زبدۃ المحدثین حضرت شاہ نور الحق[1] ابن امام عبد
الحق محدث کے سو پوتے حضرت مولانا شاہ محمد فخر الدین محدث قدس سرہم کے پوتے اور اپنے زمانے کے مشہور محدث تھے،دہلی سے ترک وطن کر کےر ام پور جابسے تھے، محدث
رامپوری کے نام سے مشہور تھے۔حدائق الحنفیہ میں مرقوم ہے کہ آپ فقیہہ فاضل،محدث کامل،مفسر متجر علامۂ عصر،محقق اور مدقق تھے،عربی زبان میں مطالب علمیہ کی تحریر
پر کامل دستگاہ تھی،درس و تدریس،رشدو ہدایت دو مشغلۂ حیات تھے،۔۔۔تصانیف میں مؤطا کی شرح ‘‘محلی’’ آپ کے دفور علم پر شاہد عدل ہے،جلالین کا حاشیہ کمالین ۱۲۲۹ھ
میں نجتبائی پریس سے چھپ چھپ کر شائع ہوا،فارسی زبان میں بخاری کی شرح بھی آپ نے لکھی، ماہ جمادہ الاخریٰ بوقت شام ۱۲۲۹ھ میں عمر طبع پاکر فوت ہوئے،زبدۃ
الاولیاء شاہ عبداللہ بغدادی قدس سرہٗ کی درگاہ کے احاطہ میں مسجد کے قریب جانب جنوب دفن ہوئے۔
(تذکرہ علمائے ہند، ابجد العلوم،حدائق الحنفیہ)
[1]
۔ شیخ المحدثین امام عبد الحق دہلوی کے فرزندہ جانشین ۹۸۳ھ میں پیدا ہوئے،از ابتداتا انتہا والد ماجد سے اخذ علوم کیا،اور سلسلۂ عالیہ قادریہ میں بیعت
کی،والد ماجد کی رحلت کے بعد حضرت عاشق محمد نبیرۂ حضرت شاہ نظام الدین نارنولی قدس سرہما سے اکتساب فیض کیا،اور بیعت ارشاد حاصل کیا،والد ماجد کو آپ کی
قوت علمی پر پورا بھروسہ تھا حضرت مخدوم دیوان محمد رشید مصنف مناظرۂ رشیدیہ کی درخواست پر والد ماجد کے مواجہہ میں ان کو حدیث کی کتابوں کا درس دیا۔
شاہ جہاں بادشاہ کی درخواست پراکبر آباد کے محکمہ قضاء کی ذمہ داری سنبھالی، ۱۰۵۲ھ میں والد ماجد کی وفات کے بعد دہلی آکر مسند درس کو زینت دی،۔۔۔۔۔شیخ
محدث آپ کو اپنا وجودثانی فرمایا کرتے تھے،نوے ۹۰ برس کی طویل عمر پاکر ۱۰۷۳ھ میں راہئ ملک بغا ہوئے،مرقد والد ماجد کے احاطۂ مزار فائز الانوار میں
ہے،۳؍نومبر ۱۹۶۳ھ کی صبح راقم سطور آپ کے اور شیخ محدث کے مزار کی زیارت اور فاتحہ خوانی کے شرف سے مشرف ہوا،تیسری القاری بشرح صحیح البخاری آپ کی شہرۂ
آفاق تالیف ہے،۱۲۹۸ھ میں لکھنؤ مطبع علوی محمد علی حسن خاں سے چھپ کر شائع ہوئی۔
(حیات شیخ عبد الحق محدث دھلوی)