حضرت یادگار سلف مولانا شاہ محمد عارف اللہ قادری میرٹھی
حضرت یادگار سلف مولانا شاہ محمد عارف اللہ قادری میرٹھی (تذکرہ / سوانح)
حضرت یادگارِ سلف مولانا شاہ محمد عارف اللہ قادری میرٹھی، راولپنڈی علیہ الرحمۃ
صیغمِ اسلام حضرت مولانا شاہ محمد عارف اللہ قادری میرٹھی بن حضرت مولانا شاہ محمد حبیب اللہ قادری رضوی ۱۴؍شوال المکرم ۱۳۲۷ھ/ ۲۹؍اکتوبر ۱۹۰۹ء بروز جمعۃ المبارک میرٹھ (ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔
آپ کے والد مکرم، اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ کے خلیفہ مجاز تھے۔
تعلیم و تربیت:
آپ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ امداد الاسلام اور مدرسہ قومیہ عربیہ میرٹھ (ہند) میں حاصل کی اور انتہائی کتب معقولات و منقولات میرٹھ کی قدیم درس گاہ مدرسہ اسلامیہ عربیہ میں پڑھ کر ۲۵ نومبر ۱۹۳۳ء کو سندِ فراغت اور دستارِ فضیلت حاصل کی۔ بعد ازاں عربی، فارسی اور انگریزی کے امتحانات الٰہ آباد یونیورسٹی سے پاس کیے۔
دینی و ملی خدمات:
علومِ قدیمہ و جدیدہ کی تحصیل و تکمیل کے بعد آپ نے خاندانی دستور کے مطابق والد گرامی کے حکم سے جامع مسجد خیرالمساجد میرٹھ میں خطابت جمعہ و عیدین کے فرائض انجام دینے شروع کیے۔ اس کے علاوہ تبلیغی دورے کرکے غیر مسلموں کو اسلام کی صداقت و حقانیت سے روشناس کیا۔ آپ کا انداز، تقریر نہایت پیارا اور دل کش ہے۔ یہ انداز آپ نے حضرت مولانا شاہ محمد عبدالعلیم[۱] صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ سے سیکھا اور جلد ہی ایک نامور مقرر کی حیثیت سے مصروف ہوگئے۔ کچھ مدت بعد آپ نے شہر کے مختلف رفاہی و تبلیغی اداروں اور انجمنوں کے سرپرست بن کر خدمتِ خلق کا فریضہ باحسن وجوہ انجام دیا۔
[۱۔ والد ماجد قائد اہل سنّت علامہ شاہ احمد نورانی، صدر جمعیت علماء پاکستان (مرتب)]
تحریکِ پاکستان میں آپ کا حصّہ:
پاکستان (ایک اسلامی خطہ) کے حصول کی خاطر مسلمانانِ ہند کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ میدانِ عمل میں آئی تو دیگر سنی اکابر کی طرح آپ بھی مسلم لیگ کے ہمنوا ہوگئے اور مسلم لیگ کا پیغام گلی گلی، کوچے کوچے اور گھر گھر پہنچانے کے لیے دورے شروع کردیے، نواب محمد اسماعیل خان صدر صبوائی مسلم لیگ (یوپی) کی زیرِ قیادت شہری مسلم لیگ پولیٹیکل کل کانفرنس میرٹھ (منعقد ہ ۳۱دسمبر ۱۹۴۵ء و یکم و ۲؍جنوری ۱۹۴۶) میں مجلس استقبالیہ کے صدر کی حیثیت سے شرکت کی اور ۱۸۵۷ء سے لے کر تحریکِ پاکستان تک مسلمانوں کی جدوجہد آزادی پر ’’مختصر صدارتی خطبہ‘‘ پڑھا۔
آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس ہند (منعقدہ۳۰؍اپریل ۱۹۴۶ء) کو کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرنے کے لیے صدرالافاضل مولانا سید نعیم الدین مرادآبادی اور حضرت محدث کچھوچھوی رحمہا اللہ کی معیت میں ملک کے طول و عرض (یوپی۔ سی پی۔ بہار، پنجاب اور مشرقی و مغربی بنگال) کے دور ے کرتے رہے۔ اس کانفرنس نے جدوجہد آزادی کو ایک نئی روح بخشی۔ مجاہد ملت مولانا عبدالحامد بدایونی اور مولانا صبغۃ اللہ فرنگی محلی کی رفاقت میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسوں، کانفرنسوں اور بعض مشاورتی مجلسوں میں بھی شرکت کرتے رہے، یہاں تک کہ پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔
حج بیت اللہ و ہجرت:
۱۹۴۹ء میں آپ پہلی مرتبہ حج بیت اللہ و زیارت روضۂ رسول علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے مشرف ہوئے۔ جب وطن واپس پہنچے تو معلوم ہوا کہ تحریکِ پاکستان میں حصہ لینے اور مسلم لیگ کا سرگرم رکن ہونے کے جرم میں گرفتاری کا حکم صادر ہوچکا ہے۔ اطلاع ملتے ہی آپ صرف جائداد کے کاغذ لے کر دہلی پہنچے اور بعد میں براستہ بمبئی بذریعہ بحری جہاز پاکستان پہنچ گئے۔
