حضرت سعید ناگوری سوالی
حضرت سعید ناگوری سوالی (تذکرہ / سوانح)
حضرت سعید ناگوری سوالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ کو سعید ناگوری سوالی بھی کہتے ہیں، سلطان التارکین کا لقب اور ابو احمد کنیت تھی، حضرت معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمۃ کے جلیل القدر خلفا میں سے تھے، ترک دنیا اور خلوت نشینی میں بڑا اونچا مقام تھا، اللہ کے خاص بندوں میں سے تھے، آپ کی بلند ہمتی دنیا و آخرت سے بھی بلند و بالا تھی اور شخوص ثلثہ کے علاوہ کسی طرف بھی آپ کی نظر محبت نہیں پڑتی تھی، تصوف میں شان بلند اور قواعد طریقت کے بیان میں اونچا مقام رکھتے تھے، آپ سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہیں جو عشرہ مبشرہ میں شمار ہوتے ہیں، آپ ہندوستان کے مقتدمین بزرگوں میں ہیں اور آپ نے بڑی لمبی عمر پائی ہے، خود فرماتے ہیں کہ فتح دہلی کے بعد مسلمان گھرانوں میں سب سے پہلے میری ولادت ہوئی ہے، حضرت معین الدین چشتی کے زمانہ سے شیخ نظام الدین اولیاء کے ابتدائی زمانہ تک آپ حیات رہے ممکن ہے کہ آپ کی ملاقات نظام الدین اولیاء سے بھی ہوئی ہو، واللہ اعلم، حضرت نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے آپ کے ملفوظات آپ کی تصانیف سے منتخب کرکے اپنے دست مبارک سے لکھے تھے اور مصنف سیر الاولیا نے ان کو سلطان المشائخ سے نقل کیا ہے۔
جو مانگنا ہو مانگ لے: ایک روز خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بہت خوش تھے، فرمانے لگے جس کو جو مانگنا ہو مانگ لے کیونکہ قبولیت کا دروازہ کھلا ہوا ہے، کسی نے دنیا طلب کی، کسی نے آخرت، حضرت خواجہ علیہ الرحمۃ نے اس وقت خواجہ قطب الدین کی طرف رخ کرکے یہی ارشاد فرمایا، انہوں نے عرض کیا بندہ کو کوئی اختیار نہیں جو کچھ ارشاد ہو آپ کو اختیار ہے، حضرت خواجہ نے اس کے بعد فرمایا کہ حمید الدین صوفی جو تارکِ دنیا اور مستغنی آخرت ہے، سلطان التارکین ہے اسی وقت سے آپ کا لقب سلطان التارکین ہوگیا۔
حضرت کے گزر اوقات: شہر ناگور میں سوال نامی ایک علاقہ ہے وہاں شیخ حمیدالدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس روز طناب مزروعہ زمین تھی، جس میں آپ اپنے ہاتھ سے ہل چلاتے اور بیج بوتے اور اس سے اپنے اہل و عیال کی روزی کا سامان فراہم کرتے تھے، آپ کی وفات 29؍ ربیع الاول 673ھ میں ہوئی، شہر ناگور میں آپ کا مزار ہے۔
شیخ الاسلام بہاؤ الدین زکریا ملتانی سے فقرو عنا کے باب میں آپ کی بہت خط و کتابت رہی ہے، ان میں سے ایک خط کا مضمون یہ ہے کہ ’’تصوص احادیث اور مشائخ کا اس پر اجماع ہے کہ دنیا اور متاع دنیا وصول الی اللہ میں آڑے آتا ہے، جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ کے بعض بزرگوں کے پاس دنیا کا کافی ساز و سامان ہے اور اس کے باوجود ان سے خوارق و کرامات کا ظہور بھی ہوتا ہے تو اس مسکین کو اس سلسلہ میں بڑی حیرت ہوتی ہے، اگر جناب عالی ازراہ کرم اس مسئلہ کو حل فرمادیں تو عین عنایت ہوگی‘‘۔
ایک دوسرے مکتوب میں آپ نے تحریر فرمایا کہ۔۔۔
’’اس احقر نے ایک خط شیخ بہاؤ الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں ارسال کیا تھا، اور احقر کو جو مسئلے تھے ان کے جواب کی استدعا کی تھی، جناب والا نے نہ معلوم کیوں اس کا جواب نہیں لکھا، اور اگر لکھا ہے تو تشفی بخش نہیں ہے، آخر اس حقیر نے بارگاہ ایزوی میں التجا و زاری سے درخواست کی کہ اس بندے کی مشکل آسان فرمادے اور اس مقصود کی نشانی ظاہر فرمادے،اللہ رب العزت نے بندہ کی دعا قبول کرلی، اور یہ ظاہر ہوا کہ ارباب شریعت جو ثواب آخرت کے طلب گار ہیں، حصول ثواب کے لیے خیرات و صدقات اور نماز و قربانی تو کرتے رہتے ہیں لیکن وہ ان حقائق تقویٰ اور دقائق نفس سے جو ارباب طریقت کو معلوم ہیں محروم ہیں، اسی طرح ارباب طریقت اسرار قرب اور تجلی ذات سے، جو طالبان مولیٰ کا مقصود ہے اور ان کے سامنے ذات حق کے ماسوا ہر چیز اگرچہ کشف و مشاہدہ ہو موجب حجابِ ذات ہوتا ہے، محروم و معذور ہیں، لہٰذا جو شخص اللہ کی ذات کے سوا کسی بھی چیز کے ساتھ درماندہ ہے درحقیقت محجوب و محروم ہے اگرچہ اس کو اپنے محجوب ہونے کا علم نہ ہو‘‘۔
آپ نے ایک مکتوب میں شیخ فریدالدین شکر گنج کو تحریر فرمایا کہ۔۔۔
’’مشہور ہے کہ اگر ذکرِ الٰہی میں مشغول لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ ان سے اللہ کا کتنا قرب فوت ہوگیا ہے تو ہنسیں گے کم اور روئیں گے زیادہ، اور اگر قرب الٰہی میں مشغول لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ ان سے کچھ فوت ہوا ہے تو وہ خوب روئیں گے، اور اگر مَحَبت الٰہی میں مشغول لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ ذات حق سے کیا فوت ہوا ہے تو ان کے کلیجے پھٹ جائیں‘‘۔
