حضرت مولانا حکیم سید سخاوت حسین سہسوانی انصاری
حضرت مولانا حکیم سید سخاوت حسین سہسوانی انصاری (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا حکیم سید سخاوت حسین سہسوانی انصاری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:مولانا حکیم سیدسخاوت حسین انصاری۔تاریخی نام:فضل الرحمن۔آپ کاتعلق خاندانِ ساداتِ کرام سےہے۔خاندان میں عظیم اولیاء اللہ گزرےہیں۔حضرت خواجہ سید ابو یوسف مودود چشتیسلسلہ عالیہ چشتیہ کےایک نامور شیخ تھے۔(تذکرہ علمائے اہل سنت:83)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت1240ھ مطابق1825ءکوسہسوان ضلع بدایوں(انڈیا) میں ہوئی۔(تذکرہ علمائے اہل سنت:95)
تحصیلِ علم:آپ تمام علوم عقلیہ ونقلیہ کےجامع تھے۔بالخصوص اپنےعصرمیں فن صرف ونحو اور مناظرہ کےامام تھے۔جب کسی وہابی سےمناظرہ ہوتا توحسنِ تدبیرسےمسائل صرف ونحو میں لاکر زِیرفرمالیا کرتےتھے۔اسی طرح فن ِطبابت میں خاص ادراک حاصل تھا۔آدمی کاچہرہ دیکھ کرصحیح کیفیت منکشف ہوجاتی تھی۔ایک مرتبہ اپنے مطب میں تشریف فرماتھے کہ سامنےسے ایک شخص سر پر بوری رکھےہوئے گزرا۔حاضرین سےفرمایا:دیکھو مردہ جارہاہے۔تھوڑی دور جاکروہ گرا اور فوت ہوگیا۔(مقدمہ بشیرالقاری :14)
بیعت وخلافت: قدوۃ الاولیاء زبدۃ الاصفیاء شیخ الاسلام حضرت خواجہ سید حافظ محمد علی شاہ خیرآبادی(مرید وخلیفہ غوث زماں حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی)کےدستِ حق پرست پر سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں بیعت ہوئےاورخلافت سےمشرف ہوئے۔
سیرت وخصائص: زبدۃ الکاملین،قدوۃ العارفین،عارف اسرار قاب قوسین،استاذالعلماء،امام العرفاء،جامع شریعت وطریقت،حامیِ سنت،ماحیِ بدعت،قاطعِ وہابیت،حضرت علامہ مولانا حکیم سید سخاوت حسین سہسوانی انصاری۔آپاپنےوقت کےعالم متبحر اور عارف ِ کامل تھے۔درس وتدریس اور وعظ ونصیحت سےخاص شغف تھا۔فنِ صرف ونحوکےتو گُویاامام تھے۔باقی تمام علوم پر کامل دسترس حاصل تھی۔مناظرےمیں مدمقابل کوعربی عبارات کی صرفی ونحوی اصطلاحات میں ہی شکست دیدیتے۔یہی وجہ ہےکہ بڑےبڑےوہابی آپ کاسامنا کرنےسے گھبراتےتھے۔
اعلیٰ حضرت مجدد اسلام مولانا امام احمد رضاخان فاضل بریلوی کی آپ سےعقیدت:
آپکاتعلق ان علمائے شریعت سے تھا جن کی زیارت کو حدیث شریف میں عبادت قرار دیاگیا ہے۔اسی لئے مجدداسلام امام احمد رضاخاں قادریکی مجلس مبارکہ میں جب آپ کاذکرِ خیر ہوتاتو اعلیٰ حضرتآپ کانام مبارک سن کرتعظیماً سینےپرہاتھ رکھ لیا کرتےتھے۔(مقدمہ بشیر القاری شرح صحیح البخاری:14)
تحریکِ آزادی میں کردار: مجاہدینِ تحریکِ آزادی میں آپ کانام سرِفہرست تھا۔آپ ہرلحاظ سےمجاہدین کی معاونت کرتےتھے۔اسی جرم کی پاداش میں 1857ءکےغدرمیں آپ کا نام بھی باغیوں کی فہرست میں درج کیاگیاتھا۔اسی بناءپرآپ کی جائیداد ظبط کی گئی۔گرفتارکرنےکےلیے جب انگریز فوج آئی توآپ مسجد خطیب واقع محلہ قاضی سہسوان میں تشریف فرماتھے۔آپ کو دیکھ کرفوج کاانگریز افسرکہنےلگایہ پادری (مذہبی آدمی)ہے۔بغیرگرفتارکیےچلےگئے۔آپ کےبھائی اوردیگراعزاکوگرفتارکرکےشہید کردیاگیا۔(ایضا:14)
فنافی الشیخ:آپفنافی الشیخ کےمرتبےپر فائز تھے۔اپنےپیرومرشدسےعقیدت کی ایسی مثال کم ہی ملےگی۔آپ کوحضرت سید محمد علی شاہ خیرآبادیسےخلافت حاصل تھی،اوران کےسجادہ نشین راہنمائے کاملین،سید العارفین حضرت سید محمد اسلم خیرآبادیصاحبِ سجادہ اور زینتِ مسند تھے۔لوگ آپ کےپاس مرید ہونےکےلئےحاضر ہوتےآپ ادباًمرید نہ فرماتے،بلکہ اُنہیں کی جانب رجوع کرنےکی تلقین فرمایا کرتےتھے۔ایک بھینس ضرور رکھتے۔جس کاگھی اپنےمرشدکےعرس کےلئےتھوڑا تھوڑاجمع فرماتےرہتے یہاں تک کہ ایک کنسترمکمل ہوجاتا۔اس زمانےمیں سیتاپور تک ریلوےلائن تھی،اور وہاں سےخیرآباد شریف تک یکوں، وغیرہ سواری سےسفر طےہوتاتھایا پیدل۔مگرآپ سیتاپور سےخیرآباد تک گھی کاکنستر سرپر رکھ کرپاپیادہ حاضر ہوتے،اور جب تک وہاں قیام رہتا ادباً برہنہ سر،اور برہنہ پارہتےتھے،اور جب کبھی مرشد کےحلاق(حجام)سےخط بنوانےکا اتفاق ہوتاتو ادباً اس کو سرہانےاور خود پائنتی کی جانب بیٹھتے۔(ایضا:15)
عادتِ کریمہ یہ تھی کہ بزرگانِ دین کےآستانوں کی حاضری کےلئےپاپیادہ سفر فرماتےتھے۔جس زمانے میں دارالخیر اجمیر شریف تک ریلوےلائن نہ تھی،سواری ہونےکےباوجود پیدل سفرفرمایا۔تلامذہ کی جماعت ہمراہ تھی۔راستےمیں سلسلۂ تدریس بھی جاری تھا۔ان تلامذہ میں آپ کےحقیقی خالہ زاد بھائی فخرالعلماء سندالفضلاء واقفِ اسرار حقیقت،دانائے رموزطریقت،حافظ ِ کلام الہی وحافظِ بخاری مولاناسید عبدالصمد پھپھوندیبھی تھے۔آپ نےاس سفر کےحالات کاذکر کرتےہوئے بیان فرمایاکہ جب چلتےچلتے ریاست کشن گڑھ کےعلاقےمیں پہنچے تواستاذ مکرم کوٹھوکر لگی جس سےپیر کاانگوٹھا پھٹ گیا،اور آپ عالم کیف ومستی میں آگئے،کافی دیر تک وجد فرماتےرہے،اور زبان پر یہ شعر جاری تھا۔؏:آرزو یہ ہے کہ تیری راہ میں ٹھوکریں کھاتاہوا یہ سرچلے۔۔۔۔آپ کےاس عمل یہ ثابت ہوا کہ زخم لگنےسےبھی راحت حاصل ہوجاتی ہے۔کیونکہ عالم کیف ومستی میں رقص اسی وقت ہوتاہے کہ جب فرط،سرو،کثرتِ راحت سےقلب مملو ہوجائے۔(ایضا:)
واقعۂ وفات: خیرآباد شریف میں آپ کی وفات اس طرح ہوئی کہ وقتِ قل شریف فرمایا کہ میری چارپائی درگاہ شریف میں لےجاکر مرشد برحق کےمواجہ شریف میں بچھادو،اور بموجبِ ارشاد امیر خسرو؏:ہرقوم راست ملت ہرملتے پناہے۔۔۔۔من قبلہ راست کردم ہرسمت کج کلاہے۔۔۔۔وہاں پہنچ کرمزارشریف کی رخ کرکےلیٹ گئے۔ادھر قل شریف ختم ہوا،ادھرداعی اجل کولبیک کہتےہوئےواصل بحق ہوگئے،اور یہ تمنا پوری ہوگئی۔بقول۔؏: آرزو یہ ہےکہ نکلےدم تمھارےسامنے۔۔۔تم ہمارے سامنےہوہم تمھارےسامنے۔(ایضا:15)
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 19/ذی القعدہ 1299ھ مطابق آخرماہ ستمبر/1882ءکوہوا۔خیرآباد(انڈیا)میں مزراشریف حضرت خواجہ محمد علی خیرآبادیکےبرابرباغ میں مدفون ہیں۔آپ کےتلامذہ میں نامور علمائےکرام اور مشائخ عظام کےنام آتےہیں۔
ماخذومراجع: تذکرہ علمائے اہل سنت۔مقدمہ بشیر القاری شرح صحیح البخاری۔