حضرت خواجہ محمد زمان مخدوم اول رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: حضرت خواجہ محمد زماں۔لقب:مخدوم زماں،مخدوم اول،سلطان الاولیاء۔سلسلہ نسب اس طرح ہے:حضرت خواجہ محمد زمان بن شیخ حاجی عبداللطیف نقشبندی بن شیخ طیب بن شیخ ابراہم بن شیخ عبدالواحد بن شیخ عبداللطیف بن شیخ احمد بن شیخ بقا بن شیخ محمد بن شیخ فقرا للہ بن شیخ عابد بن شیخ عبد اللہ بن شیخ طاؤس بن شیخ علی بن شیخ مصطفیٰ بن شیخ مالک بن شیخ محمد بن ابوالحسن بن محمد بن طیار بن عبدالباری بن عزیز بن فضل بن علی بن اسحاق بن ابراہیم ابوبکر بن قائم بن عقیق بن محمد بن عبدالرحمان بن امیرالمؤمنین حضرت ابوبکرصدیق۔رضی اللہ عنہم اجمعین۔آپ کاتعلق نسب نامہ کی ’’بکری شاخ‘‘سےہے۔جومؤرخین کےنزدیک سب سےصحیح ترین اور حضرت صدیق اکبرسےسب سےقریب ترین شاخ ہے۔آپکےاجدادبعہدخلیفہ ہارون الرشید786ء کےلگ بھگ ترک وطن کرکےسندھ تشریف لائے۔اس وقت سندھ میں عربوں کی حکومت تھی اس لئےیہاں اس خاندان کوبڑی عزت واحترام حاصل ملا۔یہ حضرات واقعہ کربلاکےبعد اس قدر محتاط ہوگئےکہ ہر قسم کےحکومتی عہدوں سےدور رہے۔سندھ میں یہ حضرات ٹھٹھ کےقریب ’’ننگر‘‘میں قیام پذیر ہوئے۔حضرت مخدوم کےتمام آباؤاجداد سلسلہ عالیہ سہروردیہ میں بیعت وارشاد کاسلسلہ رکھتےتھے۔آپ کےوالد ِ گرامی شیخ حاجی عبداللطیف نقشبندیپہلےشخص ہیں،جنہوں نےسلسلہ عالیہ نقشبندیہ کی اشاعت فرمائی۔(سندھ کےصوفیائے نقشبندجلد اول:305/تذکرہ اولیائے سندھ:282)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت21/رمضان المبارک1125ھ مطابق اکتوبر/1713ءکو’’لواری شریف‘‘ضلع بدین میں ہوئی۔آپ کا سن ولادت ’’من عبادنا المخلصین‘‘سے نکلتا ہے۔(تذکرہ اولیاء سندھ:282/سندھ کےصوفیائے نقشبند:315)
قبل از ولادت بشارتیں: آپ کی ولادت سےقبل بڑےبڑےمشائخ اور صوفیاء نےآپ کی تشریف آوری کی خوشخبریاں دی تھیں۔چنانچہ مخدوم آدم ٹھٹوینےفرمایاتھا:’’میرےاس ٹھٹہ کی اس خانقاہ میں ایک دن ایساآئے گا کہ یہاں ایک دیہاتی آکرتعلیم وتربیت حاصل کرےگا۔جس میں سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کی تمام لیاقتیں کمال کوپہنچی ہوئی ہونگی‘‘۔اسی طرح شیخ فیض اللہ (مخدوم آدم کےصاحبزادے)جب سرہندسےواپس آئےتومخدوم محمد زماں کےوالدکومخاطب کرکےفرمایا:’’جب ہم نےآپ کی سفارش خواجۂ سرہند حضرت امام ربانی سےکی تو وہاں سےآوازآئی کہ ہم ان کوبشارت دیتےہیں کہ ان کی پشت سےایک ایسافرزندپیداہوگا جس میں ہمارےسلسلہ کی تمام لیاقتیں اورنور موجود ہوگا۔اس کےعلاوہ خواجہ ابوالقاسم نقشبندینےبشارت دی تھی کہ ’’تمھارےہاں ایسا فرزند ہوگا جومرجع الخلائق ہوگا‘‘۔