حضرت خواجہ محی الدین کاشانی
حضرت خواجہ محی الدین کاشانی (تذکرہ / سوانح)
آپ شیخ المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء اللہ قدس سرہ کے خلیفہ اعظم تھے۔ زہد و تقویٰ میں کامل، خرق و کرامت میں معروف اور علوم تفسیر و حدیث میں ماہر تھے سارا شہر آپ سے علوم دینیہ حاصل کرتا تھا۔ آپ نے مرید ہوتے ہی دنیاوی آسائشوں سے کنارہ کشی کرلی، بادشاہ نے آپ کو قضا کا پروانہ دیا تھا، آپ نے یہ فرمان اپنے پیر و مرشد کے سامنے لاکر جلا دیا اور فقر و مجاہدہ کو اختیار کرکے خرقہ خلافت حاصل کرلیا۔
کہتے ہیں کہ جب قاضی کاشانی نے تمام دنیاوی نعمتوں سے منہ موڑ لیا اور فقر و فاقہ کو اپنالیا، تو آپ کے لواحقین اہل و عیال جو دنیا کی آسائشوں کے خوگر تھے تنگ دست ہوگئے، ان لوگوں کے ایک واقف حال نے یہ صورت حال بادشاہ وقت علاء الدین خلجی کے دربار میں پیش کی تو سلطان نے اودھ کی قضا کو از سر نو حضرت قاضی کاشانی کے سپرد کردیا، جب یہ خبر ملی تو دوڑ دوڑے حضرت خواجہ نظام الدین کی خدمت میں آئے اور عرض کیا، حضور یہ معاملہ میری عدم موجودگی میں میری مرضی کے خلاف ہوا ہے۔ آپ اس سلسلہ میں کیا فیصلہ فرماتے ہیں، حضرت نے فرمایا: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فقر و فاقہ اختیار کرنے کے بعد بھی تمہارے دل میں عہدہ قضا کی یادیں موجود تھیں یہی وجہ ہے کہ بادشاہ نے تمہیں دوبارہ قاضی مقرر کردیا، قاضی صاحب کو اس صورت حال نے بڑی مشکل میں ڈال دیا ادھر سلطان المشائخ نے اپنا خلافت نامہ واپس لے کر ایک کونے میں رکھ دیا ایک سال گزر گیا تو قاضی کاشانی کے دماغ میں تبدیلی آئی اور وہ پھر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے ازراۂ ترحم دوبارہ مرید کیا اور خلافت نامہ لوٹا دیااو رکمالات اعلیٰ پر پہنچا دیا۔
حضرت قاضی کا سال وصال ۷۹۰ھ ہے۔
محی الدین مقتدائے ہر دو جہاں
رفت چوں از جہاں بخلد بریں
وصل او ہست صاحب تحقیق
نیز مہتاب حسن محی الدین
عالم ربانی قاضی محی الدین کاشانی رحمۃ اللہ علیہ وفور علم و حلم اور زہد تقوی احتیاط ورع کے ساتھ یاران اعلی میں انتہا درجہ کی شہرت رکھتے تھے۔ یہ بزرگوار خاندان علم و کرامت سے تھے۔ قاضی قطب الدین کاشانی کے نواسے اور استاد شہر تھے آپ نے باوجود ان فضائل خاص کے جو آپ کی ذات بابرکات میں موجود تھے حضرت سلطان المشائخ کی دولتِ ارادت جو تمام سعادتوں کی جڑ تھی حاصل کی تھی۔ شیخ سعدی نے کیا خوب فرمایا ہے۔
حریف مجلس ماخود ہمشہ دل مے برد |
|
علی الخصوص کہ پیرایۂ برو بستند |
آپ سلطان المشائخ کی نظر مبارک میں تمام و کمال عزت رکھتے اور ہمیشہ نگاہ وقعت سے دیکھے جاتے تھے یہاں تک کہ جس وقت آپ سلطان المشائخ کی خدمت میں آتے تعظیماً کھڑے ہوجاتے یہ دولت یاروں میں کسی اور کو بہت کم میسر ہوئی ہے۔ آپ کے وجود باجود سے سلطان المشائخ کی مجلس بہت پر رونق ہوتی اور بہت دیر تک اس کا رنگ جما رہتا جو مشکلات علمی قاضی صاحب کو وقتاً فوقتاً پیش آتی وہ آپ سلطان المشائخ سے حل کرتے اور اہل طریقت کی حکایتیں عشق کے رموز۔ سوالات و جوابات اور طرح طرح کے بہت سے لطائف و ظرائف سے مجلس اقدس گرم رہتی۔ چنانچہ ان میں سے کچھ ذکر اسی کتاب میں اپنے محل میں درج ہوگا اور صاحب دلان عالم کی نظروں میں لایا جائے گا۔ بعض وہ لوگ جنہیں سلطان المشائخ کی خدمت میں بیٹھنے کی طاقت نہ ہوتی تھی۔ قاضی محی الدین کاشانی کی تشریف آوری کے منتظر رہتے تھے اور جب آپ تشریف لاتے تھے تو وہ لوگ آپ کے طفیل میں سلطان المشائخ کی مجلس میں جگہ پاتے اور ذوق مجلس حاصل کرتے تھے۔ قاضی محی الدین تکلف و بناوٹ سے بالکل خالی تھے اور آپ کا طریقہ اور چال چلن بالکل اہل سلف کے مانند تھا آپ نے ابتدائے ارادت سے دنیا وی تعلقات سے ہاتھ اٹھالیا تھا اور تجملاتِ دنیا کو خدا حافظ کہہ دیا تھا۔ فرمان وظیفہ جو علما کا تمغہ اور مایۂ معاش تھا آپ سلطان المشائخ کی خدمت میں لائے اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور فقر و مجاہدہ کا طریقہ اختیار کیا۔ جب کچھ عرصہ اسی طرح گزر گیا اور آپ کے اکثر افعال خیر سلطان المشائخ نے مشاہدہ کیے تو دولت خلافت سے مشرف کرنا چاہا اپنے دست مبارک سے ایک کاغذ پر ذیل کا مضمون لکھ کر قاضی محی الدین کو عنایت کیا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم تمہیں چاہیے کہ دنیا اور اس کی فانی زینت کو ترک کرکے خدا کی طرف متوجہ ہو دنیا اور اہل دنیا کی طرف ذرا التفات نہ کرو۔ اگر تمہیں جاگیر پر گنہ ملے تو اسے قبول نہ کرو۔ اور بادشاہوں کے عطیہ کو نگاہِ قبول سے نہ دیکھو۔ اور اگر تمہارے پاس مسافر آئیں اور اس وقت تمہارے پاس کوئی چیز نہ ہو تو اسے خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت شمار کرو اور غنیمت جانو پس اگر تم نے ان باتوں پر عمل کیا جن کا میں نے حکم کیا ہے اور میرا گمان ہے کہ تم ایسا ہی کرو گے تو تم میرے خلیفہ ہو۔ اور اگر میرے فرمان کے مطابق عمل نہ کیا تو میرا خلیفہ مسلمانوں پر خدا ہے۔
منقول ہے کہ جب قاضی محی الدین کو فقر و فاقہ کی شدت اور افلاس و تنگی کی سختی کا سامنا ہوا تو آپ کے اتباع و خدم نے جوناز و نعمت اور پاکیزہ لباس کے ساتھ خوگر تھے۔ آپ کو سخت تنگ کرنا شروع کیا اور ایک معتقد نے آپ کے مناقب و مآثر بغیر آپ کی درخواست کے سلطان علاؤ الدین کی خدمت میں بیان کیے سلطان نے فرمایا کہ اودھ کی قضا جو قاضی محی ا لدین کا موروثی عہدہ ہے مع ؟؟؟ اور بہت سی جاگیر گاؤں کے تفویض کریں جب یہ خبر قاضی صاحب کو پہنچی تو آپ سلطان المشائخ کی زیارت کو دہلی میں تشریف لائے اور ساری کیفیت عرض کی کہ سلطان علاؤ الدین نے بغیر میری درخواست کے یہ حکم دیا ہے میں حضور کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ مخدوم جیسا فرمائیں عمل میں لایا جائے سلطان المشائخ قاضی صاحب کی یہ بات سنتے ہی آپ سے رنجیدہ ہوگئے اور فرمایا یہ ضروری بات ہے کہ اس جیسا خطرہ تمہارے دل میں گزرا ہوگا اس وقت یہ حکم تمہاری نسبت صادر ہوا آپ نے یہ فرمایا اور اپنی توجہ و مہربانی ان پر سے اٹھالی۔ الغرض اس وجہ سے قاضی محی الدین کی زندگی منغص اور زمانہ پریشان ہوگیا اور آپ کو سخت مصائب جھیلنے پڑے۔ بعض راوی یوں بھی بیان کرتے ہیں کہ جو کاغذ سلطان المشائخ نے اپنے دست مبارک سے لکھ کر دیا تھا واپس کرلیا اور ایک کونے میں مخفی کرکے رکھ دیا اور پورے ایک سال تک سلطان المشائخ کا مزاج قاضی صاحب پر متغیر رہا لیکن جب ایک سال تمام و کمال گزر گیا تو اب سلطان المشائخ کا مزاج مبارک اپنے قدیم عادت کی طرف رجوع ہوا۔ قاضی محی الدین تجدید بیعت و ارادت سے مشرف ہوئے اور حضرت سلطان المشائخ نے اپنی قدیم توجہ و مہربانی ان پر مبذول فرمائی۔ الحمدللہ علی ذالک۔ غرضکہ قاضی محی الدین کاشانی سلطان المشائخ کے زمانۂ حیات ہی میں انتقال فرماگئے تھے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
(سِیَر الاولیاء)
آپ شیخ نظام الدین کے مریدوں میں سے کامل علم، زہد و تقویٰ کی صفتوں کے ساتھ مشہور تھے، علم و کرامت کا منبع اور تمام شہر کے استاد تھے، شیخ سے بیعت ہونے کے فوراً ہی بعد تمام تر دنیاوی علائق سے کنارہ کش اور دستبردار ہوگئے تھے، جاگیر و انعامات وغیرہ جو سرمایہ عزت تھے وہ سب فرامین کے سامنے لاکر چاک کردیے اور فقر و فاقہ کی زندگی بسر کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا آپ کو اپنے شیخ کے اکثر ملفوظات زبانی یاد تھے، شیخ نے جب آپ کو خلافت دی تو ایک کاغذ پر یہ عبارت لکھی۔
تمہیں تارکِ دنیا رہنا چاہیے، دنیا اور دنیا والوں کی طرف مائل نہ ہونا، جاگیر وغیرہ قبول نہ کرنا، بادشاہوں سے انعام و ہدیہ نہ لینا، اگر تمہارے پاس ایسے وقت میں مسافر آجائیں کہ تم تہیدست ہو تو اس کو منجملہ اللہ کی نعمتوں کے ایک نعمت جاننا، اگر تم نے اس طرح کیا جیسا میں تمہیں امر کر رہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ تم ایسا ہی کرو گے تو تم میرے خلیفہ ہو ورنہ میرا خلیفہ اللہ ہے یعنی معاملہ اسی کے سپرد ہے۔
منقول ہے کہ ایک مرتبہ قاضی محی الدین کاشانی نے خواجہ نظام الدین اولیاء سے دریافت کیا کہ مراقبہ اللہ کی ذات کا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اور شیخ کا علیحدہ علیحدہ ہونا چاہیے یا اجتماعاً، شیخ نے فرمایا دونوں طرح صحیح ہے، جب اجتماعاً مراقبہ کرے تو اس بات کا یقین کرے کہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دائیں جانب رونق افروز اور جلوہ نما ہیں اور پیر صاحب بائیں جانب موجود ہے۔ منقول ہے کہ قاضی محی الدین کاشانی پر فقر و فاقہ ایک مہیب شکل اختیار کرگیا تو آپ کے اکثر و ہ مرید اور متعلقین جو ناز و نعم کے پروردہ تھے اس کو برداشت نہ کرسکے چنانچہ آپ کے ایک آشنا اور جاننے والے نے سلطان علاؤ الدین خلجی کو اس کی اطلاع دی تو سلطان نے اودھ کی قضا جو ان کی موروثی تھی آپ کے نام لکھ دی، اس کی اطلاع جب قاضی محی الدین کو ہوئی تو اس واقعہ کی اپنے پیر کو صاحب اطلاع دی اور کہا کہ یہ فرمان شاہی میری مرضی کے بغیر جاری ہوا ہے۔ اب آپ کا جو ارشاد ہوگا اس پر عمل کیا جائے گا، شیخ نے فرمایا کہ یہ ضروری ہے کہ تمہارے دل میں اس قسم کی کوئی بات آئی ہوگی تب ہی تو یہ واقعہ پیش آیا، شیخ کے اس جواب سے قاضی محی الدین بہت پریشان رہنے لگے کہ مرشد مجھ پر ناراض ہوگئے، چنانچہ آپ نے ان سے خلافت نامہ بھی واپس لے کر ایک کونہ میں ڈال دیا اور قاضی صاحب سے شیخ نظام الدین مسلسل ایک سال تک ناراض رہے، ایک برس کے بعد جب قاضی صاحب اپنے پرانے نہج اور طرز و طریق پر آگئے (تو مرشد بھی راضی ہوگئے) اور پھر بیعت کی تجدید کی گئی، شیخ کی زندگی ہی میں آپ کا انتقال ہوگیا تھا اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی رحمت نازل کرے۔
اخبار الاخیار
قاضی محی الدین[1]کاشانی: سلطان المشائخ نظام الدین اولیاء کے اجل خلفاء میں سے علوم حدیث و تفسیر و فقہ میں استاد شہر دہلی اور زہد و تقوےٰ و خرارق و کرامت میں مشہور زمانہ تھے جب آپ کو جازب حقیقی کا شوق غالب ہوا تو آپ نے پروانۂ قضاء کو جو بادشاہ کی طرف سے آپ کے پاس موجود تھا شیخ کی خدمت میں لاکر پارپ پارہ کردیا اور فقر و مجاہدہ اختیار کر کے خرقہ خلافت حاصل کیا۔وفات آپ کی ۷۱۹ھ میں ہوئی۔’’عالی درجات‘‘تاریخ وفات ہے۔
1۔ محی الدین بن جلال الدین بن قطب الدین متوفی ۷۱۷‘‘نزہت الخواطر‘‘
حدائق الحنفیہ
عالم ربانی قاضی محی الدین کاشانی رحمۃ اللہ علیہ وفور علم و حلم اور زہد تقوی احتیاط ورع کے ساتھ یاران اعلی میں انتہا درجہ کی شہرت رکھتے تھے۔ یہ بزرگوار خاندان علم و کرامت سے تھے۔ قاضی قطب الدین کاشانی کے نواسے اور استاد شہر تھے آپ نے باوجود ان فضائل خاص کے جو آپ کی ذات بابرکات میں موجود تھے حضرت سلطان المشائخ کی دولتِ ارادت جو تمام سعادتوں کی جڑ تھی حاصل کی تھی۔ شیخ سعدی نے کیا خوب فرمایا ہے۔
حریف مجلس ماخود ہمشہ دل مے برد |
|
علی الخصوص کہ پیرایۂ برو بستند |
آپ سلطان المشائخ کی نظر مبارک میں تمام و کمال عزت رکھتے اور ہمیشہ نگاہ وقعت سے دیکھے جاتے تھے یہاں تک کہ جس وقت آپ سلطان المشائخ کی خدمت میں آتے تعظیماً کھڑے ہوجاتے یہ دولت یاروں میں کسی اور کو بہت کم میسر ہوئی ہے۔ آپ کے وجود باجود سے سلطان المشائخ کی مجلس بہت پر رونق ہوتی اور بہت دیر تک اس کا رنگ جما رہتا جو مشکلات علمی قاضی صاحب کو وقتاً فوقتاً پیش آتی وہ آپ سلطان المشائخ سے حل کرتے اور اہل طریقت کی حکایتیں عشق کے رموز۔ سوالات و جوابات اور طرح طرح کے بہت سے لطائف و ظرائف سے مجلس اقدس گرم رہتی۔ چنانچہ ان میں سے کچھ ذکر اسی کتاب میں اپنے محل میں درج ہوگا اور صاحب دلان عالم کی نظروں میں لایا جائے گا۔ بعض وہ لوگ جنہیں سلطان المشائخ کی خدمت میں بیٹھنے کی طاقت نہ ہوتی تھی۔ قاضی محی الدین کاشانی کی تشریف آوری کے منتظر رہتے تھے اور جب آپ تشریف لاتے تھے تو وہ لوگ آپ کے طفیل میں سلطان المشائخ کی مجلس میں جگہ پاتے اور ذوق مجلس حاصل کرتے تھے۔ قاضی محی الدین تکلف و بناوٹ سے بالکل خالی تھے اور آپ کا طریقہ اور چال چلن بالکل اہل سلف کے مانند تھا آپ نے ابتدائے ارادت سے دنیا وی تعلقات سے ہاتھ اٹھالیا تھا اور تجملاتِ دنیا کو خدا حافظ کہہ دیا تھا۔ فرمان وظیفہ جو علما کا تمغہ اور مایۂ معاش تھا آپ سلطان المشائخ کی خدمت میں لائے اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور فقر و مجاہدہ کا طریقہ اختیار کیا۔ جب کچھ عرصہ اسی طرح گزر گیا اور آپ کے اکثر افعال خیر سلطان المشائخ نے مشاہدہ کیے تو دولت خلافت سے مشرف کرنا چاہا اپنے دست مبارک سے ایک کاغذ پر ذیل کا مضمون لکھ کر قاضی محی الدین کو عنایت کیا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم تمہیں چاہیے کہ دنیا اور اس کی فانی زینت کو ترک کرکے خدا کی طرف متوجہ ہو دنیا اور اہل دنیا کی طرف ذرا التفات نہ کرو۔ اگر تمہیں جاگیر پر گنہ ملے تو اسے قبول نہ کرو۔ اور بادشاہوں کے عطیہ کو نگاہِ قبول سے نہ دیکھو۔ اور اگر تمہارے پاس مسافر آئیں اور اس وقت تمہارے پاس کوئی چیز نہ ہو تو اسے خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت شمار کرو اور غنیمت جانو پس اگر تم نے ان باتوں پر عمل کیا جن کا میں نے حکم کیا ہے اور میرا گمان ہے کہ تم ایسا ہی کرو گے تو تم میرے خلیفہ ہو۔ اور اگر میرے فرمان کے مطابق عمل نہ کیا تو میرا خلیفہ مسلمانوں پر خدا ہے۔
منقول ہے کہ جب قاضی محی الدین کو فقر و فاقہ کی شدت اور افلاس و تنگی کی سختی کا سامنا ہوا تو آپ کے اتباع و خدم نے جوناز و نعمت اور پاکیزہ لباس کے ساتھ خوگر تھے۔ آپ کو سخت تنگ کرنا شروع کیا اور ایک معتقد نے آپ کے مناقب و مآثر بغیر آپ کی درخواست کے سلطان علاؤ الدین کی خدمت میں بیان کیے سلطان نے فرمایا کہ اودھ کی قضا جو قاضی محی ا لدین کا موروثی عہدہ ہے مع ؟؟؟ اور بہت سی جاگیر گاؤں کے تفویض کریں جب یہ خبر قاضی صاحب کو پہنچی تو آپ سلطان المشائخ کی زیارت کو دہلی میں تشریف لائے اور ساری کیفیت عرض کی کہ سلطان علاؤ الدین نے بغیر میری درخواست کے یہ حکم دیا ہے میں حضور کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ مخدوم جیسا فرمائیں عمل میں لایا جائے سلطان المشائخ قاضی صاحب کی یہ بات سنتے ہی آپ سے رنجیدہ ہوگئے اور فرمایا یہ ضروری بات ہے کہ اس جیسا خطرہ تمہارے دل میں گزرا ہوگا اس وقت یہ حکم تمہاری نسبت صادر ہوا آپ نے یہ فرمایا اور اپنی توجہ و مہربانی ان پر سے اٹھالی۔ الغرض اس وجہ سے قاضی محی الدین کی زندگی منغص اور زمانہ پریشان ہوگیا اور آپ کو سخت مصائب جھیلنے پڑے۔ بعض راوی یوں بھی بیان کرتے ہیں کہ جو کاغذ سلطان المشائخ نے اپنے دست مبارک سے لکھ کر دیا تھا واپس کرلیا اور ایک کونے میں مخفی کرکے رکھ دیا اور پورے ایک سال تک سلطان المشائخ کا مزاج قاضی صاحب پر متغیر رہا لیکن جب ایک سال تمام و کمال گزر گیا تو اب سلطان المشائخ کا مزاج مبارک اپنے قدیم عادت کی طرف رجوع ہوا۔ قاضی محی الدین تجدید بیعت و ارادت سے مشرف ہوئے اور حضرت سلطان المشائخ نے اپنی قدیم توجہ و مہربانی ان پر مبذول فرمائی۔ الحمدللہ علی ذالک۔ غرضکہ قاضی محی الدین کاشانی سلطان المشائخ کے زمانۂ حیات ہی میں انتقال فرماگئے تھے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