حضرت محمد دین کلیم بی اے
حضرت محمد دین کلیم بی اے (تذکرہ / سوانح)
حضرت محمد دین کلیم بی اے مصنفِ لاہور کے اولیائے سہرورد
مصنف کا پیدائشی وطن مضافات کلانور ضلع گورد اسپور ہندوستان میں واقع تھا جوکہ ایک نہایت مردم خیز اور عہد آفرین علاقہ تھا نیز ثقا فتی،جغر افیائی اور تہدیبی لحاظ سے صوبہ لاہور کا ایک علیحدہ پر گنہ تھا ،کسی دور میں یہ علاقہ تہذیب و تمدن کا بہت بڑا مرکز اور تجا رت وسیا ست کا اہم خطہ تھا اس لیئے برصغیر کے قدیم ترین شہروں میں شمار ہوتا تھا۔
میری پیدائش قصبہ دلیل پور کلانور میں ہوئی جوکہ بٹالہ جانے والی سڑک پر ایک میل کے فاصلے پر واقع ہے،آب و ہوا نہایت اچھی تھی اور اعلیٰ فصلوں کی وجہ سے نہایت ذرخیر علاقہ مانا جاتا تھا،قیام پاکستان کے بعد اب وہاں کے تمام قدیمی آثار و عمارات غیر مسلموں کے ہاتھوں چلے گئے جن کا وجود نیست و نابود ہوتا جارہا ہے، پر گنہ کلانور کے علاقہ بٹالہ تک واقع تھا اوریہاں کا علیحدہ گورنر مقرر ہوا کرتا تھا،ایک قدیم ترین ہندو آبادی ہونے کی وجہ سے خاندان غلا ماں سے لودھی خاندان تک یہ شہر تا تاریوں اورم مغلوں کی آماج گاہ بنا رہا اور مغلیہ دور میں تو یہ شہر اور اس کے مضا فات انہی کے مسکن بنے رہے،اس عہد میں یہاں بہت سے غیر ملکی سادات افغان اور مغل خاندان آباد ہوگئے اور مضا فات حکیم پور،دلیل پور، میاں کوٹ،رحیم آباد، رسول پورہ وغیرہ میں بھی یہی کیفیت تھی، علاوہ ازیں شہنشاہ اکبر کی اس شہر سے محبت کی بنا پر بہت سے راجپو ت خاندان بھی یہاں مستقل طور پر رہائش پذیر ہوگئے اور یہیں کے ہو رہے۔
یہ راحت افزا مقام باری دواب بٹالہ سے بارہ میل گورد اسپور سے ۱۶ میل اور ڈیر ہ بابا نانک سے صرف سات میل کے فاصلے پر واقع تھا اور اب بھارت کا ایک حصہ بن گیا ہے۔
تاریخی پس منظر
خاندان مغیلہ سے قبل یہ علاقہ عسا کر شاہی کی آمد و رفت کےلیئے مخصوص تھا،خاص طور پر خاندان غلاماں سےلے کر لودھی خاندان تک تمام شاہان عصر کےلشکر اس راستے سے آتے جاتے تھے اور مضا فات کلانور کو ایک خاص اہمیت خاص رہی کیونکہ ایک تویہ کرن ندی کے کنارے واقع تھااور دوسرے یہ ایک اونچے ٹیلے پر قدیم زمانے کا شہر آباد تھا اور لشکر وں کی دیکھ بھال کےلیئے ایک اچھا خاصہ فوجی مستقر کی حثییت حاصل کرچکا تھا،مزید برآں باغات کی بھی کثرت تھی۔
سید خاندان کے بادشاہ مبارک شاہ ۱۴۲۱ء سے ۱۴۳۴ء کے زمانہ میں ۱۴۲۱ءمیں حسرت کھکڑنے لاہور پر حملہ کیا تو یہاں سے شکست کھاکر کلانور چلا گیا اور کلانور کے قلعہ کا معا صر ہ کرلیا۔رائےبھیم بھی شاہی فوجوں کی مدد کےلیئے چلا گیا اور جسرت گھگڑ کو پیچھے ہٹا دیا۔
