قاضی عزیز الدین ہکڑو رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مولانا قاضی حکیم عزیز اللہ فقیر امان اللہ ہکڑو ، گوٹھ بٹھی ہکڑا تحصیل میرو خان ضلع لاڑکانہ میں تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
شہداد کوٹ کی عظیم دینی درسگاہ میں داخلہ لیا اور غوث الزمان مفتی اعظم استاد الاساتذہ حضرت علامہ الحاج خواجہ غلام صدیق شہداد کوٹی قدس سرہٗ سے نصابی کتب پڑھ کر فارغ التحصیل ہوئے۔
بیعت:
آپ عظیم صوفی بزرگ حضرت علامہ سید احمد خالد شامی قدس سرہ السامی (مدفون بمبئی انڈیا) سے دست بیعت تھے۔ اور حضرت مولانا حکیم سید عبدالغفار شاہ راشدی کے پیر بھائی اور گہرے دوست تھے۔ اسی نسبت سے آپ نے پیر صاحب عبدالغفار کی نماز جنازہ پڑھائی تھی۔ اس کا مطلب آپ ۱۹۶۱ء تک حیات تھے اس کے بعد آپ کا انتقا ل ہوا۔
شادی و اولاد:
دوشادیاں کیں۔ پہلی بیوی سے ایک بیٹا مولوی حسن اللہ پیدا ہوا۔ دوسری بیوی سے تین بیٹیاں تولد اور دو بیٹے تولد ہوئے۔
۱۔ اس اللہ: جس کا دس سال کی عمر میں انتقال ہوا۔
۲۔ امان اللہ جو کہ صاحب اولاد ہوئے
عادات و خصائل:
آپ کے پوتے احسان اللہ ہکڑو بن امان اللہ مرحوم کی روایت کے مطابق قاضی صاحب سیر و سفر کو پسند نہ کرتے تھے، اپنے گوٹھ میں زیادہ تر قیام کرتے تھے، شریعت مطہرہ کے پابند ، نماز ، روزہ، اوراد و وظائف کے پابند اور اپنے معمولات میں دن رات مشغول رہا کرتے تھے ۔ مطالعہ کے نہایت شائق تھے باہر سے کتب منگوا کر مطالعہ کرتے تھے۔
حکیم محمد مراد شیخ (صدیقی دواخانہ لاڑکانہ) نے بتایا کہ قاضی عزیز اللہ ہکڑو حکیم تھے ہمارے پنسار کی دکان پر دوائیں خریدنے تشریف لاتے تھے اور حاجی محمد سعید شیخ (مالک شیخ حاجی عنایت اللہ، کتب فروش اینڈ سنز ، لاڑکانہ) کے پاس اور ان کی بیٹھک میں قیام بھی کرتے تھے۔ ان کی گفتگو عالمانہ ہوتی تھی، انتہائی نیک صالح تہجد گزار، نرم خو، اکثر خاموش رہتے لیکن جب گفتگو کرتے تو دھیمی آواز میں بولتے، سفید لباس زیب رن ، سر پر سفید عمامہ شریف، جسم نحیف اور چہرہ نورانی تھا۔
وصال:
مولانا حکیم قاضی عزیز اللہ ہکڑو کے تدریس سے متعلق روایت تو نہ مل سکی لیکن قرائن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے تدریس اور حکمت کے ذریعے انسانوں کی خدمت کرکے صحت مند معاشرہ بنانے میں کام کیا۔
بدھ کے روز قاضی صاحب گوٹھ والوں کے گھر گھر جاکر سب سے ملے ان سے کہا مجھ سے کوئی تکلیف پہنچی ہو تو معافی چاہتا ہوں، کسی کی رقم امانت رکھی ہوئی تھی تو واپس کردی، تمام حساب کتاب برابر کئے۔ اہل خانہ سے ملے سب پر شفقت محبت نچھاور کی نصیحت و وصیت کی، رات کو مولانا شاہ محمد ہکڑو کو بلوایا وہ آئے تو انہیں کہا کہ آج ہم سفر پر روانہ ہورہے ہیں۔
جمعرات کو صاف کپڑے پہننے کے بعد دوران وضو ۷ رجب المرجب ۱۴۰۰ھ/ مئی ۱۹۸۰ء کو تقریباً ستر سال کی عمر میں انتقال کیا۔ مولانا شاہ محمد ہکڑو نے وصیت کے مطابق نماز جنازہ کی امامت فرمائی اور گوٹھ بٹھی ہکڑو کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔
(حافظ عبدالستار نے قاضی مرحوم کے پوتے احسان اللہ سے مل کر معلومات حاصل کی فقیر نے دیگر مواد ملا کر مضمون ترتیب دیا ، فقیر دونوں حضرات کا مشکور ہے۔)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)