ابوالعباس حضرت محمد سماک قدیم علماء دین اور مشائخ اہل یقین میں سے تھے۔ حافظ قرآن تھے، زاہد تھے، عابد تھے متقی تھے اور واعظ تھے کلام کرتے تو عقل و حکمت کے پھول گرتے، بیان کرتے تو شافی اور وافی ہوتا، وعظ و نصیحت میں اپنی مثال آپ تھے، حضرت سفیان ثوری سے صحبت رکھتے تھے۔ حضرت معروف کرخی آپ کی باتوں کو پسند فرماتے تھے۔ ساری عمر تنہا گزاری لوگوں نے کہا: شادی کیوں نہیں کرلیتے، فرمایا کرتے ہیں دو شیطانوں سے مقابلہ نہیں کرسکتا، ایک شیطان ابلیس اور دوسرے بیوی جس کے قبضہ میں شیطان ہوتا ہے۔
حضرت شیخ احمد حواری بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار حضرت سماک بیمار ہوگئے میں قارورۂ طبیب کے پاس لیے جا رہا تھا کہ راہ میں ایک پیر روشن ضمیر سے ملاقات ہوئی، انہوں نے پوچھا، کہاں جا رہے ہو، میں نے بتایا کہ سماک بیمار ہیں، اُن کے لیے طبیب سے دوائی لینے جا رہا ہوں، آپ نے فرمایا: سبحان اللہ، اللہ کا دوست غیراللہ سے استمداد کر رہا ہے، واپس چلے جاؤ اور سماک کو کہو کہ جہاں تمہیں تکلیف ہے وہاں ہاتھ رکھ کر کہا اَعُوذُ باللہ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمَ وَبِا اَلحقِ اَنْزَلْنَاہُ وَبَالْحَقّ نُزُلٌ میں واپس آیا صورت حال بیان کی حضرت سماک نے ایسے ہی عمل کیا، فوراً صحت یاب ہوگئے، آپ نے بتایا وہ خضر علیہ السلام تھے، جنہوں نے یہ نسخہ بتایا تھا۔
حضرت سماک تذکرہ نگاروں کے اتفاق سے ۱۸۳ء میں واصل بحق ہوئے۔
رفت چوں ایں سماک از وارِ دہر سالِ ترحیلش محمد کامل است
|
|
شد جو گنج پاک جسمش زیر خاک ہم عیاں است طالب ہادی سماک ۱۸۳
|
(خزینۃ الاصفیاء)