حضرت شفیق بلخی
حضرت شفیق بلخی (تذکرہ / سوانح)
حضرت ابو علی شفیق بلخی قدیم مشائخ میں سے تھے۔ صاحب کرامات اور خوارق تھے روحانیت کے بلند مقامات پر فائز تھے۔ حضرت امام موسیٰ رضا اور سلطان ابراہیم ادھم رحمۃ اللہ علیہما کی مجالس میں شریک ہوئے، حضرت امام ابوحنیفہ کے مذہب پر زندگی بسر کی، توکل و قناعت پر کار بند رہے، مختلف علوم و فنون میں تصانیف بطور یاد گار چھوڑیں۔
ایک بار مالِ تجارت لاد کر ترکستان کو روانہ ہوئے ایک بت خانہ سے گزر ہوا۔ وہاں ایک بت پرست بت کے سامنے رو رہا تھا۔ اور کہہ رہا تھا کہ اے بت میری حاجت پوری کر، آپ نے فرمایا: ارے بیوقوف تمہارا خالق موجود ہے جو حی و قیوم ہے۔ قاضی الحاجات ہے اس بے جان کے سامنے کیوں سجدہ کرتا ہے اور روتا رہتا ہے اس بت پرست نے کہا کہ اگر وہ قادر مطلق ہے رازق و خالق ہے تو پھر تو تلاش رزق میں کیوں مارا مارا پھرتا ہے۔ حضرت شفیق یہ بات سنتے ہی غفلت سے بیدار ہوگئے اور دنیا و ما فیہا کو ترک کردیا۔
ایک سال حضرت شفیق بلخی سفر حج کو روانہ ہوئے۔ بغداد پہنچے خلیفہ ہارون الرشید نے آپ کو اپنے پاس بلایا، اور پوچھا کیا زاہد شفیق آپ ہی ہیں! آپ نے فرمایا: شفیق تو میں ہی ہوں، مگر زاہد نہیں ہوں، ہارون الرشید نے کہا: مجھے کچھ نصیحت کرو، آپ نے فرمایا: یاد رکھو، اللہ تعالیٰ نے تمہیں حضرت صدیق اکبر کی جگہ بٹھایا ہے تجھ سے صدق کا مظاہرہ ہونا چاہیے اللہ نے تمہیں فاروق اعظم کی جگہ بٹھایا ہے لہٰذا حق و باطل میں تمیز کرو۔ حضرت عثمان ذوالنورین کی جگہ بیٹھے ہو، حیا اور کرم کو اختیار کرو۔ حضرت علی کی جگہ ہو۔ علم و عمل کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا بناؤ۔ ہارون الرشید نے کہا مجھے مزید نصیحت فرمائیں، آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی ایک سرائے ہے جسے دوزخ کہتے ہیں تم اس کے دربان ہو، اللہ نے تمہیں تین چیزیں وہی ہیں۔ مال، تلوار، اور تازیانہ ان تینوں چیزوں سے لوگوں کو دوزخ سے دور رکھو، ضرورت مند کو مالی امداد دو سرکشوں کو تازیانے سے تادیب کرو، اور مظلوموں کو ظالموں سے نجات دلانے کے لیے تلوار کا استعمال کرو۔
ہارون الرشید نے کہا مجھے اور نصیحتوں کی ضرورت ہے، آپ نے فرمایا تم ایک چشمہ ہو، تمہارے اعمال نہریں ہیں، اگر چشمہ صافی ہوگا تو نہروں کی تیرگی کا کچھ اثر نہیں ہوگا لیکن اگر چشمہ ہی تاریخ ہو تو نہریں کتنی ہی شفاف ہوں، لوگوں کو صاف پانی نہیں مل سکتا۔ ہارون نے کہا: مجھے مزید نصیحت فرمائیں، آپ نے فرمایا: اگر تم تنہا کسی بیابان میں جا رہے ہو، اور وہاں تمہیں شدت پیاس سے جان پر بن آئے، اور تمہیں جان بچانے کے لیے ایک پیالہ شربت خریدنا پڑے تو تم کتنی قیمت ادا کرو گے۔ ہارون الرشید نے کہا کہ اپنی نصف سلطنت دے کر جان بچالوں گا، آپ نے فرمایا: اگر تم وہ شربت نصف سلطنت دے کر خرید لو، اور اسے پی لو۔ اور اتفاقاً اس شربت کے پینے سے پیٹ میں درد شروع ہوجائے اور تمہاری جان پر بن جائے اور ایک شخص پہنچ کر کہے کہ میں تمہارا علاج کرسکتا ہوں، بشرطیکہ تم مجھے نصف سلطنت دے دو، تو تمہارا کیا فیصلہ ہوگا۔ہارون الرشید نے کہا: میں اسے دے دوں گا، تاکہ میری جان بچ جائے آپ نے فرمایا: پھر تم اس عظیم مملکت عباسیہ پر کیا ناز کرتے ہو، جو نصف پیالہ شربت پر فروخت ہوسکتی ہے اور نصف علاج معالجہ پر دی جاسکتی ہو۔ یہ بات سن کر ہارون الرشید رو پڑے۔ اور کہا آپ واقعی زاہد بھی ہیں اور سچے بھی ہیں! یہ دنیاوی سلطنتیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔
حضرت شفیق بلخی مکہ مکرمہ میں حضرت ابراہیم ادھم کو ملے۔ پوچھا، ابراہیم زندگی کا گزران کیسے کر رہے ہو کہا اگر مل جائے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ اگر نہ ملے تو صبر کرتا ہوں، آپ نے فرمایا: ہماری گلی کے کتے بھی یونہی کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ہمیں تومل جائے تو نثار کردیتے ہیں اگر نہ ملے پھر شکرکرتے ہیں حضرت ابراہیم فرمانے لگے:
ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند!
صاحب سفینۃ الاولیاء نے آپ کی شہادت کا سال ۱۹۴ھ لکھا ہے مگر مخبرالواصلین میں ۱۹۵ھ ہے۔ واقعہ شہادت کی تفصیل معلوم نہیں ہوسکی۔
آں شفیق بلخ پیر دستگیر |
|
شُد چو از دنیا یہ ملک جاوداں |
(خزینۃ الاصفیاء)