حضرت مولانا تاج محمد مہر قادری
حضرت مولانا تاج محمد مہر قادری (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا تاج محمد مہر قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
فقری باصفا مرید باکمان مولانا میاں تاج محمد صاحب مہر گوٹھ عامل (نزد چک ، تحصیل لکھی، ضلع شکار پور) میں تولد ہوئے۔ اپنے بھائیوں سے اختلاف کی بنیاد پر اپنے بڑے بھائی میاں محمد مبارک کے ساتھ عامل گوٹھ سے منتقل ہو کر ایک گوٹھ قائم کیا جو کہ ’’میاں جو گوٹھ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔
تعلیم و تربیت:
آپ نے ’’میاں جو گوٹھ‘‘ (ضلع شکار پور سندھ) میں استاد العلماء حضرت مولانا عبدالحکیم پنہیار قادری علیہ الرحمۃ (جو کہ حضرت پیر سید موسیٰ شاہ جیلانی علیہ الرحمۃ گھوٹکی والے کے مرید با وفا تھے) سے تعلیم و تربیت حاصل کی۔ اس کے بعد میاں صاحب حصول علم میں ملتان شریف گئے، وہاں علامہ قاضی نور احمد صاحب بلکانی والے کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان کا مدرسہ، حضرت حامد محمود مخدوم سید محمد راجن علیہ الرحمہ کے روضہ شریف کے قریب دریائے سندھ پر قائم تھا۔ وہیں درسی نصاب مکمل کیا۔
اویسی فیض:
دوران تعلیم آپ کے سر میںشدید درد ہوا۔ بہتیرے علاج معالجہ کیا لیکن بے سود حالانکہ خود حضرت قاضی نور احمد صاحب ایک حاذق حکیم تھے لیکن کوئی علاج کارگر نہ ہا۔ اتفاقاً سلطان العارفین حضرت سلطان باہو قادری قدس سرہ(جھنگ پنجاب) کا ایک فقیر وہاں مدرسہ مٰں مہمان آکر ٹھہرا۔ فقیر نے فرمایا: مولوی صاحب آپ کا یہ درد کسی بیماری یا مادہ کے سبب نہیں کہ حکیموں کا علاج کارگر ہو۔ یہ ہمارے مرشد کریم حضرت سلطان العارفین کے تصرف و کشش کے سبب ہے۔ اس لئے آپ حضرت کی خانقاہ مقدس پر حاضری دیں انشاء اللہ تعالیٰ مزار شریف کی زیارت کرتے ہی آپ کا درد سر ختم ہوجائے گا۔ چنانچہ مولانا صاحب زیارت کرتے ہی شفایاب ہوگئے اور ڈھائی سال تک مزار شریف پر معتکف رہے اور فیض حاصل کرتے رہے۔ اس طرح آپ اویسی قادری ہوئے۔
آپ ایک مقبول درگاہ الٰہی اور صاحب الحضوری بزرگ تھے۔
مرشد کریم سے عشق:
ایک بار بچے راستے میں کھڑے تھے ، انہیں معلوم تھا کہ مولانا احب اپنے مرشد کے نام پر کام کردیتے ہیں اسلئے کہ انہیں اپنے مرشد سے عشق ہے، اسلئے مرشد کے نام پر انکار نہیں کر سکتے۔ بچوں نے بغرض تماشہ مولانا صاحب سے کہا۔ مولانا صاحب! اپنے مرشد کے نا پر اس تالاب میں ایک غوطہ لگائیں۔ مولانا صاحب مرشد کا نام سن کر سراپا احترام بن گئے، ایندھن کا گٹھا سر سے اتار کر نیچے رکھا اور نہر میں غوطہ لگایا۔ جب ایک بار غوطہ لگا چکے تو پھر بچوں نے مرشد کا واسطہ دیا کہ ایک بار اور غوطہ لگائیں۔ مرشد کے نام پر مولانا صاحب نے نہ جانے کتنی بار غوطہ لگا چکے۔ بچے کھیل تماشہ سمجھ رہے تھے ادھر آپ عشق کے امتحان میں کامیاب نکلے ادھر ایک صاحب نہر پر آنکلے انہوں نے بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر بھگا دیا اور مولانا صاحب کو باہر نکالا ارو ان کے کپڑے نچوڑے اور ان کا گٹھا اور ریوڑ ان کے مکان پر پہنچا دیا۔ سبحان اللہ!
