حضرت مولانا قاضی زین العابدین دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
قاضی زین العابدین بن حضرت حافظ غیاث الدین تارک الدنیا بن حضرت قاضی رحیم الدین ، محلہ پہاڑ گنج شہر دہلی میں ۹ ذوالحجہ ۱۳۱۹ھ/۱۹۰۱ء کو تولد ہوئے۔
آپ کے جد بزرگوار قاضی رحیم الدین شاہان مغلیہ کے ادوار سے محکمہ قضاء کے عہدے پر فائز تھے اور آپ کا خاندان ’’شاہی قاضی‘‘ کے نام سے موسوم تھا۔ آپ کے والد قاضی حافظ غیاث الدین بحالت جوانی میں داعی اجل کو لبیک کہہ کر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کے وصال کے وقت قاضی زین العابدین کی عمر صرف ڈھائی سال تھی۔ آپ کی نگہداشت اور پرورش آپ کی والدہ مکرمہ کے ظل عاطفت میں انجام پذیر ہوئی۔
تعلیم و تربیت:
آپ نے ابتدائی تعلیم اردو و حفظ قرآن کی سعادت بعمر گیارہ سال میں حافظ عبدالقادر سے حاصل کی۔ دارالعلوم فتحپوری دہلی کے ’’شعبہ فارسی‘‘ میں داخلہ لیا۔ جناب منشی مرزا سے آمد نامہ ، کریما، پند نامہ، عطار ، گلستان ، بوستان سعدی و بہار ستان جامی وغیرہ ہم کتب متداولہ کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۱۶ء میں عربی کی ابتدائی تعلیم کیلئے اسی مدرسے کے ’’شعبہ عربی‘‘ میں داخلہ لیا اس کے بعد سات سال تک مسلسل نہایت تندہی اور سعی بلیغ کے ساتھ تحصیل علوم عربیہ میں مصروف و مشغول رہے۔ علم فقہ و تفسیر علامہ مفتی اشفاق الرحمن سے حاسل کیا، علم منطق و فلسفہ علامہ عبدالرحمن (متوطن حیدرآباد دکن) سے اکتساب کیا۔ دیگر علوم و فنون کے علاوہ صحاح ستہ (احادیث شریف) علامہ مولانا احمد علی محدث میرٹھی اور علامہ مولانا سلطان محمود سے پڑھیں۔ ۱۹۲۶ء کو فارغ التحصیل ہو کر دستار فضیلت سے مشرف ہوئے۔
بیعت و خلافت:
قاضی صاحب حسب دستور بوقت صبح بعد نماز فجر درس قرآن پاک فرما رہے تھے ناگاہ، پناہ بے کساں، واقف راہ یزدانی، غواص بحار معانی ، آیۃ من اایات اللہ، معدن حلم وحیا، حضرت الحاج مولانا خواجہ عبدالسلام نقشبندی قدس سرہ (متوفی ۱۹۳۹ء مدفون بہادر گنج سلطان پور، ضلع مراد آباد، صوبہ یوپی انڈیا) اثنائے وعظ میں تشریف لائے، پہلی ہی نگاہ میں متاث اور بے قرار ہوگئے۔ بالآخر سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت ہو کر صحبت عالیہ سے اکتساب فیض فرمانے کے بعد کمالات فنا و بقا کی دولت لایزال سے مزین ہو کر خلافت سے ممتاز و متمیز ہوئے۔ بعد حصول خلافت سلسلہ رشد و ہدایت کا آغاز ہوا۔ بہت سے طالبان صادق آپ کے مرید ہوگئے۔ آپ کا معمول تھا کہ بعد نماز عشاء حلقہ میں بیٹھتے اور طالبان صادق کے قلوب کو اپنی توجہ باطنی اور نسبت روحانی سے فیض پہنچا کر توجہ الی اللہ کی دولت سے مشرف فرماتے ۔ چانکہ آپ نہایت قوی نسبت رکھتے تھے جس کے باعث بہت جلد مریدین پر ا سکا اثر ظاہر ہوجاتا تھا اور قلیل عرصے میں لوگ اجزائے ذکر و محویت سے سر شار ہو کر اپنی یافت و ذوق کا اظہار فرمانے لگتے تھے۔ آپ صاحب کشف و کرامات تھے پیر کامل وہ ہے جو خود مشاہدہ کرے اور دوسروں (مریدوں) کو بھی مشاہدی کرادے۔
