مولانا سید نور الحسین نگینوی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:سید نورالحسن۔قصبہ نگینہ کی نسبت سے"نگینوی"کہلاتے ہیں۔والد کااسمِ گرامی: آپ کے والد سید ظہور الحسن محکمہ پولیس میں مُلازم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عارف کامل تھے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادتِ باسعادت 1898ء میں محلہ "سادات نگینہ"میں ہوئی۔آپ کے آباؤ و اجداد میں سے ایک بزرگ اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کے عہد حکومت میں ہندوستان تشریف لائے۔اور صُوبہ جات متحدہ آگرہ اور اودھ کے مشہور قصبہ "بجنور"کےایک دیہات "نگینہ"میں اقامت گز یں ہوئے۔
تحصیلِ علم: مولانا سید نور الحسن نے ابتدائی تعلیم و تربیت کے بعد تفسیر،حدیث ،منطق ،معقول و منقول اور دیگر علوم میں اپنے وقت کے اجلہ علماء کرام سے تحصیلِ علم کرکے مہارت تامہ حاصل کی۔
بیعت وخلافت: ابتدائی بیعت اپنے والد مکرم سے کی۔پھر ان کے وصال کے بعد حضرت محمد صدیق آلو مہاروی (ضلع سیالکوٹ)سے دوسری بیعت کی اولیائے کرام سے گہری عقیدت کی بناء پر دہلی کے مزارات پر حاضر ہوتے رہتے اور اسی غرض سے لاہور بھی تشریف لائے،یہاں کے مزارات سے برکات حاصل کئے۔آپ کے خلفیہ میجر محمد حامد خاں راوی ہیں کہ آپ اعلیٰ حضرت شاہ احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ سے سلسلہ قادریہ میں بیعت کی اور خلافت سے بھی مشرف ہوئے۔
سیرت وخصائص: عارفِ کامل،عالمِ باعمل، حامیِ سنت خلیفۂ اعلیٰ حضرت مولاناسید نورالحسن نگینوی رحمۃ اللہ علیہ۔ 1950ء میں پاکستان تشریف لائے۔ اور پشاور میں سکونت پزیر ہوئے۔آپ پر جذب کی کیفیت طاری رہتی۔میجر صاحب موصُوف آپ سے بے حد مُتاثر ہونے کے سبب آپ کو اپنے گھر لے آئے ۔بعد ازاں جب میجر حامد رضا پشاور سے میانوالی مُنتقل ہوئے تو آپ بھی ساتھ چلے آئے۔یہاں بیس سال آپ رُشد و ہدایت اور تلقین و ارشاد میں مصروف رہے۔بے شمار گمگشتگان راہِ ہدایت نے اصلاح پائی۔ آپ ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔بیک وقت عالم، فاضل ، محقق ، محدث اور مصنف تھے آپ کی تصنیفات کے نام معلوم نہ ہوسکے۔
تاریخِ وصال: آپ کا وصال مُبارک بمقام مچھ تحصیل و ضلع میانوالی میں 1974ء میں ہوا اور وہاں ہی مزار پُر انوار ہے۔
ماخذومراجع: تذکرہ خلفائے اعلیٰ حضرت۔