حضرت مولانا محمد عمر حیدر آبادی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مولانا محمد عمر حیدر آبادی رحمۃ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
آپ کے مورث اعلیٰ حضرت سید محی الدین الحسینی قدس سرہٗ بغداد مقدس سے سلطان عادل اورنگ ریب غازی کے آخر عہد سلطنت آصفیہ آصف جاہ اول کے عہد حکومت میں جمادی الاخریٰ ۱۱۶۱ھ میں فوت ہوئے، اُن کی قبر اورنگ آباد میں حضرت شاہ برہان الدین غریب قدس سرہٗ کے مقبرہ کے قریب ہے، ۔۔۔۔ مولانا محمد عمر صاحب کے دادا بزرگوار سید حیدر علی سیادت پناہ نے حیدر آبادمیں فوجی ملازمت اختیار کی، اُن کو اپنے والد سے ارادت واجازت حاصل تھی، ۲۰؍جمادی الاخریٰ ۱۲۵۸ھ میں اُن کا انتقال ہوا، آپ کے لڑکے مولانا سید شاہ محمد بادشاہ حسینی ۱۲۳۶ھ میں پیدا ہوئے، اور ۱۲۸۶ھ میں رہگزارے عالم جاودانی ہوئے، مولانا بادشاہ حسینی علوم اسلامیہ عربی وفارسی کے متبحر علام، صاحب تصنیف اور صاحب دیوان شاعر تھے، حضرت میر شجاع الدین حسینقدس سرہٗ کے مرید وخلیفہ اور داماد تھے، سید شاہ بادشاہ حسینی نے تیرہ۱۳حج کیے، اور ہر بار حرمین میں طویل قیام کیا، بڑے پُر تاثی واعظ تھے، اُن کی وفات کا مادۂ تاریخ ۱۲۸۶ھ غفور ہے،۔۔۔۔۔ مولانا سید محمد عمر مولانا بادشاہ حسینی کے چھوٹے لڑکے تھے، آپ کی ولادت ۱۷؍ربیع الثانی ۱۲۸۲ھ کی ہے، آپ چار سال کی عمر میں والدہ ماجدہ کے ہمراہ حرمین طیبین کی زیارت سےمشرف ہوئے، واپسی میں مدرسہ محبوبیہ میں داخل ہوکر مولانا امیر احمد کو ہاٹی سے صرف ونحو، ادب و منطق، فقہ وحدیث کا درس لیا،۔۔۔۔ بڑےبھائی حضرت مولانا سید شاہ محمد صدیق الحسینی قدس سرہٗ سے مرید ہوکر سلوک کو مکمل کیا، مکہ مسجد میں وعظ میں ایک رکوع کی تفسیر بیان کرتے، وعظ بہت مؤثر ہوتا تھا، درس وتدریس سے خاص شغف تھا، اعلیٰ درجہ کے مجدد وقاری تھے، تجوید دمشق کی تعلیم بھی دیتے تھے، مذہباً حنبلی تھ ، فقہ حنبلی میں آپ ک ی تصنیفات بھی ہیں، شعرو سخن کا اعلیٰ ذوق تھا، خلیق تخلص کرتے تھے، اصلاح معاشرہ آپ کا مقصد تھا، ایک زمانہ میں آپ کی سعئ وکوشش سے حیدر آباد کی تمام دوکانیں ج معہ کی نماز کے وقت بند ہوجاتی تھیں، ۱۳۱۸ھ میں مریدین کی جماعت کے ساتھ دوسری بار حاضر ہوکر فریضہ اور زیارت روضۂ نبوی کی ۱۳۳۱ھ میں دربار غوثیت مآب میں حاضری دی اور حضرت