حضرت مولانا وجیہ الدین پائلی
حضرت مولانا وجیہ الدین پائلی (تذکرہ / سوانح)
آپ بڑے دانشمند اور اپنے وقت کے مسلم استاد تھے، زہد و تقویٰ میں ممتاز تھے، آخر میں شیخ نظام الدین اولیاء کے مرید ہوئے اور شیخ سے کمال درجہ کا اعتقاد رکھتے تھے۔
آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب میں پانی پت جا رہا تھا تو سفر کے دوران میں نے صوفی کو دیکھا، میرے دل میں اس صوفی کے متعلق کچھ انکار اور سوء اعتقادی پیدا ہوئی (اس کو بذریعہ کشف یہ معلوم ہوگیا تو مجھے) کہا، مولانا آپ کو کچھ مشکلات درپیش ہیں! اور واقعہ بھی یہی تھا کہ مجھے کچھ علمی مشکلات کا حل مطلوب تھا، چنانچہ میں نے اس صوفی کو ایک ایک کرکے تمام اشکال بتائے، اس نے ہر ایک اشکال کا مدلل اور تسلی بخش جواب دیا، اس گفتگو کے بعد اس نے مجھ سے دریافت کیا کہ تم کس کے مرید ہو؟ میں نے کہا: سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیاء کا، اس نے کہا کہ شیخ نظام الدین اولیاء ہمارے قطب ہیں۔
ایک مرتبہ شیخ نظام الدین نے مولانا وجیہ الدین پائلی سے فرمایا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان خدا کے حضور بھی یہی اقرار باقی رہے گا، مولانا کی قبر دہلی کے حوض شمس کے اس حصہ میں ہے، جہاں آپ کے شاگرد صدر جہاں قاضی کمال الدین اور قتلغ خان موجود ہیں اللہ آپ پر اپنی رحمتیں نازل کرے۔
اخبار الاخیار
مقتدائ علما پیشوائ صلحا کثرت علوم اور استاد زمانہ کے ساتھ معروف و مشہور۔ کشف فائق اور انکشاف رموز کے ماہر فرید عصر، علامہ زمان مولانا وجیہہ الدین پائلی رحمۃ ا للہ علیہ زہد و رع تقوی طہارت شدت مجاہدہ ترک و تجرید میں اس زمانہ میں اپنی نظر نہ رکھتے تھے اور ان تمام فضائل کا ثمرہ یہ تھا کہ آپ سلطان المشائخ قدس سرہ کے دولت ارادت سے مشرف ہوچکے تھے خود مولانا وجیہہ الدین فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں پانی پت جاتا تھا اثناء راہ میں ایک صوفی کو دیکھا وہ دیکھتے ہی میرے دل میں ایک طرح کا انکار اس کی طرف سے پیدا ہوا صوفی بولا اے مولانا تمہیں کوئی مشکل مسئلہ پوچھنا ہے تو پوچھو اور جو اشکال رکھتے ہو پیش کرو میرے دل میں بہت سے علمی شبہات باقی رہ گئے تھے جو ہنوز صاف نہیں ہوئے تھے چنانچہ میں نے ایک ایک اشکال میں اس کے سامنے پیش کیا اور اس نے سب کے جواب دیے اور نہایت شافی اور موجہ جواب دیے اور یہاں تک تفصیل کی کہ مجھے خاطر خواہ اطمینان ہوگیا۔ جب مسئلہ قضا و قدر کی بحث چھڑ گئی تو اس نے اس کا بھی جواب شافی عن ایت فرمایا اور مباحثہ کی تمام ہونے کے بعد مجھ سے دریافت کیا کہ تم مرید کس کے ہو۔ میں نے کہا حضرت سلطان المشائخ نظام الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کا مرید ہوں یہ سن کر صوفی بولا کہ شیخ نظام الدین قدس سرہ العزیز ہمارے قطب ہیں۔ منقول ہے کہ ایک دفعہ مولانا وجیہہ الدین رحمۃ اللہ علیہ شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین کے روضۂ مبارکہ کی زیارت کے لیے اجودھن تشریف لے گئے۔ جب آپ شیخ شیوخ العالم کے روضہ کے قریب زمین بوس ہوکر بیٹھے تو روضۂ مبارکہ کے اندر سے آواز آئی کہ ابو حنیفہ پائلی تم خوب آئے۔ مولانا وجیہہ الدین اپنے پاس کوئی کتاب نہیں رکھتے تھے لیکن آپ کی ذہانت کی یہ کیفیت تھی کہ درس دیتے وقت بڑے بڑے نامی گرامی علما آپ کی خدمت میں زانوئے ادب تہ کرتے تھے۔ آپ کے پڑھاتے وقت کوئی نسخہ ہاتھ میں نہ لیتے اور جس مرتبہ کسی بحث کی تقریر کرتے دوسری دفعہ اسی بحث کی ایک دوسرے پیرایہ میں تقریر کرتے جو پہلی تقریر سے زیادہ دلکش اور موثر ہوتی۔ منقول ہے کہ مولانا وجیہہ الدین کو حضرت مہتر خضر علیہ السلام سے ملاقات میسر ہوئی تھی اور آپ ان ہی کے ارشاد کے مطابق سلطان المشائخ کی دولتِ ارادت سے مشرف ہوئے تھے۔ مولانا وجیہہ الدین ہمیشہ سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور جماعت خانہ میں سلطان المشائخ جماعت خانہ میں سے لے گیا۔ سلطان المشائخ کو خبر ہوئی تو آپ نے اپنے پاؤں مبارک کی جوتیاں مولانا کو عنایت کیں کہ انہیں پہن کر گھر جائیں مولانا نے حضور کے پاؤں مبارک کی جوتیاں ہاتھ میں لیں اور انہیں چومتے ہوئے باہر تشریف لائے باہر آکر سر مبارک سے عمامہ اتارا اور اس میں جوتیاں لپیٹ کر سر پر بدستور رکھ لیا اور ننگے پاؤں گھر کی جانب روانہ ہوئے یاروں میں سے ہر ایک شخص نے کہا کہ مولانا! سلطان المشائخ نے اپنے پاؤں مبارک کی جوتیاں آپ کو اس لیے عنایت فرمائی ہیں کہ پا برہنہ تشریف نہ لے جائیں مولانا وجیہہ الدین نے جواب دیا کہ صاحبو! یہ سر کا تاج ہے جسے آج سلطان المشائخ نے مجھے ارزانی فرمایا ہے مجھے یہ کب طاقت کہ اس سعادت کو پاؤں میں پہنوں بلکہ سر پر رکھ کر گھر جاتا ہوں۔ کسی بزرگ نے کیا خوب فرمایا ہے
در بندگی آنجا کہ ترا حلقہ مرا گوش
در چا کری آنجا کہ ترا پائے مراسر
(بندگی میں جس جگہ تیرا حلقہ ہو میرا کان حاضر ہے اور نوکری میں جس جگہ تیرے قدم ہوں میرا سر موجود ہے۔)
الغرض جب لوگوں نے آپ کی یہ کیفیت سلطان المشائخ کی خدمت میں عرض کی اور تمام واقعہ سر تا پا بیان کیا کہ مولانا وجیہہ الدین نے ایسا ایسا کیا تو حضور نے فرمایا کہ مولانا وجیہہ الدین سے کہہ دینا چاہیے کہ ابھی شیخ الاسلام قطب الدین بختیار قدس اللہ سرہ العزیز کی زیارت کو چلے جائیں چنانچہ مولانا شیخ الاسلام قطب الدین بختیار کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے اور خواجہ کے مقبرہ متبرکہ میں اپنی جوتیاں پائیں جب آپ زیارت سے فارغ ہوکر سلطان المشائخ کی خدمت میں آ رہے تھے تو باغات کرہ میں پہنچے وہاں دیکھتے ہیں کہ ایک بوڑھا آدمی جو زاہدوں کی صورت اور عابدوں کے لباس میں تھا کندھے پر مصلی ڈالے ہوئے عصا ہاتھ میں لیے ہوئے تسبیح گردن میں ڈالے ہوئے سامنے آیا اور سلام کرکے بیان کرنا شروع کیا کہ میں ایک مسافر شخص ہوں دور دراز سے آیا ہوں میرے دل میں چند علمی بحث کی بابت اشکال و شبہہ باقی ہے میں چاہتا ہوں کہ انہیں آپ سے حل کروں مولانا وجیہہ الدین اس کے سوالات کے جوابات دیتے جاتے اور دریائے حیرت میں مستغرق ہوتے جاتے تھے کہ باوجود یکہ یہ شخص باشندہ شہر نہیں ہے بلکہ گاؤں کا رہنے والا معلوم ہوتا ہے پھر اسے اس قدر علوم کہاں سے حاصل ہوگئے۔ الغرض جب وہ شخص بحث سے فارغ ہوا تو مولانا وجیہہ الدین سے پوچھا کہ آپ کہاں جاتے ہیں فرمایا سلطان المشائخ نظام الحق والدین کی خدمت میں اس نے کہا سلطان المشائخ نظام الدین کو میں نے بارہا دیکھا ہے وہ چنداں علمی مذاق رکھتے ہی نہیں بلکہ معمولی استعداد کے آدمی ہیں تم باوجود اس قدر علم و فضل کے ان کے پاس کیوں جاتے ہو مولانا نے جواب دیا کہ اے مولانا یہ آپ کیا فرماتے ہیں سلطان المشائخ عالم متبحر اور فاضل اجل ہیں ان کا باطن مبارک علم لدنی سے آراستہ ہے اس شخص نے دربارہ کہا کہ میں نے بہت دفعہ سلطان المشائخ سے ملاقات کی ہے اور اکثر مناظرہ کیا ہے وہ چنداں علم نہیں رکھتے تم ان کے پاس ہرگز نہ جاؤ۔مولانا وجیہہ الدین نے فرمایا لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ مولانا تم میرے سامنے اس قسم کی باتیں نہ کرو۔ جوں ہی مولانا وجیہہ الدین کی زبان مبارک سے کلمۂ لاحول نکلا وہ شخص جو ابھی آپ کے پاس کھڑا ہوا باتیں کر رہا تھا دور ہوگیا۔ مولانا وجیہہ الدین نے دوبارہ کلمۂ لاحول پڑھا وہ اور دور ہوگیا اب مولانا کو یقین ہوگیا کہ یہ شخص شیطان ہے آپ نے متواتر کلمۂ لاحول پڑھنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ وہ شخص آنکھوں سے غائب ہوگیا جب مولانا وجیہہ الدین سلطان المشائخ کی خدمت میں پہنچے تو قبل اس کے آپ یہ عرض کریں کہ سلطان المشائخ نے نورِ باطن سے معلوم کرکے فرمایا کہ مولانا تم نے اس شخص کو خوب پہچان لیا ورنہ اس نے توتمہیں راہ سے بے راہ کر ہی دیا تھا۔ منقول ہے کہ جو کھانا مولانا وجیہہ الدین کی غذا ہوتا تھا اس کا سارا سامان خود اپنے ہاتھ سے فراہم کرتے تھے اور دیگ حکمت میں اس طرح پکاتے تھے کہ کسی مخلوق کو اس سے ذرا کسی مخلوق کو اس سے ذرا تکلیف نہ پہنچتی۔ آپ کا پیراہن مبارک دبیز اور موٹا ہوتا تھا اور عمامہ درمیانی۔ اکثر اوقات آپ کے کپڑے شکر رنگ رہتے تھے اس پر بعض بے خبر اور غافل لوگ مولانا کو خست اور بخل کی طرف منسوب کرتے تھے۔ حالانکہ آپ علم و عقل میں کمال درجہ رکھتے تھے۔ شیخ سعدی نے کیا خوب کہا ہے۔
