حضرت سخی شاہ سلیمان نوری
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 0914 | ربيع الأول | 08 |
یوم وصال | 1012 | رمضان المبارک | 27 |
حضرت سخی شاہ سلیمان نوری (تذکرہ / سوانح)
حضرت سخی شاہ سلیمان نوری علیہ الرحمۃ
اوصافِ جمیلہ
آپ سلطان الراسخین، دلیل العارفین، زبدۃ الاولیاء والمتقین، عمدۃ الاصفیا والموحدین، خزینۃ العلوم و الانوار، سفینۃ الارشاد و الاسرار، قطب الواصلین، غوث العالمین، سید الاوتاد، امام الافراد، صاحب جودو کرم جذب و عشق و محبت و سکر و وجد و سماع تھے۔ حضرت مخدوم شاہ معروف چشتی خوشابی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید و خلیفہ اعظم و سجادہ نشین تھے۔
نام و نسب
آپ کا نام نامی سلیمان، لقب گرامی سخی بادشاہ، سخی پیر، [۱] [۱۔ حدیث شریف میں سخی کے بڑے فضایل مروی ہیں چنانچہ السخی حبیب اللہ۔ اور السخی قریب اللہ قریب من الجنۃ قریب من الناس (گنجینہ عرفان)] نوری، حضوری، شیخ صاحب، شاہِ شاہاں تھا۔
آپ معزز خاندان قریشی کے چشم و چراغ تھے، اور آبا و اجداد سے نعمتِ فقر موروثی رکھتے تھے، والد بزرگوار کا نام شیخ عبد اللہ المعروف میاں منگو صاحب تھا، ابن جلال الدین بن شمس الدین بن محمد مراد بن محمد صالح بن شیخ حسین بن عبد الخالق بن خدایار بن سلطان علی بن عَون بن قاسِم بن اسمٰعیل بن مظہر بن ادم بن عبد الشکور بن عبد العلی بن مطرف بن خزیمہ بن خادم بن مطرف بن عبد الرحیم بن عبد الرحمٰن بن عیار صحابی بن اسد بن مطلب بن اسد بن عبد العزّٰی بن قصَیّ بن کِلاب بن مُرّہ بن کعب القرشی [۱] [۱۔ خلاصۃ العارفین ۱۲ شرافت] آپ کی والدہ ماجدہ کا نام حضرت مائی بھاگ بھری صاحبہ رحمۃ اللہ علیہ تھا۔
ولادت
آپ کی ولادت با سعادت [۱] [۱۔ تقویم ہجری و عیسوی کے رُو سے وہ جمعہ کا دن تھا اور ۷؍ جولائی ۱۵۰۸ء ماہ؍ ہاطِ ۱۵۶۵ ب تاریخ تھی ۱۲ شرافت] بتاریخ ہشتم (۸) ربیع الاول ۹۱۴ھ نو سو چودہ ہجری [۱] [۱۔ مناقباتِ نوشاہیہ ۱۲] مطابق ۱۵۰۸ء ایک ہزار پانسو آٹھ عیسوی میں بمقام بھلوال شریف ہوئی۔
تربیتِ ظاہری و باطنی
آپ نے اپنے پدر بزرگوار کے آغوش عاطفت میں پرورش پائی شروع سے طبیعت میں سکریہ جذبات تھے، جب چار سالہ [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد اول ص ۱۶۹] ہوئے تو ایک دن حضرت شاہ معروف خوشابی رحمۃ اللہ علیہ سیر فرماتے ہوئے بھلوال شریف پہنچے، اور آپ کے والد رحمۃ اللہ علیہ کے گھر شب باش ہوئے، صبح آپ کو صحن خانہ میں کھیلتے دیکھ کر کمال خوش ہوئے، اور بُشرہ سے پہچان لیا کہ یہی وہ انسان ہے، جس کے لیے ہمیں اِس علاقہ میں بھیجا گیا ہے نہایت محبت سے آپ کے چہرہ پر ہاتھ پھیرا، اور پیشانی پر بوسہ دیا، اور آپ کے باپ کو فرمایا میاں منگو! یہ لڑکا ہماری امانت ہے، اس کو بحفاظت رکھنا، یہ ایسامرد ہوگا کہ تمام جہان اس سے مستفیض ہوگا، اگر اس کو کسی وقت بیہوشی ہوجایا کرے تو آسیب یا بیماری نہ خیال کرنا، یہ ہماری توجہ کی علامت ہوگی، اور ہم بھی اس کے حال سے غافل نہیں رہیں گے، چنانچہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نہایت مہربانی فرما کر رخصت ہوگئے، اور بعد ازاں گاہے گاہے بھلوال شریف آکر خبر گیری اور تربیت روحانی کرتے رہے۔ [۱] [۱۔ الاعجاز (رسالہ احمد بیگ قلمی ص ۲۴)]
عالمِ بیخودی
جیسا کہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا، آپ پر بیخودی طاری ہو جاتی، مدہوشی میں زمین پر گر پڑتے، منہ سے کف ظاہرہوتی، اعضا ٹیڑھے ہوجاتے سر مبارک پھر جاتا، چہرہ مونڈہوں پر جا لگتا۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۲۵]
واقعہ بیعت
اسی طرح جب آپ جوان ہوئے تو جذبہ الٰہی نے کشش کی، تلاش ہادی میں صحرا نور دی کرتے ہوئے خوشاب شریف میں حضرت شیخ المشایخ مجمع البحرین مخدوم شاہ معروف فارقی چشتی قادری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچے، اور اُن کے دستِ حق پرست پر بیعت طریقت کی۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۲۷ شرافت]
خلافت و اجازت
حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کچھ عرصہ آپ کو اپنے پاس رکھا، اور توجہات کیں، آپ کا شوق دن بدن بڑھتا گیا، اور ہر گھڑی و ہر لمحہ مراتب و درجات میں ترقی ہوتی رہی یہاں تک کہ مقصد حقیقی کو پالیا، حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے علو مرتبت اور سمّوِ مناصب کو دیکھ کر آپ کو خلعت خلافت و اجازت سے مفتخر کیا اور فرمایا اے فرزند! جو امانت ہم کو قبلۃ العارفین حضرت مخدوم سید مبارک حقانی اوچی رحمۃ اللہ علیہ سے ملی تھی، اور اُن کو سلسلہ وار اپنے آبا و اجداد سے موصول ہوئی تھی، وہ سب تم کو دے دی ہے، اب دو تلواریں ایک نیام میں گنجائش نہیں رکھتیں، تم یہاں سے جا کر کچھ عرصہ ملکِ الٰہی کا سیر کرو، اور پھر وطنِ مالوف مقیم ہوکر لوگوں کو خدا کی طرف راہ نمائی کرو۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۲۸ شرافت]
بشارت خلیفہ
آخر جب آپ وداع ہونے لگے تو حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا بیٹا! ذرا اپنی دائیں طرف نظر کرو جب مڑ کر دیکھا، تو ایک بلند قامت، یوسف صورت خضر سیرت نوجوان نظر آیا، جس کی پیشانی سے نور کے تجلیات ظاہر ہو رہے تھے، حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جو کچھ تم کو عنایت کیا گیا ہے، وہ سب اسی جوان کا نصیبہ ہے، یہ تمہارا خلیفہ اور روحانی جانشین ہوگا، اِس کا نام حاجی محمد نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ ہے، زمانہ میں لاثانی ہوگا، اس جوان کا شہرہ ہندو خراسان وغیرہ تمام ممالک میں ہوگا، اور اس کے مرید مشرق سے مغرب تک پھیل جائیں گے، جب یہ تمہاری ملازمت میں پہنچے تو امانت اس کے سپرد کرنا، اور ہماری یہ ساری گفتگو اس کے آگے بیان کرنا۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۲۸ شرافت]
روانگی بجانبِ شاہ پور
آپ جب رخصت ہوئے تو حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ تم چند عرصہ سید شاہ محمد شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس شاہ پور میں رہو، پھر سیاحت کرنا آپ نے عرض کیا، عالیجاہا! وہ تو صاحبِ جذب اور غیور بزرگ ہیں، اُن کی نگاہِ غیرت سے مجھے خوف آتا ہے، حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگرچہ فی الواقعہ ایسا ہے لیکن تمہیں ایسی دولتِ سرمدی نصیب ہوئی ہےکہ کسی کو غیرت تم پر کار گر نہ ہوگی، تم بجمیعت قلب رہنا، اور اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آجاوے تو ہم کو یاد کرنا، اور ایک چابک دیا کہ یہ شاہ محمد رحمۃ اللہ علیہ کو تبرک دینا، اور ہمارا سلام پہنچانا، اور آپ کے حق میں ہاتھ اٹھا کر دعائے خیر فرمائی، اور رخصت کیا، تو آپ شاہ پور کی طرف روانہ ہوئے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۳۰]
توبہ قزّاقاں
راستہ میں آپ کو چند سوار ڈاکو مقابل ہوئے، انہوں نے آپ کو دولت مند سمجھ کر لوٹنے کا ارادہ کیا، آپ نے ان پر ایسی نظر فرمائی کہ وہ سب گھوڑوں سے اتر کر آپ کے قدم بوس ہوئے، اور معافی لی، آپ نے کمال مہربانی سے اُن کو توبہ کروانی، اور حلقہ طریقت میں داخل کیا۔ [۱] [۱۔ایضًا ص ۳۱]
ف یہ کرامت آپ کو وراثتِ غوثیہ میں ملی، حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اوائل میں ڈاکوؤں کو توبہ کروا کے ان کو مسندِ ولایت عطا فرمایا تھا۔
مصاحبت شاہ محمد شیرازی رحمۃ اللہ علیہ
