حضرت پیر سید جماعت علی شاہ لاثانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
منبع خیرو برکت ،پیکر رشد و ہدایت حضرت پیر سید جماعت لاثانی ابن حضرت سید علی شاہ قدس سرہما 21 ماہ ساون 1916ء بکر (1276ھ/1860ء )[1]
جمعۃ المبارک کہ کے روز بمقام علی پور سیداں پیدا ہوئے ۔ آپ حسینی سادات میں سے تھے ۔ آپ کے اجدا د میں ایران کے نامور بزرگ حضرت نظام الدین شاہ شیرازی رحمہ اللہ تعالیٰ ولی کامل گزرے ہیں ۔ حضرت پیر سید جماعت علی شاہ لاثانی قدس سرہ بچپن یں کم گو اور تنہائی پسند واقع ہوئے تھے۔ عام بچوں کی طرح کھیل کود میں بہت کم حصہ لیتے تھے ۔ آٹھ نو برس کی عمر میں مولانا عبد الرشیدعلی پوری سے علوم کا درس لینا شروع کیا ۔ کلام مجید پڑھنے کے بعد فقہ ، حدیث اور تصوف کی چیدہ چیدہ کتابیں پڑھیں ۔
ویسے تو آپ تمام اسباق توجہ اور محنت سے پڑھتے تھے لیکن تصوف سے زیادہ شغف تھا [2]
اولیاء کرام اور صوفیا ء عظام کے سوانح اور حالات کا مطالعہ بہت مرغوب خاطر تھا تصوف اور بزرگان دین کے اس تعلق نے آ پ کے دل مں عشق الٰہی کی شمع فروزاں کردی ، اب آپ کو مرشد کامل کی جسجتو ہوئی تاکہ روحانی پیاس کو معرفت کے آب زلال سے تسکین دی جاسکے۔
تلاش مرشد میں ا ٓپ کئی دفعہ چورہ شریف حضرت خواجہ فقیر محمد المعروف با با جی قدس سرہ کی خدمت میں حا ضر ہوئے ۔ جب دل پوری طرح مطمئن ہو گیا تو گھر سے بیعت کا ارادہ لے کر لاہور پہنچے کیونکہ آ پ کو معلوم ہوا تھا کہ حضرت با با جی لاہور میں تشریف فرما ہیں ۔ وہاں سے معلوم ہوا کہ آپ موضع پٹیا لہ تشریف لے گئے ہیں چنانچہ آپ لاہور سے پٹیالہ پھر موضع دھو نکل(وزیر آباد ) اور وہاں سے سیالکوٹ پہنچے اور شرف بیعت سے مشرف ہوئے بہت جلد مدارج سلوک طے کرتے ہوئے اس مرتبہ پر پہنچے کہ خلافت سے نواز دئے گئے[3]
آپ کے دل میں اپنے شیخ کی بے پناہ محبت تھی ۔ چورہ شریف کے علاقے کا کوئی شخص بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو اس کا بے حدا حترام فرماتے اور شفقت سے نوازتے۔
علی پور شریف میں دو ایسے با کمال بزرگ آرام فرما ہیں جو ہمنام ہونے کے علاوہ حضرت خواجہ فقیر محمد چوراہی قدس سرہ کے مرید اور خلیفہ تھے اس لئے حضرت خواجہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ثانی صاحب کا امتیازی لقب عطا فرمایا تھا ، بعد ازاں آپ کی ترقئی درجات کے پیش نظر لاثانی کا لقب عطا فرمادیا۔ مرشد کامل نے اپنے جس مرید کو لاثانی کا لقب عطافرمایا ہو اس کا ثانی کون ہوگا؟ (2)
ارشاد احمد ہاشمی: ماہنامہ سلسبیل تذکرۃ الاولیاء جدید (خاص نمبر ، جنوری ، فروری1973ء) ،ص 72
حضرت لاثانی قدس سرہ اتباع شریعت ، اخلاق عالیہ ، مریدین کی اصلاح و تربیت ، سادگی اور بے نفسی میں بے نظیر تھے ، پنج وقتہ نماز با جماعت ، تہجد ، اشراق پوری پابندی سے ادا کیا کرتے تھے ، اور ادو وظائف سفر و حضر م یں باقاعد گی سے پڑھتے اور ہر معاملے میں سنت نبوی کی پیروی کو پیش نظر رکھتے تھے ، خلق خدا کی اسلاح کے لئے آپ کے فر موادات آج بھی کامیابی کی دلیل ہیں ، آپ فرمایا کرتے تھے:۔
۰ سب سے بڑی کیمیا گری یا د حق
۰ جس جگہ سے آداب شریعت اٹھ جائیں وہاں سے فقر کا اثر بھی ختم ہو جاتا ہے ۔
۰ درویش کے لئے دو چیزں بر بادی کا باعث ہیں ، حرص دنیا اور نامحرم عورتوں سے تعلق ۔
۰ تین چیزوں کی حد نہیں ، نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے درجات ، سیر سلوک اور ادب[4]ویسے تو آپ کے فیض صحبت سے ہزاروں افراد مستفیض ہوئے ، بڑ ے بڑے علماء آپ سے بیعت ہوئے لیکن جن حضرات کو آپ نے خلعت خلافت سے نوازا ، ان کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے ، چند خلفاء کے نام یہ ہیں :۔
ا۔ مولانا سید چراغ علی شاہ ، مراڑہ شریف ۔
۲۔ مولانا میاں احمددین لنگاہی ، سیالکوٹ
۳۔ مولانا محمد شفیع ، موضع بڑھ ضلع گوراد اسپور۔
۴۔ صوفی محمد الیدن مدراسی ۔
۵۔ پیر محمد شریف ، فتو وال
۶۔ مولانا حکیم عبد الغنی ، موضع الہڑ ضلع سیالکوٹ ۔
۷۔ مولانا فضل الٰہی ، وغیر ہم [5]
۱۶ شعبان المعظم ، ایک اکتوبر( 1358ھ/1939ء)کو آپ نے داعئی اجل کو لبیک کہا آپ کا مزار پر انوار علی پور سیداں میں مرجع انام ہے ، ہر سال عرس پر ہزاروں عقید تمند حاضر ہوتے ہیں اور فیوض وبرکات حاصل کرتے ہیں [6]
قطعۂ تاریخ وصال درج ذیل ہے ؎
ثانی صاحب آں امام المتقین
رہنمائے عابدین و زاہدین
چو بہ عقبیٰ نقل از دنیا نمود
جملہ احبابش شدہ اندو ہگین
گفت ہاتف بر وصالش ازسما
کعبہ اہل فہم در خلد بریں[7]
[1] انسا ئیکلو پیڈیا ، فیروز سنز لاہور ، س ۵۱۸۔
[2] محمد سلیم نقشبندی ، مولانا : ضیائے لاثانی طیب بکڈ پو ، نشاط آباد ، لائل پور ص ۱۸،
[3] محمد سلیم نقشبندی، مولانا : ضیائی لاثانی ،ص۲۳۔۲۷۔
[4] محمد سلیم نقشبندی، مولانا : ضیائی لاثانی ، ص ۶۰۔۲۶
[5] محمد سلیم نقشبندی ، مولانا : ضیائے لاثانی ص ۸۳۔۸۴
[6] امین الدین ، سید حکیم : صوفیائے نقشبند ، ص ۳۵۰
[7] محمد رفیق ، صوفی : انوار الاثانی ، مطبوعہ حجازی پریس لاہور (۱۳۶۵ھ)،ص ۱۹۰
(تزکرہ اکابرِ اہلسنت)
حضرت سید جماعت علی شاہ لاثانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت سید جماعت علی شاہ لاثانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ علوم شریعت و طریقت میں کامل و اکمل تھے ریاضت و مجاہدات میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے بزرگوں میں ایک ممتاز مقام رکھتے تھے دین اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے آپ نے جو کام کیا ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے حق گوئی و بے باکی میں اپنی مثال آپ تھے۔
شجرہ نسب:
آپ حسینی سید ہیں آپ کا شجرہ نسب اس طرح سے ہے حضرت سید جماعت علی شاہ لاثانی بن سید علی شاہ بن سید مہر علی شاہ بن سید فضل کریم بن سید محکم دین شاہ بن سید صغیر الدین شاہ بن سید میر شاہ بن سید علی اکبر شاہ بن سید محمد امین شاہ بن سید شاہ محمد بن سید حیدر علی شاہ بن محمد سعید شاہ(بانی علی پور سیداں شریف ضلع سیالکوٹ) بن سید حسین شاہ بن سید محی الدین شاہ بن سید میر امجد بن سید امام الدین بن سید علی سید علاؤ الدین بن سید جلال الدین بن سید منصور بن سید نظام الدین ب سید حبیب اللہ بن سید خلیل اللہ بن سید شمس الدین بن سید عبد اللہ بن سید نور اللہ بن سید کمال الدین بن سید اسد اللہ بن میر خسرو بن سید عارف بن سید ابراہیم بن سید ابو طاہر احمد بن سید حسین بن سید علی العارض بن سید محمد مامون مقلب بہ قطب محمد دیباج بن امام جعفر صادق بن امام باقر بن حضرت زین العابدین بن حضرت امام حسین بن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔
ولادت باسعادت:
حضرت سید جماعت علی شاہ لاثانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ولادت باسعادت جمعۃ المبارک کے دن ۱۲۷۶ھ بمطابق اگست ۱۸۶۰ء صبح صادق کے وقت علی پور سیداں ضلع سیالکوٹ میں ہوئی آپ کی ولادت سے آپ کے والد سید علی شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بہت خوش ہوئے اور اللہ رب العزت کا شکریہ ادا کیا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پاک کی نسبت سے آپ کا نام سید جماعت علی تجویز کیا۔
خاندانی پس منظر اور ہندوستان میں آمد:
آپ کا سلسلہ نسب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا ملتا ہے ضلع سیالکوٹ میں واقع علی پور سیداں کا پہلے نام سعید پور تھا جو کہ آپ کے خاندان کے ایک بزرگ سید محمد شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے آباد کیا تھا اس ضمن میں تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب مغل بادشاہ نصیر الدین ہمایوں نے ۱۵۴۰ء میں شیر شاہ سوری سے شکست کھائی تو ایران کی طرف راہ فرار اختیار کی اور ایران کے شہنشاہ طہماسپ سے مدد کا طلبگار ہوا مگر شہنشاہ ایران نے مدد کرنے سے انکار کردیا۔ اس پر ہمایوں مایوس ہوگیا اور اولیاء کرام کی طرف رجوع ہوا۔ اُن دنوں حضرت سید نظام الدین شاہ شیرازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا خوب شہرہ تھا جو کہ ایک باکمال ولی اللہ تھے چنانچہ بادشاہ ہمایوں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میرے حق میں دُعا فرمائیں کہ اللہ رب العزت میرا کھویا ہوا علاقہ مجھے دوبارہ عطا فرمادے حضرت سید نظام الدین شیرازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بادشاہ کے حق میں نہایت خشوع و خضوع سے ایک طویل دُعا بارگاہ الٰہی میں کی دُعا سے فارغ ہونے کے بعد فرمایا کہ اب دوبارہ طہماسپ شاہ کے پاس جاؤ اور اس سے مدد حاصل کرو۔ ہمایوں نے حیرت زدہ ہوکر عرض کی کہ حضور! وہ تو مجھے اس معاملے میں انکار کرچکا ہے ارشاد فرمایا کہ وہ اب انکار نہیں کرے گا۔ اس پر ہمایوں پھر طہماسپ شاہ کے پاس گیا تو وہ مدد کرنے کے لیے تیار بیٹھا تھا۔ ہمایوں نے اس سے ایک امدادی لشکر لیا اور ہندوستان کی طرف روانہ ہوا اثنائے راہ میں دوبارہ حضرت سید نظام الدین شاہ شیرازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضری کی سعادت حاصل کی اور مودبانہ التجا کی کہ اس خادم کے ہمراہ تشریف لے چلیں یا پھر اپنے خاندان کے کسی بزرگ کو ساتھ بھیج دیں تاکہ ان کی برکت اور آپ کی دُعا کے طفیل اللہ رب العزت مجھے سر خرو فرمائے۔
ہمایوں بادشاہ کی التجا و عرضدشت پر حضرت سید نظام الدین شاہ شیرازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سید حسن شاہ اور ان کے بیٹے سید محمد شاہ کو ہمایوں کے ساتھ روانہ کردیا۔ تھوڑے ہی دنوں کے بعد بادشاہ ہمایوں کو اپنا کھویا ہوا ملک دوبارہ واپس مل گیا۔ ہمایوں نے مسند اقتدار سنبھالتے ہی ان بزرگوں سے اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے ان کے شایان شان معقول وظیفے مقرر یے دونوں بزرگوں نے ہندوستان میں ہی سکونت اختیار کرلی اور مخلوق خدا کی رشد و ہدایت کے لیے مشغول و مصروف ہوگئے پھر جب ہمایوں کی وفات کے بعد جلال الدین اکبر ہندوستان کے تخت پر بیٹھا اور دین اسلام سے روگردانی کرتے ہوئے ’’دین الٰہی اکبر شاہی‘‘ کی ترقی و اشاعت کے لیے کوشاں ہوا تو جہاں پر اور بہت سے اولیاء کرام اکبر بادشاہ کی اس حرکت سے نالاں ہوکر اس کے خلاف ہوئے وہاں حضرت سید محمد سعید شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی اکبر بادشاہ سے خفا ہوئے اُس کو دین اسلام کی حقانیت سے روشناس کرانے اور راہ راست پر لانے کے لیے اپنا فریضہ ادا کیا مگر اکبر بادشاہ کسی طور بھی اپنے خود ساختہ دین اکبری سے منحرف نہ ہوا اس پر حضرت سید محمد سعید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ضلع سیالکوٹ کے اس علاقہ میں سکونت پذیر ہوگئے جسے آج کل علی پور سیداں کہا جاتا ہے۔ اس علاقہ میں آپ کو اپنے سُسر سید شمس الدین شاہ کی وساطت سے حسب خواہش کچھ اراضی مل گئی آپ کے سر سید شمس الدین شاہ اکبر بادشاہ کے داروغہ تھے اور دربار شاہی میں نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ان کی کوشش سے حضرت سید محمد سعید شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اکبر بادشاہ کی سرگرمیوں سے دور پنجاب کے اس غیر معروف علاقے میں سکون سے رہنے لگے اس علاقہ کا نام اپنے نام سے موضع سعید آباد رکھا کچھ مدت کے بعد یہ علاقہ کسی وجہ سے غیر آباد ہوگیا آپ کی پشت سے ایک بزرگ حضرت سید علی اکبر شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس علاقہ کو دوبارہ آباد کیا اور اس کا نام سعید آباد سے تبدیل کرکے علی پور رکھ دیا جسے اب علی پور سیداں کہا جاتا ہے اسی جگہ پر حضرت جماعت علی شاہ لاثانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا خاندان آباد ہے پورے علاقے میں آپ کے خاندان کو عزت و قدت کا نگاہ سے دیکھا جاتا ہے آپ کے بزگوں کی خانقا ہیں روحانیت کے حصول کی عظیم درسگاہیں ہیں۔
تعلیم کا حصول:
حضرت پیر سید جماعت علی شاہ لاثانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے والدین کے زیر سایہ ابتدائی تعلیم حاصل کی اُن دنوں علی پور سیداں شریف میں اپنے وقت کے عظیم المرتبت عالم دین حضرت مولانا عبد الرشید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے درس گاہ میں تشنگانِ علم کی پیاس بجھانے میں کوشاں تھے اور ان کا خوب شہرہ تھا چنانچہ حضرت پیر سید جماعت علی شاہ لاثانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ان کی درس گاہ میں داخل کرادیا گیا آپ نےان کے حلقہ درس میں قرآن حکیم پڑھا اور فقہ و تصوف کی تعلیم سے بہرہ ور ہوئے اور فقہ و تصوف کے موضوع پر لکھی گئی بعض کتب کا مطالعہ بھی کیا آپ کا رجحان و لگاؤ بچپن سے ہی تصوف کی طرف تھا۔
طبیعت کا رجحان:
آپ بچپن سے ہی تصوف کی طرف مائل تھے فضول کاموں اور کھیل کود سے آپ کو قطعی کوئی دلچسپی نہ تھی اور نہ ہی آپ کسی کھیل کود میں حصہ لیتے تھے کہتے ہیں کہ بچپن کے ایام میں آپ کبھی کبھار گھر سے غائب ہوجاتے اور جب آپ کو تلاش کیا جاتا تو کسی ولی اللہ کے مزار مبارک پر بیٹھے ہوئے مل جایا کرتے تھے۔ آپ کے بچپن کے دنوں کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ ایک مجذوب کہیں سے علم پور سیداں تشریف لائے ان کی عادت تھی کہ وہ خاموش رہا کرتے تھے اور کسی سے کوئی بات نہ کیا کرتے تھے ایک دن حضرت پیر سید جماعت علی شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے چند دوستوں کے اصرار پر کھیل میں حصہ لینے ہی لگے تھے کہ مجذوب نے آپ سے مخاطب ہوکر فرمایا، تم فضولیات کے لیے نہیں پیدا ہوئے اللہ تعالیٰ تو تم سے بڑا اہم کام لینے والا ہے۔ مجذوب کے ٹوکنے پر آپ نے کھیل کود میں حصہ نہ لیا اور پھر جب تک مجذوب اس علاقہ میں رہے آپ اکثر ان سے راز و نیاز میں مشغول رہتے جوانی کے دنوں میں بھی آپ اپنا زیادہ تر وقت عبادت الٰہی میں گزارتے تھے شب بیداری کرتے اور دن کے وقت گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر مراقبہ کرتے۔
آپ ہر ایک کے ساتھ سلوک سے پیش آتے تھے اہل اللہ کے بارے میں جہاں بھی آپ کو خبر ملتی زیارت کی سعادت حاصل کرنے کے لیے بڑی عقیدت و محبت سے جاتے اس ضمن میں آپ نے بہت سے پیدل سفر طے کیے اور ایک ہی دن میں بعض مرتبہ ستر ستر کلو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کیا۔ آپ علی پور سیداں کے ایک نواحی گاؤں چک قریشیاں میں اقامت گزین ایک بزرگ مرزا سکندر بیت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے خاصی عقیدت رکھتے تھے اور ان سے آپ کی اکثر میل ملاقات رہتی تھی۔ اسی طرح حضرت سید نور شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے بھی خصوصی لگاؤ و اُنس رکھتے تھے جو اس عہد کے ایک جلیل القدر عارف کامل تھے اور اسی علاقہ میں سکونت رکھتے تھے۔
باطنی علوم کا حصول:
حضرت پیر سید جماعت علی شاہ لاثانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اپنے خاندانی بزرگوں سے روحانی فیض حاصل تھا اور مزید سے مزید کی جستجو میں رہتے تھے اسی حوالے سے عارفان حق کی زیارت کی سعادت کے لیے کوشاں رہتے تھے اپنے شوق اور روحانیت کی جستجو میں آپ کو حضرت خواجہ فقیر محمد چوراہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی عظمت و رفعت کے بارے میں پتہ چلا تو دل میں اِک ایسی تڑپ پیدا ہوئی کہ چاہا اب کسی عارف کامل کے دست حق پرست پر بیعت کرکے اس کے روحانی فیض سے مستفید ہوا جائے چنانچہ آپ کی بیعت کے ضمن میں چوہدری خان محمد مرحوم بیان کرتے تھے کہ میں نے آپ سے بیعت ہونے کے واقعہ کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ جب مجھے پتہ چلا کہ حضرت قبلہ عالم بابا جی چوراہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لاہور کے علاقہ چاہ میراں میں تشریف رکھتے ہیں تو میں زیارت کی سعادت حاصل کرنے کی غرض سے لاہور پہنچا تو مجھے بتایا گیا کہ حضرت بابا جی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ موضع پٹیالہ میں دوست محمد صاحب کے گھر تشریف فرما ہیں وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ آپ وزیر آباد کے متصل علاقہ دھونکل میں تشریف لے جا چکے ہیں جب وہاں گیا تو مجھے بتایا گیا کہ آپ سیالکوٹ میں تشریف لے گئے ہیں چنانچہ میں سیالکوٹ پہنچا اور آپ کی زیارت کی سعادت حاصل کرکے بیعت سے مشرف ہوکر اللہ رب العزت کا شکر ادا کیا۔
حضرت پیر سید جماعت علی شاہ لاثانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بیعت کے واقعہ کے ضمن میں یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اُن دِنوں میں حضرت بابا فقیر محمد چوراہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اوراد و وظائف سے فراغت کے بعد قبلہ رُخ ہوکر بیٹھا کرتے تھے ایک دن کسی نے اس طرح بیٹھنے کا سبب دریافت کیا تو فرمایا کہ میں ایک شہباز کو پکڑنا چاہتا ہوں چنانچہ اسی دن حضرت پیر سید جماعت علی شاہ لاثانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان کے حلقہ ارادت میں داخل ہوکر بیعت سے مشرف ہوئے چنانچہ فرمایا یہی وہ شہباز ہے جس کی ہمیں تلاش تھی۔ آپ کے بارے میں حضرت بابا جی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اکثر فرمایا کرتے تھے تم چراغ اور تیلی گھر سے ہی لے کر آئے تھے اس لیے یہاں آکر نور علی نور ہوگئے اپنے مرشد کے زیر سایہ آپ نے عرفان و سلوک کی منازل طے کیں اور روحانی فیوض و برکات سے مستفید ہوئے تھوڑی ہی مدت میں باطنی علوم کی تحصیل کرلی مرشد نے آپ کو خرقہ خلافت سے نوازا اور خلق خدا کی روحانی تربیت کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔
لاثانی کی وجہ تسمیہ:
آپ کے لقب ثانی اور لاثانی کا شہرہ ہر چار سُو عالم میں خوب پھیلا آپ کو یہ لقب مرشد پاک حضرت قبلہ عالم بابا فقیر محمد چوراہی نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عطا فرمایا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ علی پور سیداں میں ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے دو بزرگ جو کہ ہم نام تھے یعنی دونوں کا نام سید جماعت علی شاہ تھا اور دونوں حضرت بابا فقیر محمد چوراہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مرید کامل تھے مرشد پاک نے اپنے دونوں مریدین کے ناموں کے ناموں میں امتیاز کی غرض سے آپ کو ثانی کا لقب عطا فرمایا اور پھر جب مرشد نے آپ کی روحانی پرواز کو دیکھا تو آپ کو ثانی سے لاثانی کا لقب مرحمت فرمایا چنانچہ اس لقب سے آپ کو خوب شہرت ہوئی اور ہر خاص ع عام اور ہر اہل فکر و نظر کے حلقوں میں اس لقب کا شہرہ ہوگیا۔
عبادت و ریاضت:
آپ زہد و ورع، تقوی ع عبادت و ریاضت میں مشہور زمانہ تھے جوانی کے ایام میں بھی اپنا زیادہ تر وقت عبادت الٰہی میں گزارا کرتے تھے چنانچہ ایک مرتبہ باتوں میں فرمانے لگے کہ ذکر میں بہت سستی کرتے ہیں شروع شروع میں رات کے وقت شمار کرکے حبس دم لیا کرتا تھا جب کہ جوانی میں یہاں تک حبس دم کیا کرتا تھا کہ سینے سے خون آنا شروع ہوگیا ایک حکیم صاحب کو دکھایا گیا تو اس نے کہا کہ شاہ جی؛ اگر آپ حبس دم کو ترک کردیں تو شفا ہوجائے گی میں نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔
انکساری:
آپ کی طبیعت عالیہ میں انکساری کا پہلو نمایاں تھا نمود و نمائش اور ریا کاری کو اچھا نہیں سمجھتے تھے اور ہر کسی کو اس سے بچنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے اگر کوئی آپ کے سامنے آپ کی تعریف کرتا تو سخت ناراض ہوتے اور اسے دانٹ دیتے کبھی محفل میں تکیہ لگا کر نہیں بیٹھتے تاکہ سب سے نمایاں نظر نہ آئیں دوران سفر ساتھیوں کے ساتھ چلتے تو کبھی آگے ہوجاتے اور کبھی پیچھے تاکہ کسی بھی وجہ سے کوئی امتیاز دکھائی نہ دے کہ جس سے پتہ چلے کہ ساتھیوں میں برتر کون ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ علماء اور خلفاء تو بہترین گھوڑوں پر سوار ہوتے لیکن آپ خچر پر سوار ہوتے اگر کسی خانقاہ یا مزار پر تشریف لے جاتے تو اپنے ساتھیوں کو سختی سے منع کرتے کہ ان کا تعارف نہ کرائیں آپ کے ساتھی یہاں تک اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ علی پور سیداں کا نام بھی نہ لے سکتے تھے۔
لوگوں سے معاملات:
لوگوں سے معاملات کے ضمن میں ہر ایک سے مساوی برتاؤ کرتے تھے آپ کی خدمت میں بلند مرتبہ رکھنے والے اکثر سرکاری عہدیدار بھی حاضری دیا کرتے تھے لیکن آپ کے فقر و استغفاء کی ہیبت سے لب کشائی نہ کرسکتے تھے اور خاموش مؤدب ہوکر بیٹھتے تھے جب کہ اس کے برعکس مفلس و عاجز و مسکین لوگ جس طرح چاہتے آپ سے گفتگو کرتے تھے اور آپ خفا نہ ہوتے تھے آپ کے ہاں تمام مہمانوں کے لیے ایک ہی طرح کا کھانا پکتا تھا اس معاملے میں کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک روانہ رکھا جاتا تھا ایسے لاعلاج مریض جب کے پاس بیٹھتے ہوئے دوسرے لوگ اچھا محسوس نہیں کرتے آپ ان کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا کرتے تھے اور ان کی دلجوئی فرماتے تھے آپ کے لنگر سے ہر آنے والے کو کھانا ملتا بہت سادہ قسم کاہوتا تھا اور آپ اکثر یہ بات فرمایا کرتے تھے کہ اس لنگر میں تو صرف دال روٹی ہے اور محلّہ شرقی میں میرے پیر بھائی حضرت سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے لنگر میں طرح طرح کے لذیذ کھانے ہوتے ہیں۔
قیاضی و دریا دلی:
حضرت سید جماعت علی شاہ لاثانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نہایت فیاض اور دریا دل رکھنے والے ولی اللہ تھے آپ کی فیاضی کا یہ عالم تھا کہ کئی مرتبہ آپ نے اپنے گھر کا تمام مال و اسباب نکال کر باہر رکھا اور غریبوں میں تقسیم فرمادیا۔ بعض مرتبہ ایسا ہوتا کہ جب کبھی بیمار ہوتے اور حکیم صاحب کوئی نسخہ تجویز کرتے تو آپ اس کی قیمت کا اندازہ لگاتے اور اس رقم کو غربا میں بانٹ دیتے ایک مرتبہ آپ نے اپنے ولی عہد اور سجادہ نشین مدظلہ العالی سے فرمایا کہ میں تجھے ایک بات بتاتا ہوں تیرا سادہ اور کچا گھر بہتر ہے لیکن مسافر بھوکا نہیں جانا چاہیے تیرا سادہ اور کچا گھر شیش محل سے بہت اچھا ہے جہاں سے مسافر پیٹ بھر کر نکلتے ہیں۔ آپ جب بھی کبھی سفر پر جاتے اور اثنائے راہ میں کسی کی دل جوئی کی خاطر اس سے کوئی نذرانہ قبول فرمالیتے تو اگلے گاؤں میں جاکر اسے تقسیم فرمادیتے۔
سادگی و پرہیزگاری:
آپ ن ساری زندگی سادگی سے گزاری ہر معاملے میں سادگی و پرہیزگاری کو مدنظر رکھا آپ کی گفتگو کا انداز بھی سادہ تھا خاموشی کو پسند کرتے تھے خاص طور پر نماز عصر سے لیکر مغرب تک تو اپنے گھر والوں کو بھی بلا وجہ بولنے کی اجازت نہ دیتے تھے لباس کے معاملے میں بھی سادگی آپ کا وطیرہ تھا آپ نے کبھی قیمتی اور عالی شان لباس زین تن نہیں کیا کبھی کوٹ، واسکٹ نہیں پہنا ساری زندگی آپ کا لباس کھدر کا تہبند اور ململ کی دستار مبارک رہی کھانے بھی سادہ ہی پسند فرماتے تھے۔ مرغن غذاؤں کو مرغوب نہ رکھتے تھے اکثر خشک روٹی کے ساتھ ساگ یا چٹنی شوق سے تناول فرماتے کبھی مرغن شوربہ پیش کیا جاتا تو اس میں ٹھنڈا پانی شامل کرکے روٹی تناول فرماتے۔ عالی شان عمارتوں میں رہنا آپ کو پسند نہ تھا سادہ اور صاف ستھرے گھر میں رہتے تھے۔
اولاد و اطہار:
حضرت پیر سید جماعت علی شاہ لاثانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی شادی علی پور سیداں سے تقریباً ساڑھے تین کلو میٹر کے فاصلے پر واقع چک قریشیاں کے ایک نہایت ہی معزز اور اچھے خاندان میں ہوئی آپ کی زوجہ مطہرہ نہایت پاکباز، عابدہ زاہدہ اور صوم و صلوٰۃ کی پابند صالحہ خاتون تھیں ان کے بطن اطہر سے آپ کے ہاں تین بیٹوں کی ولادت باسعادت ہوئی جن کے نام سید فدا حسین شاہ، سید خادم حسین شاہ اور سید غلام رسول شاہ ہیں۔ تینوں صاحبزادے آپ کی حیات مبارکہ میں ہی وصال فرما گئے تھے ان کی اولاد باقی رہی۔
خلفاء عظام:
حضرت سید جماعت علی شاہ لاثانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لاتعداد طالبانِ حق کو روحانی فیض سے نوازا آپ کے خلفاء کافی تعداد میں ہیں ذیل میں چند خلفاء کے نام پیش کیے جاتے ہیں۔
۱۔ عالی الالقاب میاں محمد شریف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ موضع فتو وال مضافات گوردا سپور۔
۲۔ حضرت سید امیر علی شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ موضع و ڈالہ امر تسر۔
۳۔ حضرت مولانا عبد الغنی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پسرور۔
۴۔ حضرت صوفی محمد دین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ موضع رام داس۔
۵۔ حضرت پیر محمد شفیع رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ موضع بھڑتھ۔
۶۔ حضرت مولانا حافظ ظفر علی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پسرور۔
