شیخ موسی آہنگر سہروردی لاہوری
شیخ موسی آہنگر سہروردی لاہوری (تذکرہ / سوانح)
شیخ موسی آہنگر سہروردی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ
آپ کی ولادت ۱۴۳۷ء بمطابق ۸۴۱ھ میں ہوئی، والد کا اسم گرامی سلطان عرب تھا اور والدہ کا بی بی عائشہ تھا، آپ کا شجرہ نسب حضرت امام محمد تقی اور پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر ختم ہوتا ہے، آپ کی بیوی کا نام بی بی ملکی تھا جو شیخ زکریا رحمتہ اللہ علیہ کی دختر نیک اختر تھی۔
خلا فت
حضرت شاہ عبد الجلیل چوہڑ بندگی رحمتہ اللہ علیہ سے خلافت پائی تو مرشد نے اپنے پاس ہی دو بیگھ زمین دے دی، پہلے شیخ شہر اللہ بن یوسف سجادہ نشین روضہ انور حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ سے بیعت تھے ان کی وفات کے بعد لاہور آئے اور پیرو مرشد کی خدمت میں رہنے لگے اور بالآخر یہاں کے ہی ہورہے، لاہور آنے سے قبل آپ تقریباً دس برس تک حرمین الشر فین میں مقیم رہے اس عرصہ میں آپ نے وہاں تفسیر وحدیث کا بھی درس دیا اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیئے ہند وستان کا رخ کیا، ٹھٹہ ،ملتان،گجرات کا ٹھیا واڑ وغیرہ ہوتے ہوئے لاہور پہنچے۔
لاہور میں آمد
جب آپ لاہور میں تشریف لائے تو شہر کے مرد اور عورتیں جوق در جوق آپ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے اور آپ کی حاجت روائی کرنے لگے، پھر علماء اور فضلا بھی حاضر خدمت ہوئے، آپ سے سوالات کیئے جن کے جوابات آپ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں دیئے جس کا آپ کی شہرت میں نما یاں اثر پڑا، لاہور اور مضا فات لاہور سے لوگ حاضر خدمت ہوکر ارادت مندی اور عقید ت مندی کا اظہا ر کرنے لگے۔
منا قب موسوی،میں لاہور سے متعلقہ آپ کی بیشمار کرامات تحریر ہیں، مشہور روایت ہے کہ انگریزوں کے عہد میں جب میکللو ڈ روڈ بننی شروع ہوئی تو ریلوے اسٹیشن تک سید ھا راستہ نکالنے کےلیئے یہ مقبرہ بھی منہدم ہونے والی عما رات میں شامل تھا مگر بعد میں ان حکام کی تعمیل نہ ہوسکی بلکہ غربی دیوار جو گرائی گئی تھی از سر نو تعمیر کرادی گئی۔
خلفاء
میر ہاشم بخاری رحمتہ اللہ علیہ حاجی شیخ رحمتہ اللہ علیہ، مخد وم علم الدین رحمتہ اللہ علیہ، شیخ موہری رحمتہ اللہ علیہ، حاجی اسحاق سندھی اور حافظ رزق اللہ بنیا نی وغیرہ۔
اولاد
آپ کے چار فرزند تھے۱شیخ یعقو ب رحمتہ اللہ علیہ۲شیخ اسحاق رحمتہ اللہ علیہ ۳شیخ اسماعیل رحمتہ اللہ علیہ
۴شیخ احمد رحمتہ اللہ علیہ۔
۱شیخ یعقوب رحمتہ اللہ علیہ۔کا بل میں تھے کہ وہاں انتقال کرگئے اور ایک گاؤں دیہہ یعقوب،میں دفن کیا گیا۔
۲شیخ اسحاق رحمتہ اللہ علیہ۔ والد بز گو ار سے جبہ و پیر ہن اور سند خلافت حاصل کی۔