جب آپ شاہ پور میں پہنچے تو حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا سلام سید شاہ محمد رحمۃ اللہ علیہ کو پہنچایا، اور چابک بھی دیا، انہوں نے کہا اے شاہ سلیمان جس کے ہاتھ میں حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا چابک ہو، ڈاکوؤں کی کیا مجال ہوسکتی ہے کہ اُس کے مقابل ہوں، پھر آپ کو اپنی خانقاہ کے جوار میں ایک علیٰحدہ حجرہ بنوادیا، جس میں آپ تنہا رہنے لگے، ذکر و فکر میں مشغول رہتے۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۳۲]
شدّتِ جوع
اُن ایام میں آپ پر ذوق و شوق کا اِس قدر غلبہ تھا کہ اکثر ایک دو روز تک بیہوش رہتے، اور جب افاقہ ہوتا تو بھوک ایسی شدّت سے لگتی کہ جو کچھ ماحضر ہوتا سب تناول فرما جاتے۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۳۳ شرافت]
نذرِ کلہ پائچہ
سید شاہ محمد رحمۃ اللہ علیہ کے مطبخ میں روزانہ ایک دو گائے یا تین چار بکریاں ذبح ہوتی تھیں، انہوں نے مذبوحہ جانوروں کے کلہ پائچہ (سری کھر اوڑے) آپ کے لیے مقرر کر دئیے، چنانچہ روزانہ باورچی کلہ پائچہ آپ کے پاس رکھ جاتا، آپ مٹی کی ہانڈی کلان میں چڑھا کر نیچے سلگا دیتے، اور خود عبادت میں مشغول رہتے، گوشت خود بخود پک جاتا، جب بھوک لگتی سارا گوشت تغار میں ڈال کر تناول فرما جاتے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۳۵]
ف زمانہ حاضرہ تک یہ رسم جاری ہے کہ اگر کسی کو کوئی مصیبت یا مشکل یا مقصدِ اہم در پیش ہو تو وہ کلمہ پائچہ پر حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کا ختم دلوائے تو اللہ تعالیٰ اُس کی مراد برلاتا ہے۔
نذرِ گوسفند
انہیں ایام میں ایک روز چند آدمی باشند گانِ شہر سے سیّد شاہ محمد رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کے لیے آئے، سب کا کچھ نہ کچھ مطلب تھا، ایک نے منت مانی کہ اگر میری مراد پوری ہوئی تو میں ایک گائے سید شاہ محمد رحمۃ اللہ علیہ کی نذر گذاروں گا، دوسروں نے بھی ایسی منتیں مانیں، اُن میں سے ایک شخص کی نظر حضور کے جمال پر پڑی، دیکھتے ہی شیدا ہوگیا، اور اپنے دوستوں سے کہا کہ اگر میری مراد پوری ہوئی تو میں اِس درویش کو ایک گوسفند نذر کروں گا، چنانچہ دو دن کے بعد اس کی مراد سب سے پہلے پوری ہوگئی، اور وہ ایک بکری آپ کی نذر لایا، آپ نے اُس بکری کو ذبح کر کے پکایا، اور خوب سیر ہوکر کھایا۔ [۱] [۱۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۳۹ شرافت]
ملنگوں کی طَماعی
سید شاہ محمد رحمۃ اللہ علیہ کے بعض درویش جو فقر کے مذاق سے آشنا تھے، وہ تو حضور کا ادب کرتے، لیکن بعض نام نہاد ملنگ جو ذوقِ فقر سے بے بہرہ تھے، وہ آپ کی مخالفت کرتے، اور آپ کے حال میں بیجا دخل دے کر تنگ کرتے، جس وقت آپ کھانے لگتے تو وہ طماع آکر گرد بیٹھ جاتے، اور آپ سے کھانا مانگتے، آپ فرماتے کہ تم لوگ دستر خوانوں پر لذیذ کھانے کھاتے ہو، یہ غذائے فقرا ہے تم اس کو ہضم نہیں کر سکتے، وہ نفس پرست حُسّاد اس بات سے چڑتے، اور سید شاہ محمد رحمۃ اللہ علیہ کے پاس از خود باتیں اختراع کر کے سناتے کہ شاہ سلیمان رحمۃا للہ علیہ تمہارے حق میں بے ادبی کے کلمات کہتا ہے، اور تمہارے لیے جو نذرانہ آتا ہے، وہ راستہ میں روک لیتا ہے، اور بکری آنے کا واقعہ بیان کیا۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۳۶۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۴۰ شرافت]
مقابلہ شاہ محمد رحمۃ اللہ علیہ
جب سید شاہ محمد رحمۃ اللہ علیہ نے یہ باتیں سنیں تو ان کو سخت طیش آیا، اور اپنا ایک فقیر حضور کے پاس بھیجا کہ جو بکری آپ کو نذرانہ میں آئی ہے اُس میں سے ہم کو بھی حصہ دو، آپ نے جواب میں کہلا بھیجا کہ پہلے تو صرف اُن کے ملنگ مخالفت کرتے تھے، اب خود بھی مزاحم حال ہونے لگے، ایسا کرنا اُن کے شایان شان نہیں، سید شاہ محمد رحمۃ اللہ علیہ چونکہ غیور اور صاحبِ جذب تھے، اور جس کی طرف نگاہِ غضبیہ سے دیکھتے، اگر عامۃ الناس سے ہوتا تو جل جاتا، اور اگر صاحبِ حال فقیر ہوتا تو اُس کا فیض سلب کر لیتے، اسی گھمنڈ سے وہ حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف روانہ ہوئے، سارے ملنگ بھی ساتھ تھے، جب حجرہ کے پاس پہنچے تو آپ دست بستہ اٹھ کھڑے ہوئے، اور فرمایا سیّد صاحب میں ایک مسافر درویش ہوں، اور آپ کے جوار میں بھیجا گیا ہوں، مجھ پر غصہ نہ کرو، لیکن سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا غصہ فرو نہ ہوا، بلکہ نگاہِ سلبیہ سے دیکھا مگر کچھ اثر نہ ہوا، آپ چند قدم پیچھے ہٹ کر پھر ملتمس ہوئے کہ یا حضرت مہربانی کرو پر اُنہوں نے نہ مانا، اور پیش قدمی کی، آپ پھر چند قدم پیچھے ہٹے، اور زمین پر ایک خط کھینچ دیا، اور فرمایا اے سیّد! ہم نے بڑا حوصلہ کیا مگر تو نے نہ جانا، اب اگر آگے بڑھو گے تو خطا کھاؤ گے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۳۸]
سلبِ احوالِ شاہ محمد رحمۃ اللہ علیہ
جب آپ نے لکیر کھینچی تو حضرت مخدوم شاہ معروف خوشابی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف بھی رجوع کیا، اور مدد چاہی، اُسی وقت وہ دائیں طرف آ موجود ہوئے، سید شاہ محمد رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے ارشاد کی کچھ پروا نہ کی، اور اُس خط سے آگے بڑھے، بمجرد آگے قدم رکھنے کے بیہوش ہوکر گر پڑے اور مسلوب الحال ہوگئے۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۳۹]
شاہ محمد رحمۃ اللہ علیہ کو معاف کرنا
سید شاہ محمد رحمۃ اللہ علیہ نگاہِ سلیمانیہ کی زد سے تڑپنے لگے، تو فورًا بی بی جیونی صاحبہ رحمۃ اللہ علیہ جنہوں نے اُن کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا ہوا تھا، آحاضر ہوئیں، اور حضور کے آگے التجا کی کہ یا حضرت! یہ میرا فرزند ہے، بسبب نا واقفی کے بے ادبی کا مرتکب ہوا ہے، میرے لیے اس کی جان بخشی فرماؤ، آپ نے اپنا خرقہ جھاڑا تو اُس میں سے تین حربے زمین پر گر پڑے، فرمایا بی بی صاحبہ ہم تین حربوں کے ہوتے ہوئے عذر خواہی کرتے رہے، پر انہوں نے نہ مانا، پس دیکھا جو دیکھا، اب آپ کے لیے اِن کو معافی دی جاتی ہے، پھر ایک کوزہ لے کر اُن کے منہ پر پانی چھڑکا تو اُن کو ہوش آئی، پھر ان کو نصیحتیں فرمائیں، اور رخصت ہوئے۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۴۰ شرافت]
سیر و سیاحت
شاہ پور سے روانہ ہوتے ہی آپ موضع چاوہ میں پہنچے، اور شیخ مہر علی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس چندے قیام کیا، پھر لمبے سفروں کا تہیہ کر لیا، بحکم سیر وافی الارض بڑے ملکوں کا سیر کیا، ریاست جموں میں پہنچے، ایک شاہی تالاب پر ڈیرہ کیا، وہاں شہزادیاں غسل کیا کرتی تھیں، اُنہوں نے آپ کو جبرًا وہاں سے اُٹھوا دیا، آپ وہاں کی رونق بھی ساتھ ہی لے آئے، پہلے وہاں دلکشا باغات اور خوشگوار نہریں اور فوّارے تھے، بعد ازاں وہ جگہ ویران ہوگئی، پھر آپ کوہِ ہمالیہ کی کئی غاروں میں خلوت نشین ہے، آج تک بھی علاقہ پہاڑ میں کئی مکان بنام سخی صاحب رحمۃ اللہ علیہ مشہور ہیں، اس کے بعد افغانستان کو چلے گئے، وہاں کے لوگوں کو سیراب کرتے ہوئے براستہ خراسان واپس خوشاب شریف پہنچے، اور اپنے پیر روشن ضمیر کی زیارت سے مشرف ہوئے۔
ملاقات ملنگانِ سیاحین
پھر آپ نے ملک الٰہی کا سیر شروع کیا، اثنائے راہ میں چند ملنگ [۱] [۱۔ ہندی زبان والے قلندر درویش کو مَلنگ کہتے ہیں، چونکہ رسالہ احمد بیگ و تذکرہ نوشاہیہ میں لفظ ملنگ ہی لکھا ہے، اس لیے ہم نے بھی ان کے تتبع میں یہی لفظ استعمال کیا ہے ۱۲] ملے جو سیاحت کر رہے تھے، آپ نے اُن کے سردار سے ساتھ رہنے کی اجازت لی، چند روز اُن کے ساتھ بحالتِ محکومی بسر کیے، آخر آپ کے اخلاق و عادات دیکھ کر وہ از حد نگو نسار ہوئے، اور آپ کو اپنے حلقہ کا سردار مقرر کیا، اسی طرح سفر کرتے ہوئے کئی فقیروں کے مجمعوں میں شامل ہوئے، جو شخص آپ کے جمال با کمال کو دیکھتا وہ ترک دنیا کر کے آپ کی معیت میں رہنا پسند کرتا، حتی کہ ملنگوں کی تعداد سات سو (۷۰۰) تک ہوگئی۔ [۱] [۱۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۴۴]