سعد یا نزدیک راہ عاشقان
خلق مجنون اندو مجنون عاقل است
یعنی اے سعدی اس رستہ کے عشاق کے نزدیک خلق مجنوں ہےاو ر مجنوں عاقل ۔ انجام کار آپ دار دنیا سے رحلت فرماکر دار القرار میں تشریف لے گئے اور حوض شمسی کے کنارہ قاضی کمال الدین صدرجہان مرحوم اور قتلغ خان مرحوم کے خطیرہ میں جو آپ کے شاگرد رشید ہیں دفن ہوئے۔ آپ کا مدفن ان دونوں بزرگواروں کے قبروں کے اوپر ہے رحمۃ اللہ علیہ۔
مقتدائ علما پیشوائ صلحا کثرت علوم اور استاد زمانہ کے ساتھ معروف و مشہور۔ کشف فائق اور انکشاف رموز کے ماہر فرید عصر، علامہ زمان مولانا وجیہہ الدین پائلی رحمۃ ا للہ علیہ زہد و رع تقوی طہارت شدت مجاہدہ ترک و تجرید میں اس زمانہ میں اپنی نظر نہ رکھتے تھے اور ان تمام فضائل کا ثمرہ یہ تھا کہ آپ سلطان المشائخ قدس سرہ کے دولت ارادت سے مشرف ہوچکے تھے خود مولانا وجیہہ الدین فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں پانی پت جاتا تھا اثناء راہ میں ایک صوفی کو دیکھا وہ دیکھتے ہی میرے دل میں ایک طرح کا انکار اس کی طرف سے پیدا ہوا صوفی بولا اے مولانا تمہیں کوئی مشکل مسئلہ پوچھنا ہے تو پوچھو اور جو اشکال رکھتے ہو پیش کرو میرے دل میں بہت سے علمی شبہات باقی رہ گئے تھے جو ہنوز صاف نہیں ہوئے تھے چنانچہ میں نے ایک ایک اشکال میں اس کے سامنے پیش کیا اور اس نے سب کے جواب دیے اور نہایت شافی اور موجہ جواب دیے اور یہاں تک تفصیل کی کہ مجھے خاطر خواہ اطمینان ہوگیا۔ جب مسئلہ قضا و قدر کی بحث چھڑ گئی تو اس نے اس کا بھی جواب شافی عن ایت فرمایا اور مباحثہ کی تمام ہونے کے بعد مجھ سے دریافت کیا کہ تم مرید کس کے ہو۔ میں نے کہا حضرت سلطان المشائخ نظام الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کا مرید ہوں یہ سن کر صوفی بولا کہ شیخ نظام الدین قدس سرہ العزیز ہمارے قطب ہیں۔ منقول ہے کہ ایک دفعہ مولانا وجیہہ الدین رحمۃ اللہ علیہ شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین کے روضۂ مبارکہ کی زیارت کے لیے اجودھن تشریف لے گئے۔ جب آپ شیخ شیوخ العالم کے روضہ کے قریب زمین بوس ہوکر بیٹھے تو روضۂ مبارکہ کے اندر سے آواز آئی کہ ابو حنیفہ پائلی تم خوب آئے۔ مولانا وجیہہ الدین اپنے پاس کوئی کتاب نہیں رکھتے تھے لیکن آپ کی ذہانت کی یہ کیفیت تھی کہ درس دیتے وقت بڑے بڑے نامی گرامی علما آپ کی خدمت میں زانوئے ادب تہ کرتے تھے۔ آپ کے پڑھاتے وقت کوئی نسخہ ہاتھ میں نہ لیتے اور جس مرتبہ کسی بحث کی تقریر کرتے دوسری دفعہ اسی بحث کی ایک دوسرے پیرایہ میں تقریر کرتے جو پہلی تقریر سے زیادہ دلکش اور موثر ہوتی۔ منقول ہے کہ مولانا وجیہہ الدین کو حضرت مہتر خضر علیہ السلام سے ملاقات میسر ہوئی تھی اور آپ ان ہی کے ارشاد کے مطابق سلطان المشائخ کی دولتِ ارادت سے مشرف ہوئے تھے۔ مولانا وجیہہ الدین ہمیشہ سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور جماعت خانہ میں سلطان المشائخ جماعت خانہ میں سے لے گیا۔ سلطان المشائخ کو خبر ہوئی تو آپ نے اپنے پاؤں مبارک کی جوتیاں مولانا کو عنایت کیں کہ انہیں پہن کر گھر جائیں مولانا نے حضور کے پاؤں مبارک کی جوتیاں ہاتھ میں لیں اور انہیں چومتے ہوئے باہر تشریف لائے باہر آکر سر مبارک سے عمامہ اتارا اور اس میں جوتیاں لپیٹ کر سر پر بدستور رکھ لیا اور ننگے پاؤں گھر کی جانب روانہ ہوئے یاروں میں سے ہر ایک شخص نے کہا کہ مولانا! سلطان المشائخ نے اپنے پاؤں مبارک کی جوتیاں آپ کو اس لیے عنایت فرمائی ہیں کہ پا برہنہ تشریف نہ لے جائیں مولانا وجیہہ الدین نے جواب دیا کہ صاحبو! یہ سر کا تاج ہے جسے آج سلطان المشائخ نے مجھے ارزانی فرمایا ہے مجھے یہ کب طاقت کہ اس سعادت کو پاؤں میں پہنوں بلکہ سر پر رکھ کر گھر جاتا ہوں۔ کسی بزرگ نے کیا خوب فرمایا ہے
در بندگی آنجا کہ ترا حلقہ مرا گوش
در چا کری آنجا کہ ترا پائے مراسر
(بندگی میں جس جگہ تیرا حلقہ ہو میرا کان حاضر ہے اور نوکری میں جس جگہ تیرے قدم ہوں میرا سر موجود ہے۔)
الغرض جب لوگوں نے آپ کی یہ کیفیت سلطان المشائخ کی خدمت میں عرض کی اور تمام واقعہ سر تا پا بیان کیا کہ مولانا وجیہہ الدین نے ایسا ایسا کیا تو حضور نے فرمایا کہ مولانا وجیہہ الدین سے کہہ دینا چاہیے کہ ابھی شیخ الاسلام قطب الدین بختیار قدس اللہ سرہ العزیز کی زیارت کو چلے جائیں چنانچہ مولانا شیخ الاسلام قطب الدین بختیار کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے اور خواجہ کے مقبرہ متبرکہ میں اپنی جوتیاں پائیں جب آپ زیارت سے فارغ ہوکر سلطان المشائخ کی خدمت میں آ رہے تھے تو باغات کرہ میں پہنچے وہاں دیکھتے ہیں کہ ایک بوڑھا آدمی جو زاہدوں کی صورت اور عابدوں کے لباس میں تھا کندھے پر مصلی ڈالے ہوئے عصا ہاتھ میں لیے ہوئے تسبیح گردن میں ڈالے ہوئے سامنے آیا اور سلام کرکے بیان کرنا شروع کیا کہ میں ایک مسافر شخص ہوں دور دراز سے آیا ہوں میرے دل میں چند علمی بحث کی بابت اشکال و شبہہ باقی ہے میں چاہتا ہوں کہ انہیں آپ سے حل کروں مولانا وجیہہ الدین اس کے سوالات کے جوابات دیتے جاتے اور دریائے حیرت میں مستغرق ہوتے جاتے تھے کہ باوجود یکہ یہ شخص باشندہ شہر نہیں ہے بلکہ گاؤں کا رہنے والا معلوم ہوتا ہے پھر اسے اس قدر علوم کہاں سے حاصل ہوگئے۔ الغرض جب وہ شخص بحث سے فارغ ہوا تو مولانا وجیہہ الدین سے پوچھا کہ آپ کہاں جاتے ہیں فرمایا سلطان المشائخ نظام الحق والدین کی خدمت میں اس نے کہا سلطان المشائخ نظام الدین کو میں نے بارہا دیکھا ہے وہ چنداں علمی مذاق رکھتے ہی نہیں بلکہ معمولی استعداد کے آدمی ہیں تم باوجود اس قدر علم و فضل کے ان کے پاس کیوں جاتے ہو مولانا نے جواب دیا کہ اے مولانا یہ آپ کیا فرماتے ہیں سلطان المشائخ عالم متبحر اور فاضل اجل ہیں ان کا باطن مبارک علم لدنی سے آراستہ ہے اس شخص نے دربارہ کہا کہ میں نے بہت دفعہ سلطان المشائخ سے ملاقات کی ہے اور اکثر مناظرہ کیا ہے وہ چنداں علم نہیں رکھتے تم ان کے پاس ہرگز نہ جاؤ۔مولانا وجیہہ الدین نے فرمایا لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ مولانا تم میرے سامنے اس قسم کی باتیں نہ کرو۔ جوں ہی مولانا وجیہہ الدین کی زبان مبارک سے کلمۂ لاحول نکلا وہ شخص جو ابھی آپ کے پاس کھڑا ہوا باتیں کر رہا تھا دور ہوگیا۔ مولانا وجیہہ الدین نے دوبارہ کلمۂ لاحول پڑھا وہ اور دور ہوگیا اب مولانا کو یقین ہوگیا کہ یہ شخص شیطان ہے آپ نے متواتر کلمۂ لاحول پڑھنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ وہ شخص آنکھوں سے غائب ہوگیا جب مولانا وجیہہ الدین سلطان المشائخ کی خدمت میں پہنچے تو قبل اس کے آپ یہ عرض کریں کہ سلطان المشائخ نے نورِ باطن سے معلوم کرکے فرمایا کہ مولانا تم نے اس شخص کو خوب پہچان لیا ورنہ اس نے توتمہیں راہ سے بے راہ کر ہی دیا تھا۔ منقول ہے کہ جو کھانا مولانا وجیہہ الدین کی غذا ہوتا تھا اس کا سارا سامان خود اپنے ہاتھ سے فراہم کرتے تھے اور دیگ حکمت میں اس طرح پکاتے تھے کہ کسی مخلوق کو اس سے ذرا کسی مخلوق کو اس سے ذرا تکلیف نہ پہنچتی۔ آپ کا پیراہن مبارک دبیز اور موٹا ہوتا تھا اور عمامہ درمیانی۔ اکثر اوقات آپ کے کپڑے شکر رنگ رہتے تھے اس پر بعض بے خبر اور غافل لوگ مولانا کو خست اور بخل کی طرف منسوب کرتے تھے۔ حالانکہ آپ علم و عقل میں کمال درجہ رکھتے تھے۔ شیخ سعدی نے کیا خوب کہا ہے۔
سعد یا نزدیک راہ عاشقان
خلق مجنون اندو مجنون عاقل است
یعنی اے سعدی اس رستہ کے عشاق کے نزدیک خلق مجنوں ہےاو ر مجنوں عاقل ۔ انجام کار آپ دار دنیا سے رحلت فرماکر دار القرار میں تشریف لے گئے اور حوض شمسی کے کنارہ قاضی کمال الدین صدرجہان مرحوم اور قتلغ خان مرحوم کے خطیرہ میں جو آپ کے شاگرد رشید ہیں دفن ہوئے۔ آپ کا مدفن ان دونوں بزرگواروں کے قبروں کے اوپر ہے رحمۃ اللہ علیہ۔
(سِیَر الاولیاء)