۱۴۲۸ء میں جسرت کھکڑ نے قلعہ کلانور کا محاصرہ کرلیا ملک سکندر تخت لاہور سے فوجیں لےکر شاہی فوج کی مدد کےلیئے گیا جسرت کھکڑ نے کلانور سے چند میل نکل کر اس کا مقابلہ کیااور شکست دے کر لاہور کی طرف بھگا دیا اور پھر کلانور میں مقیم رہ کر فوجوں کو مضبوط کیا اور دریائے بیاس عبور کرکے جالند ھر پر حملہ آور ہوا مگر شکست کھا کر واپس ہوا، شہنشاہ کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے زیرک خان امیر سمانہ اور اسلام خاں امیر سرہند کو اس کے قلع قمع کے لیئے روانہ کیا ،انہی دنوں ملک سکندر کلانور پہنچا اور اس شہر کے کو توال رائے غالب کی فوجوں کے تعاوں سے جسرت کھکڑ کو کا نگڑہ کی طرف بھگا دیا۔
توزک بابری۔ میں لکھا ہے کہ جب بابر سیالکوٹ سے روانہ ہوکر دریا ئے رادی پار کرکے کلانور پہنچا تو اس وقت دن کا تیسرا پہر تھا، محمد سلطان مرزا اور عادل سلطان مرزا حاضر خدمت ہوئے،یہ واقعہ ۹۳۲ھ بمطابق ۱۵۲۵ء کا ہے،وہ مزید لکھتا ہے کہ رات کی تاریکی میں ہم نے کلانور سے روانگی اختیار کی۔
جج محمد لطیف،ہسٹری آف پنجاب،میں لکھتا ہے کہ جب ظہیر الدین بابر لاہور پہنچا تو اس نے پر گنہ کلانور کا گورنر محمد علی تاجک کو مقرر کیا،محمد علی سیا لکوٹ میں بابر کی خدمت میں حاضر ہوا تھا، ہیر لڈلیم لکھتا ہے کہ دولت خان لودھی اور غازی خان نے کلانور فتح کرکےلاہور پر حملہ کرنے کی تیاری شروع کردی، بابرکو معلوم ہوا تو اس نے اس کا قلع قمع کرنے کی ٹھانی۔
ولیم ارسکن اپنی کتاب، ظہیر الدین بابر اور اس کے عہد،میں لکھتا ہے کہ دسمبر ۱۵۲۵ء میں جب بابر سیالکوٹ پہنچا تو لاہور سے بھی سپا ہ آکر ملی یہان اس کو معلوم ہوا کہ دولت خان لودھی اور غازی خان چالیس ہزار سپا ہ کے ساتھ اس کا مقابلہ کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں چنانچہ بابر تمام بھاری جنگی سازو سامان سیالکوٹ چھوڑ کر دریائے رادی عبور کرکے کلانور پہنچا تاکہ دشمنوں کا فوری قلع قلع کر سکے۔اس سفر میں بابر کے ساتھ چند جانباز سپاہی تھے،یکم جنوری ۱۵۲۶ء کو بابر کلانور سے روانہ ہوا،یہ بابر کا ہندوستان پر پانچواں حملہ تھا،کلانور سے بابر منزل بہ منزل دہلی پہنچا اور ہندوستان کو فتح کرلیا۔
شہنشاہ بابر کی وفات کے بعد نصیر الدین ہمایوں بھی اس راستے لاہور آتا جاتا رہا اور جلال الدین اکبر کی نور سم تاج پوشی اسی قصبہ میں ہوئی اور اس کی وجہ سے اس قصبہ کو تاریخی حثییت حاصل ہوگئی، تمام بڑے بڑے جرنیلوں،امراء اور وزرانے تو اپنے باغات اور محلا ت بھی کلانور اور مضا فات کلانور میں تعمیر کرائے ان میں کئی ایک خاندانوں نے یہاں مستقل رہائش اختیار کرلی اور ان کی اولاد میں سے آج بھی چند نشا نات باقی ہیں،سنا ہے کہ خاندان سو ر کےعہد میں یہ شہر راجہ ٹو ڈر مل کی جاگیر میں تھا۔
۱۴نومبر ۱۵۵۶ءکوخان خاناں بیرم خاں نے اکبر کویہاں بادشاہی کا خلعت پہنا یا اس موقع پر عساکر مغیلہ کے تمام وفا دار جرنیل اور راجپوت سردار بھی موجود تھے،تاج پوشی کی رسم شاہی باغات میں ادا کی گئی، یہ رسم جالند ھر سے کلانور تک اس لیئے ادا کی گئی تھی کیونکہ اس زمانے میں شہر کی شہرت بہت زیادہ ہوچکی تھی۔
محمد قاسم فرشتہ اپنی تاریخ میں لکھتا ہے کہ جب شہنشا ہ ہمایوں دہلی میں اپنے محل کے زینہ سے گر کر صاحب فراش ہواتو اراکین سلطنت اور وزراء نے ایک نہایت قابل اعتماد اور معتمد امیر شیخ جولی کو ہمایوں کےحال سے مطلع کرنے کے لیئے پنجاب روانہ کیا جہاں اکبر اپنے اتالیق بیرم خان کے ساتھ خاندان لاہور کے بادشاہ کے ساتھ معرکہ آزمایا تھا، شیخ جولی نے کلانور کے مقام پر اکبر سے ملاقات کی اور تفصیلاً سا را حال کہہ سنایا، ابھی شیخ جولی کلانور پہنچے ہی تھے کہ ہمایوں کی وفات کی اطلاع پہنچ گئی، امراء وزراء اور دیگر فوجی جرنیلوں نے اظہار تعزیت کے بعد اتفاق رائے سے شہز ادہ اکبر کو دوسری ربیع الثانی ۹۶۳ھ بمطابق ۱۵۵۶ ء کلانور میں شاہی باغات میں تخت پر بٹھا یا،اکبر کی عمر اس وقت صرف تیرہ برس کی تھی ،منتخب اللبا ب مصنفہ ہاشم علی خان رخانی نظام الملک نے اکبر کی تخت نشینی قصبہ کلانور لاہور کے قریب بعمر چودہ سال چند ماہ تحریر کی ہے۔
مسٹرو نسنٹ اے سمھ سی آئی ای اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ہمایوں کی وزارت کے بعد اکبر کلانور کے شاہی باغات میں تخت نشین ہوا،یہ رسم ایک چبو ترہ پر ادا کی گئی جو آٹھ فٹ لمبا اور تین فٹ چوڑا تھا اور آج تک موجود ہے،انگریزی عہد میں اس پلیٹ فارم کے ارد گرد تاروں کا جنگلہ لگایا گیا اور اس پر انگریزی اور اردو میں سنگ مرمرکی تختی نصب کی گئی جس میں تاریخ تخت نشینی ۱۴ فروری ۱۵۵۶ء درج ہے،کلانور کی تخت نشینی سے قبل تین دن ۱۱ فروری کودہلی میں اس کی شہنا ہیت کا اعلان کردیا گیا، تخت نشینی کے بعد اکبر اور بیرم خان کچھ عرصہ کلانور ٹھہرے مگر ان کی فوجیں شیر شاہ سوری کے بھیتجے سکندر سوری کے مقابلے میں تیار تھی اور جون کے مہینے میں وہ جالند ھر کی طرف بڑھے،کلانور میں ہی بیرم خاں نے تخت نشینی کے بعد تردی بیگ کو ایک ترکمان افسر تھا اور ہمایوں کا قدیمی خدمت گزار تھا پانچ ہزار کا منصب دار بنایا اور دہلی کا گورنر مقرر کیا۔
۱۵۵۶ء میں اکبر نے کلانور میں اپنے مشیروں کے مشو رہ سے شاہ ابوالمعالی گورنر لاہور اس کو ہمایوں نے گورنر لاہور مقر ر کیا تھا کو پیغام بھیجا تھا کہ یہاں ایک عظیم الشان دعوت کا اہتمام ہے اس لیئے فوراً آؤ دعوت کے خاتمہ پر بیرم خان نے تغلق خاں کو چیخ کر حکم دیا کہ اس کو گر فتا ر کرلے چنا نچہ اس کو قیدی بنا لیا گیا، اکبر نے اس کا برا مانا کہ اس کو قتل نہ کیا جائے چنانچہ اس کو لاہور کے قید خانے میں بھیج دیا گیا جہاں سے وہ فرار ہوکر کابل پہنچ گیا۔
۲۱مئی ۱۵۷۸ء کو اکبر اپنی ماں۔راجہ بھگو ان داس اور راجہ مان سنگھ کے ساتھ کلانور پہنچا اور یہاں اس کے اعزاز میں ایک عظیم الشان دعوت کا اہتمام کیا گیا جوا س کے اپنے باغ تخت نشین میں ہوا،شاہ قلی خاں گورنر لاہور کے خلاف شکایات سن کر اس کو معز ول کیا اور سعید خاں کو حاکم لاہور مقر ر کیا۔
