حضرت شیخ محمد الاباریخی (لوٹے والے بابا)
آپ کا مزار باب الشیخ سے قریب ہی ایک علاقے میں تھا، جب کہ اب اُس مزار شریف کی جگہ مسجد تعمیر کر دی گئی ہے اور قبرِ انور مسجد کے ستون کے درمیان آگئی ہے (مسجد کی تعمیر کرنے یا کرانے والوں میں کسی منافق کی شرارت سے اس مسجد کا نقشہ اس طرح بنایا گیا کہ مزار شریف منہدم کردیا گیا)۔
شیخ محمد الاباریخی
آپ حضور غوثِ اعظم کے شاگرد و خادم ہیں۔ آپ حضور غوثِ اعظم کے دربار شریف میں خدمت کیا کرتے۔ زائرین کو سہولیات فراہم کرتے اور انہیں لوٹے سے وضو کرواتے۔
آپ کا زیادہ تر وقت لوگوں کو لوٹے سے پانی دینے اور وضو کروانے میں گزرتا۔ ایک روز آپ کا دل اس کام سے بے زار ہوگیااور دل میں یہ بات آئی کہ اس خدمت کا مجھے کیا صلہ مل رہا ہے؟ پھرآپ نے اسی سوچ میں دربار شریف سے رخصت چاہی اور ایک بزرگ کے پاس آگئے اور انھیں مدینے شریف جانے کی عرضی پیش کی۔
بزرگ نے آپ کو اجازت دے دی اور خود بھی ساتھ مدینے شریف کے سفر کے لیے روانہ ہوگئے۔
حضرت الاباریخی کو سفر کے دوران بھوک کی شدت ہوئی اور آپ نے ان بزرگ سے عرض کی کہ کھانے کا انتظام کیا جائے، بزرگ نے رب تعالیٰ کے حضور دستِ دعا دراز کیے اور ایک کھانے سے بھرا تھال آسمان سے نازل ہوگیا، دونوں نے مل کر کھانا کھایا اور اسی طرح چند دن گزرے۔ معمول کے مطابق حضرت الاباریخی نے پھر کھانے کی خواہش ظاہر کی تو بزرگ نے ارشاد فرمایا کہ میں تو روز دعا کرکے کھانا منگوا لیتا ہوں آج تو مانگ اور مجھے روٹی کھلا۔
حضرت الاباریخی پریشان ہوگئے اور عرض کی کہ آپ تو ولی اللہ ہیں میں فقیر کیا کروں؟ وہ بزرگ فرمانے لگے میں کچھ نہیں جانتا بس آج تم کھانا منگواؤ۔ حضرت الاباریخی نے دعا مانگی اور فوراً ایک تھال کے بجائے دو تھال آسمان سے نازل ہوگئے۔ یہ دیکھ کر بزرگ بڑے حیران ہوئے اور کہا کہ میں شیخ ہوں میری دعا سے ایک تھال نازل ہوا اور تو نے دعا کی تو دو تھال نازل ہوگئے، کیسے؟ کیا مانگا؟ کس کا وسیلہ دیا؟
حضرت الاباریخی فرمانے لگے: اے شیخ! میں نے تو یہی کہا کہ اے اللہ! جس کا یہ شیخ وسیلہ دے کر تجھ سے اپنی حاجت پوری کرتا ہے میں بھی تجھے اسی کا وسیلہ دے کر ا پنی حاجت کا طلب گار ہوں، پھر حضرت الاباریخی نے شیخ سے فرمایا کہ اے شیخ! اب آپ بتائیں کہ آپ کس کاوسیلہ دیا کرتے ہیں؟ تو اُن بزرگ نے ارشاد فرمایا کہ میں تو غوثِ اعظم کے دربار کے اس خادم کا وسیلہ دیتا ہوں جو لوٹے سے پانی دیا کرتا ہے۔ بس کیا تھا یہ سنتے ہی حضرت الاباریخی فوراً وجد میں آگئے اور فرمایا: وہ لوٹے والا میں ہی ہوں اور مجھے یہ اندازہ ہی نہیں کہ میں نے غوث پاک کے دربار سے کیا پالیا، پھر حضرت شیخ الاباریخی واپس بغداد شریف ہوئے اور یوں غوث پاک کے دربار میں لوگوں کی خدمت کرتے ہوئے اپنی زندگی گزاری۔[1]
[1]۔ بروایت علامہ ابوالقاسم ضیائی۔
(زیارتِ عراق)