صاحبِ لطیفۃ التحقیق لکھتےہیں:جب غوث العالمین حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی کالوری کی طرف سےگزرہواایک مقام پرآپ سواری سےنیچےتشریف لائے،اور پیدل چلنےلگے۔آپ کےمریدین نےاس کی وجہ دریافت کی توآپ نےفرمایا:’’اس جگہ پرآسمان سےانوار الہی کی بارش ہورہی ہے۔اسی وجہ سےمیں ادباً اترگیاہوں۔اسی جگہ حضرت مخدوم زماں کی ولادت باسعادت ہوئی‘‘۔(سندھ کےصوفیائےنقشبند:314/315)
تحصیلِ علم:بچپن میں اپنےوالدِ گرامی سےقرآن مجید مکمل کیا۔والدصاحب سےمزیدتحصیل علم کاشوق تھا،اور ان کی زیادہ توجہ نےبھائیوں کوحسد میں مبتلاکردیا۔مجبوراً گھرچھوڑنا پڑا۔’’ننگر ٹھٹے‘‘میں مولانا محمد صادق جیسےفاضل متبحرکےمدرسےمیں داخل ہوکرحصولِ علم میں مشغول ہوگئے۔اپنی ذکاوت وذہانت کےباعث اپنےہم سبق ساتھیوں سےسبقت لےگئے۔آپ نےبہت جلد عربی زبان اور دیگر علوم دینیہ پرعبورحاصل کرلیا۔(ایضا:316)
بیعت وخلافت:آپسلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت خواجہ ابوالمساکین محمدٹھٹویکےدستِ بیعت ہوئے،انہوں نے دیکھتےہی پہچان لیا کہ یہ وہی مردِ خدا ہےجس کی بشارت حضرت مجددنےدی تھی،اوران کی پیش گوئی میرےمرشدحضرت شیخ ابوالقاسم نقشبندینےفرمائی تھی۔وہ آپ پرخصوصی توجہ دینےلگے۔قلیل مدت میں ریاضات ومجاہدات کےبعدحضرت خواجہ ابوالمساکیننےاپنےمریدین متوسلین اور عوام وخواص میں اس طرح اعلان فرمایا:’’کہ مخدوم زماں کو اپنی مسندپربٹھایا اپنی دستار ان کےسرپررکھی،اوران کےپاپوش اپنےہاتھ سےدرست کرکےسب کوحکم دیاکہ ان کےقدموں میں جھک کر ان سےبیعت کریں،آج کےبعد یہی تمھارے مرشد ہیں،جوہماراہےوہ ان سےانحراف نہیں کرےگا۔پھر فرمایا: واللہ!اس وقت قطبِ وقت ،اور قطب ارشاد یہ ہیں۔اس وقت روئے زمین پرکوئی ولی ان جیسانہیں۔پھر حضرت خواجہ ابوالمساکین تمام امور آپ کےسپرد کرکےخود عزلت نشین ہوگئے‘‘۔(سندھ کےصوفیائےنقشبند:317)
سیرت وخصائص:جامع کمالاتِ علمیہ وعملیہ،صاحبِ اوصافِ کثیرہ،مخدومِ جہاں حضرت خواجہ محمد زماں مخدوم اول۔آپمادرزاد ولی کامل تھے۔آپ کی ولادت سےقبل اولیاء وصوفیاء نےبشارتیں دیں۔آپ کاخاندان علم وفضل زہدوتقویٰ میں مرجعِ خلائق تھا۔بڑےبڑےصوفیاء واولیاء اس خاندان میں گزرےہیں،لیکن حضرت مخدوم ِ زماں خواجہ محمد زماں جیسا صاحبِ فضل پیدانہیں ہوا۔آپکی ذات شریعت وطریقت کےتمام فضائل وکمالات سےمزین تھی۔آپ کی زبان سےکبھی کوئی ناشائستہ لفظ نہیں نکلا۔شریعتِ محمدیہ پراستقامت سےعمل پیراتھے۔کبھی اہل دنیا سےکوئی غرض وابستہ نہیں کی۔بلکہ آپ اکثر فرمایا کرتےتھے:’’کہ ہم ان پیروں میں سےنہیں ہیں جومریدوں کےدروازوں سےخیرات مانگتےہیں‘‘۔استغنااوربےنیازی کایہ عالم تھاکہ کبھی کسی سےکوئی سوال نہیں کیا۔ایک مرتبہ وقت کےحکمران میاں غلام علی شاہ کلہوڑونےبڑی منت وسماجت کرکےجاگیریں خانقاہ کےلئے پیش کیں تو وہ بھی قبول کرنےسےانکار کردیا اور فرمایایا:’’جودنیاوی بادشاہ کادوست ہوتا ہےوہ مستغنی عن الرزق ہوتاہے۔پھرجواحکم الحاکمین جل جلالہ کادست ہووہ بھلاکب محتاج اور مسکین رہ سکتاہے۔بلکہ وہ تو ایسا شہنشاہ ہوتاہے کہ غلام شاہ جیسےسینکڑوں حاکم اس کےغلام ہوتےہیں‘‘۔(ایضا:325)
اللہ کی ذات پر ایساکامل توکل تھاکہ روزانہ سینکڑوں آدمی اور بعض مرتبہ یہ تعداد ہزاروں تک جاپہنچتی آپ کےلنگرسےفیض یاب ہوتےتھے۔کبھی کسی سےکچھ نہیں مانگا۔بلکہ یہ فرمایا کرتےتھے:’’ہمیں کسی چیز کی احتیاج نہیں،ہمارارب نہ صرف ہمیں بلکہ ہمارےمتوسلین کورزق پہنچارہاہے۔اللہ جل شانہ نےخزانوں کی چابیاں ہمارےہاتھ میں دیدیں،اگر ہم چاہیں توعمدہ عمدہ کھانےپکواکر لنگر میں کھلائیں لیکن اس میں تصنع کاخوف ہے،اس سےاجتناب کرتےہوئے ہم روکھی سوکھی پراکتفاء کرتےہیں‘‘۔(ایضا:326)
اللہ جل شانہ نےآپ کوتمام اعلیٰ اوصاف اور اخلاقِ محمدیﷺسےوافر حصہ عطاء کیا تھا۔ایک حجام بڑا دیہاتی اور اجڈقسم کاآدمی تھا۔وہ آپ کےناخن اور بال تراشتےوقت انگلیاں زخمی کردیتاتھااورکبھی سرپربھی کٹ لگابیٹھتاتھا۔مریدین نےعرض کیا کہ اس ظالم کونکال کرکسی اورکوبُلائیں۔لیکن آپ ہربار منع کرتےاور فرماتے:’’یہ بیچارہ کئی سال سےہماری خدمت کررہاہے۔اب اس کونکال کرکسی اور حجام کورکھنا بےمروتی ہوگی اور یہ آیت تلاوت کرتےتھے:والسابقون السابقون ۔اولئک ھم المقربون۔یعنی جنہوں نےپہل کی ہے وہ ہی مقرب ہے‘‘۔سندھ کےمشہور صوفی شاعر حضرت شاہ عبداللطیف آپ سےبڑی عقیدت رکھتےتھے۔جب ملاقات کےلئےتشریف لےگئےتواتنےمتأثر ہوئے کہ کہنےلگےمیری خواہش ہےکہ میں آپ کامریدہوجاؤں۔اس کےبعد بہت دیرتک اسرا ر ومعارف کی باتیں ہوتی رہیں ۔جب شاہ صاحب نےجانےکےلئےاجازت طلب کی تو آپ نےانہیں ’’خلافت کی چادر‘‘پہنائی اور اور الوداع کیا۔وہ چادر شاہ صاحب کو اس قدر محبوب تھی کہ انہوں نےوصیت فرمائی کہ جب میں مرجاؤں یہ چادر میرےکفن کےساتھ بطورتبرک رکھ دینا۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔(ایضا:324) آپ مریدین کی دینی اور روحانی تربیت کا خاص خیال رکھتے تھے، موسم گرما میں صبح کے حلقہ کے بعد دالان میں تشریف فرما ہوتے، لوگ کھچا کھچ بھر جاتے، پھرآپ اور آپ کے مرید مراقبے میں مشغول ہوجاتے اور محویت کا یہ عالم ہوتا کہ ان حضرات کا دھوپ کی سخت تمازت بھی استغراق کی کیفیت سے واپس نہیں لاسکتی تھی، جب لوگ چاشت کے وقت مراقبہ ختم کرتے تو زمین پسینہ سے تر ہوتی تھی، آپ کی خانقاہ میں شب بیداری کا خاص اہتمام تھا اس کے لیے ایک شخص مقرر تھا جو لوگوں کو عبادت کے لیے بیدار کرتا تھا۔(تذکرہ اولیائےسندھ:283)
