مولانا شاہ سلامت اللہ کشفی بد ایونی،بد ایوں کے مشہور صدیقی متولی خاندان کے فرد تھے، آپ کے والد شیخ برکت اللہ قادری صدیقی بد ایوں کے روسا میں تھے۔ ابتدائی تعلیم مدرسۂ عالیہ قادریہ میں پائی،مولانا ابو المعانی ابن مولانا عبد الغنی بد ایونی سے تحصیل علم کے بعد بریلی میں مولانا مجد والدین عرف مدن شاہ جہاں پوری اور حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی سے حدیث و فقہ کا درس لیا، مثنوی مولانا رومی حضرت مولانا،خطیب محمد عمران سے پڑھی، حضرت شاہ عین الحق عبد المجید بد ایونی خلیفہ حضرت شمس العارفین اچھے میاں کے ہمراہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر مرید ہوئے،اور خلافت ملی،کچھ عرصہ لکھنؤ میں رہے، مرزا قتیل سے شعرو سخن میں مشروہ کیا،کشفی تخلص کرتے تھے،کان پور میں محلہ ناچ گھر میں قیام تھا،وہیں اب حضرت کانقاہ ہے(اطراف و جوانب میں ہنود کی آبادی ہے)۱۲۸۱ھ میں ۳؍رجب کو انتقال ہوا،مولانا شاہ محمد عادل ناروی المتوفی ۱۳۲۵ھ آپ کے شاگرد و جانشین تھے،مولانا بزرگ علی مارہروی المتوفی ۱۲۶۲ھ، مولانا سید عبداللہ بلگرامی الامتوفی ۱۳۰۵ھ مشہور شاگرد تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت کشفی صاحب تصانیف کثیرہ تھے،مولانا رحمان علی مؤلف تذکرہ علمائے ہند نے ۱۸کتابوں کے نام لکھے ہیں، ‘‘اثباع الکلام فی اثبات المولد والقیام کارد مولوی بشیر الدین قنوجی غیر مقلد نے لکھا، حضرت تاج الفحول قدس سرہٗ المتوفی ۱۳۱۹ھ نے اس کا رد لکھا،فارسی دیوان مطبوعہ ہے۔۔۔ یہ قطعۂ تاریخ وفات ہے ؎
مظہر کشف و کرامات جنابِ کشفی
|
|
ہادئ راہِ خدا، کاشف رازِ عرفاں
|
شدہ برخاستہ خاطر چوں ازیں گلشن دہر
|
|
رفت در چشم زدن جانب باغ رضواں
|
سالِ تاریخ قلمبند نمودم ارشد
|
|
یوم ہفتہ سوم از ماہ رجب شد زجہاں
|
(تذکرہ علماء ہند،اکمل التاریخ)