میں مدارجاں سے گزر سکا تو تری کشش کے طفیل میں
یہ ترے کرم کا کمال تھا کہ حصار ذات کو ڈھا گیا
سخاوت:
مولانا تاج محمد صاحب ذریعہ معاش کیلئے ریوڑ پالا کرتے تھے۔ ان کا تھوڑا سا دودھ بیچ کر روٹی کے واسطے غلہ خرید لیتے اور باقی دودھ راہ خدا میں تقسیم کر دیتے تھے۔ اس ریوڑ کو عموماً بذات خود چراتے تھے اور جب بھیڑیں چرا کر واپس آتے تو ایندھن کا گٹھا سر پر اٹھا کر لاتے ھتے۔
مرشد زادے کا ادب:
سلطان حامد (مؤلف مناقب سلطانی) لکھتے ہیں کہ میرے جد امجد نے میرے والد ماجد سے فرمایا۔ بیٹا! اتنے فقیر اور اونٹ لے کر آستانہ گائوں جائو، وہاں سے باگڑ کی لمبی لکڑیاں لائو۔ کیوںکہ فلاں کنویں میں پانی کم ہوگیا ہے اس میں کوٹھی بنائی جائے گی۔ آپ نے حکم بجالاتے ہوئے ویس اہی کیا۔ جب باگڑ کی لکڑیاں دریافت کی تو معلوم ہوا کہ فلاں کنویں میں لکڑیاں فالتو پری ہیں انہیں کھینچ کر نکال لو۔ جب ہم اس کنویں پر پہنچے تو غوطہ لگا کر چار لکڑیوں کو چار رسوں سے باندھا۔ جب پانی کی سطح پر آئیں تو ان رسوں کو باہر کے درختوں سے باندھ دیا تاکہ ایک ایک کر کے نکال لی جائے۔ اس کام میں شام ہوگئی۔ چونکہ جلدی تھی اسلئے انہوں نے مولاناتاج محمد کو کہا کہ جلدی آئو اور اس چوتھی لکڑی کو اچھی طرح کھینچے رہو۔ انہیں خیال تھا کہ جب باقی کے تین رسے باندھ لئے جائٰں گے تو پھر اس چوتھے کو بھی باندھ لیا جائے گا۔ ااور رات اپنے اپنے مکانوں میں بسر کرکے صبح ان لکڑیوں کو نکال کر اونٹوں پر لاد دیا جائے گا۔ اور اس طرح پھر دوسرے روز نویں میں اترنا نہیں پڑے گا۔ وہ تمام فارغ ہو کر سوار ہوئے، ساتھیوں کے ہمراہ اپنی منزل کو پہنچے۔ وہاں جاکر مولانا تاج محمد یاد آئے جو کہ ساتھیوں کے ساتھ نہ تھے۔
والد صاحب نے اسی وقت گھوڑا دوڑایا اور کنویں پر جاکر دیکھا کہ تاج محمد دونوں ہاتھوں سے رسی کو اچھی طرح پکڑے جوں کے توں کھڑے ہیں اور آنکھیں مراقبہ کیلئے بند ہیں گھوڑے سے اتر کر اس کے ہاتھ سے رسی لی اور درخت سے باندھی اور اسے ساتھ لے لیا اور راستہ میں پوچھا: تاج محمد! رسی کو درخت سے کیوں نہیں باندھا۔ اس نے کہا مجھے رسی تھام کر کھڑے رہنے کا حکم تھا میں کیوں کر حکم عدولی کر سکتا تھا۔ سبحان اللہ!
میاں تاج محمد نے ایک ظالم شخص کو ایک ہی نگاہ سے دربار الٰہی کا خاص بندہ اور صاحب حضوری بنا دیا ۔ پھر تو اس کی یہ حالت ہوئی کہ پورے چھ مہینے مسجد شریف میں ایک ہی اسغراق میں مراقبہ کئے بیٹھے رہے کہ اس کا سر سینے سے نہ اٹھا۔ جوشخص آپ کی خدمت میں آتا اسے اہی نگاہ سے دریائے توحید میں مستغرق فرمادیتے تھے۔
وصال:
میاں تاج محمد مہر نے ۲۷ جمادی الاول ۱۲۶۶ھ/۱۸۵۰ء کو وصال کیا۔ ساری زندگی خلق خدا کو فیض پہنچایا ۔ آپ کا مزار میاں جو گوٹھ ضلع شکار پور میں مرجع خلائق ہے، سالانہ عرس منعقد ہوتا ہے میاں عبدالحئی ہر سات ویں سجادہ نشین ہیں۔
(ماخوذ: مناقب سلطانی طبع قدیم۔ خصوصی پمفلٹ مختصر حالات زندگی مطبوعہ میاں جو گوٹھ ۱۹۹۳ئ)
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)