۷۔ حضرت سید امیر حسین شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تعالیٰ علیہ نار و وال۔
۸۔ حضرت محمد اسماعیل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ موضع بھڑتھ۔
۹۔ حضرت سید محمد شریف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ موضع رام داس۔
۱۰۔ حضرت میاں احمد دین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ موضع لنگاہ۔
۱۱۔ شمس العلماء حاجی محمد غوث رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ موضع سکھو۔
۱۲۔ الحاج سید چراغ علی شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ موضع مراڑہ۔
۱۳۔ حضرت سید ہاشم علی شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ موضع تخت پور۔
۱۴۔ حضرت سید محمد اسماعیل شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ موضع کوہالی۔
حکمت کی باتیں:
آپ کی باتیں و گفتگو حکمت سے خالی نہ ہوتی تھیں چنانچہ اپنے مریدوں سے فرماتے کہ نماز پنجگانہ کی پابندی کرو اگر تم نے نماز چھوڑ دی تو تمہاری بیعت خود بخود ساقط ہوجائے گی۔
حقہ نوشی سے نفرت کرتے تھے اور حقہ پینے والے کو ختم کواجگان میں شریک نہیں ہونے دیتے تھے اور نہ ہی ان کو کوئی تبرک دیا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ آپ کے پاس ایک شخص تسبیح پہنے ہوئے آیا آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تم کیا پڑھتے ہو؟ اس نے کہا میں روزانہ آٹھ ہزار مرتبہ درود پاک پڑھتا ہوں یہ سُن کر آپ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ تمہارے منہ سے حقہ کی بُو آتی ہے۔ پھر فرمایا حقہ پینے والے کی مثال یوں ہے کہ جیسے خوشبودار چاولوں کا تھال بھر کر اوپر راکھ ڈال دی جائے۔
آپ فرمایا کرتے کہ نماز پنجگانہ وقت پر ادا کیا کرو اور میٹھا بول بولو۔ نماز روح کی غذا ہے مومن کی معراج ہے دل کی راحت ہے، قبر اور حشر میں ساتھی ہے قیامت کے دن پہلا لازمی پرچہ ہے۔ روحانیت کی ابتداء ہے اور آخری منزل یہی نماز ہے۔ بے نمازی کبھی ولی اللہ نہیں بن سکتا بلکہ وہ جنت کی خوشبو سے بھی محروم ہے اور مسلمانوں کی صف سے باہر ہے۔ بے نماز کی ہر نیکی نا مقبول ہے اور اس کا حشر فرعون، ہامان، نمرود اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔
وصال مبارک:
اپنے وصال سے تین یوم پیشتر حضرت پیر سید جماعت علی شاہ لاثانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ علیل ہوگئے اور جمعرات کے دن یکایک فرمایا ایک دو تین یہ الفاظ آپ نے دو مرتبہ ارشاد فرمائے اور پھر خاموشی اختیار کرلی جس روز آپ کا وصال ہونا تھا اُس روز آپ کچھ دن چڑھے کھیتوں کی طرف تشریف لے گئے اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آگئے اپنے کمرے میں داخل ہوکر فرمایا کہ کوئی مجھے نہ بلائے اس کے بعد آپ ذکر بالحجر میں مشغول ہوگئے جب دوپہر کا وقت ہوا تو آپ پر عجیب کیفیت طاری تھی نماز ظہر کے وقت آپ کو نماز کے لیے کہا گیا تو آپ نے تیمّم کرکے نماز ادا فرمائی اس کے بعد آپ پر استغراقی کیفیت طاری ہوگئی مغرب کے بعد استغراق میں اضافہ ہوتا گیا آخر کار سولہ ذیقعدہ ۱۳۵۷ء بمطابق یکم اکتوبر ۱۹۳۹ء اتوار کے دن رات کو نو بج کر پاچ منٹ پر آپ اسم ذات کا ورد کرتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کا مزار مبارک علی پور سیداں ضلع سیالکوٹ میں واقع ہے جہاں روزانہ لاتعداد عقیدت مند حاضری کی سعادت حاصل کرکے روحانی سکون پاتے ہیں۔
(مشائخ نقشبند)