حضرت مولانا سید ابو الحسنات قدس سرہٗ
حضرت مولانا سید ابو الحسنات قدس سرہٗ (تذکرہ / سوانح)
مشہور صوفی عالم،محدث،حضرت مولانا سید دیدار علی شاہ الوری کے فرزند ارجمند۔ولادت الور میں ہوئی،تعلیم کا آغاز والد ماجد سے کیا
مجدد عصر حضرت مولانا شاہ احمد رضا فاضل بریلوی،صدر الافاضل مولانا حکیم نعیم الدین فاضل مراد آبادی قدس اسرارہم سے اکتساب علم کیا، برسوں جامع مسجد آگرہ،الوری بمبئی میں امام وخطیب اور مقبول خاص وعام رہے، اطراف ہند میں بے شمار محافل و مجالس میلاد،اور کانفرنس میں اہل نظر سے داد خطابت حاصل کی،۱۹۳۶ھ میں تبلیغی کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور گئے شہرت عام کی وجہ سے زندہ دلانِ لاہور کا جم غفیر خطاب سننے کے لیے جمع ہوگیا، تقریر کا اعلان ہوا تو پُر جوش لغروں سے استقبال کیا گیا،علم واستدلال سے بسریزہ تقریری کی،کہ لاہور والوں کے دلوں پر چھاگئے، ختم تقریر آپ سے لاہور میں قیام کرنے کی درخواست کی گئی،جس میں ارکین مسجد وزیر خاں پیش پیش تھے، آپ نے درخواست کو قبول کرلیا،اس طرح پنجابیوں نے ایک شاہین کو قید کرکے اپنی عزت بڑھائی،آپ یوں تو ایک حق نگر عالم ،محقق،مؤرخ، طبیب وادیب و مفسر سبھی تھے،مگر وہ خصوصیت جو زندگی کی ہر ساعت اور ثانیہ پر چھائی ہوئی تھی،وہ اسلام اور مسلمانوں کو سر بلندی اور با عزت زندگی دلانے کی فکر تھی، چنانچہ آپ نے اپنے وطن الور میں سیاسی شعور بیدار کرنے کے لیے ‘‘تحفظ حقوق المسلمین’’ کے نام سے ایک انجمن قائم کی انہی دنوں ریاست نے ایک سڑک کی توسیع کے لیے مسلمانوں کے جذبات کا احترام نطر انداز کرتے ہوئے مسجد کو شہدی کرنے کا ارادہ کرلیا،اگر چہ آپ کے ‘‘مہاراجہ جے سنگھ دائی ریاست الور’’ سے گہرے سیاسی روابط قائم ہو چکے تھے، اور یہ سب مہاراجہ کے علم واطلاع کے باوجود ہورہا تھا،آپ حقوق وشعائر اسلام کے تحفظ کے لیے تین سو تیرہ سر فروشوں کو لے کر مسجد کی طرف روانہ ہوگئے، کئی مقامات پر معمولی مزاحمت کے بعد آپ مسجد میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے،خبر پاتے ہی الور کے عام مسلمان بھی آپ کے گرد پروانہ وارجمع ہوگئے،راجہ نے آپ کو بُلا کر ایک بڑی جگہ کی پیشکش کی اور ریاست کی جانب سے تعمیر مسجد کا وعدہ بھی کیا،مگر آپ راضی، تحریک پاکستان اور قائدین مسلم لیگ میں بھی آپ کا بلند مقام تھا، مسٹر جناح آپ کے جذبات مِلی کے مداح و معترف تھے،خضر وزارت میں جیل بھی گئے،پاکستان میں تحریک تحفظ ختم نبوت کے اولین علمبردار آپ ہی تھے، ‘‘ایک مسلم حکومت جس کا اولین عقیدہ ختم نبوت پر ایمان ہونا چاہئے اس کے بر عکس پاکستان کے کلیدی عہدے دار اس کے منکر تھے’’۔ آپ نے اپنی شعلہ بار خطابت سے پورے پاکستان میں تحریک ختم نبوت کو کہکشاں کی بلندی پر پہونچادیا، اور س سلسلہ میں اپنےمخلص رفقاء کے ساتھ لاہور سنٹر جیل میں ایک سال نظر بند و مقید رہے،یہیں آپ نے اپنی تفسیر قرآن ‘‘ الحسنات’’ کے اکثر اجزاء لکھے، مسلمانوں کی مرکزی تنظیم جمیعۃ علمائے پاکستان کے صدر وقت قیام ہی سےتھے، ۷؍شعبان ۱۳۸۰ھ بروز جمعۃ المبارک اپنی تفسیر کو اختتام کی منزل تک پہونچاتے ہوئے جان،جاں آفریں کے سپرد کردی،حضرت مخدوم داتا گنج بخش رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آغوش شفقت ورحمت میں محواستراحت ہیں،یہ قطعہ تاریخ وفات ہی ہے۔
صابر و شاکر،مفسر علام دین متین
|
بینظیر و بے مثیل و لاجواب ولاکلام
|
|
فکر تھی تاریخ کی،آئی ندا حافظ لکھو
|
واصل حق ہوگیا وہ ہادئ ذی الاتترام
|
حکیم محمد موسیٰ امر تسری نے نقد دخل ابختہ مولانا تاریخ کہی