حضرت مولانا سیفی فریدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مولانا سید مکرم علی شاہ سیفی فرید آبادی بن حضرت حکیم پیر سید امتیاز علی شاہ کاظمی نقوی نومبر ۱۸۹۴ء بمقام فرید آباد ضلع گڑگاواں (مشرقی پنجاب انڈیا) دہلی سے بارہ میل دور اپنے نانا جان حضرت سید ولادت حسین شاہ کے مکان پر تولد ہوئے۔ حکیم صاحب چھٹی پشت میں حضرت سید عبدالوہاب قادری بخاری علیہ الرحمۃ جو قطب عالم تھے ارو کراچی میں حضرت عالم شاہ بکاری کے نام و لقب سے مشہور ہیں، جامع کلاتھ ایم ۔ اے جناح روڈ میں مرجع خلائق ہیں۔ حکیم صاحب آگرہ میںمطب کرتے تھے۔
تعلیم و تربیت:
آپ کی پرورش ایک فارسی دان خاتون کی آغوش میں ہوئی تھی، اسلئے آپ کو فارسی زبان پر کاس طور پر عبور حاسل تھا۔ ابتدائی تعلیم فرید آباد کے مدرسہ میں حاصل کی۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد مدرسہ قادریہ بدایوں شریف (انڈیا) میں داخلہ لیا۔ آپ اپنی خود نوشت سوانح حیات میں رقمطراز ہیں:
دینیات کی تعلیم مدرسہ قادریہ بدایوں میں ہوئی۔ حدیث و تفسیر ختم کرنے کے بعد خیال آیا کہ کوئی صیغہ روزگار بھی اختیار کرنا چاہئے اسلئے منشی فاضل اور مولوی فاضل کے امتحانات مولوی اولاد حسین شاداں بلگرامی کی شاگردی میں پاس کئے۔ وہیں (رامپور میں) جناب منشی حیات بخش رسا رامپوری سے فن شعر و سخن میں شرف تلمذ حاصل کیا۔ آپ نے اپنے والد سے بھی اصلاح لی تھی وہ بھی حضرت رسا کے شاگرد تھے اور رسا رامپوری جناب مرزا داغ دہلوی کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔
آپ نے پانی تعلیم کے متعلق لکھا ہے کہ منشی فاضل اور مولوی فاضل کے امتحانات رامپور میں پاس کئے۔ جب کہ آپ کے سوانح نگار جناب الحاج سید فتح علی حیدر ی قادری خوشتر مرحوم (کراچی) رقمطراز ہیں: ’’مشنی فاضل اور عربی میں مولوی فاضؒ کے امتحانات پنجاب یونیورسٹی سے پاس کئے ۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے بی ۔ او ۔ ایل پاس کیا۔ بمبئی سے بار کونسل ایڈوکیٹ کا امتحان دے کر او ۔ ایس ایڈوکیٹ کا ڈپلومہ کیا۔
ملازت و وکالت:
ابتدائی ملازمت ریاست کوتہ بوندی راجپوتانہ میں کورٹ کی سرشتہ داری سے شروع ہوئی اور ترقی کرکے جہاں پولیٹکل سیکریٹری کے عہدے تک پہنچے۔ چونکہ وکالت پاس کر لی تھی اسلئے ریاست دھولپور (جودھپور) میں ڈپٹی جسٹس (سب جج) درجہ اول مقرر ہوئے لیکن تنخواہ کی کمی کے سبب اس عہدے سے مستعفی ہو کر وکالت شروع فرمائی بفضلہ تعالیٰ کامیاب وکلاء شمار ہونے لگا۔
۱۹۴۷ء کو آگرہ (اکبر آباد) سے نقل مکانی کرکے پاکستان (کراچی) آئے اور حیدرآباد سندھ میں رہائش اختیار کی وکالت کے پیشہ سے منسلک رہے لیکن یہاں بڑے بیٹے کے انقال کے سبب دل برداشتہ ہوگئے اور جلد ہی ملتان رخصت ہوگئے۔ ملتان میں بھی وہی پیشہ رہا بار کے انتخابات میں بلا مقابلہ وائس پریزیڈنٹ منتخب ہوئے۔ چنانچہ ۱۹۵۴ء تک ملتان ہی میں رہے۔
چھ سال ملتان میں قیام رہا چونکہ عزیز و اقارب کی کثرت اور تمام صاحبزادگان کراچی میں تھے اسلئے آپ بھی ملتان سے منتقل ہو کر ۱۹۵۴ء کو کراچی آگئے اور یہاں وکالت شروع کردی اور کچھ عرصہ میں کراچی جیسے عریض و بسیط شہر میں معروف وکلاء میں آپ کا شمار ہونے لگا۔
جب ضعیفی پیرانہ سالی کے باعث آپ سے کورٹ کے زینے چڑھنا مشکل ہوگیا تو آپ نے صرف ٹیبل ورک پر اکتفا کیا۔ لیکن خاص خاص معاملات اور ان کے نازک مراحل پر مثلاً بیانات پر جرح یا اہم بحث کے مواقع پر تکلیف سے سہی مگر جاتے ضرور تھے۔ انتقال سے چار دن قبل تک کورٹ میں تشریف لائے تھے آپ لمبی بحث نہیں کرتے تھے لین اپنی مختصر بیانی سے مد مقابل وکیل کو لا جواب کر دیتے تھے۔
بیعت:
آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ میں اپنے والد ماجد حضرت حکیم سید امتیاز علی شاہ نقوی چشتی صابری فخری صمدی علیہ الرحمہ المعروف سیمات متھراوی ثم اکبر آبادی سے دست بعیت تھے اور حضرت علائو الدین شاہ چشتی علیہ الرحمۃ کے صاحب مجاز خلیفہ تھے۔
