حضرت مولانا شاہ عبد الغنی مجددی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مولانا شاہ عبد الغنی مجددی رحمۃ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا شاہ احمد سعید مجددی کے چھوٹے بھائی، ۱۲۳۵ھ میں دہلی میں پیدا ہوئے، حفظ قرآن کے بعد والد ماجد حضرت شاہ ابو سعید اور برادر بزرگ اور مولانا شاہ عبد العزیزمحدث وشیخ محمد عابد سندھی مدنی سے تکمیل علوم کی، والد ماجد کے مرید اور خلیفہ تھے، رشد وہدایت کے ساتھ درس حدیث بھی خوب دیتے تھے۔ محرم ۱۲۹۶ھ میں مدینہ منورہ میں آپ کا انتقال ہوا، اکثر مشاہیر علماء آپ کے شاگرد ہوئے صنا وید فرقۂ دیوبندی مولانا قاسم نانوتوی ومولانا رشید احمد گنگنوہی، مولوی خلیل صدر مدرس مظاہر علوم سہارن پور، آپ کے شاگردوں میں سے تھے،
(تذکرہ علمائے ہند، تذکرہ کاملان رام پور،)
تاج الفحول مولانا شہا عبد القادر بد ایونی قدس سرہٗ
حضرت سیف اللہ المسلول مولانا شاہ فضل رسول بد ایونی قدس سرہٗ کے فرزند اصغر، اعلیٰ حضرت تاج الفحول محب رسول مولانا شاہ عبد القادر قادری ۱۷؍ رجب ۱۲۵۳ھ میں پیدا ہوئے، بالہام باطن ‘‘شیخ الاسلام فی الھند’’ تاریخی لقب رکھا گیا، جد امجد حضرت عین الحق شاہ عبد المجید قدس سرہٗ نے تاریخی نام ‘‘مظہر حق’’ تجویز فرمایا، بادشارہ غوث اعظم رضی اللہ عنہ ‘‘عبد القادر’’ کے نام سے عقیقہ ہوا، والد ماجد نے ‘‘محب رسول’’ جزونام قرار دیا،
تقریب ‘‘بسم اللہ’’ دادا بزرگوارنے ادا کرائی، اس کے بعد حضرت استاذ العلماء م ولانا شاہ نور احمد عثمانی بد ایونی سے تحصیل علم شروع کی، الور اور دہلی میں رہ کر حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی سے علوم عقلیہ کی بکمال وتمام تحصیل کی، حضرت علامہ خیر آبادی آپ کےبڑے مداح تھے، آپ پر ناز فرماتےتھے، علامہ خیر آبادی اکثر فرماتے کہ صاحب قوت قدسیہ ہر زمانہ میں ظاہر نہیں ہوتے، وقتاً بعد وقت اور عصراً بعد عصر پیدا ہوتے ہیں، اگر اس زمانہ میں کسی کا وجود مانا جائےتو آپ کی طرف اشارہ کرکے فرماتے کہ یہ ہیں، علامہ یہ بھی فرماتے کہ انکے ذہن کی جودت وسلامت ابو الفضل وفیضی کے اذہان ثاقبہ کی جودت کو مات کرتی ہے۔۔۔۔۔آپ کے والد ماجد حضرت سیف اللہ المسلول فرماتے کہ مجھ سے مولانا فیض احمد کی ذہانت زیادہ ہے مگر برخواردر عبدالقادر کی ذہانت و ذکاوت ہم دونوں سے زیادہ ہے، علامہ خیر آبادی کے شاگردوں میں حضرت اُستاد العلماء ہدایت اللہ خاں رام پوری، مولانا فیض الحسن سہارنپوری اور شمس العلماء علامہ عبد الحق خیر آبادی کے شاگردوں میں حضرت اُستاذ العلماء ہدایت اللہ خاں رام پوری، مولانا فیض الحسن سہارنپوری اور شمس العلماء علامہ عبد الحق خیر آبادی فرزند جانشین اور اعلیٰ حضرت تاج الفحول عناصر اربعہ سمجھے جاتے تھے۔۔۔۔۔علامہ عبد الحق خیر آبادی آپ کے بارے میں فرماتےتھےکہ ہر سہ تلامذہ کسی خاص فن میں یکتائے عصر اور وحیدر روزگار ہیں۔ مگر مولانا عبدالقادر بد ایونی کا تبحر اور جامعیت تمام علوم و فنون میں ہے۔ آپ نے تکمیل علوم کے بعد والد ماجد سے سند حدیث حاصل کی اور انہیں کے دست شریف پر بیعت سے مشرف ہوئے، ۱۲۷۹ھ میں پہلی بار حج وزیارت کی حاضری کے وقت خلافت واجازت سے سرفراز کیے گئے، مکہ مکرمہ میں حضرت شیخ جمال عمر مکی سے سند حدیث حاصل کی، ۱۲۹۰ھ میں بغداد مقدس کا سفر کیا، دربار غوث اعظم سے سر فراز شاد کام ہوئے، حضرت نقیب الاشراف شیخ سلیمان ابن علی نے بڑی بذیرائی کی، متعدد مار حاضر حرمین شریفین ہوئے، ۹۹بار بےپردہ آپ کو تجلیات باری کا دیدار ہوا، اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں بریلوی نے قصیدہ چراغ انس میں اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔
میں بھی دیکھوں جو تونے دیکھا ہے
|
روز سعئ وصفا محب رسول
|
|
صفا مروہ پہ تونے جو دیکھا
|
وہ مجھے بھی دکھا محب رسول
|
|
ہاں یہ سچ ہےکہ یاں وہ آنکھ کہاں
|
آنکھ پہلے والا محب رسول
|
شروع میں آپ کو درس وتدریس سےخصوصی شغف تھا، کامل توجہ وانہماک کے ساتھ تعلیم دیتے تھے، آخر عمر میں تدریس کا مشغلہ ترک ہوگیا تھا، ۱۳۱۱ھ میں مجلس ندوۃ العلماء کانپور میں قائم کی گئی اور بانیوں نے اہل سُنّت کے ساتھ شیعوں اور غیر مقلد مولویوں کو شامل کیا تو آپ نے سخت اختلاف فرمایا۔ فاضل بریلوی نے آپ کی ذات محب کو علامت اسلام قرار دیا ہے ؎
سُنّیت سے پھر اہدیٰ سے پھرا
|
اب جو تجھ سے پھرا محب رسول
|
|
آج قائم ہے دم قدم سے ترے
|
دین حق کی بنا محب رسول
|
حضرت مولانا محب احمد بد ایونی، حضرت مولانا فضل احمد بد ایونی، حضرت مولانا فضل مجید بد ایونی حضرت مولانا مفتی حافظ بخش بد ایونی، حضرت مولانا شاہ سید عبد الصمد صاحب مودودی چشتی مولانا محمد حسن سنبھلی جید اور نامور شاگرد تھے۔ مولوی عزیز الرحمٰن مفتی دیوبند نے بھی آپ سے کسب علوم کیا تھا، اسی طرح مولوی امیر احمد سہسوانی غیر مقلد آپ کےشاگرد تھے، بعد میں دونوں نے استاذ کے عقیدہ سے بغاوت کی۔۔۔۔۔۔۔۱۷؍جمادی الاخریٰ کو اتوار کا دن گزار کر شب دوشنبہ ۱۳۱۹ھ میں بعد ادائے نماز مغرب ایک ہفتہ کی علالت کے بعد واصل بحق ہوئے، والد ماجد کے پہلے میں مدفون ہیں۔ آپ کی وفات پر امام اہل سنت مولانا شاہ احمد رضا قدس سرہٗ نے عربی، فارسی، اور اردو میں اوصاف و کمالات پر مشتمل جو قطعات تاریخ تحریر فرمائے تھے وہ باوجودکوشش حاصل نہ ہوسکے۔۔۔۔آپ کی تصانیف بکثرت ہیں ‘‘حقیقۃ الشفاعۃ علی طریق اھل السنۃ’’ (مولوی نذیر حسین دہلوی کے رد میں ) شفاء السائل بتحقیق المسائل (ایک سو مسائل فقہیہ واعتقاد یہ کی تحقیق و تصریح) ‘‘سیف الاسلام’’ مولوی بشیر قنوجی نے حضرت مولانا شاہ سلامت اللہ کشفی کے رسالہ میلادیہ ‘‘اثباع الکلام’’ کے رد میں تائید الکلام لکھا، سیف الاسلام’’ اسی کارد ہے، ھدایت الاسلام (رد روافض میں) عقائد الاسلام (بزبان عربی، عقائد کے بیان میں) تاریخ بد ایوں (مشاہیر علماء ومشائخ، ادباء وشعراء کا تذکرہ)۔ اس کے علاوہ چار دیوان ایک عربی، ایک فارسی اور دو ۲، اردو کے غیر مطبوعہ ہیں۔
(اکمل التاریخ حصہ دوم، ودیگر کتب ورسائل)