حضرت مولانا صاحبزادہ محمد عبدالحق، بندیال
حضرت مولانا صاحبزادہ محمد عبدالحق، بندیال (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا صاحبزادہ محمد عبدالحق، بندیال علیہ الرحمۃ
حضرت مولانا صاحبزادہ محمد عبدالحق بن استاذ الاساتذہ حضرت مولانا یار محمد بن سلطان محمد بن شاہ نواز ۱۳۴۹ھ/ ۱۹۳۰ء میں بندیال (ضلع سرگودھا) کے مقام پر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد حضرت مولانا یار محمد بندیالوی (متوفی ۱۳۶۹ھ/ ۱۹۵۰ء) اپنے وقت کے امام تھے اورا ن سے بڑے بڑے فضلاء کو شاگردی کا شرف حاصل ہے۔ حضرت علامہ یار محمد علیہ الرحمۃ سے تقریباً نصف صدی ہندوستان و افغانستان سے آنے والے شائقین رشد و ہدایت کا درس لیتے رہے[۱]۔
[۱۔ حیات العلماء، ص۴۳]
تعلیم و تربیت:
آپ نے صرف و نحو کی کتب اپنے والد ماجد علیہ الرحمۃ سے پڑھیں اور پھر موضع حفیظ بانڈی مضافات مانسہرہ (ہزارہ) میں مولانا عبدالغفور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شرح شامی و رسائلِ منطق کی تعلیم حاصل کی۔ یہاں سے ملوالی (کیمبلپور) پہنچے اور (فقہ میں) ہدایہ، شرح عقائد اور کتبِ ادب مولانا نور محمد سے پڑھنے کے بعد واپس اپنے گھر لوٹ آئے۔ واپس آنے کے بعد کتب معقول استاذ العلماء حضرت مولانا محمد دین بدھوی سے اور بعض کتب حضرت علامہ مولانا عطا محمد سے اپنے والد ماجد کے قائم کردہ مدرسہ میں پڑھیں۔ پھر بخاری شریف استاذ الاساتذہ شیخ الحدیث علامہ مولانا محب النبی (متوفی ۲۱؍ربیع الاول ۱۳۹۶ھ) سے جامعہ نظامیہ رضویہ وزیرآباد میں پڑھی، جبکہ یہاں ہی بعض کتب شیخ القرآن علامہ عبدالغفور ہزاروی (متوفی ۹؍اکتوبر ۱۹۷۰ء)سے پڑھیں۔
پھر واپس گھر تشریف لائے اور اپنے دارالعلوم میں تمام علوم حدیث کا درس حضرت علامہ مولانا عطا محمد مدظلہ[۱] سے لیا۔ آپ کی دستار بندی جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد میں ہوئی[۱]۔ اور ۱۹۶۲ء میں آپ نے فراغت حاصل کی۔
[۱۔ مولانا غلام مہر علی، الیواقیت المہریہ، ص۱۰۴]
[۲۔ حیات استاذ العلماء، ص۴۸]
دینی و ملی خدمات:
آپ دارالعلوم مظہریہ امدادیہ بندیال کے جملہ انتظام و انصرام کی دیکھ بھال کے علاوہ علوم عربیہ کی تدریس بھی فرماتے ہیں۔ علامہ بھر کے شرعی فیصلے آپ ہی فرماتے ہیں۔ آپ کے فیصلے کو لوگ دل وجان سے قبول کرتے ہیں اور کسی کو اس فیصلے کے سامنے دم مارنے کی جرأت نہیں ہوتی۔
علاوہ ازیں لوگوں کی روحانی بیماریوں کا علاج فرماتے ہیں۔
طالب علمی کے زمانے میں آپ موضع شادیہ (ضلع میانوالی) میں ایک زمیندار غلام محمد ولد خان بیگ جنجوعہ کی والدہ کی فاتحہ خوانی کے لیے تشریف لے گئے۔ وہاں ایک مولوی صاحب ذیاب فی ثیاب کے مصداق دجل و فریب سے اپنے آپ کو اہل سنت والجماعت ظاہر کرتا تھا۔ آپ نے اس سے گفتگو کی اور اس کی بدعقیدگی کو عوام کے سامنے واضح کرکے اس کے دجل کے تاروپود بکھیر دیے اور عوام کے عقائد کومحفوظ فرمایا۔[۱]
[۱۔ حیات استاذ العلماء، ص۴۹]
جماعتِ احمدیہ قائد آباد کے صدر ڈاکٹر مبارک علی شاہ اور سیکرٹری احمد علی شاہ نے بغدادی جامع مسجد میں آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور مرزائیت سے بیزاری و لا تعلقی کا اعلان کیا۔[۱]
[۱۔ روزنامہ نوائے وقت لاہور، ۱۸ جون ۱۹۷۴ء بحوالہ ضیائے حرم ختم نبوت نمبر دسمبر ۱۹۷۴ء ص۱۲۰]
۱۹۷۷ء کے انتخابات میں آپ نے جمعیت علمائے پاکستان کے جنرل سیکرٹری مجاہد ملت علامہ عبدالستار خان نیازی کی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا اور اس سلسلہ میں بعض پیچیدگیوں کے باوجود کلمۂ حق کہنے سے گریز نہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ علامہ نیازی کی مخالفت کا وہ طوفان جو اپنی مخصوص شکل میں ظاہر ہوا، کا مقابلہ کرنا صرف آپ ہی کا کام تھا۔
بیعت:
آپ نے حضرت خواجہ پیر سیّد غلام محی الدین شاہ عرف بابوجی رحمہ اللہ (متوفی ۲۲؍جون ۱۹۷۴ء/ ۱۳۹۴ھ سے شرف بیعت اور خلافت و اجازت کا اعزاز حاصل کیا۔
والد ماجد کی دُعا:
آپ خود فرماے ہیں: ’’کہ مجھ پر جو کچھ بھی خدا کا فضل و کرم ہوا، یہ سب قبلہ والد صاحب کی دعاؤں کا ثمرہ ہے‘‘۔ آخری وقت میں جب آپ والد مکرم کی خدمت میں مصروف رہتے تو انہوں نے دعا دیتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تجھے علم نافع دے‘‘۔
آپ کے دو صاحبزادے مظہرالحق اور ظفر الحق زیرِ تعلیم ہیں، جبکہ دیگر صاحبزادگان کمسن ہیں۔
[۱۔ حیات استاذ العلماء، ص۴۹]
(تعارف علماءِ اہلسنت)