تعدّی مَلَنگان
آپ چونکہ ستر احوال کے لیے جماعتِ ملنگاں میں ملے ہوئے تھے اس لیے کسی کے مزاحم نہ ہوتے، اور ملنگ شکم پرور تھے، وہ ہر کسی پر جور و تعدّی کرتے، اگر کسی گائے یا بکری پر نظر پڑتی تو بلا اجازتِ مالکان پکڑ لیتے اور ذبح کر کے کھا جاتے، حضور کے ادب کی وجہ سے کوئی شخص چون و چرا نہ کر سکتا تھا۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۴۵ شرافت]
ملا پر شفقت
ایک دن ایسے ہی کسی گاؤں سے گذر رہے تھے، کہ ایک گائے ملنگوں کی نظر چڑھی، وہ پکڑ کر استعمال میں لائے، وہ گائے ایک مُلّا کی تھی جو وہاں کا امام مسجد تھا، اُس سے برداشت نہ ہوسکا، اُس نے آپ کے آگے دست بستہ ہوکر تمام ماجرا عرض کیا، اور ملنگوں کے گذشتہ مظالم کا بھی تذکرہ کیا، آپ کو اُس کے حال پر رحم آیا، اور اُس گاؤں کے مقدم کو بلا کر فرمایا کہ تم اِس مُلا کو اپنے مویشیوں میں لے جاؤ، اور دو گائے جو یہ پسند کرے اس کو دے دو، خدا تیرے مال میں برکت کرے گا، مقدم نے اِس فرمان کو اپنی خوبَی قسمت سے منظور کیا، اور مُلا کو دو گائے دے کر روانہ کیا۔ [۱] [۱۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۴۵]
ملنگوں سے قطع تعلق
آپ نے جب ملنگوں کے ظلم و تعدّی کو دیکھا تو خیال کیا کہ ایسے نفس پرستوں کی رفاقت اچھی نہیں، چنانچہ رات کو جب سارے سوگئے، تو آپ آدھی رات کو اُٹھ کر تنہا جنگل کو چلے گئے، اُنہوں نے جب صبح اُٹھ کر آپ کو نہ پایا تو نہایت متاسّف ہوئے، ہر چند ڈھونڈا مگر آپ نہ ملے، اس لیے وہ مایوس ہوکر منتشر ہوگئے۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۴۶]
سیرِ دریا
چند عرصہ تو آپ نے حضرت الیاس علیہ السّلام کی طرح جنگلوں اور صحراؤں اور پہاڑوں کو اپنے فیض سے مستفیض فرمایا، پھر خیال ہوا کہ حضرت خضر علیہ السلام کی طرح اب دریاؤں کا سیر کرنا بھی ضروری ہے، چنانچہ آپ دریائے چناب کے کنارہ پر مشرق کو روانہ ہوئے، دریا کے عجائبات اور قدرتِ الٰہی کا نظارہ دیکھ کر مسرور ہوئے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۴۳ شرافت]
درودِ جوکالی
اِسی طرح چلتے چلتے موضع جوکالی میں پہنچے، وہاں ایک مسجد میں خررد سال لڑکے پڑھ رہے تھے، اُستاد حاضر نہ تھا، آپ اُن کے پاس جا بیٹھے، لڑکوں نے جب آپ کی وضع قطع درویشانہ دیکھی کہ خرقہ زیبِ بدن ہے، اور ژولیدہ مو ہیں، تو آپس میں ہنسی مخول کرنے لگے، اور کہا کہ فقیر صاحب! اگر کہو تو تمہارے سر کے بال کاٹ دیویں، آپ خاموش رہے، لڑکے آپ کے گرد جمع ہوگئے، اور آپ کے سَر مبارک کو پانی سے تر کر کے چھریوں اور چاقوؤں اور ٹھیکریوں سے خراش کرنے لگے، اس اثناء میں اُن کا استاد مُلّا کریم الدین رحمۃ اللہ علیہ مسجد میں آپہنچا، اور لڑکوں کو جھڑک کر ڈانٹا، اور آپ کا چہرۂ انور دیکھتے ہی بے اختیار قدموں پر سَر رکھ دیا۔
دیدنِ روئے ترا دیدۂ جاں بیں باید |
|
دیں کجا مرتبۂ چشم جہاں بینِ من است |
آپ نے مُلّا پر نگاہِ رحمت ڈالی، تو اُس کا حال دگر گون ہوگیا، اور نشۂ محبّتِ حقانی اُس کے دل میں جا گزین ہوا۔
آخر آپ سارا دن مُلّا کو ساتھ لے کر جو کالی میں پھرے، اور لوگوں کو اپنے فیضان سے نوازا، رات بھی آپ نے وہیں مُلّا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے گھر گذاردی، گاؤں کے کئی لوگ ملازمت سے مشرف ہوئے، اسی طرح کچھ ایّام وہاں گذارے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۴۳]
قیامِ منچر
جب آپ کا شہرہ اطرافِ جوکالی میں ہونے لگا، تو آپ دریائے چناب سے گذر کر موضع منچر چٹھہ میں پہنچے، وہاں ایک غریب موچی کے گھر ڈیرا کیا، دن کو جو کچھ فتوح آتی، اُس سے آپ بھی تناول فرماتے، اور اس کو بھی دیتے، چند عرصہ اِسی طرح گذرا، کئی خوارق ظہور میں آئے۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۴۶]
تقررِ جلال پور
جب منچر میں بھی رجوع خلائق ہونے لگا، تو آپ نے عنان توجہ جلال پور بھٹیاں کی طرف منعطف فرمائی، وہاں پہنچتے ہی ایک بڑا کام پڑا۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۴۸ شرافت]
سلبِ احوالِ میاں علی رحمۃ اللہ علیہ
وہ یہ کہ جلالپور میں ایک مشہور بزرگ میاں علی سہاری اویسی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ رہتے تھے، جو صاحب جذبۂ قوی تھے، جو فقیر اُس علاقہ میں وارد ہوتا، اُس کا فیض سلب کر لیتے تھے، جب آپ کو دیکھا کہ یہ بابرکت درویش ہیں تو بغلگیری کے لیے ہاتھ کشادہ کیے، آپ نے مکاشفہ قلبی سے اُن کا مافی الضمیر معلوم کر کے اُن کی طرف دیکھا، تو اُن کے ہاتھ وہیں کھُلے رہے، نیچے نہ آسکے، اور سینہ پھٹنے لگا، میاں علی رحمۃ اللہ علیہ نے سمجھ لیا کہ آج مرد سے کام پڑا، فریاد کرنے لگے کہ یا حضرت! مجھے بخش دو، اِتنا تو رہوں کہ روٹی کا ٹکڑا مانگ کر کھاتا رہوں، آپ نے اُن کا قصور معاف کر دیا، اور چندے وہاں قیام کیا۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۴۸۔ ثواقب المناقب ص ۳۶]
تخت ہزارہ سے عبور
آخر جلالپور میں بھی گرد و نواح کے لوگ جوق در جوق آنے لگے، تو آپ وہاں سے دل برداشتہ ہوکر دریائے چِناب سے عبور کر کے موضع تخت ہزارہ میں پہنچے۔ [۱] [۱۔رسالہ احمد بیگ ص ۴۹]
ایک مجذوب سے استفاضہ
وہاں خندق میں ایک مجذوب اہل مکاشفہ پڑا تھا، آپ اُس کو دیکھ کر دست بستہ کھڑے ہوئے، مجذوب نے سَر اٹھا کر آپ کی طرف دیکھا، آپ نے سلام کیا، اُس نے جوابِ سلام دے کر فرمایا، شیخ سلیمان! کیا تم دیکھتے نہیں کہ تمہاری والدہ ماجدہ تمہارے انتظار میں ٹیلہ پر کھڑی ہیں، اور تمہارے فراق میں رو رہی ہیں؟ تم ابھی اُن کی خدمت میں پہنچو، اور فرمایا شیخ سلیمان! اب وہ وقت آگیا ہے کہ آپ جمعیت دِل سے ایک جگہ بیٹھ جاویں، اور مخلوق کو خدا کی طرف راہنمائی کریں، چنانچہ آپ اُسی وقت بذریعہ طِی ارض فورًا بھلوال شریف پہنچے، ابھی مائی صاحبہ رحمۃ اللہ علیہ ٹیلہ سے اتر کر گھر نہیں پہنچی تھیں کہ جا قدمبوس ہوئے۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۵۰]
مُدّتِ سیاحت
منقول ہے کہ آپ نے بارہ سال تک مختلف ممالک کی سَیر و سیاحت کی، اور پھر واپس تشریف لائے۔ [۱] [۱۔ تحائف قدسیہ ص ۱۰۷ شرافت]
سکونتِ بھلوال شریف
آپ نے سیر و سیاحت کے بعد اپنے جدّی گاؤں موضع بھلوال شریف کو اپنی سکونت کے شرف سے مشرف فرمایا، ہنگامۂ مشیخت گرم ہوا، فیضِ باطنی کے دروازے کھول دئیے، جو آتا مقصود پاکر جاتا، دور دور سے لوگ آکر مستفیض ہونے لگے، آپ کی صحبت سے ہر بیمار کو شفا، اور ہر عاشق کو لقا، اور ہر درد مند کو دوا حاصل ہوتی تھی، اسی شہر کو سُن کر تبوسل مُلا کریم الدین جوکالوی رحمۃ اللہ علیہ حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی آپ کی ملازمت سے باریاب ہوئے تھے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۵۰]
معمولات
آپ شریعت نبوی کے کمال پابند تھے، سنت محمدی کے شیدا، نماز پنجگانہ با جماعت ادا فرماتے، عشا کی نماز میں موافق حکم حدیث شریف کے تاخیر کیا کرتے، ثُلث رات گذر جانے کے بعد ادا فرماتے، [۱] [۱۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۲۰۰] کئی بار حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو امامِ جماعت بنا کر اُن کے پیچھے نماز پڑھا کرتے، [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۱۲۷] شب بیدار تھے، یاد حق سے ایک دم غافِل نہ رہتے، درود شریف ہزارہ اور کلمہ طیبہ کا ورد عام تھا۔
سماع و وجد
آپ سماع سنتے تھے، اور وجد کرتے تھے، حضرت مخدوم شاہ معروف خوشابی رحمۃ اللہ علیہ کی نظر سے شروع میں ہی آپ اہل وجد ہوگئے تھے، [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد اول ص ۱۷۰ شرافت] سماع کے وقت آپ کو ایسا سخت وجد ہوتا تھا کہ اِنزہاق تک نوبت پہنچ جاتی۔
اخلاق و عادات
آپ نہایت متواضع تھے، ہر کسی کے ساتھ خلق و محبت سے پیش آتے، مریضوں کی عیادت کو جاتے، بیماروں کے حق میں دعائے خیر فرماتے، آپ کی دعا سے شفا ہوجاتی، [۱] [۱۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۲۰۱] اپنے اخفا میں از حد کوشش فرماتے، [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۴۵] آپ کے اکثر خصائل صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے ملتے جلتے تھے، [۱] [۱۔ تحائف قدسیہ ص ۱۰۸] آپ علماء کا احترام فرمایا کرتے تھے۔[۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۵۷]
فقر و فاقہ
آپ کے پوتے شیخ عبد الوہاب المعروف سخی نر وَھّاب بن شیخ تاج محمود رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ آپ کا فقر و فاقہ اِس حد تک تھا کہ کبھی تیل نہ میسر ہوتا کہ دونو اہلیہ آپ کے سر پر لگاویں، اور کنگھی بھی نہ تھی کہ سر پر پھیریں، انگلیوں سے بال سیدھے کیا کرتیں۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۵۴]
حسنِ معاشرت
آپ مہمان نواز بحد کمال تھے، جو شخص آتا کشادہ پیشانی سے اُس کو ملتے، خدمت میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کرتے، باوجود یکہ عسرت بہت تھی، لیکن سائلین کےلیے ہر وقت سخاوت کا دروازہ مفتوح رہتا، جو کچھ حاضر ہوتا دینے میں دریغ نہ کرتے، اگر گھر میں کوئی چیز موجود نہ ہوتی تو گدائی کر کے جو چیز میسر آتی ایثار کرتے۔ [۱] [۱۔ تذکرہ نوشاہیہ ۱۲]
حلیہ اقدس
آپ دراز قد، جسم، لیکن ریاضات و مجاہدات سے جسم مبارک میں آثارِ ضعف نمایاں تھے، رنگ گندم گون، ریش مبارک سفید، [۱] [۱۔ تحایف قدسیہ ص ۱۰۸] سر کے بال لمبے تھے، آپ اکثر ژولیدہ مو رہتے، ظاہری نمایش کو اچھا نہ سمجھتے تھے، [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۴۳] چہرۂ اطہر سے انوار الٰہی درخشاں تھے، جو شخص دیکھتا خود بخود مطیع و منقاد ہوجاتا، آنکھوں میں مشاہدۂ جمال ذات کے آثار ظاہر و باہر تھے۔ آپ کا رُعب و جلال با ہیبت تھا، امرا و سلاطین سامنے ہونے سے جھجکتے تھے۔
لباس
آپ کا لباس بالکل سادہ ہوتا تھا، دستار پانچ گز شرعی ہوتی تھی کمر میں لنگی رکھتے، سردیوں میں اوپر گرم اونی لوئی (کنبل۔ بھورا) رکھتے، اور گرمیوں میں کھیس زیبِ تن ہوتا تھا۔ [۱] [۱۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۳۵ شرافت]
مقاماتِ فقر
منازلِ اربعہ
آپ صاحب سُکر و صحو تھے، جذبہ قوی رکھتے تھے، آپ کی نگاہ میں اِس قدر تاثیر تھی کہ جس پر ڈالتے وہ مست و مجذوب ہوجاتا، شریعت و طریقت و حقیقت و معروفت یعنی ہر چہار منازل کے حقائق و آثار سے متحقق تھے، تخلقوا باخلاق اللہ واتصفوا باوصاف اللہ کے اوصاف سے موصوف تھے، طالبِ صادق کو ایک ہی توجہ سے مرتبہ بقا پر پہنچا دیتے۔
مقامِ سخاوت
آپ کثرتِ سخاوتِ ظاہری و باطنی کی وجہ سے سخی بادشاہ مشہور ہوئے، آپ کی سخاوت کا شہرہ عالمگیر تھا۔
کرامات
آپ کے خوارق و کرامات بیشمار ہیں کتابوں میں مذکور ہیں۔ از انجملہ۔
طَی ارض
منقول ہے کہ جب افغانستان کا سیر کرتے ہوئے آپ خراسان میں پہنچے، وہاں اکثر لوگوں کو بادیہ ضلالت سے نکال کر ہدایت کی طرف راہ نمائی کی، پھر اپنے پیر روشن ضمیر کی زیارت کا شوق پیدا ہوا تو خراسان سے مسافتِ دراز تیرہ قدم میں طے کر کے حضرت شاہ معروف رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچے۔
طی زمان
آپ کے پوتے شیخ محمد آفتاب بن شیخ تاج محمود رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ آپ نمازِ عشا پڑھ کر جب گھر آتے تو آپ کا خادِم مُلّا غازی گومذل رحمۃ اللہ علیہ بھی دروازہ تک ہمراہ آتا، ایک دن اُس کو فرمایا کہ ہمارا مرید دیوان ابو الفتح ساکِن سَدّا کنبو آشوب چشم سے بیمار ہے، اُس کی خبر لے آویں، چنانچہ نمازِ عشا کے بعد آپ دس (۱۰) کوس کا فاصلہ طے کر کے سدا کنبو میں پہنچے، چند ساعت وہاں بیٹھ کر اُس کے حق میں دعاے خیر کی، اور واپس بھلوال تشریف لائے، آگے حضرت بی بی صاحبہ رحمۃ اللہ علیہ اہلیہ محترمہ حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ چرخہ کات رہی تھیں، اُنہوں نے فرمایا ملا غازی! آج تو حضور معمول سے پہلے گھر آگئے ہیں، آگے میں ڈیڑھ مڈھا (سوت کی چھلی) کاتتی تھی، آج ایک مڈھا بھی پورا نہیں ہوا، ملا غازی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ حضور تو سدا کنبو سے بھی ہو آئے ہیں، بی بی صاحبہ رحمۃ اللہ علیہا متعجب ہوئیں۔ [۱] [۱۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۲۰۰]
مژدۂ نمبرداری
منقول ہے کہ آپ بمعیت مُلا کریم الدین رحمۃ اللہ علیہ موضع جوکالی میں سیر کرتے ہوئے علاؤ الدین نام زمیندار کے گھر چلے گئے، وہ کنجوس آدمی تھا، آدھی روٹی آپ کے آگے لایا، آپ از راہِ لطف اُس کے لقمے کر کے اُسی زمیندار کے منہ میں ڈالنے لگے، اور فرمایا کہ تو نے آدھی روٹی ہماری نذر کی ہے، ہم نے آدھے گاؤں کی نمبر داری تجھ کو دےدی، اگر ساری روٹی لاتا تو سارا گاؤں تیرا ہوجاتا، پیش ازیں گاؤں کی سرداری اُس کے شرکاء کے متعلق تھی، اور وہ گمنام تھا، اُس دن سے بدعائے حضور وہ نمبر دار ہوگیا۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۴۵]
بشارتِ سرداری
جن ایام میں آپ منچر چٹھہ میں رونق افروز تھے، ایک روز حسام نام زمیندار قوم چٹھہ آپ کو دعائے برکت کے لیے اپنے گھر لے گیا، اُس کی عورت روٹیاں پکا کر باہر کنوئیں پر بھتہ لے گئی تھی، حسام نے صحنک میں دیکھا تو کچھ روٹیاں موجود تھیں، اُس نے اوپر سے دو روٹیاں اٹھالیں اور تیسری روٹی حضور کے آگے رکھی، آپ نے فرمایا تو بھی نہیں، اور تیرا بیٹا بھی نہیں، تیرا پوتا گاؤں کا سردار ہوگا، کیونکہ تو نے اوپر سے دو روٹیاں اُتار کر رکھ لی ہیں، چنانچہ اُس کی تیسری پشت میں سرداری ہوئی، [۱] [۱۔ کنز الرحمت ص ۲۵] اور چوہدری نور محمد [۱] [۱۔ نور محمد کے والد کا نام میاں خاں تھا ولد تاجا بن حسام چٹھہ۔ شرافت] چٹھہ بانی رسولنگر موضع منچر میں رئیس اعظم ہوا، جس کی ریاست ملتان تک پھیلی۔
تصرّف فی الاشباح
نیز منچر میں ایک بافندہ بدبخت تھا، جس وقت آپ پر ذوقی حالت وارد ہوتی، ہاتھ بلند فرماتے، اور گردن کج ہوجاتی، وہ بافندہ عوام الناس میں بیٹھ کر آپ کی نقل اُتارتا، نادان لوگ ہنستے، ایک دن راستہ میں وہ بافندہ حضور کو ملا، آپ نے پوچھا فلانے! سنا ہے کہ تو ہماری نقل اُتارتا ہے؟ اُس سیاہ باطن نے شوخ چشمی سے کہا ہاں! میں کیا کرتا ہوں، آپ نے فرمایا ہم کو بھی دکھا، اُس نے گستاخانہ ہاتھ بلند کیے، اور گردن ٹیڑھی کی، اور نعرہ مارا، آپ نے فرمایا ایسا ہی رہو، چنانچہ ویسے ہی اُس کی گردن ٹیڑھی ہوگئی راست نہ ہوسکی۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۴۷ شرافت]
ف یہ کرامت فنافی الرسول ہونے کی وجہ سے وراثتِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کو ملی، جیسا کہ شرح شفا لمُلا علی القاری رحمۃ اللہ علیہ میں ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر حکم بن عاص پر پڑی کہ آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا منہ چوڑا چیہڑا کر کے حضور کے سانگ لگا رہا تھا، آپ نے فرمایا کُنْ کَذٰلِکَ یعنی اسی طرح ہوجا، وہ اُسی وقت سے مرتے دَم تک کانپتا اور کشیدہ دہن رہا۔
خزینہ غیب
آپ کے پوتے شیخ عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ ایک بار ملک پنجاب میں بڑا قحط نمودار ہوا، آپ گھر تشریف لے گئے، تو حضرت بی بی صاحبہ رحمۃ اللہ علیہا کو غمگین پایا، سبب پوچھا تو انہوں نے عرض کیا کہ گھر میں کچھ موجود نہیں، سائل دروازے سے خالی واپس جاتے ہیں، آپ نے فرمایا پانچ چھ آثار غلہ گندم لے کر ایک بھڑولہ (کندد) میں ڈال کر اُس کا منہ بند کردو، حسب مرضی نیچے سے نکال کر خرچ کرتی رہو، بی بی صاحبہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایسا ہی کیا، مدتِ قحط بڑی کشادہ دلی سے اس کو خرچ کرتی رہیں، اپنے گھر کا اور مساکین کا خرچ اُسی میں سے کرتی رہیں، بعد گذرنے قحط کے بھڑولہ کو کھول کر دیکھا تو اُتنا غلہ موجود تھا جتنا کہ ڈالا تھا۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۵۵]
ف یہ کرامت بھی آپ کو وراثت نبویہ میں ملی، جیسا کہ مشکوٰۃ شریف باب مایوجب الوضؤ میں ہے کہ ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک صحابہ کو جو ہانڈی پکا رہا تھا فرمایا کہ مجھے اس میں سے ایک پاچہ نکال دے، اُس نے نکال دیا، پھر فرمایا ایک اور نکال دے، اُس نے نکال دیا، پھر فرمایا ایک اور نکال دے، اُس نے عرض کیا کہ یہی دو پاچے تھے جو میں نے نکال دئیے ہیں، تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے فرمایا کہ اگر تو یہ نہ کہتا تو جتنی مرتبہ میں تجھ سے پاچے مانگتا پاچے ہی نکلتے۔
تصرّف فی الاجسام
منقول ہے کہ آپ کی بڑی اہلیہ محترمہ حضرت رومل خاتون صاحبہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دن عرض کیا کہ یا حضرت! ہم بھی عورتوں کی جنس سے ہیں تیل اور کنگھی ہم کو چاہیے کہ سر پر لگاویں، اور بال سیدھے کریں، آپ نے فرمایا کہ سَر کے بال بھی تصدیعہ ہیں، اگر نہ ہوں تو فراغت حاصِل ہو، بمجرد یہ الفاظ کہنے کے بی بی صاحبان رحمۃ اللہ علیہ کے سَر سے بال گر گئے۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۵۴۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۵۳ شرافت]
امدادِ باطنی
منقول ہے کہ ایک دفعہ حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ آپ کی خدمت میں جا رہے تھے، راستہ میں چند ڈاکوؤں نے جنگل کے درمیان آپ کو فریب دے کر لوٹنے کے واسطے راہ سے علیٰحدہ کر دیا، اُس وقت حضور نے بمکاشفہ قلبی معلوم کر کے آواز دی، میاں حاجی محمد! یہ ڈاکو ہیں اور تم کو دھوکھا دے کر راستہ سے برطرف کر رہے ہیں، راہِ راست یہی ہے جس پر تم چلے آتے ہو، چنانچہ پندرہ کوس کے فاصلہ پر آپ کی آواز اُن کے کان میں پڑی، اور وہ تبوجہ امدادِ آنجناب ڈاکوؤں سے بچ کر حاضر خدمت ہوئے، اُس وقت آپ پشتہ بلندی پر انتظار میں کھڑے تھے، جب وہ آکر قدمبوس ہوئے تو آپ نے فرمایا میاں حاجی محمد! ڈاکو تم کو دغا دے رہے تھے، امید سے کہ ہماری صدا پہنچ گئی ہوگی۔ [۱] [۱۔رسالہ احمد بیگ ص ۱۲۳]
ف یہ کرامت آپ کو تبعیت فاروقی میں ملی، جیسا کہ ازالۃ الخفا میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن عین خطبہ میں تین بار فرمایا یا ساریۃ الجبل اور یہ آواز عین اُسی وقت ساریہ امیر لشکر کو پہنچی، جو مدینہ طیبہ سے ایک مہینہ کے راستہ پر کفار سے لڑ رہے تھے، اور قریب تھا کہ اُن کو شکست ہو، یہ آواز سُن کر پہاڑ کو پشت میں لے کر لڑے تو فتح پائی۔
رُؤیتِ مطلع خورشید
آپ کے پوتے شیخ عبد الواحد بن شیخ رحیم داد رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ ایک شخص ساری رات خدمت حضور میں رہا، صبح کو جب مسجد کی طرف روانہ ہوئے تو اُس کے دل میں خیال آیا کہ مطلع خورشید کس طرح ہوگا؟ آپ نے فرمایا اے فلان! تم سورج طلوع ہونے کی جگہ دیکھنی چاہتے ہو تو آنکھیں بند کرو، جب آنکھیں بند کر کے کھولیں تو اُس جگہ موجود تھا، سورج کی حقیقت نظر آئی، اُس کی ہیبت سے کھڑے ہونے کی تاب نہ رہی، اور آنکھیں خیرہ ہوگئیں، آپ نے فرمایا پھر آنکھیں بند کرو، جب بند کر کے کھولیں تو اپنی پہلی جگہ پر کھڑا تھا، اور وہی صبح کا وقت تھا، وضو کر کے نماز ادا کی۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۵۲ شرافت]
ظہور بہ امکنہ متعدّدہ
شیخ عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ آپ ایک وقت میں متعدد مقامات پر ظہور فرماتے تھے، زمیندار جو رات کو باہر بہکوں پر رہتے ہر ایک کہتا کہ آپ رات کو میری بہک پر تھے، دوسرا کہتا کہ میری بہک پر تھے، حالانکہ ہر ایک جگہ میں پانچ چھ کوس کا فاصلہ ہوتا تھا، یہ کرامت جب تمام مشہور ہوئی تو ایک فاضِل علامہ جو حافظِ قرآن بھی تھے، معہ اپنے ایک معتبر شاگرد کے امتحان کے واسطے آئے، آپ نے اُن کا بہت احترام کیا، نماز عشا کے بعد مولوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شاگرد کو کہا کہ تم تمام بہکوں پر جا کر پتہ کرو کہ حضور جاتے ہیں یا نہیں، اور میں اس جگہ رہتا ہوں، چنانچہ شاگرد ایک تیر پر تاب کے فاصلہ پر پہنچا تو آپ پیچھے سے دوڑ کر اُس کو مِل گئے، اور اُس کا ہاتھ پکڑ کر روانہ ہوئے، ساری رات تمام بہکوں کا سَیر کیا، جب صبح کو واپس گاؤں کے قریب پہنچے تو پھر آپ کو پیچھے چھوڑ کر مسجد میں پہلے پہنچ گئے، جب وہ آیا تو دیکھا کہ آپ اور مولوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ دونو وضو کر رہے ہیں، نماز ادا کرنے کے بعد جب رخصت ہوئے تو شاگرد نے کہا کہ حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ تمام رات میرے ساتھ رہے ہیں، مولوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ وہ تو عشا سے فجر تک میرے پاس بیٹھے رہے ہیں، آخر وہ دونو معترف و معتقد ہوگئے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۵۰]
ف فقیر شرافت عافاہ اللہ کہتا ہے کہ ایک وقت میں اولیاء اللہ کا متعدد جگہوں پر ظاہر ہونا ممکن ہے، جیسا کہ شیخ الاولیا شیخ بُدھ چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ’’اہل کمال کو بعد کسب کے صورتِ مثالی حاصل ہوتی ہے، اُس کو صوفیہ وجودِ مکتب کہتے ہیں۔‘‘ [۱] [۱۔ تذکرہ اولیائے ھند جلد دوم ص ۴۸]
شیخ عین القضاۃ ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ ایک وقت میں بیس جگہ موجود ہوتے تھے، اور شیخ سماء الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا جسم ایک وقت میں پانچ جگہ پر دِکھلایا۔ [۱] [۱۔ ایضا جلد سوم ص ۱۵۵ شرافت]
ہلاکتِ اعدا
منقول ہے کہ چوہدری ساہنپال تارڑنے آپ کی زیارت کو جانے کا ارادہ کیا، اپنے باپ چوہدری مہماں سے چالیس روپے نذرانہ کے واسطے طلب کیے، اُس نے کہا کہ اگر میرے مرشد شیخ سلیمان چدھڑ سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس موضع مانگٹ میں جاؤ تو چالیس (۴۰) روپے دیتا ہوں، اور اگر شیخ سُلیمان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بھلوال میں جاؤ تو اُن کو چار روپیہ بھی کافی ہیں، ساہنپال رحمۃ اللہ علیہ نے پوشیدہ طور پر گھر سے چالیس روپے لے لیے، جب حضور کی خدمت میں پہنچ کر نذرانہ رکھا تو آپ نے اُن میں سے چار روپے پکڑ لیے، اور فرمایا کہ تیرے والد نے اِسی قدر کہا تھا، پھر جلالیت میں آکر فرمایا کہ مہماں کا سَر موچیوں کی رنگ کوب (پھلوہڑ) سے کوٹا جائے گا، ابھی تھوڑے ہی دن گذرے تھے کہ مہماں نے اپنی عورت کو قتل کی دھمکی دی، اُس نے اپنے ہمسایہ موچی کو کہا کہ جس طرح ممکن ہو اِس کا کام تمام کرو، رات کو جب مہماں خوابِ استراحت میں تھا تو اُس موچی نے رنگ کوب سے اس کو مار ڈالا۔ [۱] [۱۔ تذکرہ نو شاہیہ ص ۲۰۷]
استجابتِ دعا
منقول ہے کہ ایک جذامی آپ کے پاس آیا، آپ بعالمِ سفر وزیر آباد میں تھے، وہ اُس جگہ پہنچا، آپ نے اُس کو اپنے ساتھ کھانا کھِلایا اور دعائے خیر کی، وہ اُسی وقت شفا یاب ہوا۔ [۱] [۱۔ نورِ نہال قادری ۱۲]
پیشینگوئی
منقول ہے کہ آپ کئی بار موضع گھگا نوالی میں حضرت حاجی الحرمین الشریفین شاہ علاو الدین حسین علوی عباسی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں تشریف لے جاتے، اور فرماتے کہ اس گھر میں ایک قطبِ زمانہ حاجی محمد نوشہ نام پیدا ہوگا، چنانچہ حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ وہیں تولد ہوئے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۷۳ شرافت]
اِفاضاتِ رُوحانی
آپ کی وفات کے بعد بھی مزارِ اطہر سے اُسی طرح فیض جاری ہے، چند واقعات تحریر کیے جاتے ہیں۔
تجسدِ ارواح
منقول ہے کہ مؤلفِ کتاب ہذا فقیر شرافت کے اجدادِ پاک میں سے حضرتِ اعلیٰ حافظ شاہ الٰہی بخش بر خورداری رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں اولادِ نرینہ نہیں ہوتی تھی، وہ اپنے والد بزرگوار حضرت حافظ شاہ نور اللہ بن حافظ شاہ محمد حیات صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حکم سے حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر بھلوال شریف میں حاضر ہوئے، قبرِ منور اُن ایام میں خام تھی، اور اس پاس سب جنگل تھا، کسی کو وہاں رات رہنے کی جرأت نہ ہوسکتی تھی، حضرتِ اعلیٰ رحمۃ اللہ علیہ مراقبہ میں بیٹھ رہے، آدھی رات کے وقت ایک شیر ظاہر ہوا، وہ استقلال سے بیٹھے رہے، پھر شیر غائب ہوگیا تو ایک اژدہا نمودار ہوا، اُنہوں نے بزبان حال کہا۔
ز تیغ جورِ تو کَے مے ہراسم |
|
بہر رنگے کہ آئی مے شناسم |
پھر وہ بھی غائب ہوگیا تو خود حضرت سخی پیر عالی جناب رحمۃ اللہ علیہ نے بجسدِ نورانی روحانی ظہور فرمایا، اور ایک خوبصورت بچہ جس کے دائیں رخسار پر ایک مسہ تھا گردن سے پکڑا ہوا اُن کے ہاتھ میں دیا اور فرمایا ’’لَےْ ا یہ تیرا نڈھائے دوم نوشہ ہو وے دا‘‘ چنانچہ اُن کو خدائے تعالیٰ نے وہی لڑکا دیا، جس کا حلیہ مندرجہ بالا تھا، اُس کا نام قُل احمد رکھا گیا۔
ف حضرت شاہ قُل احمد جیو صاحب پاکذات رحمۃ اللہ علیہ کی گردن پر حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کے پنجہ مبارک کا نشان بھی موجود تھا جو تمام عمر قایم رہا، گویا کہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاتم نبوّت کی وراثت میں اُن کو خاتمِ ولایت کا تمغہ درگاہِ سلیمانیہ سے عطا ہوا، اور وہ نوشاہِ ثانی ہوئے۔
تمثلِ ارواح
منقول ہے کہ فقیر شرافت عفا اللہ عنہ کے جد امجد حضرت سیّد محمد شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں اولاد زندہ نہیں رہتی تھی، اُن کے والد اکرم حضرت شاہ محمد امین بن شاہ قل احمد جیو پاکذات نوشاہِ ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہم کو آبا و اجداد سے جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ درگاہِ سنیمانیہ سے ہی ہوتا ہے، تم وہاں جاؤ، چنانچہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سفر پیدل طے کر کے بھلوال شریف پہنچے، اور دَربارِ دُربار پر حاضر ہوکر دعا کی کہ ’’یا حضرت جناب الٰہی سے ایسا فرزند دلواؤ جو اہل علم، حیاتی والا اور با اقبال ہو‘‘، جب دعا سے فارغ ہوئے تو ایک ضعیف العمر بزرگ دیکھا، اُس نے پوچھا کہاں سے آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ ساہنپال شریف سے، اُس پیر مرد نے کہا بھائی صاحب! جو کچھ اِن کے (سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کے) پاس تھا وہ تو حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو دے گئے، تم یہاں کیوں آئے؟ تین بار یہ کلام فرمایا اور غائب ہوگیا، جو بعد میں معلوم ہوا کہ وہ خود حضرت سخی پیر عالی جناب رحمۃ اللہ علیہ مثالی صورت میں جلوہ گر ہوئے تھے الغرض وہ دعا مستجاب ہوئی، اور ان کے ہاں اعلیٰ حضرت شاہ غلام مصطفٰے صاحب متولد ہوئے، جو تا حال حیاتِ بابرکات ہیں، اور فقیر شرافت عافاہ اللہ کے پدرِ عالی قدر ہیں۔
عطائے فرزند
اسی طرح راقم الحروف مؤلف کے والدِ ماجد اعلیٰ حضرت شاہ غلام مصطفٰے صاحب ادام اللہ برکاتہٗ فرماتے ہیں کہ ہم اپنے پدرِ والد قدر حضرت سیّد محمد شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ دربارِ حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ پر زیارت کے لیے حاضر ہوئے، وہاں قبر شریف پر ایک مٹھی تِل (کُنجد) کے دانے پڑے تھے، حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ کو فرمایا کہ غلامِ مصطفٰے! تجھ کو بشارت ہو، اللہ تعالیٰ بحرمتِ حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ تجھ کو لڑکا عطا فرماوے گا، کیونکہ یہ تِل روشنی کے مترادف ہیں، اِن کا تیل گھر میں روشنی کا باعث ہوتا ہے، اسی طرح تیرے گھر کی روشنی فرزند صاحبِ علم ہوگا، چنانچہ اس کے بعد جلد ہی تو (شریف احمد شرافت) پیدا ہوا۔ امید ہے کہ بزرگانِ سلف کی طرح یہ دُعا راقم الحروف مؤلف کے حق میں بھی پوری ہوگی۔
فیضانِ سلیمانیہ
فقیر شرافت عفٰی عنہ کو متعدد مرتبہ آپ کی زیارتِ فیض بشارت کا شرف حاصل ہوا، ایک مرتبہ فقیر سَرگی کے وقت روضۂ اطہر میں مراقب بیٹھا تھا کہ حضور نے روحانی ایما سے فرمایا ’’لَے روٹی تے بوٹی‘‘ یعنی نان و گوشت، اُس روز سے بطفیلِ حضور اس درویش پر ظاہری و باطنی فیوض کے دروازے مفتوح ہیں، الحمد للہ علٰی ذٰلک۔
عملیّات
برائے برکت رزق
آپ کا اسم شریف بالفاظِ ذیل لکھ کر اگر غلہ میں رکھا جاوے تو کافی برکت ہوتی ہے، مجرب ہے ان شاء اللہ تعالیٰ۔
خدایا بحقِ سُلیمان شاہ |
|
کہ در غلہ برکت شود بے شبہ |
کلمات طیّبات
رضا، تسلیم، ادب
آپ کی نگاہِ غیرت سے جب سیّد شاہ محمد شیرازی شاہپوری رحمۃ اللہ علیہ بیہوش ہوگئے، او رپھر حضرت بی بی جیونی صاحبہ رحمۃ اللہ علیہا کی سفارش سے افاقہ میں لائے گئے، تو آپ نے اُن کو نصیحت کی کہ فقیر کو رضا و تسلیم درکار ہے نہ ظلم و جفا، ہمیشہ درویش کو ادب کے ساتھ رہنا چاہیے، شفقت اور لطف کو اپنا شعار بنانا شاہیے، کسی کو تکلیف دینے سے احتراز کرنا چاہیے۔
اگر از دست برآئد دہنے شیریں کن |
|
مردی آں نیست کہ مشتے بزنی بر دہنے[۱] |
[۱۔ رسال احمد بیگ ص ۴۰]
زینتِ درویش
فرمایا۔ فقر و فاقہ ہماری (درویشوں کی) زینت ہے۔
فقر این ست و فخر ما این ست |
|
گرچہ دنیا بسے مت دیں این ست[۱] |
[۱۔ ایضًا ص ۵۵]
نصایح
آپ کی بی بی صاحبان رحمۃ اللہ علیہا نے جب اپنے سَر کے بالوں کے لیے تیل و کنگھی کی ضرورت ظاہر کی تو آپ نے فرمایا کہ فقرا کی عورتوں کو لازم ہے کہ رات کو زمین پر سَتھر (خس و خاشاک) بچھا کر سویا کریں، اور فجر کو جو تِنکے بالوں پر چمٹ جاویں وہ ایک دوسری کے بالوں سے خود دور کریں، اور سردیوں کے موسم میں باہم مِل کر سویا کریں۔ [۱] [۱۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۵۳]
ملفوظ
حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ جب آخری مرتبہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے بزبانِ ہندی فرمایا۔
’’اٰیا میرا ڈھولن چارے بنّے رکھ‘‘ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۱۱۲ شرافت]
ازواجِ محترمات
آپ کے دو حرم محترم تھے۔
۱۔ حضرت بی بی رومل خاتون رحمۃ اللہ علیہا
یہ قریشی خاندان سے تھیں، اِن کے بطن سے بڑے صاحبزادہ پیدا ہوئے۔
۲۔ حضرت بی بی جُعرانہ خاتون رحمۃ اللہ علیہ
یہ قومِ گوندل سے تھیں، اِن کے بطن سے بھی اولاد ہوئی۔
اولادِ کرام
آپ کے دو فرزند ارجمند تھے۔ [۱] [۱۔ کتب خاندان تذکرہ نوشاہیہ، ثواقب المناقب، کنز الرحمت وغیرہ میں حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کے دو بیٹے شیخ رحیم داود شیخ تاج محمود ہی لکھے ہیں، لیکن ایک شجرہ میں چار بیٹوں کے نام درج ہیں جو شیخ فیض احمد سجادہ نشین بھلوال شریف کے گھر میں موجود ہے۔ ان کے نام کریم داد والہ داد مسطور ہیں۔ میرے خیال میں وہ غیر مصدقہ ہیں۔ شرافت]
۱۔ حضرت شیخ رحیم داد رحمۃ اللہ علیہ
یہ بڑے متقی متورع تھے، والد بزرگوار کے بعد مسندِ خلافت پر بیٹھے، اِن کے حالات کتاب شریف التواریخ کے جلد دوم موسوم بہ طبقات النوشاہیہ میں بضمن طبقہ سلیمانیہ آئیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
یہ حضرت نوشہ صاحب کی بیعت سے سر فراز اور خلافت یافتہ تھے ان کے دو بیٹے تھے۔
اول: شیخ عبد الواحد سجادہ نشین جن کی اولاد موجود ہے۔
دوم: شیخ روشن شاہ اِن کی اولاد ختم ہوگئی۔
۲۔ حضرت شیخ تاج محمود رحمۃ اللہ علیہ
یہ قلندر مشرب تھے، اِن کے حالات بھی آگے جلد دوم میں آئیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
منصبِ سجّادگی
آپ کی اولاد تو بہت ہے لیکن منصبِ سجادگی بڑے صاحبزادہ کی اولاد میں چلا آتا ہے، چنانچہ زمانہ حاضرہ میں قدوۃ المشائخ حضرت شیخ فیض احمد صاحب ادام اللہ فیوضہٗ درگاہِ سلیمانیہ کے سجّادہ نشین ہیں، صاحب جذب و جلالیّت ہیں، رعب و اقبال میں خصوصیّت رکھتے ہیں، آدابِ طریقت و اجازتِ اشغال و اورادِ خاندانِ نوشاہی سے خوب واقف ہیں، عرس شریف کا انتظام انہیں کے وجود سے ہے، فقیر شرافت عفٰی عنہ پر بھی مہربان ہیں، بعض اجازات سے مشرف فرمایا ہے، ان کے دو بیٹے ہیں صاحبزادہ سید احمد مجذوب اطوار ہیں، اور صاحبزادہ احمد الدین صاحب خوبصورت نوجوان ولیعہد خلافت ہیں، قابلیت و امارت کے اوصاف سے موصوف ہیں، سلّمہم اللہ اِن کا نسب نامہ اس طرح پر ہے۔
حضرت شیخ فیض احمد صاحب سجادہ نشین بن شیخ غلام حسن بن شیخ بُڈھا بن شیخ فیض بخش بن شیخ عبد الہادی بن شیخ عنایت اللہ بن شیخ عبد الواحد بن شیخ رحیم داد بن حضرت سخی شاہ سلیمان نوری رحمہم اللہ۔
خلفائے عُظام
آپ کے خلفا و مریدین بکثرت تھے، چنانچہ ایک بار حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا کہ یا حضرت! جو درویش ہمارے پیر بھائی قریب ہیں، ان کا تو ہم کو علم ہے، کیا ایسا بھی کوئی یار ہے جس کا ہم کو علم نہ ہو؟ آپ نے فرمایا ہاں، اکثر یار ہیں جو کمال کو پہنچ کر رخصت ہوئے ہیں، اور دور دور کے مُلکوں پر منصوب ہیں، بعض ان میں سے ہندوستان میں سکونت رکھتے ہیں، اُن کو واپس آنے کا حکم نہیں، اور نہ ہی اُن کو عبادت سے اتنی فرصت ہے کہ آویں، صِرف ایک یار اُن میں سے ہماری تجہیز و تکفین کے لیے آوے گا، اور تدفین کے بعد پھر چلا جاوے گا۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۱۴۳ شرافت]
اِس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے اکثر خلفا بلادو امصارِ بعیدہ کی قطبیّتوں پر مامور تھے، اور ان کے احوال صفحۂ تاریخ سے مستور ہیں، کیونکہ وہ مکتوم تھے اور جو مشہور تھے وہ یہ ہیں۔
۱۔ حضرت شاہ حاجی محمد نوشہ گنج بخش مجددِ اکبر علوی عبّاسی رحمۃ اللہ علیہ
اِن کا ذکر آگے آئے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
۲۔ حضرت مُلّا کریم الدین جو کالوی رحمۃ اللہ علیہ
عالم با کمال فاضلِ بے مثال تھے، اعتقاد و ادب میں شانِ بلند رکھتے تھے، فیّاض اور غریب پرور تھے، مدت تک موضع جوکالی میں سلسلہ تدریس جاری رکھا، [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۴۴] اکثر بھلوال شریف میں زیارت کے لیے حاضر ہوتے رہتے، حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی انہیں کی وساطت سے حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کی بیعت و ملازمت سے سر فراز ہوئے تھے، [۱] [۱۔ ایضًا ص ۵۱] جو کالی ضلع گجرات میں مدفون ہوئے۔
۳۔ حضرت دیوان ابو الفتح مہرت سَدّا کنبوئی رحمۃ اللہ علیہ
صاحبِ علم و فضل درگاہِ پیر کے مقبولوں میں سے تھے، حضور کی کمال محبت اِن کے ساتھ تھی، ایک بار آشوبِ چشم سے بیمار ہوئے تو آپ دس کوس کا فاصلہ طے کر کے اِن کی عیادت کو موضع سدّا کنبو میں گئے، اور اِن کے حق میں دعائے خیر فرمائی، یہ صاحب کشف تھے، لوگوں کے مافی الضمیر آئینہ کی طرح اِن پر روشن ہوتے تھے۔ [۱] [۱۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۲۰۱] سدّا کنبو ضلع سرگودھا میں مدفون ہوئے۔ اِن کے پوتے حافِظ ادریس رحمۃ اللہ علیہ حضرت شاہ عصمت اللہ بن حافظ محمد بر خور دار نوشاہی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ و مرید تھے۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۳۸۱ شرافت]
۴۔ حضرت مُلّا غازی گوندل بھلوالی رحمۃ اللہ علیہ
یہ شیخ کے منظور نظر تھے، ہر وقت آپ کی معیّت میں رہتے، سفر حضر خلوت جلوت میں ہم رکاب رہتے، گھر کے کاروبار کو بھی سر انجام کرتے، آپ نے نہایت شفقت سے اِن کو دستار پہنائی، اور عصائے تبرک دیا، اور فرمایا مُلّا غازی! ہم نے تجھ کو غازیوں کا مرتبہ دے دیا ہے، چنانچہ یہ ہر جگہ مظفر و منصور رہتے، جس جنگ میں جاتے فتحیاب ہوتے، اپنے آپ کو حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کا حقیقی فرزند سمجھتے، شیخ رحیم داد رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ نہایت خلوص تھا۔ [۱] [۱۔ تذکرہ نوشاہیہ ص ۲۰۰۔ ۲۰۲]
۵۔ حضرت شیخ ہمو فقیر رحمۃ اللہ علیہ
یہ مجذوب اطوار تھے، ایک بار مُلّا غازی رحمۃ اللہ علیہ کو خواب آئی کہ حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ کو دودھ کا ایک پیالہ دیا ہے، شیخ ہوں رحمۃ اللہ علیہ نے جلدی سے پکڑ کر نوش کر لیا ہے، صبح کو جب حضور کے سامنے ہوئے تو آپ نے فرمایا مُلّا غازی! ہم کیا کریں؟ دودھ تو ہموں نے پی لیا، اِس کے بعد مُلّا غازی رحمۃ اللہ علیہ ساری عمر اس بات کا افسوس کرتے رہے، اور اِن کا حال روز بروز ترقی پر رہا۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۲۰۱ شرافت]
۶۔ حضرت چوہدری پیجو تارڑ رحمۃ اللہ علیہ
ابنِ چھجو بن بھَٹی بن سلطان بن دپلچی بن کور و بن چوٹ بن واچھو بن کھِڈہا بن اَند رائے بن نبھی بن بال سُدھ بن سوئیں بن رائے تارڑ (مورثِ قومِ تارڑ) بن سُدھ بن ھرڑ بن شہا بن تلوچر بن ھَر بنب بن لَوہ بن کرن بن سورج (مورث خاندانِ سورج بنسی)
یہ حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کے راسِخ الاعتقاد مرید تھے، پیشہ کاشتکاری کیا کرتے، اکثر ملازمتِ شیخ میں حاضر ہوا کرتے، ایک بار حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی اِن کے ہمراہ بھلوال شریف گئے تھے، انہوں نے اپنے نام پر ایک گاؤں بنامِ کوٹ پیجو آباد کیا اِن کی اولاد وہیں سکونت پذیر ہے اور خاندانِ سلیمانیہ کی خادِم ہے۔
اِن کی اولاد میں سے ایک شخص صوبا المعروف موسیٰ زمیندار میرا مخلص مرید ہے ابنِ عمر بن کٹا بن صاحبزادہ بن خان محمد بن سعد اللہ بن دلیل بن سماعِل بن چوہدری پیجو تارڑ رحمہ اللہ۔
۷۔ حضرت چوہدری علاو الدین تارڑ رحمۃ اللہ علیہ
ابنِ لکھو بن چھجو بن بھَٹی بن سلطان تارڑ۔ اِن کو حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ نے خود موضع جوکالی میں جا کر مرید کیا، اور نصف گاؤں کی سرداری کی بشارت دی، یہ اپنی قوم میں باعزّت تھے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۴۵]
اِن کے چار بیٹے تھے۔ ۱۔ چوہدری مِٹھا۔ اِس نے جوکالی کے پاس علیٰحدہ گاؤں بنام چک مِٹھا آباد کیا، اِس کی اولاد وہاں مجود ہے۔ ۲۔ چوہدری میرک۔ اس نے اپنے نام موضع چک میرک آباد کیا جو قصبہ پھالیہ کے پاس ہے، اس کی اولاد وہاں موجود ہے۔ ۳۔ چوہدری حسین۔ اِس کی اولاد جوکالی میں آباد ہے۔ ۴۔ چوہدری جان محمد۔ اِس کی اولاد میں سے آج کل جوکالی میں چوہدری دیدار بخش ذیلدار زندہ موجود ہے ابن چوہدری سکندر خاں (متوفی ۱۳۵۲ھ) بن پیر بخش بن عطر بن واحد بن کندو بن لدھا بن محبت بن جان محمد بن چوہدری علاو الدین تارڑ رحمہ اللہ۔
۸۔ حضرت شیخ ہندی رحمۃ اللہ علیہ
یہ ہندوستان کے قطب تھے، بموجب وصیت کے انہوں نے آکر حضرت سخی پیر رحمۃ اللہ علیہ کی تجہیز و تکفین کی، اور واپسی پر دریائے چناب سے گذرتے ہوئے حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو غائبانہ سلام و پیام پہنچا گئے، کیونکہ ظاہر ملنے کی اجازت نہ تھی۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۱۴۴ شرافت]
۹۔ حضرت بابا لَلّن شاہ درویش رحمۃ اللہ علیہ
یہ قوم بر ہمن گو سائیں سے تھے، موضع اَلّہن متصل قادر آباد میں متولد ہوئے اور کوہِ ٹِلّہ پر جا کر بابا دریا ناتھ جوگی کے مرید ہوئے، اور بعد ریاضات و مجاہدات کے جوگ حاصل کیا، وہ مرید بابا گورکھ ناتھ کے، وہ مرید بابا مچھندر ناتھ کے، وہ مرید بابا جلندر ناتھ کے، وہ مرید مہادیوجی کے، جن سے سلسلہ جو گیہ کا پنتھ شروع ہوا۔
پھر بابا لَلّن شاہ نے بعد حصول کمال کے بھلوال شریف کے قریب ڈیرہ لگایا اور حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت سے بھی مستفیض ہوتے رہے، اِن کا مکان و سمادھ بھلوال شریف سے مغربی جانب ہے۔
آج کل بابا کانشی داس گدی نشین ہے، وہ مرید بابا نانک داس کا، وہ مرید بابا کرشن کنور قادر آبادی کا، اسی طرح بچند واسطہ درمیانی یہ سلسلہ بابا للّن شاہ تک پہنچتا ہے۔
ف کتاب دبستانِ مذاہب جو عہدِ شاہجہانی کی یک تاریخی کتاب ہے، اس میں طائفہ جو گیاں کے احوال میں لکھا ہے کہ ’’(جوگیاں) چنیں گوئند کہ با با رَتن حاجی یعنی گورکھ ناتھ دایہ پیغمبر بودہ و حضرت رسالت پناہ صلعم را پر در دہ دارہِ جوگ را از نبی علیہ السلام فرا گرفتہ۔‘‘
اُسی کتاب میں دوسری جگہ لکھا ہے کہ ’’ہندی زبان میں فِن جوگ کے متعلق بہت کتابیں ہیں جیسا کہ سو آتمارام جوگی کار سالہ بہت بردانک، اور گورکھ ناتھ کار سالہ کورک سنگہ اور انبرت کند، میں نے (مؤلف دبستان مذاہب نے) دیکھا ہے کہ انبرت کند کو فارسی میں بنام حوض الحیات ترجمہ کیا گیا ہے، اس میں لکھا ہے کہ گورکھ ناتھ سے مراد حضرت خضر علیہ السّلام ہے، اور مچھندر سے مراد حضرت یونس علیہ السلام ہے۔‘‘
مدحیات
آپ کی تعریف میں کئی شاعروں نے نظمیں لکھی ہیں، یہاں صرف حضرت مولوی حکیم غلام قادر شاہ صاحب اثر انصاری نوشاہی بر قندازی جالندہری کی ایک غزل لکھی جاتی ہے۔
غزل
مطلع انوارِ سرمد شاہ سلیمانِ سخی |
|
مخزنِ اسرارِ احمد شاہ سلیمانِ سخی |
واقعۂ وفات
سپردِ مریداں
آپ نے اپنے آخری ایّام میں اپنے موجودہ یاروں اور فرزندوں کو اپنے خلیفہ اعظم حضرت شاہ حاجی محمد نوشہ گنج بخش علوی رحمۃ اللہ علیہ کے سپرد فرمایا، اور اعلان کیا کہ جس شخص کو خدا تعالیٰ کی طلب ہو وہ ہمارے خلیفہ میاں حاجی محمد نوشہ کے پاس جاوے، جو اس سے سرتابی کرے گا، زیان اٹھائے گا۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ص ۱۲۸ و ص ۱۴۱]
تاریخ وفات
حضرت سخی شاہ سلیمان نوری رحمۃ اللہ علیہ کی وفات شب جمعہ بتاریخ ستائیسویں (۲۷) رمضان المبارک ۱۰۱۲ھ ایک ہزار بارہ ہجری مطابق ۱۶۰۴ء ایک ہزار چھ سو چار عیسوی [۱] ۱[۔ تقویم تاریخی کی رُو سے ۲۷؍ رمضان ۱۰۱۲ھ کو شنبہ کا دن اور ۲۸؍ فروری ۱۶۰۴ھ پھاگن ۱۶۶۱ بہ تاریخ تھی ۱۲ شرافت] موسمِ سرما میں بعہدِ سلطنتِ سلطان ابو الفتح جلال الدین محمد اکبر بن ہمایوں بادشاہ ہوئی۔
مدفنِ پاک
آپ کا مزار پر انوار بھلوال شریف ضلع سرگودھا میں ہوا، شیخ ہندی رحمۃ اللہ علیہ نے آکر خدمتِ تجہیز و تکفین کو ادا کیا۔
کرامت
صاحب تحایف قدسیہ نے لکھا ہے کہ دوسرے دن آپ کی تربت کو دیکھا گیا تو زمین سے برابر تھی، دوبارہ بنائی گئی، پھر برابر ہوگئی، سہ بارہ بنائی گئی، پھر ہموار ہوگئی، اولاد و خلفا نے دست بستہ ہوکر عرض کی کہ یا حضرت آپ تو ستر احوال پسند کرتے ہیں، لیکن ہم کو خواہش ہے کہ آپ کی قبر شریف کی زیارت سے آنکھوں کو منور کریں، اور آپ کے وسیلہ سے حاجات چاہیں، چنانچہ چوتھی مرتبہ قبر تیار ہوگئی۔
روضۂ اقدس
زمانہ دراز گذرجانے کے بعد حضرت شیخ غلام حسن بن شیخ بُڈھا سجادہ نشین رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عہد خلافت میں بماہِ ہاڑ ۱۹۴۵بکرمی مطابق ۱۳۰۶ھ میں مزار پر گنبد کی تعمیر شروع کی، اثنائے تعمیر میں اُن کا انتقال ہوگیا، تو بعد ازاں شیخ فضل حسین صاحب بھلوال نے روضہ شریف کی عمارت کو تکمیل تک پہنچایا، روضۂ اطہر عالیشان وسیع ہے، اندر چبوترہ پر پانچ قبریں ہیں، درمیانی قبر جو قدرے بلند ہے وہ حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کی ہے، اور آپ کے متصل مشرقی قبر شیخ عبد الواحد بن شیخ رحیم داد رحمۃ اللہ علیہ کی اور اُس سے مشرقی قبر آپ کے فرزند اکبر شیخ رحیم داد رحمۃ اللہ علیہ کی، اور حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کے متصل مغربی قبر شیخ عبد الوہاب بن شیخ تاج محمود رحمۃ اللہ علیہ کی، اور اس سے مغربی قبر حضور کے فرزند اصغر شیخ تاج محمود رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔
تعالیٰ اللہ مکانے قیض دمساز |
|
باطرافش ملائک سجدہ پرواز |
روضہ مبارک موضع بھلوال قدیم سے بفا صلہ ایک فرلانگ شمالی طرف، اور شہر بھلوال جدید منڈی سے دو میل مغرب کو برلبِ سڑک واقعہ ہے، فقیر شرافت عافاہ اللہ کئی مرتبہ زیارت سے مشرف ہوچکا ہے۔
مسجد سلیمانیہ
روضہ شریف کے متصل مسجد پختہ موجود تھی جو امتدادِ زمانہ کے باعث شہید ہوگئی، اب پھر اس سال رواں یعنی ۱۳۵۵ھ میں شیخ فضل حسین صاحب نے دوبارہ پختہ تعمیر کروائی ہے۔
ایک پورانا تالاب درگاہِ سلیمانیہ کے سامنے ہے، پہلے خام تھا، اسی سال میں شیخ صاحب مذکور نے وہ بھی پختہ بنوادیا ہے۔
تالاب سے شمالی طرف ایک حجرہ خام تھا، جس کے متعلق مشہور ہے کہ اس میں حضرت نوشہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ معتکف رہے تھے، اب اِس سال میں بابا غلام رسول درویش نے بایمائے روحانی میاں محمد فاضل صاحب نوشاہی سُندر پوری رحمۃ اللہ علیہ اپنے خرچ سے وہ بھی پختہ بنوادیا ہے۔
مسافروں اور مجاوروں کے لیے ایک دائرہ مسقف بنا ہوا ہے، چند مکانات بھی ہیں، سایہ دار درخت بہت ہیں، چاہِ رواں بھی پاس ہے، لیکن پانی قدرے شور ہے، سجادہ نشین کے رہایشی کے مکانات بھی وہیں موجود ہیں، روضہ شریف کے آس پاس پورانا قبرستان ہے۔
عرس شریف
آپ کا عرس مبارک ابتدا سے ہر سال بتاریخ ہفتم محرم الحرام ہوتا ہے، اب حضرت شیخ فیض احمد صاحب سجادہ نشین نے ۱۳۲۴ھ سے ہر سال درگاہِ عالیہ پر پانچویں ماہِ ہاڑ کمیلہ کرنا بھی شروع کر دیا ہے، جس پر ہزاروں لوگوں کا اجتماع ہوجاتا ہے۔
قطعہ تاریخ
از حضرت مولانا شاہ غلام مصطفےٰ صاحب نوشاہی دام برکاتہٗ
چوشاہِ سلیماں ز عالم برفت |
|
بہ خلدِ بریں یافت مسند کمال |
منہ
فوت شد چوں شاہ سلیمانِ سخی |
|
یافت در فردوس جائے نیک بہ |
منہ
ز دنیا رفت چوں آں سروِ آزاد |
|
بفردوسِ بریں شد خرّم و شاد |
منہ
وصالِ مخزنِ اسرارِ رحماں |
|
منعم قادری شاہِ سُلیماں (۱۰۱۲) |
منہ
رفت بجنات سلیمان شاہ |
|
وصل بخواں۔ پاک و سخی بادشاہ (۱۰۱۲) |
منہ
درجناں رفت پیر ما عامِل |
|
ہست ترحیل ذاکر کامل (۱۰۱۲) |
منہ
باغِ فردوس یافت چوں اکمل |
|
رحلتش ہست صاحب افضل ۱۰۱۲ |
دیگر
از اسماء الحسنیٰ
ضارّ ھو (۱۰۱۲) |
واجد حفیظ (۱۰۱۲) |
جواد حفیظ (۱۰۱۲) |
وھاب حفیظ (۱۰۱۲) |
ذاکر مالک (۱۰۱۲) |
حنان قابض (۱۰۱۲) |
منعم خبیر (۱۰۱۲) |
رب خیر (۱۰۱۲) |
برّ خیر (۱۰۱۲) |
اٰخر صانع (۱۰۱۲) |
وارث قادر (۱۰۱۲) |
رافع ستّار (۱۰۱۲) |
|
ارفع ستار (۱۰۱۲) |
|
از آیت شریف
واعلموا ان اللہ مع المتقین (۱۰۱۲)
والذین ھٰجروا (۱۰۱۲)
(شریف التواریخ)