تاجدار ولایت حضرت پیر سید محمد یاسین راشدی
تاجدار ولایت حضرت پیر سید محمد یاسین راشدی (تذکرہ / سوانح)
شیخ المشائخ ، سراج العارفین ، قطب الا قطاب ، مخزن علوم سبحانی ، معدن فیوض ربانی ، عارف باللہ حضرت سید محمد یاسین شاہ راشدی المعروف پیر صاحب جھنڈے دھنی اول بن امام العارفین ، آفتاب ولایت حضرت سید محمد راشدشاہ المعروف پیر سائیں روزہ دھنی قدس سرہ العزیز گوٹھ رحیم ڈنہ کلہوڑو عرف پرانی درگاہ تحصیل پیر جو گوٹھ ضلع خیر پور میرس (سندھ ) میں ۱۲۱۲ھ کو تولد ہوئے ۔ شجرہ مبارکہ کی رو سے امام العارفین کے صاحبزادوں میں آپ کا چوتھا نمبر تھا۔
تعلیم و تربیت :
آپ نے اپنے والد ماجد حضرت امام العارفین کی زیر سر پرستی میں آستانہ معلی پردرسی تعلیم حاصل کی ۔
بیعت و خلافت :
اپنے والد ماجد سے سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ میں بیعت ہوئے انہی کی صحبت میں پروان چڑھے ۔ مقامات سلوک طے کئے ، مجاہد ے وریاضتیں کیں ۔
جھنڈے دہنی کا مطلب :
امام العارفین قدس سرہ کے وصال کے بعد بڑے صاحبزادے حضرت پیر سید صبغت اللہ شاہ اول ؒ سجادہ نشین ہوئے جس کے سبب ’’پیر پگارہ اول ‘‘ کہلائے اور جھنڈا اپنے بھائی پیر سید محمد یاسین شاہ کے سپرد کیا جو کہ ’’پیر صاحب جھنڈے دھنی ‘‘کے نام سے موسوم ہوئے ۔ افغانستان کے بادشاہ تیمور شاہ کے بیٹے زمان شاہ نے یہ ’’جھنڈا ‘‘ سندھ میں اشاعت شریعت و تبلیغ اسلام کے اعتراف میں امام العارفین قدس سرہ کی خدمت اقدس میں ازراہ عقیدت و احترام پیش کیا تھا۔ (مہران نقش ۲۰۴)
پیر صاحب جھنڈے دھنی ، صاحب العلم اول کے علاوہ ’’مکانات والے ‘‘ بھی آپ کو کہا جاتا ہے جس کا سبب یہ ہے کہ آپ نے مختلف دیہات (گوٹھوں ) میں قیام کیا تھا۔ مثلا : گوٹھ رحیم ڈنہ کلہوڑو، فرید آباد نزد ڈوکری اس کے بعد ٹھلاء شریف اور آخر میں سعید آباد ( ہالا، حیدرآباد ) کے نزد ایک گوٹھ قائم فرمایا جہاں مستقل سکونت اختیار کی جس نے آپ کے حوالہ سے ’’درگاہ شریف پیر سائیں جھنڈے دھنی ‘‘ کے نام سے برصغیر میں شہرت حاصل کی۔
اولاد:
آپ کو سات صاحبزادے تولد ہوئے :
۱۔ سید امام الدین شاہ لاولد
۲۔ سید محمد راشد شاہ لاولد
۳۔ سید فضل اللہ شاہ شہید سجادہ نشین اول ، جھنڈ ے دھنی دوئم لاولد
۴۔ غوث الزمان حضرت پیر سید رشید الدین شاہ راشدی المعروف پیر سائیں بیعت دھنی ، جھنڈے و ھنی سوئم ، مدفون درگاہ جھنڈا شریف
۵۔ حضرت پیر سید ہدایت اللہ شاہ راشدی جامع ملفوظات متوفی ۱۳۳۲ھ مدفون ٹھلاء شریف
۶۔ حضرت پیر سید صدیق الرسول شاہ راشدی مدفون ٹھلاء شریف
۷۔ حضرت پیر سید محمد فاضل شاہ راشدی ( شجرہ مبارکہ سادا ت راشدیہ )
خلفاء :
آپ سے ہزاروں کی تعداد میں عوام و خواص بیعت تھے۔ ان میں علماء و مشائخ ، قاضی ، سادات اور زمیندار وغیرہ سبھی شامل تھے ۔ آپ کے خلفاء کے متعلق معلومات نہ مل سکی اسلئے فقیر نے آپ کی ملفوظات شریف کی ورق گردانی کی جہاں تک مجھے اسماء گرامی دستیاب ہوئے، وہ درج ذیل ہیں :
٭ حضرت خلیفہ مراد علی نظامانی بلوچ ۔ ماتلی
٭ خلیفہ الہ داد نظامانی
٭ خلیفہ سید محمد یعقوب شاہ
٭ خلیفہ عبداللہ نظامانی گوٹھ راجو نظامانی ضلع بدین
٭ خلیفہ محمد ابوبکر
٭ خلیفہ محمد ذاکر
٭ سید شاہ رکن بن سید فیض محمد راشدی شاہ جو گوٹھ نو دیرو ضلع لاڑکانہ
٭ مولانا قاضی عبدالرسول
تصنیف و تالیف :
رات بھر عبادت اور دن میں مریدین کی تربیت اور ا س پر مستزادیہ کہ کئی کئی ماہ تک دور دراز علاقوں کا تبلیغی و روحانی دورہ کرنا، جس کے سبب آپ انتہائی مصروف رہا کرتے تھے ۔ اس کے باوجود ایک کتاب تحریر فرمائی :
٭ صراط الطالبین (فارسی ) : آپ نے مرشد مربی کے وصال کے بعد سلوک اور روحانی تربیت پر مشتمل یہ ب ے مثال کتاب تحریر فرمائی ۔ اس میں طالب حق کو ذکر شریف کے چھ اقسام اور فکر کے انیس ( ۱۹) اقسام بڑی تفصیل سے سکھانے کا اہتمام فرمایا ہے۔آپ کے صاحبزادے حضرت پیر سید ہدایت اللہ شاہ راشدی ؒ رقمطراز ہیں : ’’کسی کامل سے اجازت لے کر صراط الطالبین کا مطالعہ کریں اور وظائف میں مشغول ہوں تو سراپا فیض بن جائیں گے ‘‘۔
(ملفوظات شریف ص ۳۷)
میرے علم کے مطابق اس کتاب کا پہلا سندھی ترجمہ آپ کے صاحبزادے سید ہدایت اللہ شاہ نے کیا جو کہ قدیمی سندھی ہے، اس کے بعد حضرت قاضی فتح محمد نظامانی ؒ نے ترجمہ کیا اور مفتاح رشد اللہ میں شامل کیا، اس کے بعد مفتی غلام محمد قاسمی ؒ مدرس جامعہ عربیہ قاسم العلوم درگاہ عالیہ حضرت مشوری شریف نے ترجمہ کیا جسے درگاہ مشوری شریف کے شعبہ نشر و اشاعت نے ۲۰۰۱ء کو شائع کیا اور اب ادارہ قاسم العرفان کراچی نے اردو ترجمہ کی نوید سنائی ہے۔
٭ ملفوظات شریف ( سندھی ) : آپ کے احوال ، ارشادات ، آداب ، اخلاقیات اور درس سنت نبوی پر مشتمل ہے۔ جس کے مطالعہ سے زندگی بنتی سنورتی نظر آتی ہے۔ پیر کامل کی عظمت بھی واضح ہورہی ہے کہ انہوں نے مرید ین کی کس نہج پر تربیت و تعلیم فرمائی ۔ لیکن افسوس ہے کہ بہت مختصر ہے ۔ اس مجموعہ کے مرتب و جامع آپ کے صاحبزادے حضرت سید ہدایت اللہ شاہ راشدی ؒ ہیں ۔
شاعری :
’’ملفوظات شریف پیر سائیں جھنڈے دھنی اول ‘‘ کے آخر میں بارہ صفحات پر آپ کی شاعری پھیلی ہوئی ہے جو کہ تمام سندھی زبان میں ہے۔ آپ کا پیغام صوفیانہ ہے کہ انسان اپنی ذات کو پہچانے اور اپنی سوئی ہوئی صلاحیت کو اجاگر کرے ۔ ایسا نہ ہو کہ من کی دنیا سے لاتعلق ہو کر بیگانہ ہو جائے ۔ اس کے علاوہ شاعری میں سوزو گداز و مٹھاس دیدنی ہے۔ ’’سید ‘‘ تخلص اپنایاہے۔