آپ کی تصانیف و مکتوبات اور اشعار بکثرت موجود ہیں، آپ کی سب سے مشہور تصنیف اصول الطریقہ ہے، اسی میں ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
راہ سلوک کے جوان مرد جن کا مقصود بارگاہ رب العزت ہے، تین قسم کے ہیں، چنانچہ قرآن کریم میں فرمایا گیا اَلَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْھُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ وَمِنْھُمْ مُّقْتَصِدٌ وَمِنْھُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرَاتِ بِاِذْنِ اللہِ ترجمہ: وہ لوگ جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں چن لیا ہے ان میں بعض تو اپنے اوپر ظلم کرنے والے ہیں، اور بعض درمیانہ ہیں اور بعض وہ ہیں جو نیکیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں) یعنی ظالم کو معذور، مقتصد کو مشکور اور سابق کو فانی کا لقب دیا جاتا ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ
معذور: وہ ہیں کہ ذات باری اور اس کے رسول (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) پر ایمان لاتے ہیں اور حق تعالیٰ کی وحدت و توحید کا اقرار و اعتراف کرنے کے بعد آپ کے دربار میں (بارادہ عبادت) حاضری نہیں دیتے، اور اگر کبھی آتے ہیں تو ان کے آنے کی کیفیت یہ ہوتی ہے، کہ ان کے آنے میں کاہلی و دیر کو بہت بڑا دخل ہوتا ہے، اور اللہ کے فرمان سارعوا (جلدی آؤ) سے یکسر غافل رہتے ہیں، اور
مشکور: وہ ہیں جو ایمان کی قید میں مقید اور اپنے قول و اقرار پر لیل و نہار عامل ہیں (یعنی اللہ عزوجل کے تمام احکام بدل و جان تسلیم کرتے اور ان میں عمل کرتے ہیں) اور
فانیاں: وہ ہیں جو خطاب اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں اور کسی وقت بھی اس کو اپنے دلوں سے زائل نہیں کرتے اور پھر اس کے جواب قَالُوْ بَلٰی پر عمل پیرا رہتے ہیں، یہ وہ طائفہ ہے جو اس جہان کے معرض وجود میں آنے سے پہلے خطاب ازلی اور جواب لم یزلی کو قبول کرچکا ہے، اور ابتدا ہی میں رموز الہیہ کی طلب کے لیے میدان عمل میں کمر بستہ ہوکر کود چکا ہے، ان میں سے اکثر لوگ ایسے بھی تھے جو اس جہان سے اس طرح گزر گئے کہ ان کا کسی کو علم بھی نہ ہوسکا، اور ان میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہیں جن کا نبی اکرم (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے تعارف کرایا ورنہ کسی کو ان کا نام و نشان تک معلوم نہ ہونے پاتا، ان لوگوں میں سے پہلے سیدِنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جن کا ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہوکر اپنے درد کا علاج کیا، اور ایک امیر المومین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے جو بچپن ہی میں اسلام قبول کرنے کے لیے تیار ہوگئے، اور انہیں لوگوں میں سے ایک حضرت اویسِ قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، اگر رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان کے تعارف کے سلسلہ میں کچھ ارشاد نہ فرماتے تو ان کا نام کسی رسالہ میں نہ ہوتا اور نہ ہی ان کی زندگی کے کوائف کسی کتاب میں درج ہوتے یہ کیسے خوش بخت تھے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ میں باعزت تھے (یہ نبی علیہ اسلام کی اتباع اور محبت ہی کا صلہ تھا) کہ آپ نے دنیا سے نہ کچھ رکھا اور نہ کچھ لے گئے، آزاد تشریف لائے اور خوش گئے، اور اسی زمرہ کے ایک فرد حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے کہ اسلام کی دعوت و اعلان سے پہلے ہی طلب رشدو ہدایت کے لیے کوشاں تھے جنہوں نے عہد الست کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حق و صدات کو تلاش کیا۔
ضروری وضاحت: جب میں اس مقام پر پہنچا تو دل نے کہا کہ فانی لوگوں کی قدرے مزید تفصیل درکار ہے، سو اس کے متعلق یہ گزارش ہے کہ فانی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کی تمام اوصاف میں سے اس وصف پر غور و خوض کیا کہ اللہ کی ذات کو فنا نہیں تو یہ لوگ اس فنا کے طلب گار ہونے میں لگ گئے جو معدوم و غیر موجود ہے، اس طرح معدوم کی طلب میں قدم رکھا اور سرگردان بن گئے، اور انہوں نے تختہ یاس و ناامیدی کو پڑھا جس کو پڑھنا نہ چاہیے تھا اور راہِ فنا میں الف کی مثل اس طرح منفرد و جدا ہوگئے کہ اپنے وجود و رائے فنا، دونوں سے بے نیاز ہوکر عین فنا میں داخل ہوگئے، اور اسی عین فناء کو ابد و بقا کہتے ہیں اسی لیے بزرگان ملت اور فقراء امت کہتے ہیں کہ ’’مل مارا زوال نیست‘‘ کیونکہ فنا ایک سلبی اور منفی امر ہے جس میں ایجاب و اثبات نہیں اور قاعدہ ہے کہ نفی ایجاب کی ہوتی ہے سلب چونکہ خود منفی ہے اس لیے اس کی منفی نہیں ہوا کرتی۔ مشہور قاعدہ ہے کہ نفی سے نفی فائدہ اثبات کا دیتی ہے یہ ایک سرد نکتہ ہے جو مشکل سے سمجھ میں آتا ہے۔
