امام انقلاب سید صبغت اللہ شاہ ثانی شہید
امام انقلاب سید صبغت اللہ شاہ ثانی شہید (تذکرہ / سوانح)
امام انقلاب سید صبغت اللہ شاہ ثانی شہید رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی: سید صبغت اللہ شاہ ثانی راشدی۔القاب:امام ِ انقلاب پیر صاحب پاگارہ ششم ، صاحبِ دستار (پگ دھنی)، سورھیہ بادشاہ ،شہید بادشاہ ، بطل ِحریت ، مجاہد ِاعظم ۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:حضرت پیر سید صبغت اللہ شاہ ثانی راشدی بن حضرت پیر سید شاہ مردان شاہ اول بن حضرت پیر سید حزب اللہ شاہ بن حضرت پیر سید علی گوہر شاہ اصغر بن حضرت پیر سید صبغت اللہ شاہ اول بن امام العافین آفتابِ ولایت حضرت پیر سید محمد راشد شاہ المعروف پیر سائیں روضے دھنی رضی اللہ عنہ ۔
تاریخِ ولادت: حضرت سید صبغت اللہ شاہ دوئم 23صفر المظفر 1327ھ،مطابق مارچ/1909ء کو درگاہ عالیہ راشدیہ پیران پا گارہ (پیر جو گوٹھ ، ضلع خیر پور میرس ، سندھ ) میں تولد ہوئے۔ والد ماجد شمس العلماء و العرفاء حضرت پیر سید شاہ مردان شاہ اول راشدی المعروف پیر صاحب پاگارہ پنجم کے وصال ( 7 ربیع الاول 1339ھ9 نومبر 1920ء ) کے بعد سید صبغت اللہ نومبر 1921ء کو فقط بارہ سال کی عمر میں مسند نشین ہو کر پیر صاحب پاگارہ ششم کی حیثیت سے متعارف ہوئے۔
تحصیلِ علم: خانقاہ شریف میں اپنے والد ماجد و پیر و مرشد کی تربیت میں پروان چڑھے ۔ بعد مسند نشینی کے بھی تعلیم و مطالعہ کا سلسلہ جاری رکھا ۔ حافظ خدا بخش سومرو اور مولانا امام بخش مہیسر اساتذہ میں سے تھے۔
بیعت وخلافت: اپنے والدِ گرامی سے بیعت تھے۔ان کے وصال کے بعد جانشین منتخب کیے گئے۔
سیرت وخصائص: امام ِ انقلاب، صاحبِ دستار (پگ دھنی)، بطل حریت ، مجاہد اعظم،شہیدِ حق،حضرت سید صبغت اللہ شاہ ثانی شہیدسورھیہ بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ۔آپ کاشمار ان نفوسِ قدسیہ سے ہے جنہوں نے باطل کو نیست ونابود کرکے حق کا بول بالاکردیا۔آپ کااسمِ شریف جرأت وبہادری کااستعارہ بن گیا تھا۔فرنگی عورتیں اپنے بچوں کو آپ کے نام سے ڈراتیں تھیں۔آپ نے بڑے منظم طریقے سے انگریز کافروں کامقابلہ کیا۔ہزاروں فرنگی حرمجاہدین کے ہاتھوں جہنم واصل ہوئے۔ہیبتِ فارقی،شجاعتِ حسینی،جرأتِ ایوبی،قوتِ حیدری،تقوی عثمانی کی زندہ مثال تھے۔انگریز غاصب وقابض تھا اس لئے آپ ان سے جہادفرضِ عین سمجھتے تھے۔
مسلم لیگی رہنما جناب قاضی محمد اکبر مرحوم آپ کی وجاہت کے متعلق رقم طراز ہیں: مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں نے پیر صاحب کو اپنی چشم ِگنہگار سے دیکھا ہے۔ یہ انسانی حسن کا نادر نمونہ تھے اور روحانی عظمت نے ان کے چہرے پر بلا کا نور اور جلال بکھیر دیا تھا کہ کوئی شخص خواہ وہ کس قدر بھی مضبوط دل رکھتا ہو ان سے آنکھیں ملانے کی تاب نہیں لاسکتا تھا۔ بڑے بڑے انگریز ، سر، اور خان بہادر ، اس مجاہداعظم کے سامنے جاتے تو یک بارگی لرز جاتے تھے لیکن یہ کس قدر شرمناک حقیقیت ہے کہ اس عظیم انقلابی مجاہد کے خلاف جھوٹا مقدمہ گھڑنے والے اور شہادتیں دینے والے بیگانے نہ تھے خود اپنے ہی تھے۔ اس طرح انہوں نے غداری کی روایت یہاں بھی قائم رکھی بہر حال انگریز"حر جماعت" کو کچل نہ سکا اورنہ ان کا شیرازہ منتشر کر سکا۔ (بحوالہ تذکرہ پیران پاگارہ از تبسم چوہدری)
ماہر فنون : حضرت پیر صاحب شریعت مطہرہ کی پابندی ، حقوق العباد کی پاسداری ، جذبہ خدمت خلق ، ذکر و فکر ، شجاعت ہمت مرداں ، عسکری فکر سے سر شار ی ، آداب جہاد سے بیداری ، ذہانت کی بلندی ، دور اندیشی ، بردباری ، تکنیکی دماغ ، نظم و ضبط تنظیم سازی ، توکل علی اللہ، جہد مسلسل اور فہم و فراست ایمانی وغیرہ سے سر شار تھے۔ اس دور میں بھی آپ کے پاس جدید ہتھیار ، اسلحہ اور موٹر گاڑیاں وغیرہ سبھی کچھ تھا اور اس کی مشینری کی خرابی کیلئے آپ کو کسی میکینک کی ضرورت نہیں پڑتی تھی اس لئے کہ یہ سارا کام آپ خود کرتے تھے، جدید مشینوں کی رپیرنگ پر آپ پوری دسترس رکھتے تھے اور مجاہدین کو بھی سکھاتے تھے، اس طرح آپ ماہر فنون تھے۔
جیل سے آزادی کے بعد آپ نے پریس کے سامنے سکھر پل ( برج ) کی تین فنی خامیاں بتا کر اپنے ، پرائے ، دوست، دشمن سب کو حیرت میں ڈال دیا بلکہ انگیریز ماہر تعمیر و انجیئر بھی حیرت و اعتراف کا مجسمہ بن چکے تھے ۔ آپ نے فرمایا:
۱۔ پل طویل ہونے کی صورت میں اس پر سائبان ہونا چاہیے تھا تاکہ بارش یا برف باری کی صورت میں آنے جانے وا لوں کی حفاظت ہو سکتی تھی ۔
۲۔ پل کی چوڑائی کم رکھی گئی ہے، مستقل قریب میں ٹریفک کے بڑھنے کے باعث ؟ تکالیف کا سامنا ہو گا۔
۳۔ دریا میں جو دروازے بنائے گئے ہیں وہ تنگ و چھوٹے ہیں جس کے باعث بڑی کشتی یا جہاز کے گزرنے کا مسئلہ پیدا ہو گا۔ کم از کم ایک دروازہ بڑا رکھا جاتا۔ ( امام انقلاب صفحہ ۸۶)
آپ جمہور اہلسنت کے موقف کے حامی تھے۔جس طرح انگریز کافراور مسلمانوں کادشمن ہے اسی طرح ہندو بھی کافرہے۔یہی امامِ اہلسنت اما م احمد رضا خان کافلسفہ ہے۔اسی فلسفے کی بدولت پاکستان وجودمیں آٓیا۔جب کانگریس کا ایک وفد "گاندھی جی"کی سیادت میں آزادی کاپیغام لایا،تو مجاہدِ اعظم نے فرمایا:"ہم کسی کی سیادت اور قیادت قبول کرنے کیلئے ہر گز تیار نہیں ہیں کیونکہ ہمارے رہنما اور ہادی برحق حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ہیں اور ہمارا دستور العمل قرآن ہے"۔
مقدمہ کے دوران انگریزی حکومت نے اپنے کئی ایجنٹوں کو پیر صاحب کے پاس بھیجا کہ وہ حکومت سے معافی مانگ لیں تو انہیں معاف کیا جا سکتا ہے اور اس طرح وہ بھانسی سے بچ سکتے ہیں لیکن حضرت پیر صاحب نے ان سب کو ایک ہی جواب دیا اور بلاشبہ آزادی کا پر ستار اور سادات کا سپوت ایسے ہی جواب دے سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا:"شہادت ہمارا تاج ہے۔ اسے آگے بڑھ کر پہن لینا ہمارے لیے عبادت ہے۔ ہم نے صرف آزادی کو چاہا ہے اور یہ کوئی جرم نہیں ہے ۔ ظالم سے معافی مانگنے کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ ہم تو صرف اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں"۔ملٹری کورٹ میں جب آپ پر مقدمہ چلایا گیا تو آپ نے ا س سے بیزاری اور بے رخی کا اس انداز سے اظہار کیا جو حریت پسندوں اور مجاہدوں کی شایان شان ہے۔ آپ نے مسکراتے ہوئے بھانسی کا پھندہ گلے میں ڈالنا پسند کر لیا لیکن کافر کی غلامی اور جابر سے معافی طلب کرنے کو ہر گز گوارانہ کیا۔ ( تذکرہ پیران پاگارہ ۱۸۸)
تاریخِ شہادت: 20/مارچ1943ء ،مطابق 14/ربیع الاول 1362ھ، کو فجر کے وقت سینٹرل جیل حیدر آباد میں فقط 35 سال کی عمر میں آپ کو پھانسی دے دی گئی۔ آپ کی تدفین اور مزار کے بارے میں اختلاف ہے۔ایک قول یہ ہے کہ ایک لانچ کے ذریعے پیر صاحب کو کراچی کے مغرب میں واقع ایک جزیرہ"استولا "پہنچا کر وہاں سپرد خاک کیا گیا۔ لیکن محقق علامہ زین العابدین راشدی زیدمجدہ وشرفہ فرماتے ہیں:قرائن اور میرا وجدان کہتا ہے کہ بہادر آباد کی پہاڑی پر نزد باغ و بہار لان آپ کا مزار شریف ہے جس کو عرف عام میں بسم اللہ بابا کا مزار کہا جاتا ہے۔(تونسوی)۔(اللہ ورسولہ اعلم)
ماخذومراجع: انوار علمائے اہلسنت سندھ۔
بنا کر دند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کندایں عاشقان پاک طینت را