آپ میر سید محمد گیسو دراز کے پوتے اور خلیفہ تھے، عِشق و مَحَبت آپ کا بہترین مشغلہ تھا، آپ ابھی بچّہ تھے کہ سید محمد گیسو دراز نے وضو کرتے ہوئے سر کا مسح کرتے وقت اپنی ٹوپی اُتار کر ایک جگہ رکھ دی تھی۔ اسی اثناء میں سیدید اللہ بھی اس طرف آئے اور ٹوپی کو دیکھ کر بچوں کی طرح اٹھاکر اپنے سر پر رکھ لی۔ یہ دیکھ کر میر سید محمد گیسو دراز نے فرمایا کہ یہ خلعت ہے اور الحمدللہ عزوجل کے امانت کے حقدار اور اہل کو مل گئی۔ اس کے بعد سید گیسو و راز جس کو مرید کرتے اس کو سدید اللہ کے سپرد کردیا کرتے البتہ ذکر وغیرہ کی تلقین خود فرمایا کرتے تھے۔
مشہور ہے کہ سدید اللہ کو ایک عورت سے عِشق ہوگیا تھا چنانچہ آپ نے اپنے دل پر قابو کیا اور اس کی الفت کو صیغۂ راز ہی میں رکھا بالآخر اس سے نکاح کرلیا، وہاں کے علاقے کے رواج کے موافق ان کی صبح کو ملاقات ہوئی۔ سدید اللہ نے اس کے جمال پر ایک نظر کی کہ اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور عالمِ پائدار کی جانب روازنہ ہوگئیں اور شادی کی مجلس غم میں تبدیل ہوگئی سدید اللہ نے اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑا اور اس کے پاس بیٹھنے سے پہلے آپ نے بھی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی چنانچہ لوگوں نے دونوں کو ایک دوسرے کے بازو میں دفن کردیا۔ ع
عقل والوں کے نصیب میں کہاں ذوق جُنوں
عِشق والے ہیں جو ہر چیز لُٹا دیتے ہیں
اخبار الاخیار