اس کا یقین رکھیے کہ آزاد سینے بھیدوں کی قبریں ہیں (یعنی جیسے قبر میں چیز کو دفن کردیا جاتا ہے اور اس سے پھر نکلنے کی امید نہیں رہتی اسی طرح احرار کے سینے بھیدوں کی قبریں ہیں۔ اور جو خزانے معمور و بھرے ہوئے ہوتے ہیں ان کو ہمیشہ پوشیدہ اور چھپا کے رکھا جاتا ہے اور جو خزانہ خواب ہوتا ہے اس کی دولت برباد ہوجاتی ہے۔
ایک نفیس نقطہ: نیز شیخ فرماتے ہیں کہ پیٹ میں جو حمل ہوتا ہے وہ دو حال سے خالی نہیں یا تو وہ بصورت بچہ پیدا ہوتا ہے یا ساقط ہوجاتا ہے، اور اگر ساقط ہوجاتا ہے تو قدرت میں محفوظ رہتا ہے، اور اگر پیدا ہوتا ہے تو پھر دو حال سے خالی نہیں یا تو زندہ پیدا ہوگا یا مردہ، اگر وہ مردہ پیدا ہوا ہے تو آیا اس کے اندر اوصاف انسانی نمودار ہوچکے تھے اور اس کے بعد مرگ طبعی سے فوت ہوا ہے یا اس سے پہلے بصورت اول وہ کامل تھا یا ناقص، اگر ناقص طور پر مردہ پیدا ہوا ہے تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اس کی وجہ اس کی کمی اور نقصان کے، اور اگر کامل مردہ پیدا ہوا تو وہ موت اجتہادِ باطنی کے طور پر مردہ ہوگا یا موت اجتہاد ظاہری کے طور پر بصورت اول وہ جنت کے اعلیٰ مقامات پر جائے گا اور بصورت دیگر اپنی بلندی کے مبداء و مرکز تک کسی مقام پر ٹھہرے بغیر پہنچ جائے گا، بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ بعض محقیقین کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو طلب کرنا چاہیے اور بعض ارباب تحقیق کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو طلب نہیں کرنا چاہیے، جاننا چاہیے کہ ان دونوں اقوال میں سے کسی قول کو خراب و فرسودہ تصور نہ کیا جائے بلکہ یہ دونوں قول درست اور سچے ہیں اگرچہ سطحی طور پر دیکھنے سے ایک دوسرے کی ضِد معلوم ہوتے ہیں مگر ایسا ہرگز نہیں، البتہ جب ایک ہی زمانہ میں ان کا ایک سبب ہو تو اس وقت واقعتاً ایک دوسرے کے مخالف ہوں گے۔
دونوں اقوال کی تشریح: ’’اللہ عزوجل کو طلب کیا جائے‘‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر طلب نہ کرو تو تعطل لازم آتا ہے اور اگر طلب کرو تو تشبہ لازم آئے گا حالانکہ اللہ کی ذات پاک ان دونوں معنوں سے منزہ و مبرا ہے اور آپ کے حق میں یہ دونوں معنی لائق و مناسب نہیں، اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ارباب تحقیق کہتے ہیں کہ اللہ کو طلب کیا جائے یا نہ کیا جائے، اگر طلب کرتے ہیں تو تشبیہ لازم آتی ہے اور اگر نہیں کرتے تو اللہ عزوجل لازم آتا ہے جو ہر دونوں نامناسب اور شرعاً جائز نہیں تو پھر کرنا کیا چاہیے سو اس کا جواب یہ ہے کہ تشبیہ دینے اور معطل کرنے والوں کی طرح طلب اور ترک طلب نہ کرو یعنی ترک طلب بھی ہو، اللہ تعالیٰ کسی خاص و متعین جہت و سمت میں نہیں ہیں کہ تم اس کی طلب کو اس جانب حرکت کرو، اور نہ وہ کسی خاص جگہ میں رہتا ہے کہ تم اس جگہ کو لازم پکڑو، وہ آنے والا بھی نہیں کہ اس کو آہ و بکا گریہ و زاری کرکے اپنے پاس بلایا جائے، وہ دور بھی نہیں کہ اس کے قریب پہنچنے کی کوشش کی جائے، وہ کھویا ہوا بھی نہیں کہ اس کو تلاش کیا جائے، وہ کوئی زمانہ نہیں کہ اس زمانہ کا انتظار کیا جائے، وہ کوئی مکان نہیں کہ اس مکان کا طواف کیا جائے اور اس جگہ ڈیرا لگایا جائے، یہ تمام صورتیں طلب کی نفی کی ہیں وہ موجود ہے، اس کے ثبوت کا ایک طریقہ یہ ہے کہ تم اپنی ذات اور تمام تر اوصاف کی نفی کرو، بشریت کے تمام اوصاف ترک کرو، اور ملوکیت کے صفات سے کنارہ کشی کرکے تمام اشیاء سے علیحدگی اور بیگانگی اختیار کرو تاکہ جس طرح اللہ تعالیٰ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ ہے اسی طرح تمہاری طلب و جستجو بھی بے مثل و بے نظیر ہوجائے یہ صورت طلب کے اثبات کی ہے جس کا دل چاہے کرے اور آزمائے۔
اپنا محاسبہ کرنا: جو شخص آئینہ میں اپنی شکل و صورت کو دیکھنا چاہتا ہے وہ اولاً آئینہ کو صاف کرتا ہے، اگر اسے صاف نہیں کرتا تو اسے اپنی صورت کو دیکھنا محال ہوتا ہے، اسی طرح طلب حق کے سلسلہ میں جو شخص اپنے قلب کے چہرے کو بشری اوصاف سے صاف نہیں کرتا وہ ایک امرِ محال و مشکل کی تلاش کرتا ہے، ا ور جو شخص اپنے دل کی تختی کو نقوش بشر سے پاک و صاف نہیں کرتا وہ بیہودہ بکواس کرتا ہے، طلب کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس ذات کا اثبات کیا جائے، بلکہ طلب کے یہ معنی ہیں کہ خود کو فنا اور محو کردو، طلب اسے نہیں کہتے کہ اس کے لیے دوڑتے چلے جاؤ، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اپنی ہستی اور ذات سے ہاتھ دھولو۔ طلب یہ نہیں ہے کہ اللہ سبحانہ کو ڈھونڈ لو، بلکہ طلب تو یہ ہے کہ اپنی ذات سے ’’انا‘‘ ختم کردو، خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب آپ اپنے آئینہ کو صاف کرلیں گے تو اس میں لازماً وجود کا عکس پڑے گا۔
رہ روبا یدکہ دررہ است رود
وانگہ دراں راہ چوزہ راست بود
