پیر محمد عمر روحی
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 1318 | صفر المظفر | 17 |
یوم وصال | 1398 | محرم الحرام | 01 |
پیر محمد عمر روحی (تذکرہ / سوانح)
حضرت پیر محمد عمر روحی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت پیر ابو الرضا محمد عمر روحی ۷ اصفر المظفر ۱۳۱۸ھ ؍ ۱۶مئی ۱۹۰۰ء کو تولد ہوئے۔
ملازمت :
مارچ ۱۹۱۷ء میں آپ جودھپور ریلوے میں بطور تار بابو ملازمت اختیار کی اور اس سلسلہ میں مختلف مقامات پر تعینات رہے۔ جون ۱۹۱۹ء میں انہوں نے مستقل ملازمت محکمہٗ تار و ڈاک میں اختیار کی اور مختلف مقامات پر بطور پوسٹ ماسٹر تعینات رہے۔ مارچ ۱۹۲۳ء کو ان کا تبادلہ ان کے آبائی وطن ’’ناوہ کچا من‘‘ میں ہوا۔
بیعت و خلافت:
ناوہ کچا من میں جب ان کا تبادلہ ہوا تو یہیں ۱۹۲۳ء کے او آخر میں ان کی ملاقات حضرت میر سید محمد احمد صدیقی المتخلص بہ قاتل شاہ لکھنوی ( مدفون دربار عالم شاہ بخاری جامع کلاتھ کراچی ) سے ہوئی جو محکمہ ریلوے میں ملازم تھے اور اکثر اجمیر شریف سے قصبہ ناوہ آتے رہتے تھے۔ ان سے ملاقاتیں ہونے لگیں ، صحبت میں بیٹھنا نصیب ہوا، رنگ چڑھا اثر ہوا اور بالآخر ۲۵ ذی الحجہ ۱۳۴۳ھ؍ ۱۷ جولائی ۱۹۲۵ء کو سلسلہ عالیہ سہرور دیہ کی شاخ جہانگیری میں حضرت قاتل شاہ سے دست بیعت ہوئے اور ۲۶ ربیع الاول ۱۳۴۷ھ؍ ۱۱ ستمبر ۱۹۲۸ء کو انہیں خلافت و اجازت سے نواز ا گیا۔ یوں انہوں نے ملازمت کے ساتھ ساتھ سلسلہ کا کام بھی جاری رکھا۔
صدر الشریعۃ سے عقیدت :
انہیں خلیفہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی صدر الشریعہ علامہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے جو تعلق و محبت تھی وہ انہیں کے الفاظ میں درج ہے۔ وہ انہوں نے خود نوشت سوانح ’’ روئے کتابی ‘‘ میں یوں لکھتے ہیں:
( ۶مئی ۱۹۴۰ء کو )پالی پہنچنے پر وہاں کے مسلمان خصوصا چھیپے ملنے کیلئے آئے اور انہوں نے ہم سے کہا کہ صدر الشریعۃ مولانا امجد علی صاحب ( صاحب بہار شریعت ) جب تک اجمیر شریف میں درگاہ شریف میں درگاہ کے مدرس تھے ، ہر سال گیارہویں شریف میں تقریر کیلئے پالی تشریف لایا کرتے تھے۔ لیکن اب وہ دادوں ضلع مظفر پور چلے گئے ہیں ہم نے انہیں گیارہویں شریف پر بلانے کیلئے خط لکھے ہیں لیکن انہوں نے آنے سے انکار کردیا۔ ہم نے کہا کہ ہم ان کو بلائیں گے ، ان سے پتہ لے کر ہم نے انہیں تار دیا کہ اس جواب میں مولانا نے پالی آنے کا اقرار کر لیا۔۔۔۔بڑی گیارہویں شریف پر مولانا امجد صاحب پالی تشریف لے آئے اور شام کو چھیپوں کی بڑی مسجد کے سامنے پیارا چوک میں ان کی تقریر ہوئی، ہم نے بھی اور لوگوں کے ساتھ سامعین میں تقریرسنی ، تقریر ختم کرنے کے بعد مولانا چھیپوں کی بڑی مسجد کے اوپر حجرہ میں جائے قیام کیلئے تشریف لے گئے ،ہم بھی ان کے پیچھے پیچھے اوپر گئے ۔ وہ جب جا کر چار پائی پر بیٹھ گئے تو ہم نے ان کو سلام کیا اور دست بوسی کی، انہوں نے ہمارے حضرت قبلہ ( قاتل شاہ ) اور دادا قبلہ ( حضرت عبدالشکور ) کی خیریت معلوم کی اور دریافت کیا کہ آپ یہاں کیسے آئے ؟ میں نے عرض کیا کہ پوسٹ ماسٹر کی جگہ تبدیل ہو کر یہاں آیا ہوں ۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ آپ نے یہاں کچھ سلسلہ کا کام کیا؟ میں نے عرض کیا کہ مجھے آئے ہوئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے اگر میرے حضرات کا کرم اور آپ کی دعا شامل حال رہی تو انشاء اللہ سلسلے کا کام شروع ہو جائے گا۔ آپ نے فرمایا کہ کل صبح کا ناشتہ ہمارے ساتھ کرنا ۔۔۔۔۔۔۔۔لہذا دوسری صبح فجر کی نماز کے بعد مولانا کے ساتھ ناشتہ کیا دوسرے روز شام کو پھر محلہ ناڑی میں مولانا کی تقریر بھی عام سامعین کے ساتھ سنتے رہے۔ وعظ ختم ہونے کے بعد ہم السلام علیکم کر کے مصافحہ کیا۔ آپ نے فرمایا کہ آپ کہاں بیٹھے تھے ؟ یہاں میرے ساتھ تخت پر آکر بیٹھنا چاہیے تھا۔
میں نے عرض کیا کہ مجھے سامنے بیٹھ کر ہی سننے میں مزا آتا ہے‘‘۔ ( روئے کتابی صفحہ ۱۴۱ مطبوعہ حیدرآباد )
پاکستان آمد :
قیام پاکستان کے بعد پاکستان تشریف لائے اور حیدرآباد سندھ میں سکونت اختیار کی۔
وصال:
حضرت ابو الرضا محمد عمر روحی یکم محرم الحرام ۱۳۸۹ھ؍ ۱۲ دسمبر ۱۹۷۷ء ۷۷ سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔
[جناب حسن نواز شاہ صاحب ( اسلام آباد) کے مقالہ سے یہ مضمون ماخوذ ہے]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)