۱۵۸۱ء میں جب اکبر کلانور پہنچا تو اس کا مرزا حکیم کا معافی نامہ کا خط ملا مگر اس نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی اور کابل کی طرف روانہ ہوا یہاں اس نے شاہی باغات میں قیام کیا جوکہ اس نے اپنی رسم تا جپو شی کے موقع پر بنانے کا حکم دیا تھا، سمھ لکھتا ہے کہ یہ بات وسیع و عریض اور بہت خوبصورت تھے،ایک نومبر ۱۵۸۵ء میں اکبر پھر کلانور آیا،اس وقت یعقوب خان پسر یوسف خان گورنر کشمیر اس کے ساتھ تھا مگر کسی سازش کی بنا پر کلانور سے اپنے باپ کے پاس کشمیر بھاگ گیا، جب نور الدین جہانگیر تخت نشین ہوا تو وہ بھی ۱۶۱۷ءمیں کلانور آیا، خان عالم سے ملاقات کی ،جو شہنشاہ ایران سےمل کر آیا تھا اور تحائف بھی ساتھ لایا تھا، مزید ان جہا نگیر نے خان جہاں کو دل کا دوراہ پڑنے پر اس شہر میں قیام کا مشو رہ دیا تھا مگر بعدازاں وہ لاہور آکر مرگیا، شہاب الدین شاہجہان اور اور نگ زیب عالمگیر کےلشکر بھی اس قصبہ کے مضافات سے آتےجاتے رہے اور قیام بھی کرتے رہے۔
۱۷۵۸ءمیں ادینہ بیگ خاں نے جب سنا کہ احمد شاہ ابدالی کلا نور کی طرف پیش قدمی کررہا ہے تو وہ خو فز دہ ہوکر پہا ڑوں کی طرف بھاگ گیا، ۱۷۶۴ء میں احمد شاہ ابدالی کلانور کی طرف آیا اور کچھ ایام یہاں قیام کیا اور مضا فات کلانور میں بلا تی چک پہنچا جہاں وہ پند رہ سو سکھ لٹیروں کو مت کے گھا ٹ اتار کر افغانستان کی طرف واپس چلا گیا،عمد ۃ التو اریخ، کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۵۳۸ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ جب کلانور گیا تو اس نے اپنا خیمہ شہنشا ہ اکبر کی تخت گاہ کے قریب باغ میں نصب کیا تھا،اس جگہ کلانور کے تھا نیدار نے گیا رہ سو روپیہ نذر کیا۔
راجہ دینا ناتھ کلانور کا راجہ رہا،چوک مسجد وزیر خاں لاہور میں ایک کنواں راجہ دینا ناتھ نے اپنی رہائش حویلی کے پاس بنوایا تھا جس پرلکھا تھا ،بنا کر دہ راجہ دینا ناتھ راجہ آف کلانور، نا ظما ن لاہور کے زمانہ میں اس شہر کو اچھی شہرت حاصل رہی،نواب عبدالصمد خان دلیر جنگ ناظم لاہور کے عہد میں کلانور کے ایک باشندے نے ایک کتاب بہ زبان فارسی، اسر ار صمدی، تحریر کی تھی، پروفیسر محمد شجاع الدین مرحوم نے لقحیح و ترتیب کے ساتھ شائع کرانے کا اہتمام کیا تھا، کتاب مذکور کے مصنف کا نام معلوم نہیں ہوسکا ایک جگہ وہ لکھتا ہے۔
من بعد چوں ایں عارضی دور از بلا غت و سراسر قصور خلعت پذیر ناک خطہ کلانور کہ قصبہ ایست منظر نور و ظہور تضا رت ارباب بہمت و سرور سوادش چوں بیاض صبح بسیط فضا وزمینش برنگ زمین سخن بغا یت روح افز ا۔
الطا فت عاشق خاک سوادش
نظر ہاشد غلام خانہ زادش
بہ گردش دجلہ راحت وہ جان
توگوئی گشتہ گردش آب حیوان
ازاں دہلی بہ پیشش غد ر خواہ است
کہ اکبر را ہمایوں تخت گاہ است
چگو یم پیش ازیں حرف ثنا پیش
کہ لفظ نور آمد زیر بالیش
قصبہ کلانور کرن ندی مندر شواتری،خانقاہ ،مسجد بڈھن شاہ نقشبند ی، دربار عالیہ قادریہ مزار حضرت محمد افضل قادری کلانور ی مزار درگاہی شاہ،مزار حضرت امام شاہ تخت شہنشا ہ اکبر و ملحقہ دیگر شاہی عما رات وآثا ر اور خانقاہ جمیل بیگ کی وجہ سے بہت مشہور ہے،علاوہ ازیں کلانور سے بٹالہ کی جانب ایک میل کے فاصلے پر قصبہ دلیل پور و میاں کوٹ واقع ہیں یہ مصنف کا اصل وطن ہے۔
