حضرت مولانا شاہ خیر الدین دہلوی
حضرت مولانا شاہ خیر الدین دہلوی (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا شاہ خیر الدین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب:اسم گرامی:حضرت مولانا شاہ خیر الدین دہلوی۔لقب:امام العلماء،شیخ العرب والعجم،مہلک الوہابیین،تخلص:خیوری۔والدکااسم گرامی:مولانا شیخ محمد ہادی دہلوی بن مولانا شیخ محمد احسن،شاگرد رشید مفتی صدرالدین آزردہ۔ مشہورعالم ومدرس مولانا منورالدین دہلوی (تلمیذ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی)آپ کےنانا محترم ہیں،مولوی اسماعیل دہلوی کی کتاب"تفویۃ الایمان" کا ردشاہ صاحب کےحکم پر سب سےپہلے آپ نےہی فرمایاتھا۔مولانا خیرالدین کی اہلیہ محترمہ مفتیِ مدینہ منورہ شیخ محمد علی بن ظاہر الوتری کی بھانجی تھیں،آپ مکۃ المکرمہ کےآخری محدث تھے،آپ کےبعداس درجےکاکوئی محدث میں پیدانہیں ہوا۔مولانا خیرالدین علیہ الرحمہ صدیقی النسب تھے،اورہندکےممتاز علمی گھرانےسےتعلق رکھتے تھے۔(تذکرہ علمائےاہلسنت:85/مقدمہ رسائل علامہ خیرالدین دہلوی:12)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1247ھ،مطابق 1831ءکو"دہلی" میں ہوئی۔
تحصیل علم: چارسال کی عمر میں والد کاانتقال ہوگیا،کچھ ہی عرصہ کےبعد والدہ محترمہ بھی رحلت فرماگئیں۔چنانچہ آپ کی تعلیم وتربیت اپنے نانا مولانا منورالدین دہلوی کی زیرنگرانی ہوئی،مولانا منورالدین کےاپنےوقت کےجید علماء کرام سےگہرےروابط تھے،لہذا مولانا خیرالدین کو چشمۂ صافی سےسیراب ہونےکاموقع ملا۔مولانا مفتی منورالدین کےعلاوہ صدرالصدور دہلی مفتی محمد صدرالدین آزردہ، امام علم وحکمت،مجاہد اجنگ آزادی حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی،حضرت شاہ محمد یعقوب دہلوی ،شاہ محمد حلیم بلگرامی،مولانا محمد کریم (لال کوئیں والے)،مولانا محمد عمر،مولانا رشیدالدین،نیز شیخ عبداللہ سراج مدنی،اورامام المحدثین شیخ محمد علی بن ظاہروتری۔علیہم الرحمہ۔سے علمی وروحانی استفادہ کیا۔اس کےعلاوہ آپ نےمختلف فنون بھی سیکھے،مثلاً پنجہ کشی میر پنجہ کش سے،تیراکی میر مچھلی سے،تیراندازی قلعہ معلی کےایک استاد سے۔اسی طرح کشتی لڑنا سیکھا۔حافظ امام بخش خط نستعلیق کےامام تھے،ان سے کوش نویسی سیکھی۔نشانہ اندازی،شمشیر زنی،اورلکڑی کی کاری گری بھی سیکھی۔
بیعت وخلافت:آپ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں صاحبِ مجاز تھے۔آپ کےشیخ کانام معلوم نہیں ہوسکا۔
