آپ خواجہ نظام الدین اولیاء کے ممتاز خلیفہ تھے اور اپنے ہم عصر لوگوں میں شیخ کے معزز و مکرم اور صاحب صدر شمار ہوتے تھے، آپ دہلی کے مشہور عالم تھے، سکان دہلی اکثر آپ کے تلمیذ اور شاگرد تھے اور آپ کی شاگردی پر فخر کیا کرتے تھے، کہتے ہیں آپ نے مشارق کی شرح بھی لکھی ہے جس میں لکھا ہے کہ ما تثاوب نبی قط ترجمہ: (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی جمائی نہیں لی) آپ اودھ سے حُصول علم کی غرض سے دہلی آئے ہوئے تھے انہی دنوں خواجہ نظام الدین اولیاء کی کرامات کا چرچا سنا تو ایک روز مولانا صدرالدین ناوی کے ہمراہ شیخ کی خدمت میں آئے، شیخ نے پوچھا کہ کیا تم یہیں شہر میں رہتے ہو اور کیا پڑھتے ہو؟ شمس الدین یحییٰ نے عرض کیا کہ مولانا ظہیرالدین بہکری سے اصول بزودی پڑھتا ہوں، شیخ نے مشکل مشکل مقامات پوچھے تو شمس الدین یحییٰ نے جواب دیا کہ ہمارا یہیں تک سبق ہوا ہے اور یہ مسئلہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا، تب شیخ نے ان مشکل مقامات کی تشریح فرمائی، جس سے شمس الدین کے قلب و جگر میں شیخ کی عقیدت و محبت جاگزیں ہوگئی اور اس کے ایک عرصہ بعد شیخ نظام الدین اولیاء سے بیعت ہوگئے اور مرتبہ کمال حاصل کیا اور لوگوں کے رسم و رواج، عادات و تکلفات سے دور رہتے تھے، آپ نے شادی بھی نہیں کی، خلافت ملنے کے بعد شاذ و نادر ہی کسی کو مرید کیا اکثر و بیشتر مرید کرنے سے احتراز کیا کرتے اور فرمایا کرتے تھے کہ اگر اس کاغذ پر میرے شیخ کی تحریر نہ ہوتی تو میں یہ پرزہ ہرگز اپنے پاس نہ رکھتا، کہتے ہیں کہ چراغ دہلوی نے آپ کی تعریف میں یہ شعر کہا تھا
سالت العلم من احیاک حقا
فقال العلم شمس الدین یحیی
ترجمہ: (میں نے علم سے دریافت کیا کہ تجھے کس نے زندہ کیا تو علم نے کہا کہ شمس الدین یحییٰ نے)
منقول ہے کہ جس زمانے میں عام لوگوں اور خصوصاً مشائخ کے متعلق سلطان محمد تغلق بادشاہ کے جور و ظلم کی تلوار نیام سے نکل چکی تھی اس وقت اس نے مولانا شمس الدین یحییٰ کو بلا کر کہا آپ جیسے عقل مند یہاں کیا کرتے ہیں، آپ کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ کشمیر چلے جائیں اور وہاں مندروں میں جاجا کر لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں، سلطان کے ہاں سے واپس آنے کے بعد آپ نے کشمیر جانے کا سامان سفر تیار کرنا شروع کیا اور پھر فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے، کہ خواجہ نظام الدین اولیاء مجھے اپنے پاس بلا رہے ہیں، آپ لوگوں کی اس بارے میں کیا رائے ہے میں تو شیخ کی خدمت میں جا رہا ہوں، دیکھیے وہ مجھے کہاں بھیجتے ہیں چنانچہ دوسرے ہی روز آپ کے سینے میں ایک دنبل پیدا ہوا جس کی وجہ سے آپ سخت بیمار ہوگئے آپ کی بیماری کی اطلاع جب بادشاہ کو ملی تو اس نے آپ کو اپنے دربار میں بلوایا کہ شاید مولانا نے بہانہ کیا ہے پھر اسی اثناء میں آپ دنیا سے رحلت فرماگئے، آپ کا مزار بھی دہلی میں چبوترہ یاران میں ہے، اللہ آپ پر رحمتیں نازل کرے۔
اخبار الاخیار