حضرت عمدۃ المحققین صاحبزادہ سیّد محمد فاروق القادری گڑھی اختیار خان علیہ الرحمۃ
قدیم و جدید علوم کے حسین امتزاج حضرت صاحبزادہ مولانا سید محمد فاروق القادری بن حضرت پیرِ طریقت علامہ حافظ سیّد مغفور القادری(۱۳۹۰ھ) بن جامع علوم و فنون حضرت علّامہ حافظ سردار احمد قادری(م۔۱۱۳۵۰ھ) رحمہما اللہ ۲۵؍ شوال، ۱۳؍ اکتوبر ۱۳۶۳ھ / ۱۹۴۵ء میں شاہ آباد شریف گڑھی اختیار خان بہاولپور ڈویژن میں پیدا ہوئے۔
آپ بخاری سادات کے ایک عظیم علمی و روحانی خانوادہ کے چشم و چراغ ہیں۔ اس خاندان نے تقریباً ایک صدی قبل(۱۹۷۹ء میں) مکران اور سندھ کے راستے بہاول پور(ڈویژن) میں داخل ہوکر علم و حکمت اور رُشد و ہدایت کا فیض جاری کیا۔
آپ کے جدِّ امجد الحاج حافظ سردار احمد قادری(م۱۳۵۰ھ) علومِ دینیہ کے علاوہ جفر، نجوم، ہیئت و غیر ہافنون میں بھی کامل دست نگاہ رکھتے تھے۔ اُردو، سندھی، فارسی اور سرائیکی کے بہت اچھّے شاعر تھے۔ آپ کا سرائیکی اور سندھی کلام آج بھی سندھ کے بعض حلقوں میں نہایت ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ آپ نے سات مرتبہ پاپیادہ حج کیا اور دو سال تک مدینہ منوّرہ میں قیام پذیر رہے۔ اسی دوران مولانا عبد الباقی لکھنوی ثم مدنی سے تبرکاً دورۂ حدیث کی تکمیل کی۔
آپ کو خاندان خلافت و اجازت کے علاوہ بھرچونڈی شریف کے شیخ ثانی حضرت حافظ محمد عبد اللہ سائیں رحمہ اللہ تعالیٰ سے بھی سلسلۂ عالیہ قادریہ نقشبندیہ میں خلافت و اجازت حاصل تھی سلسلۂ سہروردیہ کی معروف خانقاہ کامارہ شریف(حیدر آباد سندھ) کے تمام صاحبزادگان اور بھرچونڈی شریف کے حضرت پیر عبد الرحمٰن آپ کے خصوصی شاگردو میں شامل تھے۔
حضرت صاحبزادہ فاروق القادری مدظلہ کے والد ماجد حضرت الشیخ الحافظ السیّد مغفور القادری(م۱۲۹۰ھ) عصر حاضر کے جیّد عالم بہترین ادیب، خطیب، شاعر، خطّاط ہونے کے علاوہ بہت سی خوبیوں کے جامع تھے۔ آپ نے تحریکِ پاکستان میں نمایاں حصّہ لیا۔ بنارس سنّی کانفرنس میں شرکت فرمائی۔ سندھ میں جماعت احیاء السلام اور تنظیم المشائخ کے ذریعے قیامِ پاکستان کا راستہ ہموار کیا۔ پھر چونڈی شریف کے صاحبزادگان اور سلسلۂ راشدیہ کے بعض صاحبزادگان کی تعلیم و تربیّت کے فرائض انجام دیے۔ اپنے علاقے میں تعمیرِ مساجدوں مدارس کے علاوہ تبلیغِ دین اور اصلاح اخلاق و احوال کی مہم چلائی اور بڑی حد تک کامیابی حاصل کی۔ آپ نے سندھ اور بہاول پور کے دور دراز علاقوں میں گھر گھر عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رواج دیا۔ ’’عباد الرحمٰن‘‘ آپ کی مشہور تصنیف ہے۔[۱]
[۱۔ ’’تذکرہ اکابرِ اہل سُنت‘‘ مؤلفہ حضرت مولانا محمد عبد الحکیم شرف قادری میں دونوں حضرات کا سوانحی خاکہ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔]
حضرت صاحبزادہ سیّد محمد فاروق القادری مدظلّہ نے نہایت مہتم بالشّان علمی و روحانی ماحول میں آنکھ کھولی، اور خاندانی روایت کے مطابق بچپن ہی سے علومِ دینیہ کی تحصیل کے لیے وقف کردیے گئے۔ اہل سنّت کی مشہور مرکزی درسگاہ مدرسہ عربیہ انوار العلوم ملتان سے آپ نے درسِ نظامی کی تکمیل کی۔
۱۹۶۵ء میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور سے شہادۃ عالمیہ(بی اے) کی سند حاصل کی۔ ۱۹۶۷ء میں اسی یونیورسٹی سے تخصص عربی ادب(ایم اے) کا امتحان پاس کیا اور اپنی جماعت میں اوّل رہے۔
۱۹۶۹ء میں آپ نے باقاعدہ طالب علم کی حیثیت سے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کا امتحان پاس کیا اور یونیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کرکے سونے کا تمغہ بطورِ اعزاز حاصل کیا۔