سیرت وخصائص: شیخ العرب والعجم،استاذالحرمین،محدث الحرمین،مجمع البحرین،امام الکل،جامع شریعت وطریقت،امام اہلسنت،ماحیِ بدعت،حامیِ دینِ مصطفیٰﷺ،غیظ المنافقین،مہلک الوہابیین،صاحبِ اوصاف کثیرہ،امام الہدیٰ،عارف باللہ،عاشق رسول اللہﷺ،حضرت علامہ مولانا شاہ خیرالدین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کاشماراپنےوقت کےجیداورعظیم علماء میں ہوتاتھا۔آپ کی ذات عرب وعجم ،شرق وغرب میں مرجعِ خلائق ،اورمعروف تھی۔حرمین شریفین میں آپ کاوعظ ہواکرتاتھا،آپ پہلےہندوستانی عالم تھے،جن کویہ شرف حاصل ہوا،آپ کےدرس میں پوری دنیا کےمسلمان شریک ہوکراپنےقلب کومنورکرتےتھے۔آپ کی شادی محدث حرم حضرت شیخ محمد علی بن ظاہر وتری کی بھانجی سےہوئی ،اورمکۃ المکرمہ میں مکان تعمیرکرایااوروہیں مستقل رہنےلگے۔
شیخ الاسلام احمد زینی وحلان کے ہمراہ قسطنطنیہ گئے،وہاں دو سال قیام رہا،ترکی زبان کی تحصیل کا شوق ہوا،ایک سال قونیہ میں قیام کیا،اس کے بعد ایک برس مصر میں رہ کر مکہ مکرمہ واپس آئے کچھ عرصہ کے لیے بمبئی آئے،یہیں سے بغداد مقدس کا سفر کیا، اُس زمانہ میں سیدنا عبدالرحمٰن قدس سرہٗ نقیب الاشراف تھے،اُن کے مہمان ہوئے،نقیب الاشراف،آلوسی زادہ صاحب تفسیر روح المعانی کے شاگرد تھے،اور غایت درجہ ان کے مداح تھے،تفسیر کامسودہ مولانا کو دکھایا گیا،آپ نے کمالِ حق گوئی دکھائی،مطالعہ کے بعد صاف کہہ دیا کے اس سے اعتزال کی بو آتی ہے نقیب الاشراف اور ان جیسے دوسرے شاگردوں پر یہ بہت گراں گذری،آپ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ نکال کر دکھایا، کہ علامہ آلوسی زادہ نے وجود خضر سے انکار کیا ہے،اور ان کے تمام استدلال معتزلہ کے دلائل و براہین سے ماخوذ ہیں،اُن کے علاوہ دیگر گیارہ مقامات دکھائے نقیب الاشراف وغیرہ آپ کے اعتراضات سے متفق ہوگئے،اور خواہش کی کہ آپ ان استدر کات کو قلم بند فرمادیں۔یہ استدار کات روح المعانی کے آخر میں آپ کے نام کی صراحت کے ساتھ مطبوعہ نسخے میں شامل ہیں،چھ ماہ قیام کے بعد بمبئی واپس آئے،اور کچھ دنوں بعد پھر مکہ مکرمہ چلے گئے۔
ایک مرتبہ بعد نمازجمعہ آپ کا وعظ ہوا،مشہور محدث مولانا احمد علی سہارن پوری بھی اس میں شریک تھے۔ختم محفل کے بعد آپ سے ملے، اور کہا:میں نے اپنی پوری زندگی میں ایسا مؤثر وعظ کبھی نہیں سُنا،آپ کا وعظ مرتب کتاب ہوتی تھی،بڑی دور سے کئی دن کا پیدل سفر کر کے لوگ اُن کا وعظ سننے آتے تھے، ان کی مجالس وعظ دلوں میں تقویٰ وخشیت پیدا کرتی تھیں،سامعین پر گریہ طاری ہوجاتا تھا،کتنےہی نفوس نے وعظ کی مجلس میں روتےروتےان کے قدموں میں جان دےدی۔کبھی کسی سےمرعوب نہیں ہوئے،اورحق کےمعاملےمیں کسی کالحاظ نہیں کرتےتھے۔