نقیب الاشرف پیر سید عبد الرحمٰن قدس سرہٗ کے مہمان خاص ہوئے، حضرت پیر سید ابراہیم قدس سرہٗ المتوفی ۱۳۱۸ھ کے بھی مہمان رہے، اسی سفر میں کربلائے معلیٰ نجف اشرف اور دیگر مقامات مقدسہ پر حاضری دی، ۱۳۳۷ھ میں اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ کی دعوت پر مدرسہ منظر اسلام کے جلسۂ دستاربندی میں شرکت کےلیے بریلی گئے، تو فاضل بریلوی قدس سرہٗ کی دعوت پر مدرسہ منظر اسلام کےج لسۂ دستاربندی میں شرکت کےلیےبیرلی گئے، تو فاضۂ بریلوی نے معانقہ کےبعد دیر تک آپ کا ہاتھاپنےقلب پر رکھ کر اےگل زتو خرسندم وتو بوئے کسے داری فرماتےرہے، بوئے کسے داری، کی بڑی دیر تک تکرار کی، خود بھی بےخود ہوئےاور حاضرین مجلس کو بھی بےخود بنادیا، اس کے بعد فاضل بریلوی نےاسٹیشن نہ پہونچنےکی معذرت کی، کہ دوسرا اور نجار کی وجہ سےاس معادت سے محروم رہا، ۲۰؍صفر المظفر ۱۳۳۰ھ بروز جمعہ ذکر اسم ذات اللہ اللہ کرتےہوئے مالک حقیقی سے جا ملے، مکہ مسجد میں نماز جنازہ ہوئی، عصر سےپہلے قادری چمن میں دفن کیےگئے،۔۔۔۔ امام اہل سنت مولانا شاہ احمد رضا نےتاریخ وصال میں یہ عربی قطعہ کہا ؎
اَلَا سَنقَی اللہُ قَبْراً صَوبَ غَادِیَۃٍ |
وَجَادَ بِلؤجَوْدِ جُوْداً وَھُوَ ھَمَّارُ |
|
قَبْراً ثَویَ بِثَوابِ اللہِ فِیْہٖ عُمَرٌ |
مَعْمُوْرُ نُوْرِالْھُدیٰ لِلدِّیْنِ عَمَّارُ |
|
عَبْدٌ بِغَوْثِ الْبَرَا یَا سَیِّدٌ سَنَدٌ |
بِالْغَوْثِ مُغْتَرِفٌ بِالْغَیْبِ مِدْرَارُ |
|
بِالُّطْفِ مُعْتَصِمٌ بِالرَّأنِ مُبْتَسِمّ |
بِالْعُرْفِ مُتَّسِمٌ بالْعَرْفِ مِعْطَارُ |
|
سِرٌّ اَمَرُّلَہٗ فِیْ السِرِّ اَسْرَار |
بَرٌ اَبَرُّلَہٗ فِیْ الْبِرِّ اَبْرَارُ |
|
رِبْحٌ لِآ۔ِ ھُدَیً حَرْبٌ لِاَھْلِ رَدَیٰ |
بَحْرٌ لِسَیْلِ نَدَیً حَبْرٌ بَلْ اَحْبَارُ |
|
عِلْمٌ وَھِلْمٌ فِیْ تُقیً |
سَیَادۃٌ سُوْدَرٌ فَضْلٌ وَاِیْثَارُ |
|
بِقُدْرَۃِ اللہِ تَمَّتْ قَادِرِیَّۃٌ |
فَزَادَھاَالْقدؤرَ وَالْمِقدَارَ وَاْقْدَارُ |
|
وَعَادَ حَبَّہٗ حُبِّ الحِبِّ فِیْ خَلَدِہٖ |
کَجَنّتِ الْخُلْدرِہِ اَزْھَارٌ وَاَنْوَارُ |
|
حَماۃٌ عَنْ کُلِّ ضَیْرٍ مَنْ یُّقالُ لَہٗ |
حَامِی الْحَقیْقَۃِ نَفَّاعٌ وضَرَّارُ |
|
قَالَ الّرضَا اَسِفاً فِی عَامِ فُرْقَتِہٖ |
مُحَمّدٌ عُمَرُ الْفَارُوْقُ شَطَّارُ |