عادات و خصائل :
حضور سید نا امام العارفین قدس سرہ العزیز پوری زندگی میں سنت مبارکہ پر سختی سے کا ر بند رہے اور ہر حال میں سنت نبوی علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کو اپنے عمل سے زندہ رکھا۔ آپ کی اسی ادا کو خلف رشید حضرت پیر صاحب جھنڈے دہنی نے زندگی بھر قائم و دائم رکھا۔ اپنی زندگی کو شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ سے بچا کر ، انتہائی سادگی ، سخاوت ، توکلت علی اللہ اورفاقہ کشی سے سجایا۔ مسکینی کو سنت نبوی سمجھ کر سینے سے لگایا۔ نہ مسند تھی، نہ مخصوص قسم کا آرائش سے لدھا ہوا کمرہ تھا ۔ سارا دن طالبان حق کے ساتھ معمولی چٹائی پر اللہ عزوجل کے گھر کچی مسجد شریف میں بسر کرتے تھے۔ جو ہوتا راہ خدا میں خرچ کردیتے اور کل کے لئے بچا کر نہیں رکھتے تھے۔
ایک بار آپ نے تشکر نعمت کے طور پر فرمایا : ’’مجھ سے مرشد کریم کی تمام متابعت ( پیروی ) پوری ہوئی ہے‘‘۔ (ملفوظات شریف ص ۲۲)
آپ فرماتے ہیں : ’’دین کے علماء وہ ہیں جنہیں رسول اللہ ﷺ کی متابعت نصیب ہوئی اور وہ جنہوں نے اسے ترک کر دیا وہ ظاہر کے علماء ہیں بلکہ در حقیقت وہ علماء نہیں ہیں ‘‘۔ (ص ۹۴)
ایک بار ایک ہزار روپیہ جمع ہوا تو آپ نے فرمایا : ’’دل پر گرانی محسوس ہو رہی ہے ‘‘ یہاں تک کہ پوری رقم راہ خدا میں خرچ کر دی پھر فرمایا: ’’اب گونی ختم ہوئی ہے اللہ تعالیٰ کا شکر ہے ‘‘۔ ( ص ۶۲)
ایک بار ایسا وقت بھی آیا کہ ایک پورا ماہ فقر و فاقے میں بسر ہوا ، مہینہ بھر گھر میں چولہا نہیں جلا ، بلکہ چنے یا میٹھی روٹی یا پھر فاقہ پر وقت گذرتا تھا لیکن اس کے باوجود جماعت پر شوق و ذوق کا غلبہ تھا۔ ( ص ۷۴)
ہے معرفت کا راستہ شمشیر برہنہ
کانٹوں کی راہ چلتا ہے ہر عاشق جلیل
خود سید الرسل پہ تھے کفارخشت زن
ڈالے گئے تھے آگ میں اللہ کے خلیل
اے رہروان راہ طریقت! خدا گواہ
ٹکرائے گا جو تم سے وہ ہو جائے گا ذلیل
ایسے مسکینی کے حالات میں بھی اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل بھروسہ تھا اور طبیعت میں بے نیازی تھی ۔ دین کا وہ درد جذبہ تھا کہ اپنی فکر نہیں ، احساس ہے تو امت مسلمہ کا کہ ان تک دین کا پیغام پہنچائیں ، غافلوں کو بیدار کرنا اور مردہ دلوں کو زندہ کرنا ، مالک کا در بھولنے والوں کو ، مالک کی محبت کو جگانے کے لئے نہ معلوم کہاں کہاں تک دور دراز ریتی کے ان علاقوں میں قدم رنجہ فرمایا کہ انسانوں میں دہشت و بر بریت تھی ، کوئی نماز پڑھنے والا نہیں ، کہیں پانی عدم دستیاب تو اکہیں بھوک افلاس سے انسان نڈھال تھے ۔ سب کی دلجوئی فرمائی اور محبت اکسیر سے بے مثال انسان تر اشے ۔ ان دنوں میں نہ پکے راستے تھے اور نہ ہی سفر کی سہولت کے لئے ٹرین و کوچ سروس تھی لیکن آپ نے تاحیات دور دور علاقوں تک سفر کر کے انسانوں کو بھولا ہوا سبق یا د دلایا نہ صرف یاد دلایا بلکہ روحانیت کی چاشنی سے سر فراز فرمایا اور طالبان حق کی ایسی تربیت فرمائی کہ انہوں نے بھی ہر آڑے وقت میں بھی ہمت مردان سے کام لیتے ہوئے بے مثال نقوش چھوڑے ہیں ۔ آپ کے صاحبزادے حضرت پیر سائیں بیعت دہنی (آپ پر فقیر نے ایک جدا کتاب تحریر کی ہے جو کہ درگاہ مشوری شریف سے چھپ چکی ہے)کی ذات والا اس قدر فیاض تھی کہ سندھ کا اکثر حصہ آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہوچکا تھا جس میں علماء کرام و مشائخ عظام کی کثرت تھی ۔
دین محمد وفائی لکھتا ہے : ’’پیر صاحب ترک و توکل کے مالک تھے، تسلیم و رضا کے مجسمہ تھے ، رضا الہی میں فنا کے مقام کو پہنچے ہوئے تھے ۔ تو کل کی یہ حالت تھی کہ مسلسل فاقوں (بھوک ) کی کیفیت رہتی لیکن اس کے باوجود کسی کے سامنے سوال نہیں کرتے ، جماعت کو یاد الہی کی تربیت دیتے اور اذکار میں مشغول فرماتے تھے۔ نماز کی پابندی اور قادری سلسلہ کے اذکار کا سختی کے ساتھ انتظام و اہتمام فرماتے تھے۔ سندھی زبان میں کبھی کبھی کافی (شاعر کی ایک صنف) گن گناتے تھے جس میں تصوف اور عشق الہی کی رموز بیان کی گئی ہیں ۔ سندھ کے ٹالپر حکمران میر نور محمد خان ولد میر نصیر خان ٹالپر حیدر آبادی نے حضرت پیر صاحب سے گذارش کی کہ لنگرخانہ کے لئے جاگیر قبول فرمائیں ۔ لیکن آپ نے دو ٹوک الفاظ میں انکار کردیا۔ آپ ہمیشہ کی طرح توکل پر گذارا کرتے تھے۔ ( تذکرہ مشاہیر سندھ )
آپ ہمیشہ فرماتے تھے کہ : ’’مرشد کو چاہئے کہ وہ ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے مالک عزوجل سے غافل نہ ہو ‘‘۔ (ملفوظات شریف ص ۷۲)
وصال :
حضرت تاجدار ولایت پیر سائیں سید محمد یاسین شاہ راشدی نے زندگی کا آخری بار ساڑھے چار ماہ کا روحانی دورہ فرمایا لاکھوں بندگان خدا زیارت سے فیضیاب ہوئے ۔ اسی سفر کے دوران راجو خانانی گوٹھ میں ۱۵، رجب المرجب ۱۲۷۵ھ؍فروری ۱۸۵۹ء ، بروز ہفتہ ، بوقت اشراق ۶۳سال کی عمر میں مطابعت نبوی میں حقیقی سفر کا پیغام آیا اور آپ واصل باللہ ہوئے ۔
اس وقت مریدین ، خلفاء کے علاوہ آپ کے تین صاحبزادے حضرت پیر سید رشید الدین شاہ ، حضرت پیر سید ہدایت اللہ شاہ ، حضرت پیر سید صدیق الرسول شاہ اور خواہر زادہ ( بھانجہ ) پیر میاں سید عبدالرسول شاہ راشدی بھی موجود تھے۔ راجو نظامانی تحصیل گولارچی ضلع بدین میں تدفین عمل میں آئی ۔ لیکن ایک سال گذرنے کے بعد آپ کے بڑے صاحبزادے و جانشین پیر سید فضل اللہ شاہ راشدی شہید نے جسم مبارک کو نکال کر لاڑکانہ لے کر آئے اور باقرانی اسٹیشن کے بالمقابل درگاہ ٹھلاء شریف (پیر جو گوٹھ ) میں مسجد شریف کے شمال میں دفن کیا۔ آپ کی مزار مقدس مرجع خلائق ہے ۔ ( ملفوظات شریف ص ۱۰۵مطبوعہ ۱۹۸۰)
