مولانا شیخ احمد تھا نیسری: جامعِ علومِ نقلیہ و عقلیہ،واقفِ فنون رسمیہ و ادبیہ،فصیح اللسان بلیغ البیان تھے۔آنحضرتﷺکی نعت میں جو ایک بڑا قصیدہ آپ نے عربی میں تصنیف فرمایا ہے جس کا اول شعر یہ ہے ؎
اطاہر لہبی حنین الطائر وہاج لوعۃ قلبی التایہ الکمد
اس سے آپ کی کمال فضیلت و فصاحت اور بلاغت ثابت ہوتی ہے اگر چہ آپ کو مولانا خواجگی سے نہایت محبت قلبی تھی مگر آپ نے شہر دہلی سے باہر نکل جانے میں ان سے موافقت نہ کی،یہاں تک کہ امیر تیمور کی فوج دہلی میں آگئی اور شہر کو تاراج کر کے آپ کے متعلقین کو گرفتار کرلیا۔جب فتنہ سے تسکین ہوئی تو آپ امیر تیمور کی مجلس میں تشریف لے گئے جہاں آپ اور شیخ الاسلام نبیرہ مولانا برہان الدین مر غینانی صاحبِ ہدایہ کے درمیان نسبت تقدم و تأخر مجلس کے بڑی گفتگو ہوئی۔تیمور نے کہا کہ یہ صاحب ہدایہ کے نبیرہ ہیں،مناسب ہے کہ یہ آپ سے آگے مجلس میں بیٹھیں،مولانا نے کہا کہ جب خود صاحبِ ہدایہ نے جوان کے جد امجد ہیں کئی جگہ ہدایہ میں خطا کی ہے پس اگر انہوں نے ایک جگہ خطا کی تو کیا مضائقہ ہے؟شیخ الاسلام نے فرمایا کہ وہ کونسی خطا ہے،بیان کرنی چاہئے مولانا نے اپنے فرزندوں اور شاگردوں کو اشارت کی کہ بیان کرو ۷،امیر تیمور نے صاحبِ ہدایہ کی عزت اور شیخ الاسلام کے ناموس کا ملاحظہ کر کے اس گفتگو کو کسی اور موقع پر ٹال دیا،بعد ازاں مولانا مع اہلِ وعیال کے کالی میں چلے گئے اور وہیں تدریس و منتشیر علم میں مصروف رہے یہاں تک کہ ۸۲۰ھ میں وفات پائی،قبر آپ کی کالپی میں زیار نگاہِ عام ہے۔’’گلشنِ ہدایت‘‘ تاریخ وفات ہے۔
(حدائق الحنفیہ)