مولانا خیرالدین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ردوہابیہ میں بڑےمشہورتھے۔ردوہابیہ ان کاوظیفہ تھا،درونِ خانہ گفتگو ہوکہ برسرمنبر وعظ،مناظرہ کی بزم ہو یاتحریرکامیدان،ان کاموضوع سخن رد وہابیت ہوتاتھا۔عوامی اسٹیج ہویا حکومتی ایوان آپ وہابیوں کی اصلیت خوب ظاہر کرتے تھے۔حجازمقدس میں آپ نےوہابیت کےخلاف محاذ کھولا،شریف مکہ نےاکابرہندوستانی وہابیوں کوآپ کےکہنےپر 39،39کوڑےلگائے،اور ان کوحرمین سے نکال دیا۔اسی طرح ترکی اورمغرب میں "فتنۂ وہابیہ" کاپردہ چاک کیا۔تاکہ لوگ ان کےفتنے سےمحفوظ رہیں۔حضرت سیف اللہ المسلول،اور حضرت تاج الفحول علیہما الرحمہ کواپناہم مسلک گردانتےتھے۔
آپ فرماتےتھے:"گمراہی کی موجودہ ترتیب یوں ہےکہ پہلےوہابیت،پھر نیچریت،نیچریت کےبعد تیسری قدرتی منزل جوالحاد قطعی ہے۔"۔(مقدمہ رسائل مولانا خیرالدین دہلوی:15)۔ اوریہ حقیقت ہے اس میں کوئی شک کی گنجائش ہی نہیں ہے کہ ابھی حال ہی میں تقریباً مارچ/2017ء میں سوشل میڈیاپر"ملحدین"کاگروہ جوتوہین اسلام اوربانی اسلام میں ملوث تھا،اس کا سربراہ اسی مکتبۂ فکر کےمدرسہ کافارغ التحصیل،وفاق المدارس کاسند یافتہ،اور جامعہ بنوریہ کراچی کامدرس،جس نےدس سال تدریسی زندگی گزاری،"علامہ ایازنظامی"کےنام سےمعروف ہے۔ابھی وہ حکومتی اداروں کی تحویل میں ہے۔دراصل بات یہ ہے کہ یہ فکر اس کو کس نےدی ہے۔
مشہور دین فروش اورکانگریسی"مولوی ابوالکلام آزاد" آپ کاناخلف بیٹاظاہرہوا۔ساری زندگی ننگ ملت واسلاف کی تصویر بنارہا۔ہنودکےنجس قدموں کومنبررسولﷺپرجگہ دی،اورمساجد ومدارس کافتتاح ان سےکروایا،مرزادجال کےجنازےمیں شریک ہوکراپنےایمان کاجنازہ نکال دیا،بلکہ وہ توبلکہ وہ تو پہلے ہی رخصت ہوچکاتھا۔اس کی زبانی رد وہابیہ کی کہانی:"جہاں تک مجھے خیال ہے وہ وہابیوں کےکفرپروثوق کےساتھ یقین رکھتےتھے۔انہوں نےبارہافتویٰ دیاکہ وہابیہ کےساتھ نکاح جائزنہیں!مدت العمر ان کی تمام تصانیف وتالیف،وعظ ومباحث کاتنہا مرکز وہی(وہابی)رہےہیں۔مجھےاپنے بچپن کی پرانی سےپرانی مسموعات جویادآتی ہیں ان میں وہابیت کاردموجودپاتاہوں"۔(مقدمہ رسائل مولانا خیرالدین:19۔بحوالہ:آزاد کی کہانی:145)
مولانا خیرالدین برعظیم پاک وہندکی مظلوم ترین شخصیتوں میں سےہیں۔اس میں بڑی کوتاہی تواہلسنت کی ہےکہ انہوں نےاتنی عظیم شخصیت کوفراموش کردیا۔اہلسنت آپ کی تصانیف کومنظرعام پرلاکرآپ کی روح کوتسکین دیں،اورنئی نسل کےایمان کومحفوظ بنائیں۔اعلیٰ حضرت امام اہلسنت،مجددملت،امام احمد رضاخان قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سن 1901ء میں آپ کی زیارت کےلئے کلکتہ تشریف لےگئے تھے۔(تذکرہ علمائے اہلسنت:87)
تاریخ وصال: آپ کاوصال 17/رجب المرجب 1326ھ،مطابق 15/اگست1908ء،بروزہفتہ،77سال کی عمرمیں ہوا۔مانک تلہ کےقبرستان میں مزارشریف ہے۔
ماخذومراجع: تذکرہ علمائے اہلسنت۔رسائل مولانا خیرالدین دہلوی۔