کرتے رہے چار پانچ سال آرھت بھی کی تاہم ان کی توجہ تحصیل علم کی طرف بھی باقاعدہ رہی اور فراغت کے بعد قرآن حکیم کی تدریس اور تلاوت میں مصروف رہے اور سینکڑوں حافظ اور قاری تیار کر کے دنیا سے رخصت ہوئے۔
شادی و اولاد :
ایک شادی کی جس سے چھ بیٹے اور دو بیٹیاں تولد ہوئیں ۔
تلامذہ :
آپ کے بے شما ر تلامذہ میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں :
٭ قاری عبدالرحمن بلوچستانی ۔ انوار العلوم ملتان میں پندرہ برس پڑھاتے رہے۔
٭ قاری علی احمد روہتکی مدرس جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد
٭ قاری خیر محمد چشتی مدرس مدینۃ الاسلام ہالینڈ
٭ قاری محمد دین جامعہ تحفیظ القرآن مکہ مکرمہ
٭ قاری محمود الحسن مالدیپ
٭ قاری محمد اسحاق کویت
٭ قاری محمد رفیق اشرفی افریقہ
٭ قاری بشیر احمد ملتانی پانچ سال تک مدینہ منورہ میں پڑھاتے رہے
٭ زینت القراء قاری محمد بخش سندھی ( لاڑکانہ ) فاضل جامعۃ الازہر قاہرہ ، مصر
٭ قاری محمد افضل چترال
٭ حافظ محمد یوسف سد یدی امام الخطاطین ، لاہور
٭ قاری محمد سلیمان اعوان مدرس رکن الاسلام حیدرآباد سندھ
وصال :
قاری محمد طفیل ۹، ذوالحجہ ۱۴۰۹ھ بمطابق ۱۹۸۹ء بروز جمعرات کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے اپنے رب کریم کی دربار مقدس میں حاضر ہو گئے۔ اگلے روز جمعہ بھی تھا اور عید الاضحی بھی ، جمعہ کے بعد ان کی نماز جنازہ غالبا مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کی امامت میں ادا کی گئی اور انہیں حسن اسکوائر ( گلشن اقبال ) کراچی کے قبرستان میں دفن کیا گیا ۔ (ماخوذ: عظمتوں کے پاسبان )
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)