ایک سال کے بعد جب آپ کا جسم مبارک قبر سے باہر لایا گیا تو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ابھی تازہ وضو کر کے آرام فرمارہے ہیں ، تروتازہ نورانی چہرہ مبارک دیکھ کر دل باغ باغ ہو رہا تھا۔
وصال کے بعد :
آپ کے وصال کے وقت آپ کے صاحبزادے حضرت پیر سید رشید الدین شاہ عمر کے چھوٹے تھے، بعد میں سلوک طے کر نے کا شوق دامن گیر ہوا۔ ایک روز چچا جان کے پاس پہنچے، عرض کی ، انہوں نے فرمایا : برخودار !جمعہ کو آنا ۔ عشق و محبت کے غلبہ کے سبب بے آرام ہو گئے ۔ عاشق صادق سے تاخیر برداشت نہ ہو سکی افسر دہ ہوئے دل بھر کر آیا، مسجد شریف میں آکر جی بھر کر گریہ فرمایا۔ جب نیت سچی تو منزل آسان ہوتی ہے یہاں بھی یہی ہوا، آنکھوں سے آنسو کی جھڑی لگنے کی دیر تھی کہ آواز آئی: بیٹا رشید الدین شاہ ! آپ فرماتے ہیں کہ آواز میں کشش و اپنائیت کے سبب دل کھینچا جارہا تھا سر اٹھایا آنکھیں صاف کر کے کیا دیکھتا ہوں کہ والد ماجد مرشد مربی حضرت پیر سائیں محمد یاسین شاہ راشدی مزار شریف سے کمر تک نمایاں کھڑے ہیں اور مجھے تسلی دیتے ہوئے فرمایا: بیٹا !کیوں رو رہے ہو؟میں نے پوری حقیقت بیان کر دی ۔ آپ نے فرمایا: بیٹا! کیوں ادھر ادھر بھاگتے ہو ہم اس کھڑکی سے اس طرح فیض تقسیم کرتے ہیں ( یہ کھڑکی درگاہ ٹھلاء شریف میں مسجد شریف میں ہے، کھڑکی مزار شریف کی طرف کھلتی ہے) قریب آتجھے طریقت ہم طے کرائیں گے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ بعد میں کتاب ’’صراط الطالبین ‘‘ لے کر روزانہ مزار شریف پر حاضر ہوتا ، مزار شریف کے سامنے کھڑکی کے پاس بیٹھ کر سبق لیتا تھا۔ اس طرح پوری طریقت مبارکہ چالیس روز میں طے کی۔ سبحان اللہ ! ( پیر سائیں جھنڈے دھنی ثالث ص ۹)
پیر کامل صورت ظل الہ
یعنی دید پیر دید کبریا
فیض حق اندر کمال اولیاء
نور حق اندر جمال اولیاء
اس حکایت سے چند مسئلے واضح ہوئے کہ :
۱۔ جب کوئی طالب حق آئے تو بغیر دیر کے تلقین کرنی چاہئے ۔
۲۔ حضرت پیر سائیں نہایت سخی ہیں کہ وصال کے بعد بھی فیض بانٹ رہے ہیں فقط کوئی لینے والا ہو۔
۳۔ اللہ والوں کو اپنی اولاد کس قدر عزیز ہے کہ ان کا غم انہیں شاق گذرتا ہے۔
۴۔ اولیاء اللہ بعد وصال بھی مزار شریف میں زندہ جاوید ہیں اور طالب حق کو فیض پہنچاتے ہیں اور مشکل کے وقت زائرکی مشکل کو حل کرتے ہیں باذن اللہ تعالیٰ ۔
آخوند احمد ہالا والے مرحوم نے قطعہ تاریخ وفات کہا:
دل باء و نالہ بعد البعد منہ
گفت : آہ باللہ رضی اللہ عنہ
۱۲۷۵ھ
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )