آپ کے والد کا نام حی بن اخطب بن ثعلبہ بن تعینہ اور والدہ کا نام بنت سموال تھا، آپ جنگ خیبر کی فتح کے بعد قیدی کی حیثیت سے مدینہ منورہ میں آئی تھیں، حضور نے آپ کو ازرۂ شفقت آزاد کردیا، اور اپنی قوم کی طرف جانے کی اجازت دے دی، آپ نے انہیں اجازت دی کہ وہ اسلام لے آئیں تو حضور انہیں اپنے نکاح میں لائیں گے حضرت صفیہ نے اسلام قبول فرمایا اور کہا مجھے اسلام کی حقانیت پر یقین ہے اور یہی میری آزادانہ اور دلی آرزو ہے، اب میں آزاد ہوں مجھے یہودیوں سے کوئی دلچسپی نہیں، یارسول اللہ مجھے کفر و اسلام کے درمیان اللہ اور اس کا رسول زیادہ محبوب ہے مجھے آزادی اور اسلام ہی پسند ہے حضرت صفیہ کے جذبات سن کر حضور کو بڑی مسرت ہوئی، اپنے نکاح کا پیغام دیا مورخین لکھتے ہیں حضرت صفیہ کی آزادی کا پروانہ ہی آپ کا حق مہر تھا، آپ ازواج مطہرات کے زمرے میں آگئیں۔
آپ کی وفات ۳۶ھ میں ہوئی۔ آپ کا مزار گوہر بار جنت البقیع میں ہے۔
چو محبوبہ شاہ کون و مکان بگو اہل تاریخ ترحیل او
|
|
سفیرِ ز دنیا شد اندر جناں بفرما دگر رفت پاک از جہاں ۳۶ھ
|
(خذینۃ الاصفیاء)