کج روکہ بگویمت ہمیں راست شود
کج آں باشد کہ پرلبے خواست رود
ترجمہ: طلب گار کو سیدھا راستہ چلنا چاہیے اور اس راہ میں غلیلہ کی مانند سیدھا رہے، ٹیڑھا راستہ چلنے والا اپنے راستہ کو سیدھا کہتا ہے، اچھی طرح سن لو ٹیڑھے راستہ پر چلنے والا وہ ہے جو خواہشات نفسانی کی اتباع کرتا ہے۔
طریق سلوک: نیز شیخ موصوف نے فرمایا ہے کہ طریق سلوک کے منجملہ مدارج و درجات میں پہلا درجہ علم ہے کیونکہ علم کے بغیر عمل کے مقررہ طریقوں سے بھٹک جانے کا ہر وقت شدید خطرہ ہے، دوسرا درجہ سلوک کا عمل کرنا اور اس کو لازم پکڑنا ہے کیونکہ عمل کے بغیر نیت کا وجود کالعدم و بیکار ہے۔ اللہ کی درگاہ و دربار تک بذریعہ عمل رسائی حاصل کرنے کے لیے نیت شرط ہے۔ پھر مطلق نیت سے یہ کام نہیں چلے گا بلکہ اس کے لیے نیت صحیح ہونی چاہیے، کیونکہ بلا درستگی نیت اعمال صالحہ کی بجائے اعمال باطلہ صادر ہوتے ہیں۔
چوتھا مرتبہ و درجہ صدق و سچائی ہے کیونکہ صدق کے بغیر عشق تک رسائی امر محال ہے پانچویں مرتبہ عشق ہے۔ اس راستہ پر چلنے والے کو عاشق ہونا چاہیے اس لیے کہ بغیر عشق کے سالک رب العزت کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتا۔ چھٹا مرتبہ توجہ ہے، یہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر طریق سلوک ملتا ہی نہیں۔ ساتواں مرتبہ سلوک ہے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر اللہ تعالیٰ کی حضوری کا دروازہ نہیں کھلتا۔ آٹھواں مرتبہ حضوری ہے اس لیے کہ حضوری کے بغیر انسان مقصود تک نہیں پہنچ سکتا، اور سلوک کا اول مرتبہ یہ ہے کہ دو عالم سے بے خبر ہوکر خدا سے لو لگائی جائے اس لیے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کُلُّ شَیْءٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہٗ ترجمہ: زمینوں اور آسمانوں میں اللہ ہی کا نور جلوہ گر ہے اور اسی کے نور سے تمام زمینیں منور و روشن ہیں) اٹھو اور جلدی کرو اور اس درخشندہ و تابندہ مہتاب کو غنیمت سمجھو! اس تھوڑی سی عمر میں خود کو گزشتہ جان کو مردہ تصور کرلو، اور اگر اپنے کو مردہ تصور نہ کرسکیں تو کم از کم اپنے کو مرنیوالا ضروری تسلیم کرلیں اور ہمیشہ اس شعر کو پڑھ کر اس کے مفہوم کو دل کی گہرائیوں میں جگہ دیں۔ بیت
جانی است ہر آئینہ بخواہد رفتن
اندر غم عشق تو رود اولے تر
ترجمہ: جان تو ایک روز لازماً چلی ہی جائے گی اس لیے تم غم عشق میں چلو اور اسے اپنا مشغلہ بنالو
محبت کا دعویٰ تو آساں ہے کرنا
لیکن بے خبر آدمی اپنے بسترِ غفلت پر پڑا ہوا خوش کن خواب میں مسرور ہے اور یہ نہیں جانتا کہ محبت کا دعویٰ کس نے کیا ہے؟ اور جو شخص محبت کا دعویٰ کرتا ہے وہ اپنے محبوب کے پاس بیدار رہتا ہے اور اس خوف سے سوتا نہیں کہ کہیں اس کا نام جھوٹے قسم کے مدعیوں کے دفتر میں نہ لکھ دیا جائے، اور واقعہ اور حکم بھی یہی ہے کہ وہ شخص بڑا ہی کاذب ہے جو ہماری محبت کا بھی دَم بھرتا ہے، اور جب رات آتی ہے تو سو یا رہتا ہے۔
موت کی حقیقت: جب کوئی مرجاتا ہے اور اس کی جان اس کے جسم عنصری سے پرواز کرجاتی ہے تو پھر اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے یا اس کا جواب یہ ہے کہ جان اپنے اصل کی طرف اس وقت تک لوٹتی ہے جب تک کہ اس کا نام زندگی میں حیات طبیعی ہو اس وقت یہ اپنے ٹھکانے کو پہچانتی اور اس کے تمام جحابات کو جانتی ہے اس کے عوائق و علائق سے واقف رہتی ہے، پھر اس دنیا کا عشق اس میں ظاہر ہوکر اس کے شوق کا معین و مددگار ہوتا ہے جس کی وجہ سے جمیع حجابات اُٹھ جاتے ہیں اور عوائق و علائق سب ختم ہوجاتے ہیں۔ پھر وہ جان تمام موجودات سے بلند تر ہوکر اپنے بنانے والے خالق حقیقی کے سامنے پیش ہوتی ہے پھر اللہ عزوجل اس کو اس کے اعمال کے موافق و مناسب جو مقام ہوتا ہے اس میں بھیج دیتا ہے اور موت طبعی سے پہلے ہی موت حقیقی کو فوت کردیا جاتا ہے مگر جس شخص کو مندرجہ بالا عمل کرنے کی ہمیشہ توفیق ہوئی اور اسی پر اس کو موت آگئی تو وہ اپنے اصل کی طرف لوٹتا ہے اور وہاں لذتوں کی مسرتوں سے محفوظ و ہمکنار ہوتا ہے۔ دنیا کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ عزوجل کے ماسوا جو کچھ ہے وہ دنیا ہے۔ آج کی دنیا تمہارے قریب ہے اور جو کچھ اس کے قریب ہے وہ دنیا ہے، آج کی دنیا تمہارے نفس کے قریب اور نزدیک ہے اور کل (آخرت) کی دنیا کل ہوگی، جس کو اس شعر میں بیان کیا گیا ہے۔
امروز، پری ودے و فردا
ہر چار یکے بود تو فردا
