حضرت محمد کامل میاںعلیہ الرحمۃ
ف ۱۲۳۹ھ
میاں محمد کامل بن محمد جام بن سلیمان ، مخدوم میاں محمدصدیق گھڈواری شریف والے کے صحبت یافتہ تھے، شرح ملا جامی تک علوم ظاہریہ کے حصول کے بعد حضرت مخدوم کے فیض باطنی سے کندن بنے۔ حضرت مخدوم، میاں محمد کامل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بارے میں فرماتے تھے۔
‘‘اے محمد کامل ، تو جگر گوشہ من ہستی کہ ہمہ فیض و فقر مرا فائزو حاوی مے باشی’’۔
حضرت مخدوم نے میاں صاحب کو کٹبار المعروف بہ گودہ میں سکونت اختیار کرنے کا حکم دیا تھا اور فرمایا کہ آپ کو اور آپ کی اولاد کو وہیں سر بلندی حاصل ہوگی۔
میاں صاحب کٹبار میں رہائش پذیر ہوگئے، گذر اوقات کے لیے کھیتی باڑی کرتے تھے، مسجد کی امامت بھی فرماتے تھے اپنے مرشد کی طرح شروع میں اخفا میں رہے اور اپنی باطنی کیفیات کسی پر ظاہر نہ ہونے دیں، یہاں تک کہ ایک مرتبہ حضرت محکم الدین صاحب سیرانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا قلات جاتے ہوئے وہاں سے گذ ر ہوا، انہوں نے طالب بیعت لوگوں کو میاں محمد کامل کی طرف جانے کا حکم دیا اور ان کی ولایت کا ملہ کی گواہی دی۔ اور یہ بھی کہلا بھیجا کہ اب اس اخفا کے طریقہ کو خیر باد کہہ دیجیے، چناں چہ میاں صاحب نے لوگوں کو بیعت کرنا شروع کیا اور فیض بخشی اور فیض رسانی کاسلسلہ شروع کیا۔
آپ کی عادت تھی کہ آپ صبح کی نماز کے بعد شہر سے باہر تشریف لے جاتے اور کسی درخت کے نیچے یاندی کے کنارے بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں دوپہر تک مصروف رہتے، اب جہاں آپ کی خانقاہ واقع ہے اکثر یہیں مصروف عبادت رہا کرتےتھے اور فرماتے : ‘‘مجھے اس جگہ سے جنت کی خوشبو آتی ہے’’۔
حضرت میاں صاحب شریعت پر یہ سختی سے کار بند ہوتے، اکثر امرا او اہل علم آپ سے ارادت رکھتے تھے تارک الدنیا ہونے کو قلندری مشرب سمجھتے تھے اور فرماتے تھے نبیﷺکا ارشاد گرامی ہے‘‘ یہ دنیا مردار ہے اور اس کے خواہش مند کتے ہیں’’۔ آپ سے کئی کرامات صادر ہوئیں۔
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک رات میاں صاحب حالت وجد میں اس قدر وار فتہ ہوئے کہ تمام اہل خانہ نیند سے بیدار ہوگئے اور آپ کے پاس حاضر ہوئے آپ نے اپنے بیٹوں کی طرف دیکھ کر پوچھا کیا تمہیں کچھ دکھائی دے رہا ہے؟ وہ بولے نہیں تو فرمایا:
‘‘بیت شریف میں بارش ہور ہی ہے، میں اولیاء کرام کے ارواح کی جماعت کے ساتھ میزاب رحمت کے نیچے کھڑا ہوں، میزاب رحمت سے آنے والے پانی کو اپنے سر پر ڈال رہا ہوں اور پی رہا ہوں’’۔
اس وقت آپ کے کپڑےحقیقۃ گیلے ہوچکے تھے۔
وفات سے ایک سال پہلے فرمایا مجھے رسول ﷺ نے فرمایا ہےکہ تم بہار کے مہینے میں ہمارے پاس آؤ گے چوں کہ موسم بہار قریب تھا سب وابستگان مغموم ہوگئے لیکن وہ ومہینہ خیریت سے گذر گیا، لوگوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، آپ نے فرمایا اگر اس مرتبہ نہیں تو شاید آئندہ موسم بہار میں ہوگا۔ آئندہ موسم بہار میں میاں صاحب پرانے در گردہ کے عارضہ میں مبتلا ہوئے، تکلیف برابر بڑھتی گئی اور چار پانچ روز کے بعد ۶ /رجب/۱۲۳۹ھ بروز پیر چاشت کبریٰ کے وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہوئے خالق حقیقی سے جاملے۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے دوسرے بیٹے میاں محمد حیات سجادہ نشین ہوئے۔
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )