حضرت محمد عظیم حسن اخریٰ برخیا
المعروف
قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مشہور روحانی بزرگ اور سلسلہ عظیمیہ کے بانی حضرت حسن اخری سید محمد عظیم برخیا ، نام سید محمد عظیم ، خطاب ھسن اخریٰ ، تخلص بر خیا اور مریدین قلند ر بابا کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ بابا صاحب رشتے میں حضرت بابا تاج الدین چشتی نا گپوری ؒ کے نواسے تھے۔ آپ نجیب الطرفین سادات میں سے ہیں اور آپ کا خاندانی سلسلہ حضرت سیدنا امام حسن عسکری رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔
آپ ۱۸۹۸ء کو قصبہ خورجہ ، ضلع بلند شہر ، یوپی ( بھارت ) میں تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت :
قرآن پاک اور ابتدائی تعلیم محلے کے مکتب میں حاصل کی۔ ہائی اسکول تک بلند شہر میں پڑھا اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ علی گڑھ میں قیام کے دوران آپ کی طبیعت میں درویشی کی طرف میلان پیدا ہو گیا۔ اسی اثناء میں آپ اپنے نانا بابا تاج الدین ناگپوری کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نانا صاحب نے انہیں اپنے پاس روک لیا ۔ آپ کے والد محترم کو جب اس بات کا علم ہوا تو وہ ناگپور گئے اور بابا تاج الدین ناگپوری ( یعنی اپنے سسر ) سے عرض کی ’’بابا صاحب !اسے علی گڑھ واپس بھیج دیجئے ، اس کی تعلیم نا مکمل رہ جائے گی ۔ ’’بابا صاحب نے فرمایا: اگر اس سے زیادہ پڑھایا گیا تو جتنا یہ اب پڑھ چکا ہے تو یہ میرے کام کا نہیں رہے گا۔ ‘‘ آپ کے والد جب اپنے سسر کے جواب سے مایوس ہوئے تو آپ کو ایک مشفق باپ کی طرح سمجھایا اور جب دیکھا کہ بیٹے کا میلان فقیری کی طرف ہے تو انہوں نے یہ کہہ کر کہ ’’بیٹا !تم خود سمجھدار ہو جس طرح چاہو اپنا مستقبل تعمیر کرو ‘‘انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا۔
آپ نے بابا نا گپوری کے پاس ۹ نو سال رہ کر تعلیم و تربیت حاصل کی ۔ اس زمانے میں ہونے والے واقعات کا تذکرہ انہوں نے اپنی کتاب ’’تذکرہ تاج الدین بابا‘‘ میں تحریر کیا ہے۔
شادی و اولاد :
تربیت کے زمانہ میں آپ کی والدہ محترمہ چار بیٹیوں اور دو بیٹوں کو چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو گئیں ۔ آپ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی تربیت اور کفالت پر کمر بستہ ہو گئے اور جب بچیوں کی تربیت کے سلسلے میں وقت پیش آئی تو بابا گپوری کے ارشاد کے مطابق ان کے ایک عقیدت مند کی صاحبزادی سے دہلی میں آپ کی شادی ہو گئی شادی کے بعد آپ دہلی میں قیام پذیر ہو گئے ۔
پاکستان آمد :
تقسیم ہند کے بعد آپ اپنے والد بہنوں ، بھائیوں اور اہل و عیال کے ساتھ پاکستان ( کراچی ) آگئے اور لی مارکیٹ میں ایک خستہ حال مکان کرائے پر لیا اور رہائش اختیار کی۔
بیعت و خلافت :
۱۹۵۶ء کو سلسلہ سہروردیہ کے بزرگ حضرت علامہ ابوالفیض سید قلندر علی سہروردی ( آستانہ عالیہ سہرور دیہ لاہور ) کراچی تشریف لائے ۔ آپ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت ہونے کی درخواست کی۔ حضرت ابوالفیض نے رات کو تین بجے آنے کو کہا۔ سخت سردی کے عالم میں آپ گراوٗ نڈ ہوٹل ایم اے جناح روڈ کی سیڑھیوں پر رات دو بجے جا کر بیٹھ گئے ۔ ٹھیک تین بجے حضرت ابوالفیض باہر تشریف لائے اور آپ کو اندر بلایا، سامنے بٹھا کر سلسلہ عالیہ سہرور دیہ میں آپ کو داخل فرمایا اور تین ہفتے کے بعد خلافت عطا فرمادی ۔
لیکن سلسلہ عظیمیہ کے اسباق طریقت سب سے مختلف ہیں غالبا اس کے حضر ت قلندر بابا موجد ہیں ۔ وہ رنگوں روشنیوں اور ٹیلی پیتھی کے ذریعے روحانی تربیت کرتے تھے ۔ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کراچی آپ کی تعلیمات کو ایک عرصے سے آپ کے تربیت یافتہ خواجہ شمس الدین عظیمی کے زیرادارت عام کر رہا ہے۔ روحانی ڈائجسٹ نے آپ کے پیغام کو کافی وسعت دی ہے اب ہزاروں انسان آپ کے سلسلہ عظیمیہ سے منسلک ہیں ۔ ملک بھر میں روحانی لائبریری اور مراقبہ ہال کھل چکے ہیں ۔
صحافت :
دہلی میں سلسلہ معاش قائم رکھنے کے لئے مختلف رسائل و جرائد میں صحافت اور شعراء کے دیوانوں کی اصلاح اور تربیت کا کام اپنے لئے منتخب کیا۔
کراچی میں قیام کے کچھ عرصے بعد آپ ’’اردو ڈان ‘‘میں سب ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہوگئے ۔ اس کے بعد عرصے تک ماہنامہ ’’نقاد ‘‘میں کام کرتے رہے ۔ کچھ رسالوں کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیئے اور کئی مشہور کہانیوں کے سلسلے بھی قلم بند کئے ۔
شاعری :
آپ ایک نہایت اعلیٰ اور بلند پایہ شاعر تھے ۔ شعر و سخن کا ذوق آپ نے بچپن ہی سے پایا تھا ۔ آپ نے بہت سی رباعیات کہیں جن میں کائنات کی حقیقت اور انسانی زندگی کا مقصد و مقام اجاگر کیا گیا ہے۔
جس وقت کہ تن جاں سے جدا ٹھہرے گا
دوگز ہی زمین میں تو جا ٹھہرے گا
دو چار ہی روز میں تو ہوگا غائب
آکر کوئی اور اس جگہ ٹھہرے گا
تصنیف و تالیف:
آپ نے مضامین اور کہانیوں کے علاوہ درج ذیل کتب تحریر فرمائیں :
٭ تذکرہ تاج الدین بابا
٭ مکتبہ تاج الدین باباناظم آباد کراچی
٭ رباعیات قلندر بابا
٭ مکتبہ تاج الدین بابا ناظم آباد کراچی
٭ لوح وقلم
٭ مکتبہ تاج الدین بابا ناظم آباد کراچی
٭ تذکرہ قلندر بابا
٭ مرتبہ خواجہ شمس الدین عظیمی
( آپ کے حالات و مقامات کے متعلق)
وصال:
قلندر بابانے ۲۷، صفر المظفر ۱۳۹۹ھ بمطابق ۲۷، جنوری ۱۹۷۹ء بروز ہفتہ بوقت ایک بجکر دس منٹ پر ۸۱سال کی عمر میں انتقال کیا۔ خواجہ شمس الدین عظمی نے نماز جنازہ کی امامت کے فرائض انجام دیئے ۔ ااپ کی وصیت کے مطابق آپ کو ’’عظیمیہ ٹرسٹ فاونڈیشن ‘‘ کے شمالی حصہ (نارتھ ناظم آباد کراچی ) میں مدفون کیا گیا۔ آپ کا عرس ہر سال جنوری میں متحدہ امارات ، تھائی لینڈ ، فرانس، ڈنمارک ، برطانیہ ، امریکہ ، روس اور پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں منعقد کیا جاتا ہے۔ عرس کی مرکزی تقریب ۲۷جنوری کو مرکزی مراقبہ ہال سرجانی ٹاوٗن کراچی میں خواجہ شمس الدین عظیمی ( ایڈیٹر ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کراچی ) کی زیر نگرانی منعقد ہوتی ہے۔
[ماخوذ : سلسلہ عظیمیہ کے بانی ۔ مضمون نگار : علم الدین ، روز نامہ جنگ کراچی ، ۲۸، جنوری ۲۰۰۵ء ، ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کراچی ، جون ۲۰۰۰ء ]
(انوارِ علماءِ اہلسنت)