حضرت حاجی حسن سخی بابا منگھو پیررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت حافظ حاجی حسن المعروف سلطان بابا منگھو پیر کا سالانہ عرس شریف آٹھ ذی الحجہ کو ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سخی سلطان منگھو پیر روحانی بزرگ اور بابا فرید گنج شکر کے مریدوں میں سے ہیں۔ دوسرے ترجمانوں کے مطابق آپ حضرت شاہباز قلندر کے مرید ہیں۔ اس سلسلے میں حتمی دستاویز شاید مزار کے سابق متولی کے پاس موجود ہے۔
کراچی شہر سے ۱۱ میل شمال کی جانب واقع پہاڑی جو لیاری ندی اور کھرتار ورب پہاڑوں کے دامن میں حضرت حافظ حاجی حسن المعروف سخی سلطان بابا منگھو پیر چشی مزار واقع ہے جو۷۰۰ سال قبل برصغیر میں تشریف لائے تھے آپ تیرہویں صدی عیسوی میں بخار ا سے آئے تھے حضرت منگھو پیر حضرت اما م حسن سے ماں کی طرف سے اور حضرت امام حسین سے باپ کی طرف سے نسبت رکھتے تھے، آپ نے تاتاریوں کے لشکر کے خلاف جنگ میں حصہ لیا جس نے اس ملک پر حملہ کیا تھا اس کے بعد آپ حجاز مقدس زیارت کے لیے چلے گئے اسی دوران جب آپ مدینہ منورہ میں تھے تو آپ حجاز مقدس زیارت کے لیے چلے گئے اسی دوران جب آپ مدینہ منورہ میں تھے تو آپ نے خواب میں حضرت محمد ﷺ کو دیکھا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے انکو حکم دیا کہ ہندوستان میں اجودھان جاکر اپنی خدمات حضرت باب فرید گنج شکر کو پیش کرو۔ حضرت منگھو پیر اجودھان پہنچے (آج کل جسکا نام پاک پٹن شریف ہے) اور حضرت بابا صاحب کے شاگردوں / مریدوں میں شامل ہوگئے۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت بابا فرید نے حضرت منگھو پیر کو اپنا خلیفہ مقرر کیا اور اپنے خلافت نامہ میں ہدایت کی کہ اس جگہ جائیں جو اب کراچی کہلاتی ہے اور وہاں مقیم ہوجائیں اور اپنا مشن، تبلیغ اسلام بنائیں اور اسلامی تعلیمات کو علاقہ میں عام کریں۔ حضرت بابا فرید کی زندگی ۱۱۷۵ء سے ۱۲۶۵ء تک ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ آپ نے آخری سولہ یا چوبیس سال پاک پٹن میں گزارے ، حضرت منگھو پیر ایک غار میں رہ کر روحانی ، عرفانی الہٰی کو حاصل کرنے کے لیے وظائف اور دعائیں کیا کرتے تھے۔ وہ علاقہ غیر آباد بنجر تھا۔ بعد میں آہستہ آہستہ علاقہ آباد ہوتا گیا اور علاقہ کے لوگوں کو آپکی روحانی علمی صلاحیت کا علم ہوتا گیا ۔ یہ ایک عام سی بات ہے خدا کے نیک بندے غیر آباد علاقوں میں قیام کرتے ہیں جو آہستہ آہستہ آباد ہوتی جاتی ہے۔ حضرت منگھو پیر کے بارے میں تاریخی معلومات مندرجہ ذیل کتابوں میں ملتی ہیں:
ا۔ تاریخ البرہانی مصنف برہان الدین عربی زبان میں ہے اور الازہر یونیورسٹی میں موجود ہے۔
ب۔ تو فات الکریم ۔ مصنف جناب علی کانا ٹھٹھوی۔ جلد (۱۱۱)
ج۔ سفر نامہ ابن بطوطہ
اس وقت کے ہم عصروں میں حضرت بہاؤ الدین ذکریا حضرت قلند لال شہباز ، حضرت جلال الدین بخاری اسکے علاوہ حضرت بابا فرید تھے۔
ترجمانوں کا خیال ہے کہ محمد بن قاسم کے کچھ سپاہی وقتی طور سے اس علاقے میں رہائش پذیر تھے اس لیے کہ اس وقت کے قبروں کے ڈیزائن کے آثار موجود ہیں۔ جو ایسے نشانات رکھتے ہیں جو چوکنڈی، ٹھٹھہ اور سہون شریف کے قبروں پر ملتے ہیں۔
حضرت منگھو پیر کو اس نام سے لوگ پیا رو محبت اور عقید ت سے یاد کرتے ہیں اس لیے کہ وہاں تالاب میں کئی مگر مچھ موجود ہیں۔ منگھار میچ کے معنی مگر مچھ کے ہیں اور منگھو پیر کے معنی ہیں بزرگ یا پاک مگر مچھ ۔ اس تالاب میں تقریباً ۱۵ مگر مچھ پائے جاتے ہیں جبکہ بیان یہ کیا جاتا ہے کہ کبھی اس تالاب میں ۱۰۰ مگر مچھ ہوا کرتےتھے، اس تالاب میں مگر مچھوں سے متعلق مختلف روایتیں وغیرہ ملتی ہیں۔ ایک سمجھ میں آنے والی یہ بات بھی ہے کہ دریائے حب میں طغیانی آنے سے مگر مچھ یہاں آگئے اور تالاب میں ایک چشمہ ہے جہاں سے پانی آتا ہے، زائرین اور عقیدت مند احتراماً اور تعظیم کی خاطر ان مگر مچھوں کو خوراک مہیا کرتے ہیں۔
یہاں ٹھنڈے اور گرم پانی کے گندھک ملے ہوئے چشمے ہیں جن میں زخم کی شفایابی کی تاثیر ہے خاص کر جلدی امراض کے لیے مفید ہیں۔ اسی کے قریب کوڑھ کا سینی ٹوریم بھی واقع ہے۔ مختلف عقیدے کے لوگ اس مزار مبارک پر تشریف لاتے ہیں ۔ اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے بعد چشموں پر جاکر نہاتے ہیں اور مگر مچھوں کو گوشت ڈالتے ہیں۔
حضرت منگھو پیر کے ایک مرید جن کانام حضرت خاکی شاہ بخاری ہے جو بعد میں آپ کے خلیفہ بنے اور آپ کا بھی مزار کمپاؤنڈ میں قریب ہی واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں ایک ہندو شہزادی کوڑھ میں مبتلا تھی اور حضرت منگھو پیر نے اپنے مرید خاکی شہ ہدایت کی کہ وہ اسکا علاج دعا ؤں سے کریں جو کامیاب رہا جسکے نتیجہ میں ہندو راجہ نے اس کرامت کو دیکھ کر اپنی بیٹی کی شادی خاکی شاہ سے کردی۔
حضرت منگھو پیر نے دعاؤں اور تبلیغ سے ایک کم عرصہ میں بہت کام کیا۔ وہ چھوٹی سی پہاڑی جسکے غار میں آپ قیام پذیر ہوئے تھے اور اپنا مشن عبادت و تبلیغ شروع کیا تھا وہاں بے شمار لوگ آباد ہوتے گئے اور علاقہ منگھو بستی یا اور نگی وادی کے نام سے مشہور ہوگیا۔
یہ بات بیان کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ حضرت جلال الدین بخاری۔ حضرت لال شہباز قلنر اور حضرت بابا فرید ہمیشہ حضرت منگھو پیر سے کرتے تھے اور یہ تمام بزرگان ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب تمام بزرگان حضرت منگھو پیر سے ملنے آئے اور آپ سے فرمایا کہ آپ ان کے ساتھ حج پر چلیں۔ حضرت منگھو پیر نے فرمایا کہ ان کی وفات کا وقت قریب ہے اور انہوں نے اپنا مشن مکمل کرلیا ہےجو اسلام کی تبلیغ حضرت نبی پاک ﷺ کی ہدایت کے مطابق تھی اور جو ہدایت آپ کو اپنے پیر و مرشد حضرت بابا فرید گنج شکرنے دی تھی لہٰذا یہ بہتر ہے کہ وہیں رہیں ۔آٹھ ذی الحج کا دن تھا کہ آپ نے وفات پائی اور ۸ اور ۹ ذی الحج کو ہر سال آپ کا عرس مبارک منایا جاتا ہے۔
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )