حضرت پیر طریقت صاحبزادہ میاں جمیل احمد نقشبندی
حضرت پیر طریقت صاحبزادہ میاں جمیل احمد نقشبندی (تذکرہ / سوانح)
حضرت پیر طریقت صاحبزادہ میاں جمیل احمد نقشبندی، شرقپور شریف علیہ الرحمۃ
پیرِ طریقت، رہبرِ شریعت حضرت صاحبزادہ میاں جمیل احمد شرقپوری بن حضرت میاں غلام اللہ، بن حضرت میاں عزیزالدین (قدس سرہما) ۱۳۵۴ھ/ ۱۹۳۵ء میں شرقپور شریف ضلع شیخوپورہ کے مقام پر پیدا ہوئے۔
آپ کے والد ماجد حضرت میاں غلام اللہ رحمہ اللہ (متوفی ۷؍ربیع الاول ۱۳۷۷ھ/ ۳؍اکتوبر ۱۹۵۷ء) قطب ربانی حضرت میاں شیر محمد رحمہ اللہ (متوفی ۳؍ربیع الاول شریف ۱۳۴۷ھ/ ۲۰ اگست ۱۹۲۸ء) کے چھوٹے بھائی اور فیض یافتہ تھے۔ حضرت میاں شیر محمد رحمہ اللہ کے فیضانِ نظر سے نوکری ترک کرکے راہِ سلوک اختیار کی اور آپ کے وصال کے بعد نیابت اختیار کی۔ تبلیغِ دین کی عظمت کو دوبالا کرنا اپنا مشن بنایا[۱]۔
[۱۔ مولانا محمد عبدالحکیم شرف قادری: تذکرہ اکابرِ اہلِ سنت، ص۱۸۲، ۲۹۸]
تعلیم و تربیت:
حضرت صاحبزادہ میاں جمیل احمد کی ابتدائی تعلیم اسی روحانی خانوادہ میں ہوئی۔ دربار شریف کے علماء نے دینی علوم کی تعلیم دی اور شرقپور شریف ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ فاضل فارسی کیا اور پھر اسلامیہ کالج لاہو سے ایف اے تک پڑھا۔
خلافت و سجادگی:
۱۹۵۷ء میں والد ماجد حضرت میاں غلام اللہ رحمہ اللہ کے وصال پر دربار شریف کے خلفاء نے دونوں بھائیوں (میاں غلام احمد اور میاں جمیل احمد) کی سجادگی اور خلافت کو تسلیم کیا۔ آپ نے اس سلسلہ میں سخت محنت سے کام لے کر ملک بھر کا دورہ کیا۔ عقیدت مندوں کو روحانی سلسلہ سے مربوط کیا۔ علماء و مشائخ سے رابطہ پیدا کرکے نقشبندی سلوک عام کرنے کی جدوجہد کی۔
دینی و ملی خدمات:
لاہور میں ۱۹۵۲ء سے لے کر ۱۹۶۴ء تک مقبول عام پریس میں قیام فرماتے۔ ہر جمعرات کو مجلس ذکر و مراقبہ ہوتی۔ ۱۹۶۴ءمیں بیرونِ لوہاری منڈی ایک مکان میں ٹھہرتے جہاں علماء و فضلاء اور مشائخ کا جمگٹھا رہتا، طلباء اور عقیدت مند بھاری تعداد میں آتے۔
رسالہ نور اسلام کئی سال تک نکالتے رہے اور اب نور اسلام کا امام اعظم نمبر نکالا، جس نے علمی حلقوں سے دادِ تحسین حاصل کی۔ نیز اولیاءِ نقشبند نمبر کی دو ضخیم جلدوں میں کتابت ہوچکی ہے۔ جسے بہت جلد شائع کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں۔
آپ نے مسلکِ مجدد پر بہت سی کتابیں لکھواکر ملک میں تقسیم کیں۔ پاکستان بھر کے شہروں میں دینی اجتماعات کراکے علماء کی تقاریر اور مواعظ کا بندوبست کرتے رہتے ہیں۔
آپ اشاعت علومِ اسلامیہ میں بھرپور حصہ لیتے ہیں۔ شرقپور شریف میں دارالعلوم دارالمبلغین آپ کی نگرانی میں چل رہا ہے۔
آپ نے ۱۹۷۰ء میں قصور سے جمعیت علماء پاکستان کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور بے پناہ ووٹ حاصل کیے۔
نیز انجمن حزب الرسول کے نام سے ایک غیر سیاسی جماعت قائم فرائی جس نے فتنۂ شورش کی سرکوبی کے لیے مثالی خدمات انجام دیں۔
۹؍جنوری ۱۹۷۱ء کو آپ نے ایک برطانوی یہودی کی ناپاک کتاب جس میں حضور علیہ السلام کی توہین کی گئی تھی، کے خلاف ایک بہت بڑے جلوس کی قیادت کی، جس کے نتیجے میں آپ کو گرفتار کرلیا گیا۔ آپ کے علاوہ مجلسِ عمل تحفظ ختم نبوت کے جنرل سیکرٹری علامہ سید محمود احمد رضوی اور مولانا اکرام حسین مجددی کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔
۲۰؍جنوری کو جمعیت علماء پاکستان کے ممتاز راہنما مولانا حامد علی خان (ملتان) کی زیرِ قیادت جمعیت کے راہنماؤں نے اُس وقت کے گورنر پنجاب جنرل عتیق الرحمٰن سے ملاقات کی اور ۲۱ جنوری کو آپ رہا کردیے گئے[۱]۔
[۱۔ محمد صدیق ہزاری (مرتب) ذاتی ڈائری، جنوری ۱۹۷۱ء]
۷؍مارچ ۱۹۷۷ء میں آپ نے دوبارہ قصور سے قومی اتحاد کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا اور کامیابی بھی حاصل کی، لیکن چونکہ اس انتخاب میں پیپلز پارٹی (حکمران پارٹی) نے زبردست دھاندلی کی جس کی بناء پر فریقِ مخالف کو کامیاب قرار دے دیا گیا۔
۱۴؍مارچ کو انتخابات میں دھاندلی کے خلاف اور نظامِ مصطفےٰ کے نفاذ کی خاطر ملک گیر تحریک چلی تو حضرت میاں صاحب کی قیادت میں مظاہرے ہوئے، آپ کو پھر پسِ دیوارِ زنداں جانا پڑا[۱]۔
[۱۔ حضرت میاں صاحب ان چند سجادہ نشینوں میں سے ہیں جو ملک و ملت اور دین کی خاطر کسی دوسری مصلحت اور منفعت کی پرواہ نہیں کرتے۔ تحریک نظام مصطفےٰ اور اس جیسی دوسری تحاریک میں آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جبکہ بعض مشہور سجادہ نشین بھی مصلحتوں کا شکار ہوگئے۔ (مرتب)]
اخلاق و شمائل:
حضرت صاحبزادہ میاں جمیل احمد اپنی گوناگوں صفات کے پیش نظر علماء، خطباء، صحافی، امراء اور فقراء سب میں یکساں مقبولیت رکھتے ہیں۔ عبادت گزار شب بیدار ہیں۔ آپ نے ہوش سنبھالنے کے بعد ہر سال حج کیا، اکثر اسلامی ممالک کے دورے کیے اور بزرگانِ دین کے مزارات پر گئے[۱]۔
[۱۔پیرزادہ علامہ اقبال احمد فاروقی: تذکرہ علماء اہل سنت لاہور ص۳۷۵۔ ۳۷۶]
(تعارف علماءِ اہلسنت)