حضرت شیخ موسی سورانی
حضرت شیخ موسی سورانی (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ موسیٰ سورانی رحمتہ اللہ علیہ
آپ شیخ ابو مدین مغربی علیہ الرحمۃ کے اکابر مریدوں میں سے ہیں۔شیخ سعید الدین مرغانی شرح قصیدہ تائیہ میں لکھتے ہیں کہ میں نے شیخ مغیر طلحہ بن عبد اللہ بن طلحہ تستری عراقی رحمتہ اللہ سے ۶۶۵ھ میں سنا تھا کہ انہوں نے شیخ عماد الدین محمد بن شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمۃ سے سنا کہ وہ یوں فرماتے تھے۔میں ایک حج میں اپنے والد کے ساتھ تھا۔ایسے وقت میں کہ میں خانہ کعبہ کا طواف کرتا تھا۔اتفاقاً دیکھا کہ شیخ مغربی طواف کر رہے ہیں اور لوگ ان سے تبرک حاصل کرتے ہیں اور ان کی زیارت کرتے ہیں۔لوگوں نے میری نسبت ان سے کہا یہ شیخ شہاب الدین کے صاجزادہ ہیں۔مجھ کو مرحبا کہا اور میرے سر کو بوسہ دیااور دعائے خیر کہی۔ان کی دعا کی برکت کے نشان اپنے میں پاتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ آخرت میں اس کی برکت بھی میرے ہمراہ ہوگی۔تب میں نےپوچھا کہ یہ کون بزرگ ہیں،لوگوں نے کہا کہ ان کو شیخ موسیٰ کہتے ہیں کہ جب میں طواف سے فارغ ہوااور اپنے والد کے پاس گیااور ان کو میں نے بتلایا کہ میں نے شیخ موسیٰ کی زیارت کی ہے۔انہوں نے مجھے دعائے خیر کی ہے۔میرے والد اس سے بہت خوش ہوئے۔اس کے بعدحاضرین نے شیخ موسیٰ کی تعریفیں شروع کیں۔منجملہ ان کے یہ بھی کہا کہ ان کا رات دن میں یہ درد ہے کہ رات دن میں ستر ہزار دفعہ قرآن ختم کرتے ہیں۔میرے والد خاموش تھے۔اتفاقاً ایک نے والد کے بڑے مریدوں میں سے قسم کھائی اور کہا کہ یہ بات جو ان سے لوگ کہتے ہیں سچ ہے میں نے اس سے پہلے بھی یہ بات سنی ہوئی تھی۔لیکن میرے دل میں کسی قدر انکار تھا۔یہاں تک کہ ایک دفعہ میں نے شیخ کو رات کے وقت طواف کرتے ہوئے پایا۔میں ان کے پیچھے کھڑا ہوا۔میں نے دیکھا کہ حجراسود کو بوسہ دیااور شروع الحمدسے پڑھنے لگےاور ایسا ہی چلتے تھے۔جیسا کہ لوگ چلتے ہیں اور ایسا پڑھتے تھے کہ ایک ایک حرف مجھے سمجھ میں آتا تھا۔جب اس سے پہلے طواف میں خانہ کعبہ کے دروازے سے گزرے۔جو کہ حجر اسود سےوہاں تک کم و بیش چار قدم کا فاصلہ ہےتو ایک ختم پورا کر دیا۔چنانچہ اس ختم کو میں نے حرف بحرف سنا۔میرے والد نے تمام اصحاب سے مل کر تصدیق کی اور جو کچھ کہاتھا۔قبول کیا۔اس کے بعد میرے والد سے اس مطلب کی نسبت پوچھا گیاتو فرمایا کہ یہ ایک وقت کی فراخی کی قسم میں سے ہے کہ بعض اولیاء اللہ کی نسبت ہوا کرتی ہے۔
پھر اس واقعہ کی تصدیق کے لیے کہا کہ شیخ الشیوخ ابن سکینہ رضی اللہ عنہ کا ایک مرید سنار تھا۔اس کا وظیفہ یہ تھاکہ صوفیوں کے مصلے جمعہ کے دن مسجد جامع میں لے جایا کرتا تھااور بچھا دیا کرتا تھااور جمعہ کی نماز کے بعد ان کو اکھٹاکرکے خانقاہ میں لے آیا کرتا تھا۔ایک جمعہ کا ذکر ہےکہ تمام مصلوں کو باندھ لیاکہ مسجد میں لے جائے۔پھر وہ دجلہکے کنارہ پر گیاکہ جمعہ کا غسل کرے۔کپڑے اتارے اور دجلہ کے کنارہ پر رکھےاور پانی میں غوطہ لگایا۔جب سر باہرنکالا تو دیکھا کہ وہ دجلہ نہیں ،کوئی اور جگہ ہے۔