۳شیخ اسماعیل رحمتہ اللہ علیہ۔ نہایت نامو ر بزرگ ہوئے ہیں۔
۴شیخ احمد رحمتہ اللہ علیہ کو آپ کے والد نے خادم علم الدین کھو کھر کے ساتھ کابل روانہ کیا کہ وہاں جاکر میر ہاشم کی وسا طت سے بادشاہ سے ملیں اور ان کو ہندوستان کی بادشاہت کی خو شخبری دیں چنا نچہ یہ کابل پہنچے اور ہما یوں کو ساتھ لے کر واپس لاہور آئے۔
بیشمار کرامات آپ کی جاتی ہیں، تذکرہ قطبیہ،میں لکھا ہے کہ جب آپ ملتان سے لاہور تشریف لائےاور یہاں آہنگری کا کام شروع کیا تو ایک ہندو عورت تکلا درست کرانےآئی آپ اس کی طرف گھو ر گھور کر دیکھنے لگے جس سے وہ عورت محجوب ہوئی اور کہنے لگی کہ یا حضرت میری طرف کیوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر تک رہے ہو، شیخ صاحب نے تکلا جو آگ سے سرخ ہوا تھا بھٹی سے نکا ل کر اپنی دونوں آنکھوں میں پھیر لیا اور کہا کہ اگر میں نے بد نیتی سے دیکھا ہے تو میری آنکھیں جل جائیں مگر ایسا کرنے پر بھی آنکھیں بالکل درست رہیں جو کہ آپ کی نیک نیتی پر دلا لت تھی چنا نچہ وہ ہندو عورت آپ کے قد موں پر گری اور مسلمان ہوئی اور جب مری تو یہاں ہی مد فون ہوئی، اس کی قبر بھی اب اسی احاطہ کی شمالی دیوار کے پاس ہے۔
تعمیر روضہ
آپ کا روضہ لاہور کی قدیم اور اعلیٰ ترین عمارات میں شامل ہوتا ہے، سبز رنگ ہے، اند رونی دیو اروں پر قرآنی آیات ابھر ے حروف میں موجود ہیں،کہا جاتا ہے کہ آنجنا ب کا روضہ میر ہاشم نے بنوایا تھا جو ہما یوں بادشاہ اور اکبر بادشاہ کا وزیر تھااور اسے حضرت موسیٰ آہنگر سے عقیدت تھی، گنبد پر کا نسی کا کام سبز رنگ میں کیا ہوا ہے، ارد گرد چار دیوار ہے گنبد بہترین ساخت کا بنا ہے اور زمانہ قدیم کی کا ریگر ی کا نمونہ پیش کرتا ہے۔
وفات
مصنف،خزینتہ الا صفیا نے آپ کی وفات ۱۵۱۹ء۹۲۵ھ بعہد ابر اہیم لودھی تحریر کی ہے اور یہاں ہی ایک عالیشان مقبرہ تعمیر ہوا یہ مقبرہ میکلوڈ روڈ پر قلعہ گوجر سنگھ کی آبادی کے با لمقا بل بطر ف گو المنڈ ی میں ہے جہاں آپ کا مزار ہے وہاں ہی کسی زمانہ میں آپ کی آہنگری کی دکان تھی، آج کل یہ مقبرہ مسجد کے ساتھ چراغ سٹریٹ میں واقع ہے،مفتی صاحب نے تاریخ وفات لکھی ہے۔
چو نور طور عرفان شیخ موسیٰ
شد از دنیا بہ خلد جادوانی
بہ سرور شد عیاں تاریخ سالش
بہ سرور شد عیاں تاریخ سالش
زسلطان زمن موسیٰ ثانی
سن وفات کے متعلق مختلف راویات ہیں،مصنف، مناقب موسوی،کا کہنا ہے کہ یہ مقبرہ آپ کی حیات میں ہی تعمیر ہوا تھا، ہمایوں بادشاہ کے ایک وزیر محمد ہاشم بخاری نے ۱۵۵۴ء بمطابق ۸۶۲ھ میں تحریر کی ہے ۱۹۶۶ءمیں حکومت نےمقبرہ کو قومی یادگار قرار دیا ہے۔
(لاہور کے اولیائے سہروردیہ)