پاکستان میں آمد اور تبلیغ دین:
ہندوستان سے ہجرت فرماکر آپ کچھ عرصہ کراچی اور خوشاب (سرگودھا) میں رہے اور پھر راولپنڈی میں مستقل طور پر رہائش پذیر ہوگئے۔ راولپنڈی میں آپ نے خطابت کا سلسلہ شروع کیا اور اندرونِ ملک تبلیغی دورے بھی شروع کردیے۔ ۱۹۵۱ء میں جمعیت علماء پاکستان راولپنڈی کے صدر منتخب ہوگئے[۱]۔
[۱۔اب چونکہ آپ بوجہ پیرانہ سالی کمزور ہوچکے ہیں، اس لیے آپ کی سرپرستی میں جمعیت کی راولپنڈی شاخ کا صدر حضرت مولانا سید عبدالقادر شاہ جیلانی ایم اے ایل ایل بی۔ پی ایچ ڈی فاضل مدینہ یونیورسٹی کو منتخب کیا گیا۔ امید واثق ہے کہ حضرت شاہ صاحب کی بال صلاحیت شخصیت جمعیت (راولپنڈی) کو بامِ عروج پر پہنچائے گی۔ (محمد صدیق ہزاروی) ]
راولپنڈی میں ہی ایک دارالعلوم ا’’احسن المدارس‘‘ قائم کیا اور مارچ ۱۹۵۳ء میں ماہنامہ ’’سالک‘‘ جاری کیا جو بارہ سال تک مذہب و ملت کی خدمات سر انجام دیتا رہا۔
پسِ دیوارِ زنداں:
۱۹۵۳ء میں جب تحریک ختم نبوت چلی تو آپ بھی اس میں شریک ہوئے (اس تحریک کے صدر علامہ ابوالحسنات سید محمد احمد قادری رحمہ اللہ تھے اور آپ کی قیادت میں تمام مکاتبِ فکر کے علماء نے تحفظ ختمِ نبوت کی خاطر جدوجہد کی) اس سلسلے میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرتے رہے۔
۱۴اگست ۱۹۵۹ کو پہلے مارشل لاء کے نفاذ پر اس وقت کے ڈپٹی کمشنر جی ایم یزدانی ملک کے نامناسب رویے پر جامع مسجد مرکزی راولپنڈی کی خطابت سے مستعفی ہوگئے۔ ملک کے طول و عرض سے خطابت کی پیشکش ہوئی، لیکن آپ نے باصرار جامع مسجد واہ فیکٹری کی خطابت منظور فرمالی۔
آپ نے ہندو پاک کے علاوہ دیگر ممالک میں دینِ اسلام کی تبلیغ فرمائی اور لاتعداد غیر مسلموں کو دولتِ ایمان سے مشرف کیا۔ ۱۹۶۸ء میں آپ بغداد، نجف اشرف، کربلا اور کاظمین سے ہوتے ہوئے انگلستان پہنچے اور آٹھ ماہ تک قیام فرماکر لندن، ڈیوزبری، برمنگھم، کیتھلے، بریڈ فورڈ اور دیگر بہت سے شہروں میں خطاب کیا۔ آپ کی پُر اثر تقریر سے متاثر ہوکر بے شمار عیسائیوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔
۲۱؍اپریل ۱۹۷۴ء کو پھر انگلستان میں ورلڈ اسلامک مشن کی کانفرنس میں شرکت فرمائی[۱]۔ اور اگست تک مختلف شہروں اور قصبوں میں تبلیغی خدمات سر انجام دیتے رہے۔
[۱۔ اس کانفرنس کی صدارت مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی صدر جمعیت علماء پاکستان نے کی اور آپ ہی ورلڈ اسلامک مشن کے صدر منتخب ہوئے، جبکہ جنرل سیکرٹری کے لیے علامہ ارشد القادری کا انتخاب ہوا۔ محمد صادق قصوری، اکابرِ تحریک پاکستان ص۱۰۲]
حضرت مولانا شاہ عارف اللہ قادری اپنی بیعت کے بارے میں ’’میری بیعت‘‘ کے عنوان کے تحت خود لکھتے ہیں: میرا سلسلۂ طریقت علی حسین گیلانی قدس سرہ (کچھوچھہ شریف) سے نہ صرف وابستہ ہے (۲۰؍ربیع الاوّل شریف ۱۹۵۱ء کو بیعت کاشرف حاصل ہوا) بلکہ تاج خلافت و خرقۂ اجازت بھی عطا فرمایا گیا، لیکن اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ سے حسنِ عقیدت و محبت اور سلسلۂ عالیہ رضویہ کے فیوض و برکات سے بہرور ہونے کے لیے ۳۰؍جون ۱۹۴۴ء کو حضرت والد ماجد علیہ الرحمہ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوا، اور حضرت صاحب نے تمام اوراد و معمولات کی اجازت کے ساتھ تبرکات بھی مرحمت فرمائے جو بحمدہٖ تعالیٰ میرے پاس محفوظ ہیں۔[۱]
[۱۔ مولانا شاہ محمد عارف اللہ قادری، افکارِ حبیب رضا، ص۱۹]
(تعارف علماءِ اہلسنت)