مولانا سعد الدین کاشغری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ شروع حال میں علوم کی تحصیل میں مشغول تھے۔کتب مستعملہ جمع کیں۔ان کا مطالعہ کرتے رہے۔ظاہری جمعیت بھی رکھتے تھے۔جب اس طریق تصوف کا سامان پیداکیاتو سب کو چھوڑ چھار کر پورے مجرد ہوگئےاور مولانا نظام الدین کی خدمت میں پہنچے۔فرماتے تھے کہ چند سال کے بعد جب میں ان کی خدمت میں پہنچا ۔مجھ کو حرمین شریفین زاد ہما اللہ تعالی تشریفاً و تکریماً کی زیارت کا ارادہ قویٰ ہوا۔میں نے آپ سے اجازت مانگی۔فرمایا کہ میں ہر چند دیکھتا ہوں لیکن کو اس سال حاجیوں کےقافلہ میں نہیں دیکھااور اس سے پہلےکئی واقعات میں نہیں دیکھے تھے۔جس سے مجھے وہم ہوتا تھا۔آپ نے کہا تھاکہ تم ڈرو نہیں۔فرمایا جب جاؤ تو وہ واقعات مولانا زین الدین کی خدمت میں عرض کرنا۔کیونکہ وہ ایک مردبا شرع اور سنت کے طریق پر ثابت ہیں۔آپ کا مقصود شیخ زید الدین خوانی سے تھا کہ ان دنوں میں وہ خراسان میں ارشاد شیخوخت کے مقام پر معین تھے۔جب میں خراسان میں گیا تو حج کا جانا جیسا کہ مولانا نطام الدین نے فرمایا تھا ملتوی ہوگیا۔اس کے بعد کئی سالوں کے بعد میسر ہوا۔جب میں شیخ زین الدین کی خدمت میں پہنچا اور ان واقعات کو بیان کیا ۔آپ نے فرمایا کہ ہم سے بیعت کرواور ہماری ارادت کی قید میں آجاؤ۔میں نے کہا وہ بزرگ کہ جن سے میں نے طریق لیا ہے ابھی زندہ ہیں۔آپ امین ہیں اگر آپ جانتے ہیںکہ اس گروہ کے طریق میں جائز ہے تو میں ایسا ہی کروں گا ۔انہوں نے فرمایا کہ استخارہ کرو۔میں نے کہا مجھے اپنے استخارہ پر بھروسہ نہیں ہے۔آپ استخارہ کریں۔
فرمایا کہ تم بھی استخارہ کرو،ہم بھی کرتے ہیں۔جب رات آئی میں نے استخارہ کیا ۔تو دیکھا کہ خواجگان کا ایک گروہ ایک پیر کی زیارت گاہ پر کہ جہاں شیخ مولانا زین الدین اس وقت موجود تھےآتا ہے۔درختوں کو اکھیڑتے ہیں۔دیواروں کو گیراتے ہیں،اور ان پر غضب ع قہر کے آثار ظاہر ہیں۔میں نے بیان کیا کہ یہ پوری شان اس پر ہے کہ میں دوسرے طریقہ پر نہ آؤں۔تب مجھے تسلی ہوگئی اور پاؤں پھیلا کر آرام سے سو رہا۔جب صبح کے وقوت سیخ کی مجلس میں آیا تو بغیر اس کے کہ میں اپنا واقع آپ سے عرض کروں۔فرمایا کہ طریقہ ایک ہی ہے،اور سب ایک ہی طرف لوٹتے ہیں۔اسی طریق پر مشغول رہے۔اگر کوئی واقع یا مشکل پیش آئے تو ہم سے کہو۔جس قدر ہم سے ہو سکے گا ،مدد کریں گے۔مولوی پر کہ غلبہ حال جس پر موجود تھے۔ظاہر ہوا۔تھوڑی سی وجہ سے غیبت کے آثار بے خودی کی کیفیت معلوم ہونے لگی۔جس شخص کو اس حال سے واقفیت نہ تھی،وہ یہ وہم کرتا تھاکہ شاید آپ پر خواب کا غلبہ ہے۔میں شروع شروع جب آپکی صحبت میں پہنچا ۔جامو مسجد میں آپکے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔جیسے ان کی عادت تھی اپنے آپ سے غائب ہوگئے۔مجھے اس کا گمان ہوا کہ شاید آپ کو نیند آتی ہے۔میں نے کہا کہ ایک گھڑی اگر آرام کرلیں،تو مضائقہ نہیں۔آپ نے تبسم فرمایا ،اور کہا تم شاید اس کا اعتقاد نہیں رکھتےکہ ہم کو خواب کے سوا ایک اور کام بھی ہے۔ایک دن آپ کہتے تھے کہ بعض درویش خواب و بیداری میں اس کے سوا اور کچھ فرق نہیں کر سکتےکہ اپنے میں ایک قسم کا ہلکا پن جو نیند کے بعد ہوا کرتا ہےپاتے ہیں۔ورنہ ان کے شغل کی کیفیت نیند اور بیداری میں ایک طریق پر ہے۔بلکہ خواب کی حالت میں کہ بعض رکاوٹیں جاتی رہتی ہیں۔زیادہ صاف اور زیادہ قوی ہوجاتی ہے۔مجھے ایسا گمان ہے کہ جو کچھ آپ کہتے تھے،وہ اپنے حال کی طرف اشارہ تھا۔وللہ تعالے اعلم۔ ایک درویش جو آپکی صحبت میں جایا کرتا تھا۔یہ بیان کرتا ہے کہ مجھ کو وعظ کی مجلس میں جب درویشوں کا تعارف دل پر گزرتا تو ایک بڑا تغیر ہوتا تھا۔فریادیں بہت سی لگا تا تھااور اس سے پردہ میں ہوجا تا تھا۔ایک دن میں نے آپ سے کہا،فرمایا کہ جب تیری حالت بدلے مجھ کو خیال کرلیا کر۔جن دنوں میں کہ آپ عرب کے سفر میں تھے۔ایک مدرسی میں جہاں پر ایک بزرگ وعظ کر رہے تھے۔میری حالت بدلنے لگی تو میں نے آپ کی طرف متوجہ کی۔میں دیکھا کہا اسی مدرسہ سے آپ نکلے ہیں اور میرے سامنے آگئے ہیں۔اپنے دونوں ہاتھ کندھوں پر رکھے ہیں۔میں آپے سے باہر ہوگیااور بے ہوش ہوگیا۔جس وقت کہ مجھے ہوش آیا وعظ کی مجلس ختم ہو چکی تھی۔لوگ چلے گئے اور مجھ پر دھوپ آگئی۔وہ دن رمضان شریف کے آخری جمعرات کا تھاکہ اس کے بعد عید تک اور کوئی جمعرات نہ تھی۔میں نے اس کو دل میں رکھا کہ جب آپ مکہ معظمہ واپس آئیں گے تو میں آپ سے کہو گا۔جب آپ مکہ معظمہ سے تشریف واپس لائے اور میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ایک جماعت آپکی خدمت میں بیٹھی ہوئی تھی ۔میں وہ حال بیان نہ کر سکا۔آپ نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا ۔کہ وہ جمعرات تھی جس کے بعد عید تک دوسری جمعرات نہیں تھی۔آپ ظہر کی نماز کے درمیان چہار شنبہ کے دن۷ جمادی الاخری ۸۶۰ ھ میں انتقال فرما گئے۔