۱۹۷۰ء میں والد ماجد علیہ الرحمۃ کے انتقال پر آپ کی دستار بندی کی گئی اور خانقاہ کی جانشینی کی ذمّہ داری آپ کے سپرد کی گئی۔
آپ کو اپنے والد ماجد علیہ الرحمۃ اور حضرت پیر عبد الرحیم شہید علیہ الرحمۃ بھرچونڈی شریف سے اجازت و خلافت حاصل ہے۔
خانقاہی ذمّہ داریوں کے علاوہ آپ جامع مسجد گڑھی اختیار خان میں(رضا کارانہ طور پر) جمعہ و عیدین کا خطبہ ارشاد فرماتے ہیں۔
تعلیم قرآن کے کئی اداروں بالخصوص ادارہ ’’تعلیماتِ اسلامیہ‘‘ کی نگرانی اور تعمیر و ترقی میں کوشاں رہتے ہیں۔
حضرت علّامہ صاحبزادہ سیّد محمد فاروق القادری بلند پایہ محقق اور ادیب ہیں۔ متعدّد اخبارات اور رسائل و جرائد میں علمی، ادبی، اسلامی اور تاریخی موضوعات پر سینکڑوں مضامین لکھ چکے ہیں۔
علاوہ ازیں آپ نے ’’اکابرِ تحریکِ پاکستان‘‘[۱] حصّہ اوّل و دوم پر تحقیقی مقدّمہ لکھا ہے۔ ’’انفاس العارفین‘‘(مصنّفہ حضرت شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی) اور ’’فتوح الغیب‘‘(مصنّفہ حضرت سیّدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کا اُردو میں ترجمہ کیا۔ تحقیق متن فرمائی اور محققانہ ضخیم مقدّمات تحریر فرمائے۔[۲]
[۱۔ یہ کتاب جناب محمد صادق قصوری صاحب کی تالیف ہے۔]
[۲۔ یہ تینوں کتب مکتبۂ ’’المعارف‘‘ کی طرف سے چَھپ چکی ہیں۔]
ایم اے اسلامیات کے امتحان میں ’’مکاتبِ دیو بند و بریلی کے خصوصی مسائل کا جائزہ‘‘ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھا جسے ’’بورڈ آف اسلامک سٹڈیز‘‘ نے پسند کیا۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاعل پور میں تخصص عربی ادب کی کلاس میں معروف عربی ادیب جا حظ کی زندگی، خدمات اور افکار پر ایک تحقیقی مقالہ ’’الجاحظ‘‘ تحریر کیا۔
’’فاضل بریلوی اور امور بدعت‘‘ کے نام سے آپ کی تصنیف ’’رضا پبلی کییشنز‘‘ لاہور کی طرف سے چھپ رہی ہے جس میں آپ نے اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں قدس سرہ پر مخالفینِ اہل سنّت کی طرف سے لگائے گئے غلط الزامات کا تحقیقی جائزہ لیا ہے۔ اس کے علاوہ ’’صوفیاء کی خدمت‘‘ اور ’’اسلام کی معاشی تعلیمات‘‘ پر بیشتر کام مکمّل کرچکے ہیں۔
تاریخ، تصوّف، قرآن پاک اور سیرۃِ محمدیہ علیٰ صاجہا الصّلوٰۃ والسّلام آپ کے پسندیدہ موضوع ہیں۔ آپ کا زیادہ تر وقت مطالعہ اور تحریر میں گزرتا ہے۔ ملکی و ملّی مسائل کے لیے آپ انقلابی ذہن رکھتے ہیں۔
ایک مکتوب میں اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
۱۔ کتاب و سنّت، عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلّم، معقولیّت اور علمی و فکری بنیاد کے بغیر کسی فکر و عقیدے کو اہمیت نہ دینا۔
۲۔ پاکستان کے پورے معاشی اور اقتصادی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی شدید ضرورت ہے اور یہ تبدیلیاں معمولی نہیں، بلکہ انقلابی ہونی چاہئیں۔
۳۔ اسلام کو بحیثیتِ ایک انقلابی فکر اور تحریک کے سمجھنا اور اسی انداز سے اس کی تشریح کرنا اور اسی نقطہ پر لوگوں کو اکھٹّا کرنا۔
۴۔ امراء کے طبقہ کو جو محض جلبِ منفعت اور عیّاشی کے لیے سیاست کو بطورِ مشغلہ اپنائے ہوئے ہے، کچھ وقت کے لیے سیاست سے منع کردینا چاہیے۔[۱]
[۱۔ مکتوب حضرت صاحبزادہ سیّد محمد فاروق القادری بنام حضرت استاذ محترم مولانا محمد عبد الکریم شرف قادری مدظلہ ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۷۹ء (محمد صدّیق ہزاروی)]
(تعارف علماءِ اہلسنت)