میاں کوٹ میں حضرت حاجی حسین شاہ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار ہے،اس کی وسیع و عریض چار دیواری شاہی طرز کی تھی اور شاید ہی اتنی بڑی چار دیواری کسی اور مزار کی سرزمین پاکستان میں ہو، اس درگاہ کے ساتھ ساڑھے سات سو گھا ؤں زمین بھی وقف تھی،حضرت حاجی حسین رحمتہ اللہ علیہ پہلے پیر ملہ سبہ پر عبادت کیا کرتے تھے جو ان دنوں جنگل تھا،پھر آپ جھنگی پیراں چلے آئے اور وہاں اقامت اختیار کرلی، بزرگ حکایت بیان کرتے ہیں کہ ارد گرد کے گاؤں کے ہند و کلانور میں شو ر اتری کے مند ر پر نذرانہ چڑھا یا کرتے تھے جب انہوں نے ایک دن اس بز رگ کو شان خداوندی میں دیکھا تو وہاں بھی چڑھا وا چڑھنے لگا جو ہندو جوگیوں کو ناگوار گزرا چنانچہ اسی جھنگی میں انہوں نے آپ سے مقابلہ کیا اور شکست تسلیم کرکے اسلام قبول کرلیا۔
ایک بہت بڑی جامع مسجد بھی گاؤں کے درمیان تھی،اس گاؤں میں ہمارے اسلاف کی قبریں تھیں جن سے حاجی صاحب موصوف کو بے انتہا عقیدت وارادت تھی، علاوہ ازیں کسی ز میں دلیل پور کے پاس ایک قدیم قصبہ بھی تھا جو زمانہ کی دست و برد سے نہ بچ سکا اور نیست و نا بود ہوکر تھیہ بن گیا۔ اس کے ساتھ ہی رسول پور میں ایک اور خانقاہ و مسجد اور ایک مغلیہ عہد کی مسجد بنام گمٹا نوالی بھی موجود تھی کہتے ہیں کہ اس مسجد میں جن بھی ہمارے بزرگوں سے تعلیم حاصل کیا کرتے تھے، سنا ہےکہ یہ مسجد ایک قافلہ والوں نے بنوائی تھی جن کا اس راستہ سے گز ر ہوا کرتا تھا اور انہوں نے چند یوم یہاں قیام کیا تھا، اس کے سا تھ ایک تالاب بھی تھا اور قدیم قبرستان بھی، یہ تمام آثار و عما رات مغلیہ عہد یا اس سے قبل کے تھے جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ علاقہ مغلیہ عہد میں سیاسی اور مذہبی بنیاد پر کافی معروف تھا اور بیشمار اولیاء اللہ اور علمائے کرام کا مسکن تھا،باہر سے کئی صو فیائے کرام تشریف لائے،لوگوں کو رشد و ہدایت سے سرفراز فرمایا اور یہیں کے ہو رہے،چشتی سلسلہ کے علاوہ سہروردی،قادری اور نقشبندی سلسلوں کا کافی زور تھا اور یہ بزرگ گاؤں گاؤں اسلام کی اشاعت میں مصروف رہتے تھے، یہی وجہ تھی کہ اس علاقہ کے لوگ نہایت نیک اور پرہیز گار تھے۔
سلسلہ عالیہ سہروردیہ اور ان کے فیوض و برکات
مفتی غلام سرور لاہوری نے اپنی کتاب خزینتہ الا صفیا اور منشی سبحان رائے بٹا لوی نے اپنی تصنیف،خلا صتہ التو اریخ،میں اس علاقہ کے اولیاء عظام اور صو فیائے کرام کی بہت تعریف کی ہے نیز ان کی کرامات اور خوارق کا خصوصی تذکرہ کیا ہے۔