ترجمہ: (آج کل پرسوں اور گزشتہ کل، یہ چاروں ایک ہوجائیں گے اور تو تنہا ہوگا) کل کے بارے میں جس پر ہمارا ایمان ہے اور ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے لقد جئتمونا فرادی کما خلقناکما اول مرۃ (ہم تمہیں تنہا تنہا بلائیں گے جس طرح تم کو پہلی مرتبہ ایک ایک کرکے پیدا کیا) جب وہاں تنہا ہوجانا ہے تو اسی دنیا میں تنہا کیوں نہیں ہوجاتے تاکہ وہاں کی خوش نصیبی حاصل کرسکو، صورت حال یہ ہے کہ دنیا نفس کا ٹھہراؤ اور گھر ہے جس میں آلاتِ جنگ کھلے اور اسباب حرب تیار ہیں اور یہ گھر فوت کے ساز و سامان سے لیس اور دوستوں کی مدد سے تیار ہے اب رہا تمہاری روح کا معاملہ جو اس دنیا میں اپنے کو احباب سے جدا ہوئے مرکز سے دور بہت بعید ہے وہ کیسے کچھ کرسکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ عزوجل کی مدد ساتھ نہ ہو کوئی کام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔
اللہ کی مدد: اللہ کی مدد کب اور کس طرح مل سکتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے جس کے لیے مقرر کردی گئی ہے اور اس کا تقرر و تعین انہیں لوگوں کے لیے ہوتا ہے دل کی گہرائیوں سے اس کے چاہنے والے اور خواہش مند ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس کی صفت جوادِ مطلق ہے اس کا فیض دائم الوجود اور ہمیشہ ہے (پھر کسی پر فیض ہو اور کسی پر نہ ہو یہ فرق کیوں ہے؟ جواب یہ فرق جو آپ دیکھ رہے ہیں یہ فرق حقیقتاً اللہ عزوجل کی طرف سے نہیں ہے کیونکہ اللہ کی طرف سے فیض کا فیضان بلا تفریق ہوتا ہے البتہ فیض قبول کرنے والوں اور اس کے قبول کرنے میں فرق و فاصلہ ہے۔
اللہ کے فیض میں کوئی تفریق نہیں: آپ نے جو یہ فرمایا کہ اللہ کے فیض میں فرق نہیں بلکہ اس کا فیضان بلا امتیاز و بلا تفریق تقسیم ہوتا ہے، البتہ فیض کے پہنچنے میں فرق ہونے سے فیضان فیض میں سطحی فرق ہوتا ہے۔ تو اس کا ہم کیسے اندازہ کرسکتے ہیں کہ فلاں فیض کےلائق ہے اور فلاں نہیں۔؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں فرق اس طرح کیا جاسکتا ہے جس طرح مٹی اور پتھر میں فرق ہے، ایک کا مادہ صاف ہے اور دوسرے کا مکدر و خراب، جس میں مادہ صاف ہوتا ہے وہ بغیر کسی واسطہ کے قبولیت کی قابلیت رکھتا ہے جیسے انبیاء اولیاء حکماء و علما کاملین کا ہو یا قبولیت کے لیے واسطہ مجاہدہ و ریاقت درکا ہے اور جس میں مادہ مکدر و خراب ہوتا ہے وہ کسی بھی صورت میں قبولیت کی قابلیت نہیں رکھتا اگرچہ بعض لوگ تقلیداً قبول کرلیتے ہیں مگر حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔
جن لوگوں میں مادہ مکدر ہوتا ہے وہ اپنے اختیار اور دل کے اِرادے سے کام کرتے ہیں یا نہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ بلا اِرادہ و اختیار تو کوئی کام نہیں ہوتا، یہاں تک کہ بلا اختیار و ارادہ تو درختوں کے پتے تک نہیں گرتے اور زمین سے گھاس تک نہیں نکلتی۔
اللہ تعالیٰ نے جو بعض کو مادہ صاف و ستھرا عنایت کیا اور بعض کو مادہ مکدر و خراب سے پیدا کیا اس میں اللہ عزوجل کی کیا حکمت ہے؟
اللہ تعالیٰ اپنے کاموں میں فاعل مطلق اور مختارِ مطلق ہے اور یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ اس کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں اور اس کے کاموں میں مخلوق کو لم اور علت میں بحث کرنے کی مجال و طاقت نہیں جیسے ارشاد ہے لا یسئل عما یفعل وھم یسئلون ترجمہ: اللہ سے اس کے کاموں میں سوال نہیں کیا جاسکتا البتہ بندے اپنے کاموں میں سوال کیے جاتے ہیں اس نے روزِ اول میں ایک کو قرب و کرامت کے لائق سمجھا چنانچہ اس کو اسی سے نوازا اس میں کسی قسم کا جو رو ظلم نہیں، تم ایسی چیزوں سے دستبردار ہوکر تمام معاملات اسی کے سپرد کردو۔
دنیا نہ خوش است روبہ عقبی خوش باش
آخر کہ تراگفت بدنیا خوش باش
در ہمت عالیست بر آید روزے
بگذر تو ہر دور بمولیٰ خوش باش
ترجمہ: اگر دنیا سے دل نہیں لگتا تو آخرت کے کام کرکے خوش رہو، آخر تجھ سے کس نے کہا ہے کہ دنیا سے دل لگا اور اس سے شاداں رہ، اگر تجھ میں کسی دن ہمت عالیہ موجزن ہو تو دو عالم سے دُور ہوکر اللہ ہی سے دل لگالے، ایک جابر و شاطر دنیاوی مُرادیں حاصل کرکے خوش رہتا ہے، اور ایک عادل و درمیانی راہ چلنے والا آخرت کی مُرادیں حاصل کرکے سرور و مسرت حاصل کرتا ہے، اور ایک مشتاق رِضا الٰہی عزوجل ہے جو اللہ کی مُلاقات حاصل کرکے مسرور و شاداں ہے۔
دین و دُنیا کی حقیقت: مذکورہ بالا بیان سے معلوم ہوا کہ ہم کو جس سے واسطہ س تعلق ہے وہ دو چیزیں ہیں ایک دین، اور دوسری دُنیا، دُنیا کی حقیقت اور اس کے مالہ وما علیہ سے آپ نے پردہ اُٹھا کر اس کی تفصیل سے آگاہ کیا، اب فرمائیے کہ دین کیا اور اس کی حقیقت کیا ہے؟
دُنیا میں تین اقسام کے آدمی ہیں۔ نمبر 1 ظالم، نمبر 2 مقصد اور درمیانے قسم کے لوگ نمبر 3سابقون ظالم لوگوں کا دین بھاگنا اور چپک جانا ہے، جس کی تفصیل یوں ہے کہ وہ لوگ گناہوں سے بھاگتے اور نیکیوں سے چپک کر ان کو اختیار کرتے ہیں اور درمیانے درجہ کے لوگوں کا دین بھی دوچیزیں ہیں۔ بریدن و آرمیدن، یعنی دنیا سے قطع تعلقات کرکے علیحدہ اور جدا رہنا،ا ور دوسری چیز آرام طلب کرنا، یعنی دنیا میں نیک کام کرنا تاکہ آخرت میں آرام و راحت کی زندگی بسر کریں، اسی طرح سابقون کا دین بھی دو چیزیں ہیں، تبری و تولی، یعنی غیر اللہ اور ماسوئے اللہ سے کٹ جانا اور اللہ کو دوست بنالینا، جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے، قُلِ اللہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ (اے محبوب فرمادیجیے، اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے پھر ان کو اپنی بیہودگی کے مشغلوں میں چھوڑ دیجیے)۔