عادات و خصائل:
آپ مقدمات لینے میں پوری احتیاط فرماتے ، جھوٹے مقدمات ت وکجا ایسے مقدمات تک کو قبول نہ فرماتے جس میں کوئی دینی خلل پیدا ہوتا ہو۔ اپنی قابلیت اور پچاس ساٹھ سالہ تجربہ کی بنیاد پر اور مقدمات میں سو فیصد کامیابیوں کے باعث زیادہ فیس مل سکتی تھی لیکن آپ ہمیشہ مختصر فیس لیتے تھے۔ خاص عزیز اور خصوصی احباب کے مقدمات میں بلا فیس پیروی کرتے۔ غریب اور نادار کا خاص خیال رکھتے تھے۔ آپ بہترین حافطہ کی دولت سے نوازے گئے تھے۔ آخری عمر تک قانونی دفعات اور متعلقہ کتب کے صفحات تک یاد تھے۔ بیشتر وکلاء صاحبان آپ سے مشورہ لیتے اپنی عرضی دعوے، جواب دعویٰ کے سلسلہ میں آپ کی رہنمائی لیتے تھے۔ اککل حلال اور طہارت غذا و خوراک آپ کا معمول خاص تھا، اخلاص، خدا ترسی اور دلجوئی آپ کی سرشت میں داخل تھی۔ صوم و صلوٰۃ کی پابندی بدرجہ اتم موجود تھی عبادات و ریاضت اور مجاہدات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے کرم، پیران عظام کی مدد سے وقلب جاری تھا۔ دروج تاج شریف کے عامل تھے۔
تصنیف و تالیف:
اس سلسلہ میں چند کتابوں پر مطلع ہو سکا وہ نذر قارئین ہیں:
٭ صہبائے پارسی : سلطان الہند خواجہ سید معین الدین چشتی غریب نوا زقدس سرہ الاقدس (اجمیر شریف) کے نام منسوب ’’دیوان فارسی‘‘ کا آپ نے اردو میں کامیاب منظوم ترجمہ کیا۔ مناجات حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہٗ کا منظوم اردو ترجمہ کیا۔
٭ ارمغان سیفی: مرتبہ علامہ شمس بریلوی مطبوعہ کراچی ۱۹۸۴ء
مولانا سیفی کے صاحبزادے سید سلطان احمد نقوی نے مولانا کے انتقال کے بعد تمام قلمی کلام الحاج سید فتح علی حیدری کی وساطت سے علامہ شمس بریلوی کی خدمت میں پیش کیا انہوں نے ترتیب کے علاوہ مولانا کی شاعری پر طویل مقدمہ قلمبند فرمایا اور نام ارمغان سیفی تجویز کیا۔ سلطان صاحب (نارتھ ناظم آباد کراچی) نے خود اپنی طرف سے ۱۹۸۴ء کو شائع کیا۔ ملنے کا پتہ و ایڈریس درج نہیں۔
شادی و اولاد:
آپ نے شادی کی جس سے چار بیٹے اور ایک بیٹی تولد ہوئے۔
٭ سید شفیق احمد رف سلطان احمد نقوی نارتھ ناظم آباد کراچی۔
٭ سیدل لئیق احمد
٭ سید خلیق احمد ، پی آئی بی کالونی کرچی۔
٭ سید عتیق احمد
شاعری:
علامہ سیفی کی شاعری حمد، نعت ،غزل ، منقبت ، قطعہ تاریخ اور صوفیانہ کلام پر مشتمل ہے۔ مولانا شمس بریلوی، سیفی کی شاعری کے متعلق اپنے مقدمہ میں رقمطراز ہیں: ’’حضرت سیفی کی شاعری میں بیساختگی کو بڑا دخل ہے جس نے ان کو مقبول عام و خاص شاعر بنا دیا تھا اور سامعین ان کے کلام سے لطف اندوز اور محظوظ ہوتے تھے یہ بیساختگی جس طرح زبان کی صحت و صفائی کی آئینہ دار ہوتی ہے اسی طرح کلام کی فصاحت اس کا ثمرہ ہے ، کلام فصیح کیلئے ضروری ہے کہ وہ صحت زبان ، سلاست بیان، تنافر کلمات، مخالفت قیاس لغوی، تعقید لفظی و معنوی اور توائی اضاحت سے پاک و صاف ہو، میں حضرت سیفی کے کلام سے صحت زبان سلاست بیان اور طرز ادا کی بیساختگی کے تحت متعدد اشعار پیش کر چکا ہوں…‘‘
دوسرے مقدمے میں لکھتے ہیں:
’’حضرت سیفی کو اللہ تعالیٰ نے علم کی دولت بھی عطا فرمائی تھی ، بلند پایہ دینی کتب کے مطالعہ سے بہرہ ور تھے ، سیرت طیبہ کی خصوصیات اور معجزات پر ان کی نظر تھی، یہی سبب ہے کہ عرفان محمد ﷺ کے ساتھ ساتھ ان کی نعت میں عشق محمد ﷺ کی لہریں بھی موجزن ہیں۔
(ارمغان سیفی مقدمہ)
ان کی نعتیہ غزلوں سے چند اشعار ملاحظہ کیجئے:
حسن مطلق ہوا مشتاق وصال محبوب
مرحبا، صلی علی ، حسن و جمال محبوب
انبیاء حاصل معراج کمالات بشر
فوق معراج کمالات، کمال محبوب
اور جب اسی زمین میں وہ کمالات و خصائص مصطفوی ﷺ کو بیان کرتے ہیں تو اس طرح کہتے ہیں:
خط قوسین دوئی سے خط او ادنیٰ تک
پر پرواز، خرد سوز، کمال محبوب
قول واللہ یتم کے یہ معنی نکلے!
کہ مقدر نہ ہو اکوئی زوال محبوب
کہہ کے انتم طلقاء کر لیا اعداء کو غلام
مرحبا! حسن سیامت و نوال محبوب
آپ کی پرواز او ادنیٰ کی یہ تفیسر ہے
’’لا‘‘ سے آگے بھی خط الا اھاطہ گیر ہے
انبیاء ہی تک نہیں محدود میثاق ازل
عہد میثاق ازل، مشتاق عالمگیر ہے
معنی آفرینی کے ساتھ انداز بیان ملاحظہ کیجئے:
جبیں طور پر نور خدا کی جلوہ سامانی
کہ تھی قد جاء کم نور من اللہ کی وہ تابانی
تمہاری خاک ۔۔حزالبلد کی جان صفت ہے
زہے والتین و الزیتون کے اسرار پنہانی
فروغ جلوہ پیہم حریف ما طغیٰ کیوں ہو؟
کہ عرض صاعقہ سے انکسار ضبط انسانی
اللہ ترے محبوب حقیقی کا شباب
لن ترانی ک اوہ ڈالے ہوئے چہرہ پر نقاب
اذن منی کی صدائوں سے کیا تجھ کو خطاب
شب اسری ترے آگے ہوا بے حجب و حجاب
چھپنے والے ترے چھپنے کی ادا کیا کہنا
اک نظر باز کا مازاغ و طغیٰ کیا کہنا
چشم موسیٰ نے جو دیکھا تھا پس پردہ طور
چشم مازاغ نے دیکھا وہی جلوہ بھر پور
ماظفی وصف نظر تھا نہ خلاف دستور
تم تواب واسطہ غیر ہو، اللہ کے نور
کبھی دیکھی ہے نظر ایسی نہ ناظر ایسا
اس سے پہلے سفری ایسا نہ مسافر ایسا
نبی کا نعت خواں ہوں نعتیہ دیوان لایا ہوں
جو جنت ہی میں رکھا جائے وہ سامان لایا ہوں
نبی کے مصحف رخ کا تصور ہے میرے دل میں
فشار قبر سے بچنے کو یہ قرآن لایا ہوں
سرکار غوث اعطم شہنشاء بغداد سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کی شان میں مولانا سیفی لکھتے ہیں:
عروج عاشقی کو بت پرستی لوگ کہتے ہیں
تصور میں نظر اایا ہے چہرہ غوث اعظم کا
اب اس کو چھوڑ کر جائوں تو سیفیؔ کہاں جائوں
بری مشکل سے ہاتھ آیا ہے روضہ غوث اعظم کا
نبی کا ہے جس پر قدم غوث اعظم
وہ تم ہو خدا کی قسم غوث اعظم
فقیری میں سیفیؔ کرے بادشاہی
کچھ ایسی ہو چشم کرم غوث اعظم
وصال:
حضرت مولاناسید مکرم علی سیفی نقوی نے ۲۲ ، ربیع الاخر ۱۴۰۱ھ بمطابق ۲۸ فروری ۱۹۸۱ء کو بروز ہفتہ بوقت فجر سن عیسوی کے حساب سے ۸۷ سال کی عمر میں انتقال کیا۔
(ارمغان سیفی مرتبہ شمس بریلوی، مطبوعہ کراچی ۱۹۸۳ء سے حالات اخذ کئے گئے۔ اس کتاب کا ایک نسخہ جناب غوث میاں (شاہ فیصل کالونی نمبر ۳) کے پاس محفوظ ہے۔ انہوں نے ازراہ کرم برائے مطالعہ فراہم کیا۔ فقیر ممنون ہے)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)