حضرت مخدوم اتباع شریعت کا خاص طور پر خیال رکھتے تھے۔ اور مریدوں کی تربیت میں بھی ہمیشہ اس کی کوشش فرماتے کہ احکام شریعت پر اور سنت نبوی پر پورا پورا عمل کیا جائے۔ایک دفعہ حافظ صدالدین سے مخدوم کی وفات کےبعد کسی نے آپ کے اوصاف کے متعلق پوچھا۔ فرمایاکیا پو چھتے ہو،حضرت مخدوم تو اتباع رسول اکرمﷺ کا مجسم پیکر تھے اور آپ کے مرید بھی اتباع رسول اکرمﷺ میں آپ کے نقش قدر پر تھے۔پھر اس کے بعد فرمایا : جب آپ بیت الخلاء کے لیے تشریف لے جاتے تو میں آپ کے ساتھ جاتا۔ اتفاقاً ایک دفعہ راستہ میں ایک پیسہ پڑا ہوا تھا۔ میں نے چاہا کہ اس کو اٹھا لوں،آپ نے مجھے منع فرمایا۔ میں نے عرض کیا کہ اس کے اٹھالینے میں کیا حرج ہے۔ فقہاء کا فتویٰ تو یہ ہے کہ اگر پڑی ہوئی چیز کا مالک نہ ملا تو میں خیرات کروں گا۔فرمایا یہ صحیح ہے لیکن اس کا اٹھانا خلاف ِمستحب ہے۔ آج ترک مستحب کروگے،کل ترک سنت پر آمادہ ہوجاؤگے۔اس کے بعد ترک فرض کی نوبت آئے گی اور ترک فرض بعض مرتبہ انسان کو کفر تک پہنچا دیتا ہے۔(ایضا:284)
آپہرقسم کی شہرت اور دکھاوےکےلئے’’اظہارِ کرامت‘‘کوبراسمجھتےتھے۔ایک دن ایک شخص نےآپ سےذکرکیا کہ شاہ عبدالکریم بلڑی والے(جدامجدحضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی)ایک دفعہ درویشوں کولےکردریاسےاوپرچلتےہوئےہوئےدوسرےکنارےپہنچ گئےاور کسی کاکپڑابھی گیِلانہیں ہوا۔آپ نےفرمایا:’’کرامت کادن ابھی آگےہے۔مَردوں کی مردانگی کاکل قیامت کےدن پتہ چلےگاکہ اپنی جماعت کوسلامتی کےساتھ دارلسلام (جنت) تک کون پہنچاتاہے‘‘۔(سندھ کےصوفیاءنقشبند:327)
تاریخِ وصال:آپ کاوصال 4/ذی قعدہ 1188ھ مطابق جنوری/1775ءکوبوقتِ چاشت ہوا۔جس حجرےمیں آپ مدفوں ہیں اس کےمتعلق بشارت دیتےہوئےفرمایا:’’اس حجرےکےاردگردجوبھی مدفون ہیں وہ سب مرحوم ہیں۔اس حجرے کی خاک اگرکسی قبر میں رکھ دی جائے تواس کی نجات کی امید رکھنا۔یہاں سعادت مندکوہی بھیجاجائےگا۔جوایک بارہمارےپاس یہاں آئےگاہم اس کاہاتھ نہیں چھوڑیں گے‘‘۔(سندھ کےصوفیائےنقشبندجلداول:332)محبوب الصمد حضرت خواجہ گل محمد آپ کےسجادہ نشین ہوئے۔مزارپرانوارلواری شریف ضلع بدین میں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذ ومراجع: سندھ کےصوفیائے نقشبندجلد اول۔تذکرہ اولیاء سندھ۔