درس و تدریس:
بعد تحصیل علوم دینیہ ۱۹۲۶ء تا دم تقسیم ہند و پاک ۱۹۴۷ء تک ۲۱ سالہ دور زندگی آپ کا شہر دہلی میں گزرا۔ ۱۹۴۷ء تا وقت رحلت ۱۹۷۴ء تک ۲۷ سالہ زندگی ملک خداداد پاکستان شہر کراچی میں گزرا۔ اس طرح آپ نے ۴۸ سالہ زندگی درس و تدریس تبلیغ دین اسلام اور محافل ذکر و اذکار میں بسر فرمائی۔
فارغ التحصیل ہونے کے بعد دہلی کے محلہ پہاڑ گنج میں مسجد قاضیان میں بوقت صبح بعد نماز فجر قرآن پاک اور حدیث شریف کا درس سلسلہ وار روزانہ بلا ناغہ شروع کر رکھا۔ اس کے ساتھ ’’مدرسہ مصباح العلوم‘‘ کی تشکیل دی۔ اس طرح درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔
امامت و خطابت:
قئام پاکستان کے بعد شہر کراچی تشریف لائے اور محلہ رنچھوڑ لائن پنکھا لائن میں مستقلاً رہائش اختیار کرلی اور تا دم حیات یہیں مقیم رہے اور یہیں جامع مسجد صدیقی میںامامت و خطابت اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ بعد نماز فجر جامع مسجد صدیقی میں درس فرامتے اور بعد نما زعشاء مریدین طالبان حق کی سہولت کیلئے جامع مسجد صابری (رنچھوڑ لائن) میں حلقہ قائم فرماکر سلوک کی تعلیم دیتے تھے۔ جامع مسجد آرام باغ کے منتظمین کے اصرار کے پیش نظر بعد نماز عشاء عرصہ دراز تک درس دیا، ہزار ہا انسانوں کو ہدایت و معلومات دینی حاصل ہوئی۔
عادات و خصائل:
آپ کی خوش خلقی و ہر دلعزیزی کے باعث اطراف و جوانب سے طالبان علوم دینیہ نے لبیک کہا اور خوب استفادہ کیا۔ شب بیدار خلوص و للہیت کے پیر، اخلاق کے مجسمہ تھے ۔ دین کی خدمت کا جذبہ وافر ملا ہوا تھا۔ طالبان شریعت و طریقت دونوں کی اصلاح و تربیت پر توجہ خاص دی۔ علاوہ ازیں اکثر و بیشتر اوقات محافل وعظ و بیان میںشرکت فرما کر مردان حق کی تسلی و تشفی فرماتے۔ بوقت شب تین بجے سے بیدار ہو کر بعد نماز تہجد درگاہ رب العزت میں دست دعا دراز فرما کر مشغول مناجات ہونا ان کے معمول میں تھا۔ جہاں تک معاملات کا تعلق ہے تو آپ امانت دیانت حق گوئی میںاپنی نظیر آپ تھے۔ رحم دل، شیریں زبان آپ کا طرہ امتیاز تھا۔ فراخدلی اور فیاضی کا ایسا عالم تھا کہ کوئی سائل آپ کے پاس سے خالی ہاتھ واپس نہ جاتا تھا۔ آنکھوں کی نمی، دل کی نرمی آپ کے حلاوت ایمانی کی متاتر عکاسی اور نشاندہی کرتی رہی اور اسی جذبے کے سات بسا اوقات کود بھی چشم پر نم ہو کر تقریر کرتے اور سامعین کو بھ اپنی حلاوت ایمانی کے پر تو سے لطف اندوز و بہرہ ور فرماتے۔
