حضرت مولانا ضیاء الدین برنی
حضرت مولانا ضیاء الدین برنی (تذکرہ / سوانح)
آپ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء دہلوی قدس سرہ کے خلیفہ خاص تھے آپ پر حضرت شیخ کی خصوصی نظر عنایت تھی۔ آپ اکثر اوقات شیخ کی مجالس میں خوش گفتاری سے کام لیتے جس سے حضرت شیخ کو بڑی مسرت ہوتی خواجہ امیر خسرو اور شیخ میر حسن علائی بھی آپ کے شریک مجلس ہوتے۔ یہ تینوں دوست یکجا زندگی بسر کرتے تھے آپ نے فیروز شاہی جیسی مشہور کتاب لکھی تھی یہ کتاب سلطان جلال الدین فیروز شاہ ترک خلجی کے حکم سے ترتیب دی گئی، مولانا برنی نے اپنے حسرت نامہ میں لکھا ہے کہ ایک بار میں حضرت محبوب الٰہی دہلوی کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا میرے دل میں خیال آیا کہ پہلے بزرگ مرید بنانے میں بڑی احتیاط سے کام لیا کرتے تھے مگر ہمارے پیر و مرشد پر کہتر و مہتر کو مرید بنائے جاتے ہیں، میرا دل چاہتا تھا کہ میں سوال کرکے حضرت شیخ سے وضاحت لوں، ابھی یہ سوال میری زبان پر نہیں آیا تھا کہ حضرت نے نور باطن سے خود ہی میرے خیالات کو بھانپ لیا اور فرمانے لگے اللہ تعالیٰ ہر زمانے میں اپنی حکمت و قدرت سے بعض خصوصیات کو رواج دیتا ہے اور ایک خاص خاصیت پیدا ہوجاتی ہے ہر زمانے کے لوگوں کی طبیعتیں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ دراصل مرید ہونا غیراللہ سے انقطاع کا ایک ذریعہ ہے۔ پہلے زمانے کے بزرگوں کا یہ طریقہ تھا کہ جب تک ان سے بیعت ہونے والا شخص غیراللہ سے قطع تعلق نہ کرلیتا تھا اسے مرید نہیں بناتے تھے مگر حضرت خواجہ ابوسعید ابوالخیر رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ سے لے کر حضرت سیف الدین باخرزی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ تک پھر حضرت خواجہ شہاب الدین عمر سہروردی سے لے کر حضرت فریدالدین گنج شکر قدس سرہما کے زمانہ تک یہ طریقہ تھا کہ ان روحانی بادشاہوں کے دروازوں اور خانقاہوں پر بے پناہ مخلوق جمع ہوا کرتی تھی، یہ لوگ آخرت کے خوف سے ان بزرگانِ دین کی پناہ میں خود بخود چلے آتے تھے۔ یہ بزرگ بھی ان لوگوں کے خوف زدہ دلوں کو اپنی پناہ میں لاتے تھے۔ میں بھی اپنے پیروں کی پیروی میں ایسے لوگوں کو مرید بنالیتا ہوں جو کہ ایک لمحہ کے لیے بھی اللہ کی تلاش میں قدم اٹھاتے ہیں میری یہ بے احتیاطی دراصل اپنے پیروں کی سنت کا اتباع ہے میرا خیال ہے کہ اس بے احتیاطی میں کچھ فائدے بھی ہیں۔ پہلے تو یہ بات ہے کہ میرے حلقۂ ارادت میں آنے والے اکثر لوگ بعض گناہوں سے محفوظ رہنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ نماز با جماعت ادا کرنا شروع کردیتے ہیں اوراد و نوافل میں مشغول ہوتےہیں اگر میں انہیں ابتدائے کار میں ہی راہِ سلوک کی مشکلات کا تذکرہ شروع کردوں تو یہ عام لوگ ان نیکیوں سے بھی محروم رہ جائیں، دوسرے میں کسی وسیلے، شفیع یا درمیانی شخصیت کے بغیر براہ راست مرید بنانے کے لیے دروازے کھلے رکھتا ہوں، میں دیکھتا ہوں کہ مسلماں عجز و انکسار سے آگے بڑھتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں کہ ہم نے تمام گناہوں سے توبہ کرلی ہے۔ میں یہ خیال کرتے ہوئے کہ شاید ان کی یہ بات درست ہے مرید بنالیتا ہوں ان میں سے اکثر سچے ہوتے ہیں بعض سے کوتاہیاں بھی سرزد ہوتی ہیں اس طریق کار سے اکثریت گناہوں سے بچ جاتی ہے تیسری وجہ جوتمام وجوہات سے اہم ہے ایک دن میرے پیر و مرشد حضرت فریدالحق وادین شکر گنج رحمۃ اللہ علیہ نے میرے سامنے قلم دوات رکھ کر ارشاد فرمایا کہ تعویذ لکھو اور ضرورت مندوں اور حاجت مندوں کو دیتے جاؤ میں یہ کام کرتے کرتے تنگ آگیا حضرت نے میرے چہرے پر اس ملال کے آثار دیکھے تو فرمایا نظام الدین! تم اب ہی تھک گئے ہو، ایک وقت آئے گا کہ تمہاری خانقاہ کے دروازےپر ہزاروں حاجت مند جمع ہوں گے پھر کیا کرو گے؟ میں حضرت شیخ کے پاؤں پر گر گیا، رونا شروع کردیا، اور عرض کی مخدوم مجھے بزرگ بنا رہے ہیں مجھے خلافت سے سرفراز فرمایا جا رہا ہےاور میں اللہ کی مخلوق سے دور بھاگ رہا ہوں خلافت تو بڑا سخت او رمحنت طلب کا م ہے اور میں آج ہی انکار کر رہا ہوں ، میں نے برملا کہا حضور! یہ بہت مشکل کام ہے مجھے اتنی عظیم ذمہ داری کی طاقت نہیں ہے حضرت خواجہ فرید میری اس بات سے ایک خاص قسم کی کیفیت میں مبتلا ہوگئے تھوڑی دیر کے بعد فرمایا میرے نزدیک آؤ فرمایا نظام الدین کل میدان حشر میں اللہ سے مجھے عزت ملنی ہے اور اللہ مجھے بڑی آبرو دے گا میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں اس وقت تک جنت میں قدم نہ رکھوں گا۔ جب تک تمہیں یا تمہارے مریدوں کو جنت میں نہ پہنچادوں، میں اکثر لوگوں کو اسی بشارت پر مرید بناتا جاتا ہوں کہ کوئی شخص محروم نہ رہنے پائے۔ میں جانتا ہوں کہ لوگ اکثر گناہگار ہیں، انہیں نیکی کی توفیق بہت کم ملتی ہے۔ لیکن اگر میرے پیر و مرشد کے وسیلہ اور وعدہ کے مطابق اگر یہ لوگ جنت میں داخل ہوجائیں تو اس میں مجھے کیا عذر ہوسکتا ہے۔
مولانا ضیاء الدین برنی قدس سرہ ۷۳۸ھ میں فوت ہوئے کہتے ہیں کہ آپ کے جنازے پر چادر کی بجائے وہ بوریا بچھایا گیا جس پر آپ بیٹھا کرتے تھے آپ کو حضرت خواجہ نظام الدین کے مزار کے پاس اپنے والد مکرم کے قدموں میں دفنایا گیا۔
چوں ضیاء الدین برنی شیخ دیں
رفت زیں دنیا بجنت یافت جا
وصل او مخدوم امجد کن رقم
۷۳۸ھ
نیر فرما پیر برنی پارسا
۷۳۸ھ