حضرت مولانا رفعت علی قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مولانا محمد رفعت علی قادری بن نظر علی قادری علی گڑھ (یو ۔ پی ، انڈیا) کو ۱۹۱۴ء میں تولد ہوئے ۔ (آپ کے پاسپورٹ میں اسی طرح نام لکھا ہوا ہے )
تعلیم و تربیت :
مدرسہ حافظیہ سعیدیہ دادوں ، علی گڑھ میں ابتدائی تعلیم اور قرآن مجید حفظ کی دولت حاصل کی ۔ اس کے بعد کہاں تعلیم حاصل کی ؟ یا پھر اسی مادر علمی میں تحصیل کی تفصیل کا پتہ نہیں چل سکا۔
پاکستان میں قیام :
۱۹۵۰ کو علی گڑھ سے کراچی نقل مکانی کی اور ڈرگ کالونی میں رہائش اختیار کی اور تاحیات اسی گھر میں قیام رہا۔
بیعت :
۱۹۶۰کو انڈیا تشریف لے گئے اور بریلی شریف میں حضرت مولانا مصطفی رضا خان نوری سے سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ میں بیعت ہوئے اور اسی وقت خلافت سے بھی نواز ے گئے ۔
سفر حرمین شریفین :
۱۹۷۱ء کو حج بیت اللہ او ر روضہ رسول مقبول ﷺ کی حاضری کی سعادت حاصل کی اور اسی مبارک سفر میں اپنے پیرو مرشد مولانا مفتی مصطفی رضابریلوی سے بھی شر ف ملاقات حاصل کی ۔
اولاد :
آپ نے عزیزہ بیگم سے علی گڑھ مین شادی کی جس سے ایک بیٹا سید حشمت علی قادری (n.t.cسے ریٹائر ڈ) اور ایک بیٹی نفیس فاطمہ تولد ہوئیں ۔ دونوں بہن بھائی کراچی میںرہائش پذیر ہیں اور صاحب اولاد ہیں ۔
خطابت :
مولانا رفعت علی قادری مرحوم اپنے علاقہ میں خطابت تعویذات اور تعلیم قرآن کے حوالہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ ۱۹۵۰ء کو ملیر کینٹ بازار کی جامع مسجد میں امام و خطیب کا تقرر ہوا۔ ۱۹۵۱ء تا ۱۹۵۳ء تک ۸/۲ پانجاب ریجمنٹ آرمی میں امام و خطیب کے فرائض انجام دیئے۔ اس کے بعد استعفیٰ دے کر ڈرک کالونی واپس آگئے اور اس کے بعد مقامی طور پر چھوٹے پیمانے پر تجارت کرتے رہے۔ ۱۹۵۳ء کے آخر میں انہیں مسجد الفلاح پی اینڈ ٹی کالونی گزری کراچی میں خطابت و امامت کی پیشکش ہوئی جو کہ انہوں نے قبول فرمائی۔ اسی سال آپ نے ڈرگ کالونی میں نوجوانان اہلسنّت پر مشتمل ’’انجمن غوثیہ‘‘ کی داغ بیل ڈالی۔ ۱۹۷۵ء تک وہیں رہے۔ پھر وہاں سے فراغت حاسل کر کے ڈرک کالونی واپس آگئے اور یہیں پر مسجد عباسیہ بلاک نمبر ۵ میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دیئے۔ ۱۹۷۶ء تا ۱۹۷۸ء تک جامع مسجد حنفیہ ناظم آباد بڑا میدان میں رہے۔ اسی سال ان کی بیگم عزیزہ کا انتقال ہوا اس سبب سے وہاں سے فارغ ہو کر واپس گھر آئے اور یہیں پر جامع مسجد عثمانیہ سبزی گلی، شاہ فیصل کالونی نمبر۱ میں ۲۰۰۱ء کے آخر تک خدمات انجام دیں۔
وصال:
مولانا محمد رفعت علی قادری نے ۸ ، شوال المعظم ۱۴۲۲ھ بمطابق ۲۳ دسمبر ۲۰۰۱ء بروز اتوار بعد نماز مغرب ۷۷ سال کی عمر میں اپنے گھر میں انتقال کیا۔ دوسرے روز بعد نماز ظہر نماز جنازہ مین روڈ شاہ فیصل کالونی بالمقابل عثمانیہ مسجد پڑھی گئی جس میں مولانا کے ہزاروں عقیدت مندوں نے شرکت کی ، نماز جنازہ کی امامت کے فرائض مولانا شاہ تراب الحق قادری صاحب نے انجام دیئے۔ اس کے بعد اشکبار آنکھوں سے کالونی گیٹ قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ آپ کے پوتے نصرت علی نے ساتویں روز آپ کی مزار پر فاتحہ کی تو دوران فاتحہ غلطی پر قبر سے مولانا نے لقمہ دے کر پوتے کی اصلاح کی۔
ایک فاتحہ آپ کی دارالعلوم قمر الاسلام سلیمانیہ پنجاب کالونی کراچی نمبر۶ میں بھی ہوئی تھی۔
[فقیر راشدی، جناب خالد لودھی کی نشاندہی پر ۱۵، اگست ۲۰۰۴ء کو مولانا کے گھر ڈرک کالونی پہنچا جہاں پر موصوف کے صاحبزادے حشمت علی صاحب قادری سے ان کے والد مرحوم کے حالات سے متعلق فقیر نے انٹرویو لیا، جس سے یہ مضمون ترتیب دیا گیا۔]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)