مسجد قاضیاں دہلی کی دوبارہ از سر نو تعمیر بھی آپ کا عظیم کارنامہ ہے اور جامع مسجد صدیقی کراچی کی توسیع و ترقی بھی آپ کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے۔
اپنی زندگی میں قیام دہلی و قیام کراچی رمضان المبارک میں نماز تراویح میں ۵۲ محرابیں سنانے کا عظیم اعزاز بفضلہ تعالیٰ حاصل کیا۔
تلامذہ:
آپ کے نامور تلامذہ کے اسماء درج ذیل ہیں:
٭ حضرت مولان اعلامہ محمد اسحاق خطیب جامع مسجد اسٹیڈ ہال روڈ حیدرآباد سندھ
٭ صاحبزادہ مولانا حافظ شمس العارفین ابن قاضی صاحب
٭ مولانا حافظ محمد اسماعیل ٭ مولانا حافظ قاری سراج احمد
٭ مولانا حافظ حکیم سید مظہر حسن
تصنیف و تالیف:
مولانا محمد طفیل اسلامی رقمطراز ہیں: آپ کی تصنیفات میں کتاب
(۱) ’’حقیقت ایمان‘‘ جو کہ عقائد کے لحاظ سے ایک جامع کتاب آپ کے تبحر علمی کی ایک منہ بولتی تصویر ہے
(۲) سفرنامہ عراق و شام وغیرہ
سفر حرمین شریفین:
آپ نے پہلا حج بیت اللہ شریف ۱۹۳۸ء میں شہر دہلی سے ادا فرمایا ۔ اس کے بعد تین حج اور ایک عمرہ بحالت قیام شہر کراچی سے ادا فرمائے۔
آپ نے رجب المرجب ۱۳۷۳ھ/مارچ ۱۹۵۴ء کو عراق و شام کے مزارات مقدسہ کی زیارت کی نیت سے کراچی سے سفر کیا اور اس سفر نامہ کو خود ہی تحریر فرمایا ، اقتباسات پیش خدمت ہیں ، رقمطراز ہیں:
’’آج میری آنکھ ۳ بجے کھی، بعد از فراغت ضروریات تہجد پڑھ کر قرآن شریف نہ پڑھ سکا، چونکہ روشنی کافی نہ تھی۔ یہاں پہنچ کر باجود یہ کہ راستے کی تکان اور مسافرین کا تکدر تھا، مگر باطنی طور پر حال انتہائی صاف ہوگیا اور فنائیت کا غلبہ ہونا شروع ہوگیا، یہ صرف اور صرف یہاں کے مزارات کا فیض ہے جو ہماری اس جگہ سے قریب تر ہیں۔ بصرہ بڑا عمدہ شہر ہے۔ دوسرے روز ہم ایک موٹر کرایہ پر لے کر مزارات کی طر ف چل پڑے تقریباً ۷ سات میل کے فاصلے پر جناب طلحہ رضی اللہ عنہٗ کا مزار مقدس جو بالکل جنگل می ہے۔ آپ کی شکل مبارک سانولی ہے ۔ قد لمبا، سفید چگی داڑھی شریف ہے۔ بہت ہی نحیف اور دبلے ہیں۔ بہت موٹا عربی کرتہ زیب تن ہے، سر پر عمامہ اور اس پر رومال ہے ۔ اپنی نیکیوں کا بدلہ پارہے ہیں۔ مزار مقدس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت موسلا دھار بارش کی طرح برس رہی ہے حال کی زیادتی بیان سے باہر ہے، بیس منٹ تک صحبت قائم رہی۔ اس کے بعد ہم آگے چلے یہاں سے تھوڑی دور کے فاصلے پر ایک قصبہ ہے، اس کا نام زبیر ہے۔ یہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا مزار مقدس ہے۔ آپ کا رنگ سفید اور رخسار نہایت خوبصورت ہیں، داڑھی مبارک میں بال شریف بہت کم ہیں، قد اوسط ہے۔ اللہ تعالیٰ کا آپ پر بڑا کرم ہو رہاہے روحانیت کے اسقدر مالک ہیں کہ قلم تحریر سے عاجز اور تکلم کی حد سے باہر ہے۔ صرف ۱۲ منٹ کی صحبت میں مالا مال کردیا اب ہم آگے چلے تھوڑی دور پر اسی قصبے میں ایک قبرستان ہے جہاں ایک گنبد میں حضرت خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہٗ آرام فرما رہے ہیں ۔ آپ کا رنگ سیاہ ہے عشق و محبت کے دریا میں غرق ہیں ۔ زوار کی طرف توجہ کی بھی فرصت نہیں۔ آپ کی توجہ میں اتغراق ہے۔ بعد فاتحہ دریافت کیا کہ یہ برابر میں کس کا مزار ہے فرمایا: ھذا قبر محمد بن سیرین۔ یہ قبر امام محمد بن سیرین تابعی رضی اللہ عنہ کی ہے۔ …بصرہ سے بغداد شریف … جم ہم مزار شریف میں داخل ہوئے تو ایک وسیع کمرہ پہلے آیا پھر دوسرا کمرا اایا جس می بڑی شان والا بڑی آن والا حضرت غوث پاک جیلانی کا مزار مقدس ہے آپ کا رنگ سفید ، چہرہ نہایت چوڑا چکلا رعب دار ہے، مستغر فی اللہ ہیں مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی توجہ ہر وقت ہمارے ساتھ ہے، آپ کا فیض اس قدر عظیم ہے کہ مجھے خطرہ ہوگیا کہ میں از خود رفتہ نہ ہوجائوں، یہ بھی آپ کا کرم ہے کہ ہوش بھی باقی ہیں اور انتہائی فنائیت بھی ہے ۔ یہاں سے فارغ ہو کر …کچھ دیر کے بعد کار سے امامنا امام اعظم صاحب فقہ احناف کے مزار مقدس پر پہچادیا یہ کس قدر کیف اور سرور بخش مزار ہے کہ بیان کرتے کرتے اور لکھتے لکھتے قیامت آجائے، خوبی ختم نہ ہو، چہرہ مبارک گورا ہے، بہت بوڑھے ہیں، داڑھی مبارک اور سر مبارک کے بال سفید ہیں۔ ہماری قیام گاہ کے قریب ایک بڑا قبرستان ہے اس میں حجۃ الاسلام حضرت امام محمد غزالی علیہ الرحمۃ کا مزار مقدس ہے ۔ دروازے پر کتبہ لگا ہوا ہے ’’ھذا مقبرۃ الغزالی‘‘ جب اندر داخل ہوئے تو ایسا معلوم ہوا کہ کوئی زائر مہینوں سے یہاں نہیں اایا ۔ آپ کا فیضان بڑا مکمل ہے۔ جناب کے لمبے بال دونوں شانوں پر پڑے ہں۔ رنگ گورا ، ٹوپی چونچدار، بالکل جوان معلوم ہوتے ہیں۔ شر دمشق مسجد اموی کے سامنے حمیدیہ بازار کے اند رایک چھوٹی سی مسجد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ آرام فرما رہے ہیں۔ سانولہ رنگ، کالی داڑھی شریف ، منہ مبارک پر خفیف چیچک کے داغ ہیں۔ بعد فاتحہ جب بازر میں آیا تو اس قدر فیضان ہوا کہ حیران رہ گیا۔
(سفر نامہ عراق و شام)
وصال:
حضرت قاضی زین العابدین دہلوی نے ۹ ذوالحجہ ۱۳۹۴ھ بمطابق ۱۹۷۴ء بعمر ۷۴ سال بوقت ۱۰ بجے شب داعی اجل کو لبی کہا اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ۔ آپ کا مزار مقدس قبرستان میوہ شاہ (لیاری) کراچی میں لب سڑک مرجع خلائق ہے۔
[ماخوذ: سوانح حیات قاضی زین العابدین مؤلف مولا نا طفیل احمد سلامی (رنچھوڑلائن) مطبوعہ کراچی ۱۹۹۰ء اس سوانح کی نقل فوٹو اسٹیٹ الحاج صوفی محمد مقصود حسین قادری نوشاہی اویسی کی وساطت سے مہیا ہوئی۔]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)