دین کی اقسام: اس تقریر و تفصیل سے معلوم ہوا کہ دُنیا کی کئی قسمیں ہیں، حالانکہ دین ایک ہی ہے۔
جواب: دین کے کئی اقسام نہیں، دین کی تو ایک ہی قسم ہے اور دین ایک ہی ہے، ماسبق تقریر سے جو دین کے اقسام اور اس میں فرق نظر آ رہا ہے، وہ فرق دراصل دین میں نہیں بلکہ وہ لوگوں کا فرق اور لوگوں کی اقسام ہیں، بہر حال دین ایک ہی ہے، بظاہر ان تینوں قسموں کا سبب جانب اور سمت کی نشاندہی کرنا ہے، لیکن حقیقت شناس جانتے ہیں کہ اینما تولّوا فثم وجھہ اللہ ترجمہ: (کہ تم جدھر رُخ کرو اُدھر اللہ کو پاؤ گے) سوال، ہم شریعت اور طریقت کو کس طرح ایک سمجھیں؟ جواب، جس طرح تم اپنی جان اور جسم کو ایک سمجھتے ہو اسی طرح طریقت کو شریعت کی جان سمجھو، سوال (جیسا کہ اہل تصوف کہتے ہیں) کہ اللہ ہی اللہ ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔
تو امر ونہی کس کے لیے ہیں جواب، جیسا کہ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے الا لہ الحکم والامر ترجمہ: (کہ اسی کے قبضۂ قُدرت میں ہے تخلیق و امر) اس نے امر تو احکام کی تکمیل کے لیے فرمایا ہے اور نہی اپنی مخلوق کو گناہوں سے روکنے کے لیے میں یہ نہیں کہتا کہ مخلوق کا وجود ہی نہیں، بلکہ میں تو یوں کہتا ہوں کہ یہ تمام مخلوق اسی کے پیدا کرنے سے معرض وجود میں آئی ہے اپنی تخلیق میں چونکہ اس کو کوئی دخل ہی نہیں، اس لیے یہ کالمعدوم ہے اور جو ہے وہ اللہ کی ذات ہے۔ یہ مسئلہ وحدۃ الوجود سے ہے۔ سوال، ہم نے جان لیا کہ دنیا کیا ہے اور یہ بھی پہچان لیا کہ دنیا کیا ہے اب فرمائیے کہ جنت و دوزخ کیا چیز ہے؟ جواب جنت، دوزخ کی حقیقت سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ وہ تمہارے اعمال ہیں۔ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَہٗ ترجمہ: (جو شخص ذرہ برابر نیکی کرے گا وہ اس کو دیکھ لے گا (اسی طرح) جو شخص ذرہ برابر برائی کرے گا وہ بھی اسے دیکھ لے گا) تیرے دنیاوی اعمال کو قیامت کے روز ایک شکل و صورت دی جائے گی، اگر آپ نے اس دنیا میں نیکی کی تھی تو قیامت کے روز اس نیکی کی شکل و صورت کو ملائم و موافق کردار کے ساتھ پیش کیا جائے گا(اس کا نام جنت ہے، اور اگر عمل خراب ہوئے تو ان کی صورت قیامت کے روز خراب و بھیانک پیش کی جائے گی جس کا نام جہنم ہے۔
سوال: راہ کیا ہے اور منزل کسے کہتے ہیں؟ جواب: آپ نے ایک ایسا سوال کیا ہے جو اسرار سے لبریز ہے اور تمام اہلِ سلوک کو درکار ہے اس کا جواب سوائے اس ذات کی مدد کے جس کے بارے میں ارشاد ہے: امن یجیب المضطر اذا دعاہ ترجمہ: (کہ کون ہے جو مصیبت زدہ کی دعا کو سن لے) نہیں دیا جاسکتا، یہ ایک ایسا موتی ہے جس کو پرونے میں دُنیا کے تمام عقلاء و حکما عاجز و بے بس ہیں، اس موتی کو باتوں اور لفظوں میں پرویا نہیں جاسکتا، اس کے کہنے کے لیے زبانِ حال چاہیے اور سننے کے لیے حال کے کان درکار ہیں (یعنی اس کی تفصیل اہلُ اللہ ہی بیان کرسکتے ہیں اور اہلُ اللہ ہی اس تفصیل کو سمجھ سکتے ہیں، اور اگر یہ میسر نہ ہو تو کم از کم اتنا تو ضروری چاہیے کہ اس بات کو دل کی گہرائیوں سے کہا جائے اور دل ہی سے سنا جائے، اور ظاہر ہے کہ میں اور تو ان دونوں قسموں میں سے نہیں ہیں، جب ہماری حالت یہ ہے کہ تو ہمارے لیے اس سے بہتر او رکچھ نہ ہوگا کہ ہم کہنے اور سننے سے انکار ہی کردیں (اور کہدیں کہ اس کا جواب ہمارے بس میں نہیں کیونکہ ہم اس کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے)۔ سُوال: اگر تمام کے کہنے کی طاقت نہیں تو کم از کم تھوڑا سا ہی بیان کردیں اور ہم سُن لیں تاکہ دل کا اِضطراب ختم ہوجائے اور دل کی مایوسی اُمید سے بدل جائے؟۔ جواب: ہم اللہ کی مدد و اِجازت سے ضرور بیان کردیں گے مگر آپ کون سی منزل دریافت کرنا چاہتے ہیں، آیا منزل اہل شریعت یا راہ اہلِ طریقت؟ سُوال: میں دونوں کے دریافت کرنا چاہتا ہوں؟ جواب: اہلِ شریعت کا سرمایۂ حیات اور منزلِ مقصود یہ ہے کہ نفس و مال کو ختم کرکے نعیم دائمی یعنی جنت میں داخل ہونا ہے جیسا کہ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے ان اللہ اشتری من المؤمنین انفسھم واموالھم بان لھم الجنۃ۔ الایۃ ترجمہ:کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کی جان و مال کو جنت کے بدلے خرید لیا ہے) اور منزلِ اہلِ طریقت یہ ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے وتبتل الیہ تبتیلا، الایۃ (کہ اس کی جناب میں پارہ پارہ ہوجانا) یعنی اپنے دل و جان کو اللہ کے حوالہ و سپرد کردینا اور وحدت کی بلند ترین چوٹی پر چڑھ جانا جیسا کہ ارشاد ہے والی ربک المنتھی، الایۃ (منتہی و مرکز پروردگار ہی ہے) اے درویش یہ باتیں میں تجھے اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ تو مُسافر ہے اور دوسرے مقیم ہیں شریعت کے مُسافر کے لیے اقامت کی نیت درست نہیں، اس لیے کہ مُسافر شریعت کی توجہ مال و ملک کی طرف نہیں ہوا کرتی، اور مُسافر طریقت کی توجہ محض ذات باری عزوجل کی طرف ہوتی ہے۔ سُوال: اللہ تعالیٰ کہاں ہے تاکہ اسی کی طرف دل کا رُخ کیا جائے؟ جواب: وہ کون سا مقام ہے جہاں وہ نہ ہوں ما تولوا فثم وجھہ اللہ ترجمہ: تم جدھر رُخ کرو گے وہیں اس کو پاؤ گے) جواں مرد وہ ہے جو دُنیا اور آخرت سے دستبرداری کرکے خواہش نفسانیہ کو بھی ترک کردے، جہاں رہے اللہ ہی کے ساتھ رہے اور جہاں جائے اللہ کی جانب رُخ کیے رہے، جو کچھ کہے اللہ ہی سے کہے جو کچھ چاہےاسی سے چاہے بلکہ خود اسی کی ذات ہی کو چاہے، کسی کو یہ خیال نہ کرنا چاہیے کہ اللہ کی ذات اس سے دور ہے بلکہ انسان خود بوجہ ارتکاب معاصی اس کی ذات سے دور ہوجاتا ہے اور جب انسان اپنے بدن و وجود کی ظاہری آرائش سے صرف نظر کرکے اس کے اندرونی و باطنی کارخانہ میں ہمہ تن متوجہ ہوکر خالق کائنات کی کرشمہ سازیوں پر نظر کرتا ہے تو (اس پر حقائق و اسرار باری کا) دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور یہ وہ دروازہ ہے جو کسی پر نہیں کھولا جاتا محض انسان ہی پر اس کو کھول کر اسے اس کی منزلِ مقصود دکھائی جاتی ہے۔ سوال: جس نے اللہ کو دیکھا ہو وہ مجھے دکھادے؟ جواب: اللہ تعالیٰ کو بادیدہ (آنکھ والا) دیکھ سکتا ہے، نہیں اللہ تعالیٰ بادیدہ بھی نہیں بلکہ بے دیدہ دیکھ سکتا ہے۔
رُباعی
تادیدہ بوددیدہ کجا آید دوست
خواہی کہ شوددیدہ بروں آئی زپوست
ازدیدہ و دینی چوتو بگذشتی
دانی کہ کسے نیست بہ بینی ہمہ اوست
ترجمہ: اے دوست نادیدہ کا دیدہ ہونا کیسے ہوسکتا اور اگر آپ اس ذات کو دیکھنے کے بہت ہی مشتاق و متمنی ہیں تو اپنی کھال نکال کر پھینک دو، جب اس آنکھ اور مادی دیدنی سے دور ہوجاؤ گے تو اس وقت تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کوئی ایسا نہیں جسے تو دیکھے بس ہر طرف اللہ ہی اللہ کی ذات رہ جائے۔
سوال: یہ معنی بہت مشکل ہیں جو سمجھ میں نہیں آتے؟ جواب: (بعض مفہوم و معانی ایسے ہوتے ہیں جن کا سمجھنا) وہم کے ختم کرنے پر موقوف ہوتا ہے اس لیے کہ وحدت باری تعالیٰ مطلق ہے اور وحدت نقش و صورت سے منزہ و مُقدّس ہے اور وہم نفس پذیر اور صورت انگیز ہے (تو گویا کہ وہم اشکال شتی و نقوش متفرقہ کے ایجاد کرنے کا کارخانہ ہے جو کئی صورتوں اور شکلوں کو پیدا کرتا رہتا ہے) اور وحدت و کثرت باہم دگر ضد ہیں (اس لیے ان کا اجتماع غیر ممکن ہے) کیونکہ دو متضاد چیزیں ایک جگہ جمع نہیں ہوا کرتیں، اسی کے بارے میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
مَنْ عَبَدَ مَا یَدْخُلُ فِی الْوَھْمِ فَھُوَ کَافِرٌ حَتّٰی یَعْبُدَ مَالَمْ یَدْخُلُ فِی الْوَھْمِ: ترجمہ: جس نے قوت وہم میں داخل ہونے والی چیز کی عبادت کی وہ کافر ہے تاوقتیکہ اس کی عبادت نہ کرے جو قوت وہم میں داخل نہیں ہوسکتی۔
یہ وہ مقام ہے جس کی حقیقت کے بیان کرنے کی کسی میں طاقت و مجال نہیں بجز اس شخص کے جسے اللہ منتخب کرلے، راستہ اس قدر نازک و باریک او ر راہ اس قدر سیاہ و تاریک ہے اس کے باوجود لوگ سوئے ہوئے ہیں اور اسی کو کافی سمجھتے ہیں کہ ہم ابوحنیفہ کے کے مسلک کے پیروکار ہیں، افعال و کردار کو کام میں لاؤ اور اس سے آگے نہ بڑھو اور اقبال مندی کو سامنے رکھو تاکہ کل قیامت کے دن تمہارے اعمال کا اچھا بدلہ مل سکے، اس سے معلوم ہوا کہ امام صاحب کا (اس معاملے میں) کیا مسلک ہے، یَوْمَ تُبْلَی السَّرَائِرُ فَمَالَہٗ مِنْ قُوَّۃٍ وَّلَا نَاصِرٍ ترجمہ: (جس روز سب کی قلعی کھل جائے گی پھر اس کو نہ تو خود مدافعت کی قوت ہوگی اور نہ اس کا کوئی حمایتی ہوگا) سوال: جب اللہ تعالیٰ خود پردہ پوش ہے تو پھر وہ قیامت کے روز انسانوں کی کیسے پردہ دری کرے گا؟ جواب: نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (جو حیا کی چادر اتار دے تو اس کی غیبت گناہ نہیں) اس حدیث میں تمہارے سوال کا مکمل جواب ہے، اگر اس سے سمجھ گئے تو فبہا، ورنہ خوب، ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ کل قیامت کے دن اس دُنیا کے خلاف کارروائی کی جائے گی، اس دنیا کا ظاہر، باطن اور باطن ظاہر کردیا جائے گا اوپر کی چیز کو نیچے اور نچلی چیز کو اوپر کردیا جائے گا، نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: (قیامت کے دن ظالموں کو چیونٹیوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا) اس لیے اپنے باطن کو خالص توبہ کے ساتھ مزین کرو تاکہ قیامت کے روز ذلت و خجالت کا منہ نہ دیکھنا پڑے کیونکہ دنیا کی ذلت و رسوائی سے آخرت کی پریشانی و نَدامت سخت اور بدتر ہے، سوال: حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موت گُناہوں کا کفارہ ہے جب موت کے ذریعہ گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے تو آخرت کی ندامت و فضیحت کے کیا معنی؟ جواب: بعض گناہ ایسے ہیں جن کا محض موت ہی کفارہ ہے اور بعض گناہوں کا کفارہ قبر کا عذاب ہے، اور بعض گناہ وہ ہیں جن کا کفارہ جہنم میں جانے اور آتشِ جہنم میں سوختہ ہونے کے علاوہ اور کچھ نہیں، اس آخری کفارہ سے کوئی فائدہ نہیں، ہر مرد مسلمان کے لیے یہ بات لا بدی ہے کہ وہ دُنیا سے جاتے وقت اپنے ساتھ ایک ایسا نُور (ایمان) لے جائے جس سے آتِشِ جہنم ٹھنڈی ہوجائے اس لیے ہر مسلمان کو ضروری ہے کہ و ہ دُنیا میں اچھے کام کرے تاکہ اچھے کاموں کے ذریعہ دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کیا جاسکے۔ سوال: دنیا کی بھوک و افلاس میں ہم کچھ اس طرح مبتلا ہوگئے ہیں (اور پیٹ کی خاطر ایسے کام کر رہے ہیں جس کی وجہ سے) دوزخ ہمارے مقدر میں ہوچکی ہے۔
رضا منزِل تو جیسی ہے وہ اِک میں کیا، سبھی کو ہے
تم اِسکو روتے ہو یہ تو کہو یاں ہاتھ خالی ہے
(حدائقِ بخشش)
میں بریانی میں جلا ہوا ہوں اور یہ (قاعدہ ہے) کہ جلے ہوئے کو لوگ دوبارہ نہیں جلایا کرتے، مطلب یہ ہے کہ جب دنیا ہی میں افلاس وغیرہ کی آگ میں مجھے جلا دیا گیا ہے تو دوبارہ دوزخ میں مجھے کیوں کر جلایا جائے گا اس لیے کہ لوگ جلی ہوئی چیز کو دوبارہ جلانا عبث سمجھتے ہیں؟ جواب: عمدہ غذائیں مثلاً بریانی و زردہ وغیرہ کی آگ و آتش میں جلنے کی اللہ کے نزدیک کوئی قدر و منزلت نہیں اس لیے ایسا جلنا اللہ کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہاں عشق میں جلنا اللہ کے لیے جلنا تصور کیا جاتا ہے اور اس کے جلے ہوئے پر آتش دوزخ حرام ہےا ور یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا کی آگ میں جلے ہوئے لوگوں کی مثال تو اس چلی ہوئی چیز کی سی ہے جس کو آگ جلدی سے پکڑ لیتی ہے اور آتشِ عشق میں جلے ہوئے وہ لوگ ہیں جن کو صرف دیکھ لینے سے دوزخ کی آگ ٹھنڈی پڑ جاتی ہے۔ سوال: جہنم کی آگ کو درویشوں سے کیا تعلق جہنم تو مغرور و متکبر اور فرعون صفت لوگوں کے لیے ہے جیسے کہ خود اللہ عزوجل فرماتا ہے۔ ترجمہ: (جہنم مغرور لوگوں کی جگہ ہے)۔
جواب: درویشوں سے دوزخ کی آگ کا کوئی علاقہ دوستی و دشمنی نہیں، آگ کی کیا مجال ہو کہ درویشوں کو کسی قسم کی گزند و تکلیف پہنچائے، درویش جب دنیاوی عیش و راحت ہی نہیں رکھتا تو دوزخ کی آگ اس کے پاس کیسے اور کس طرح آئے گی، فقر کس کے پاس اور فقیری کہاں ہے، فقر تو چہروں کی سیاہی ہے (دنیا داروں کے نزدیک) فقیر کو دنیا کی سیاہ روٹی سے گریز کرنا چاہیے تاکہ فقر اس کے سینہ کی سرائے میں جلوہ فگن ہو، علاوہ ازیں درویش کو باطنی صِفات کا حامل ہونا چاہیے تاکہ فقر کا حُسن و جمال اس کی رونمائی کرسکے، اور فقر و افلاس کے بارے میں ارشاد ہے: کَادَ الْفَقْرُ اَنْ یَکُوْنَ کُفْرًا۔ سوال: درویش جس حال و صفت میں ہو کیا وہ درویش ہی ہے؟ جواب: ہرگز نہیں، ہر فقیر کو درویش، اور ہر کمزور کو حقیر و ذلیل نہ سمجھنا چاہیے کیونکہ افعال ذمیمہ اور صفات شنیعہ دراصل عدم امکان کے پردے میں مضمرد پوشیدہ ہیں جیسا کہ مولانا نصیرالدین نے عدم قویٰ و قدرت کا شکر مولانا شمس الدین سنجری سے اس طرح فرمایا: الحمدللہ علی عدم الامکان ترجمہ: کہ عدم امکان پر تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں)
اب بتاؤ کہ فقر کی کس میں طاقت ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ کسی مصیبت سال ہا سال تک صبر کرلینا بہ نسبت فقر پر صبر کرنے کے بہتر ہے، امکان فقر و اظہا رفقر کے لیے پیغمبرانہ قوت و طاقت درکار ہے اور فقر اختیار کرنے میں بڑا عجیب یہ ہے کہ اس سے فخر پیدا ہوتا ہے۔ سوال: کیا فخر ہر حال میں (شرعاً) مذموم و بُر اہے؟ جواب: فقر تو ایک معدوم چیز ہے جو چیز ثابت و موجود ہو اس پر فخر کرنا مذموم و مقبوح ہوتا ہے اور معدوم چیز پر فخر کرنا قابل صد تحسین و ستائش ہے، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں اور خوبیوں کو حاصل کرلینے کے باوجود کسی چیز پر فخر نہیں فرمایا (کیونکہ وہ تمام چیزیں از قبیلہ ثبوت و وجود سے تھیں) لیکن جب فقر و فاقہ کے بیان کی نوبت آئی تو آپ نے ببانگ دہل اعلان فرمایا کہ الفقر فخری (یعنی مجھے اپنے فقر و فاقہ کی حالت پر فخر ہے) اس لیے کہ یہ از قبیلہ معدومات ہے۔
فاقہ مستوں کو شکم سیر کیا
آپ فاقے پہ قناعت کرلی
نعمتیں ہم کو کھلائیں اور آپ
جو کی روٹی پہ قناعت کرلی
(ذوقِ نعت)
اخبار الاخیار