پوچھا یہ کونسا دریا ہے؟لوگوں نے کہا کہ یہ مصر کا نیل ہے۔تعجب کرنے لگا اور پانی سے باہر نکل آیا۔شہر کے اندر گیا۔اتفاقاً ایک سنار کی دکان پر پہنچا۔وہاں جا کر کھڑا ہوگیا اور اس پر سوا اس تہبند کے کہ جس سے فقط ستر عورت تھااور کوئی کپڑا نہ تھا۔صاحب دکان نے عقل سے معلوم کیا کہ کوئی سنار ہے۔اس کی آزمائش کی دیکھا کہ وہ کسب اچھا جانتا ہے۔اس کی عزت کی اور گھر پر لے گیا۔اپنی لڑکی کا اس سے نکاح کردیا۔اس سے تین لڑکے پیدا ہوئے۔سات سال ان پر گزر گئے۔ایک دن نیل کے کنارہ پر آیا اور پانی میں غوطہ مارا۔جب سر باہر نکالا تو دیکھا کہ بغداد کے دجلہ میں ہے۔اسی موقع پر کہ اس سے پہلے تہبند پہن کر پانی میں آیا تھااور اس کے کپڑے ویسے ہی دجلہ پر رکھے ہوئے ہیں۔کپڑوں کو پہن لیا اور خانقاہ کو آیا۔دیکھا کہ صوفیوں کہ مصلے ویسے ہی بندھے ہوئے پڑھے ہیں۔بعض دوستوں نے اس کو کہا جلدی جا۔کیونکہ بعض جماعت کے لوگ صبح سے مسجد کوگئے ہوئے ہیں۔مصلوں کو مسجد میں لے گیااور بعد ادائے نماز جمعہ ان کو خانقاہ میں لے آیا۔اس گھر والوں نے کہا کہ تم نے جن مہمانوں کے لیے کہا تھاکہ مچھلی تلیں۔وہ کہا ہیں،مچھلی تلی ہوئی ہے۔تب وہ مہمان کو لایااور مچھلی کھائی۔اس کے بعد اپنے شیخ ابن سکینہ کی خدمت میں آیا اور اس پر جو واقعہ گزرا تھااور اپنی اولاد کا مصر میں رہنا سب کچھ بیان کیا۔شیخ نے اس سے کہا کہ اپنےفرزندوں کو مصر سے بغداد میں حاضر کرو۔جب لڑکوں کو حاضر کیا۔جو کچھ اس نے کہا تھا،سب سچ نکلا۔ اس سے پوچھا کہ اچھا یہ بتا کہ اس دن تم کس فکر میں تھےاور تمہارے دل میں کیا بات آئی تھی؟اس نے کہا کہ اول دن سے میرے دل میں آیت سے ایک ترود اور جھگڑا پڑا ہوا تھا۔فی یوم کان مقدارہ الف منہ یعنی ایسے دن میں کہ جس کی مقدارہزار سال کی ہوگی۔شیخ نے کہا یہ وقع خدا کی طرف سے تم پر ایک رحمت ہےاور تیرے شبہ کا دور ہونا،تیرے ایمان و اعتقاد کی درستی ہےکہ خدائے تعالیٰ اس پر وقار ہےکہ بعض بندوں کی نسبت زمانہ کو فراخ اور دراز کردے۔واللہ لقادر علی مایشاء یعنی اللہ تعالیٰ جس پر چاہے،قادرہے۔اس کے قریب وہ قصہ ہے۔جس کو صاحب فتوت رحمتہ اللہ نے ذکر کیاہے کہ ایک جوہری اپنا قصہ یوں بیان کرتا تھا کہ وہ خمیرہ آٹااپنے گھر سے فرون لے گیاکہ روٹی پکادیں۔وہ اجنبی تھا۔دریائے نیل کے کنارہ پر گیااور پانی میں داخل ہوا کہ غسل کرے۔اتنے میں اپنے آپ میں غائب ہوگیا۔دیکھا کہ جس طرح کوئی خواب میں دیکھتا ہےکہ بغداد میں ہے۔وہاں شادی کرلی اور چھ سال تک اپنی بیوی کے پاس رہا۔اس سے لڑکے پیدا ہوئے۔اس کے بعد اپنی ہوش میں آیا تو اپنے آپ کو پانی کے اندر دیکھا،غسل پورا کیا اور کپڑے پہن کر فرون میں گیا اور روٹی لے کر گھر میں آیا اور گھر کے لوگوں سے سارا حال بیان کیا۔جب چند ماہ گزر گئے تو وہ عورت بغداد سے آئی۔اپنے فرزند اس کے ہمراہ تھے۔جوہری کے گھر کو پوچھتی تھی۔جب دونوں باہم ملےتو جوہری نے اپنی بیوی بچوں کو پہچان لیا۔اس عورت سے پوچھا کہ کتنا عرصہ ہوگیا کہ تم سے نکاح کیا تھا؟کہا،چھ سال ہوچکے ہیں۔
(نفحاتُ الاُنس)