جس زمانہ میں مضافات کلانور اور لاہور اکبری افواج کی جولاں گاں بنا ہواتھا اس زمانہ میں مضا فات کلانور میں اوچ شریف سے کچھ سہروردی صوفیائے کرام اس علاقہ میں عرفان و ہدایت پھیلا نے اور نشر و اشاعت اسلام کےلیئے تشریف لائے، ا ن میں سب سے ممتا ز شخصیت سید شاہ محمد بن سید عثمان سہروردی رحمتہ اللہ علیہ کی تھی جو بہ اجتماع کثیر کے موضع چک سردہ علاقہ کلانور میں وارد ہوتے تھے اور یہاں کے غیر مسلم زمیند اروں نے آپ کے دست حق پرست پر اسلام قبول کیا تھا، اس علاقہ کے ہز ارہا افراد سلسلہ عا لیہ سہروردیہ کی وجہ سے اسلام لائے آپ کا سلسلہ نسب چند واسطوں سے حضرت میر سید جلال الدین مخدوم جہانیاں جہاں گشت بخاری سہروری رحمتہ اللہ علیہ تک پہنچا ہے،سید عثمان سہروردی رحمتہ اللہ علیہ کا مزار شاہی قلعہ لاہور میں واقع ہے،جب اکبر اعظم نے مٹی کے قلعہ کی نئے سرے سے مرمت بہ شکل پختہ شروع کی تویہ مزار اقدس قلعہ کے اندر آگیا اور ،پنج پیر،کے نام سے موسوم ہوا تو معلوم ہواکہ اس علاقہ میں سلسلہ عالیہ سہروردیہ کے بیشمار بزرگ تشریف لائے اور یہاں کے لوگوں کو فیوض و برکات سے نوازا،حضرت شاہ محمد سہروردی رحمتہ اللہ علیہ کا مزار موضع لکھا ضلع لاہور میں واقع ہے۔
روحانی زندگی
لودھی خاندان کے دور حکومت میں اس علاقہ کے گرد نواح میں سب سے پہلے سہروردی اولیائے عظام اور ان کے خلفا ء اور مریدین نے لوگوں کو ہدایت کےلیئے بہت کام کیا، حضرت شاہ برہان سہروردی رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے خلفا نے کا ہنو واں نزد گورد اسپور کے ارد گرد تبلیغ و ارشاد میں نمایاں کردار اداکیا، پھر ہشنشاہ جلال الدین اکبر کے عہد حکومت میں حضرت میراں محمد شاہ المعروف موج دریا بخاری سہروردی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ اور ان کی اولاد حضرت سید صفی الدین سہر وردی، حضرت شیخ شہاب الدین نہر سہروردی اور سید مصطفیٰ شاہ سہروردی نے بھی سلسلہ عالیہ سہروردیہ کی اشاعت میں نمایاں حصہ لیا، انہوں نے خان فتا تھیہ میں اقامت اختیار کی ، مریدین اور خلفاء کا سلسلہ جاری کیا اور کا ر خیر میں بہت حصہ لیا نیز سید شاہ محمد سہروردی بن سید عثمان سہروردی لاہور ی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی ہز ار ہا غیر مسلموں کو چک سردہ نزد کلانور میں مسلمان کیا،بعد ازاں قادریہ سلسلہ کے صوفیائے کرام نے عہد جہانگیر ،شا ہجہان میں اس علاقہ میں رشد و ہدایت کے دریا بہا دیئے،حضرت شیخ محمد افضل قادری کلانوری، حضرت محمد فاضل شاہ قادری بٹالوی وغیرہ بزرگان دین بہت نامو ر ہوئے ہیں، سکھوں اور انگریزی دور میں سلسلہ عالیہ نقشبند یہ کے اہل طریقت بز ر گان مثلاً حضر ت سید بڈھن شاہ نقشبند ی کلانوری،حضرت خواجہ امام علی شاہ نقشبند مکان شریفرتڑ چھڑ حضرت خواجہ صادق علی بہت معروف ہوئے ہیں،میاں کوٹ میں حضرت شاہ حسین قادری رحمتہ اللہ علیہ کی نہایت عظیم الشان درگاہ تھی ایسی درگاہ برصغیر پاک وہند میں کم ہی ہوگی دور دراز مقامات سے ہندو، سکھ اور مسلمان حضرات سالانہ عرس میں شامل ہو تے تھے، مسانیاں نزد بٹالہ میں شاہ بدر دیوان گیلانی قادری رحمتہ اللہ علیہ کی برکات بھی بہت زیادہ تھیں، حضرت خواجہ محمد افضل قادری کلانوری تمام عمر کلانور ہی میں تشریف فرما رہے اور گرد و نواح کے دیہات میں اشاعت اسلام کےلیئے کام کرتے رہے، حضرت شیخ محمد فاضل قادری بٹالوی بچپن سے ہی کلانور چلے گئے تھے اور مرشد کے پاس کافی عرصہ رہے آپ کی وفات ۱۱۵۱ھ ۱۴ذی الحجہ بمطابق ۱۷۳۸ء عہد محمد شاہ بادشاہ دہلی بٹالہ میں ہوئی۔ قریہ بہ قریہ ان بزر گان کی تفصیل اس طرح ہے جو اس علاقہ میں اشاعت اسلام میں مصروف رہے۔
۱مکان شریفرتڑ چھتڑحضرت حاجی شاہ حسین نقشبندی،حضرت خواجہ امام علی شاہ نقشبندی ،حضرت خواجہ صادق علی شاہ نقشبندی۔
۲دھرم کوٹ:خواجہ امیر الدین نقشبندی ،مرشد حضرت میاں شیر محمد شرقپوری نقش بندی رحمتہ اللہ علیہ۔
۳خان فتا نزد بٹالہ:حضرت موج دریا بخاری لاہوری سہروردی رحمتہ اللہ علیہ،حضرت شہاب الدین نہرا سہروردی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ ،حضرت سید صفی الدین سہروردی لاہوری، حضرت شاہ مصطفیٰ سہروردی لاہوری۔
۴کاہنو داں:حضرت شاہ برہان سہروردی مرید حضرت سید عبدالجلیل چوہڑ بندگی سہروردی لاہور رحمتہ اللہ علیہ۔
۵مسانیاں نزد بٹالہ: شاہ بدر الدین گیلانی قادری،آپ لاہور میں شاہ بد ر دیوان کے لقب سےملقب تھے،حجرہ آپ کا بیگم پورہ میں موجود ہے۔
۶بٹالہ: شاہ شہاب الدین بخاری شاہ اسماعیل شاہ نعمت اللہ شیخ اللہ ،داد ،شیخ محمد فاضل قادری۔
۷ دیپال ڈال نزد بٹالہ پر گنہ کلانور:شاہ شمس الدین دریائی رحمتہ اللہ علیہ۔
۸چک سرد نزد کلانور:حضرت سید شاہ محمد سہروردی خلف حضرت سید عثمان سہروردی لاہور ہمارے اجداد کے تمام بزرگان کوا ن اولیا ئے کرام سے بے پناہ محبت تھی،مزید برآں اپنے گرد نواح کے قصبا ت میں خطابت و امامت کے فرائض سر انجا م دیتے رہے تھے اور ان کے عقید ت مندی وارادت مندی کو ایک نعمت خیال کرتے رہے اور یہی اثر ان کی اولاد کے بھی حصہ میں آیا جنہوں نے اس سر زمین کی تاریخ محفوظ کرنے کے علاوہ سر زمین لاہور کے اولیا ء اللہ کی تاریخ بھی موجو دہ زمانے تک مکمل کی جوکہ خدائے ایزد متعال کا ایک احسان عظیم ہے، اس علاقہ کے اولیا ء اللہ نے اپنی خانقاہ ہوں میں اسلامی مدارس بھی قائم کر رکھے تھے جہاں طالبان علم و حقیقت اگر ایک طرف تصوف و معرفت کی تعلیم حاصل کرتے تھے تو دوسری طرف دنیا وی علوم میں بھی نمایاں حثییت اختیا ر کرتے تھے،ان بزرگان دین نے نہایت پرا شو ب زمانہ میں خد ائے ایزد متعال کے دین کو بند و ں تک پہنچا یا اور کفر و ضلا لت کے بت کدہ کو پاش پاش کیا، تعلیمات اسلامی کا دیا روشن کیا، انہی کے نقش گرم و سرد کی تاثیر نے دنیا والوں میں خاص اثر کیا اور یہی اثر تھا کہ ان لوگوں کے پاس روم و خراسا ن،کابل و قند ھا ر سے طلبا ء اور علماء کی جما عتیں جوق در جوق حاضر ہوتی تھیں اور ہرایک نے اپنے ظرف کے مطابق اپنا اپنا دامن بھرا ور اکتسا ب فیض کیا۔
(لاہور کے اولیائے سہروردیہ)