حضرت مولانا سید عبدالجلیل بلگرامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
سید عبد الجلیل بن سید احمد حسینی واسطی بلگرامی: محدث،مفسر،فقیہ، ادیب،لغوی،علامہ بارع کوکبِ ساطع،قاموس اللسان طلبیق البیان تھے،۱۳؍ ماہ شوال ۱۰۱۷ھ کو بلگرام میں پیدا ہوئے اور وہاں کے اساتذہ سے علوم حاسل کیے اور حیدث کو سید مبرک شاہ مھدث واسطی حسینی بلگرامی متوفی ۱۱۰۵ھ تلمیذ شیخ نور الحق محدث سے سنا اور ادب کو شیخ غلام نقشبند لکھنوی سے اخذ کیا اور فنون عالیہ خصوصاً تفسیر و حدیث و سیر واسماءالرجال اور تاریخ عرب و عجم حاصل کیے۔عربی،فارسی، ترکی،ہندی میں بڑے عارف تھے اور نہایت طلاقت لسانی سے ان چاروں میں گفتگو کرتے تھے۔اورنگ آباد میں سید علی معصوم صاحب کتاب سلاقۃ العصر سے ملاقات کی جنہوں نے آپ کی نسبت بہت عمدہ شہادت دی اور کہا کہ میں نے ہند میں آپ جیسا کوئی نہیں دیکھا۔
عالمگیر نے آپ کو بخشی گری اور وقائع نگاری گجرات پنجاب پر مقرر فرمایا پھر سندھ کے بلاد مکر[1]اور سیوستان میں اسی خدمت پر مقرر ہوئے جس کو آپ نے بری خوبی سےا نجام دیا۔۱۱۲۶ھ[2]میں سلطان فرخ سیر سے مل کر ان تمام خدمات سے اسعفائ دے دیا ور اپنی جگہ اپنے بیٹے سید محمد کو مقرر کراکے آپ بلگرام میں آگئے جہاں آپ کے دختر زادہ سید آزاد نے آپ سے تلمذ کیا۔ایک برس کے بعد آپ دہلی کو تشریف لے گئے اور وہاں اقامت اختیار کی یہاں تک کہ شنبہ کی رات ۲۳؍ماہ ربیع الآخر ۱۱۳۸ھ میں وفات پائی اور نعش بلگرام میں لاکر بستان محمود کے اندر دفن کی گئی۔آپ کی تاریخ وفات ’’اولٰئک لہم عقبی الدارجنّٰت عدن‘‘ سے نکلتی ہے۔
1۔ بکھر(مرتب)
2۔۱۱۳۰ھ نزہت الخواطر(مرتب)
(حدائق الحنفیہ)