حضرت حیوۃ بن قیس الحرانی علیہ الرحمۃ
صاحب الکرامات الخارقۃ والانفاس الصادقۃ والاحوال الفاخرۃ والانوار الباھرۃ والمقامات العالیہ والمناقب السامیہ یعنی آپ کرامات خارقہ،انفاس صادقہ،احوال فاخرہ،روشن انوار،بلند مقامات تھے۔آپ ان چار شخصوں میں سے ہیں کہ شیخ ابوالحسن قریشی نے کہا ہےکہ میں نے چار ولیوں کو دیکھا ہےکہ اپنی قبروں میں تصرف کرتے ہیں۔معروف کرخی،شیخ بعدالقادر گیلانی، شیخ عقیل منیجی،شیخ حیوۃ حرانی قدس اللہ تعالی اسرار ہم۔ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں یمن سے دریا میں بیٹھا۔جب ہم دریا ہند میں پہنچے تو مخالف ہوا چلی اور بڑی موج پیدا ہوئی۔کشتی ٹوٹ گئی۔میں ایک تختہ پر رہ گیا۔موج نے مجھ کو ایک جزیرہ پر ڈال دیا۔تب میں اس میں پھرا۔میں نے وہاں کسی کو نہ دیکھا۔بڑا جنگل تھا۔اتفاقاً وہاں ایک مسجد میں پہنچا جس میں چار شخص بیٹھے ہوئے تھے۔میں نے ان کو سلام کہا۔انہوں نے جواب دیا اور میرا حال پوچھا۔میں نے اپنا حال ان سے بیان کیا۔باقی دن ان کی خدمت میں رہا اور ان کی حسن توجہ اور ان کےکمال طور پر خدا کی جانب میں مقبول ہونے سے بڑا امر مشاہدہ کیا۔جب رات آئی۔حیوۃ حرانی آئے۔وہ جماعت آگے ہو کر دوڑی اور ان کو سلام کہا۔آگے بڑھے اور عشاء کی نماز جماعت سے پڑھی۔طلوع فجر تک نماز میں کھڑے رہے۔میں نے سنا کہ شیخ حیوۃ مناجات کرنے لگے اور آخر میں کہا۔یاحیب التائبین ویا سرورالعارفین ویاقرۃ عین العابدین ویا انیس المتفردین یاحرزا للا جین ویا ظھرالمنقطعین ویامن خشیت الیہ قلوب الصدیقین وبا من انست بہ افئدۃ المجین وعلیہ عکف ھمۃ الخاشعین یعنی اے توبہ کرنے والوں کے دوست۔اے عارفوں کے سرور،عابدوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک مفردین کے انیس یا پناہ مانگنے والوں کی پناہ۔اے منقطعین کی پشت پناہ۔اے وہ ذات جس سے صدیقوں کے دل ڈرتے ہیں۔اے وہ ذات جس سے محبوں کے دل انس پاتے ہیں اور عاجزین کی ہمتیں اسی کی طرف جھکتی ہیں۔اس کے بعد سخت توئے۔میں نے دیکھا کہ انوار الہٰی ظاہر ہونے لگے۔چنانچہ وہ مکان روشن ہوگیا۔جیسے چودھویں رات اس کے بعد شیخ حیوۃ مسجد سے باہر نکلے ۔اس جماعت نے مجھ سے کہا کہ تم ان کے پیچھے ہو لو۔میں ان کو پیچھے گیا۔دیکھا تو زمین اور جنگل ،دریا ،پہاڑاس کے پاؤں کے نیچے لپیٹے جاتے ہیں۔جب ہو قدم رکھتے تھےتو میں سنتا تھا کہ یہ کہتے تھے۔یارب حیوۃ کن الحیوۃ یعنی اے حیوۃ کے رب تو حیوۃ کا ہوجا۔ہم تھوڑے ہی عرصہ میں حران میں پہنچ گئے۔لوگ ابھی صبح کی نماز میں تھے۔شیخ حیوۃ حران کے رہے والے تھے۔یہاں تک کہ آپ ۵۷۱ھ میں دنیا سے رحلت کرگئے۔
(نفحاتُ الاُنس)