حضرت شاہ عبدالرزاق جھنجھانہ
حضرت شاہ عبدالرزاق جھنجھانہ (تذکرہ / سوانح)
آپ شیخ محمد حسن کے مرید و خلیفہ تھے اور سلسلہ قادریہ کے مشائخ میں سے تھے۔ صاحب حال و کمال تھے، آپ کی بہت سی کرامتیں اور خوارق عادات مشہور ہیں ابتداء جوانی میں آپ نے علم دین حاصل کیا بعد میں آپ پر عشق و محبت کا مشرب غالب آیا، اور یہ بے حد ریاض و مجاہدہ کے بعد مرتبہ مشاہدہ پر پہنچ گئے۔
آپ کو سلسلہ عالیہ قادِریہ سے بے حد نسبت تھی اور آپ بلا واسطہ کے استفادہ حاصل کرتے تھے اور یہ کتنی بڑی بات ہے کہ بغیر واسطہ کے حضرت سے مستفیض ہوں، ہمیشہ مصائب و شدائد میں ثابت قدم رہتے تھے۔
سید صاحب کی دلجوئی کا انوکھا انداز: ایک مرتبہ ایک سید کسی نواب کے ہاتھوں قید کیا گیا آپ نے جب اس کو قید خانہ میں دیکھا تو بغیر کسی شنا سائی کے اس کی ضمانت کرلی اور بعد میں اس سید سے کہا کہ اب تم اس شہر سے کہیں دور چلے جاؤ میں تمہارے بدلے جیل میں بند ہوں گا چنانچہ اس سلسلہ میں آپ پر بے حد مصائب آئے سب کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور کسی پر اپنا حال ظاہر نہیں فرمایا۔ غالباً آپ کے اور شیخ امان پانی پتی کے درمیان توحید الٰہی اطلاق وجودی اور عینیت و غیرت کے مسائل پر گفتگو ہوئی تھی، شیخ امان پانی پتی اور ان کے دوسرے ساتھی مشائخین نے مسئلہ اطلاق حق کو ایک دوسری صورت سے پیش کیا تھا، چنانچہ شیخ امان کا اس بارے میں ایک رسالہ موسومہ اثبات احدیث بھی ہے، جس کو مخالف لوگ ورائیہ کہتے ہیں جس میں سے ان شاء اللہ تعالیٰ کچھ ذکر کروں گا۔
شاہ عبدالرزاق کے مرید و خلیفہ کے مرید و خلیفہ بکثرت تھے جن میں سے سید علی لودھیانہ میں اب بھی موجود ہیں جو بہت بوڑھے ہوگئے ہیں ذکر الٰہی کرتے ہیں صاحب ذوق بزرگ ہیں، شاہ عبدالرزاق کی وفات 949ھ میں ہوئی، انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عینیت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ورائیت میں شیخ امان اور شیخ محمد حسن صاحبان سے گفتگو کے بعد اپنے ایک دوست کو خط لکھا ہے وہ نقل کیا جاتا ہے۔
اگرچہ جو حقائق و اسرار اس میں مذکور ہیں ان کا اظہار کرنا میں مناسب نہیں سمجھتا ہوں لیکن چونکہ انہوں نے ذکر کیا ہے اس لیے لامحالہ ذکر کرنا پڑتا ہے نیز چونکہ یہ خط مشابہت رکھتا ہے کتاب نفحات الانس سے جو کہ جامع مکتوبات ہے شیخ عبدالرزاق کاشی اور شیخ علاؤالدین کے، اس لیے کہ شیخ عبدالرزاق کے مجموعہ خطوط کو شیخ امان نے بعد مقابلہ مجموعہ خطوط میں شامل کیا ہے، خط یہ ہے۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ شیخ المشائخ شیخ حسین دام حسنہ، و عرفانہ،۔ فقیر عبدالرزاق عرض رساں ہے، اے بھائی! اللہ آپ کو معرفت اور محبت نصیب کرے سنئے معرفت کی دو قسمیں ہیں، استدلالی اور وجدانی ۔
معرفت استدلالی یہ کہ جس نے اللہ کے حسن کی چمک اور یقین کو آسمان و زمین کی اور ان دونوں کی درمیانی اشیاء کی تخلیق میں دیکھا تو اس کو وہ تمام علامات مل گئیں جو اللہ کے صانع و حکیم ہونے کی دلیل ہیں اور یہ تمام تخلیق و صنعت اللہ تعالیٰ کے عرفان کے اثرات دلیلی ہیں اگر یہ معرفت ضروری ہوتو پھر کسی مسلمان کو اس سے بے خبر رہنے کی جسارت ہوہی نہیں سکتی حالانکہ ایمان کی تکمیل اللہ و رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کے ساتھ ہوتی ہے اور اس طرح معرفت عامہ ہر مسلمان کو حاصل ہوجاتی ہے جس میں معرفت حقیقی شامل نہیں ہے۔ عزوجل و صلی اللہ علیہ وسلم
چو آیا تست روشن گشت از ذات
بگرود ذات اور روشن ز آیات
جو لوگ دلیل سے اللہ کی معرفت حاصل کرتے ہیں وہ ذات باری تعالیٰ ورا، عالم سمجھتے ہیں اور دلائل کی روشنی میں ایمان بالغیب لاتے ہیں۔
زہے ناداں کہ او خورشید تاباں
بنور شمع جوید در بیاباں!
اور معرفت حقیقت وجدانی یہ ہے کہ عارِف اپنے لباس وجود سے کٹ کر ریاضت مجاہدہ دوام ذکر، دل و زَبان کے ذریعہ اپنے پیر کے اعتماد کے ساتھ مسلک فنا پر گامزن ہوجائے تاکہ اللہ اس کو اپنے احسانات سے سرفراز کرکے اس کو اپنے اسماء سکھادے اس طرح حق حق کی معرفت کرلیتا ہے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے عرت ربی بربی یعنی میں نے اللہ کو اللہ کے ذریعہ پہچانا۔
رویت حق بحق شہود بود
خاصہ حضرت وجود بود!
اس معرفت وجدانی کا حاصل یہ ہے کہ تمام موجودات ممکن بنور حق ہیں یعنی اس کی تجلی سے پیدا اور روشن ہوگئی ہیں، اور اللہ کے تجلی کے واسطہ سے تمام اشیاء موجود ہیں، حقیقتاً سوا ذات خدا وندی کے کوئی موجود نہیں اور جتنے بھی موجودات ہیں وہ ذات باری کی وجہ سے ہیں، یہ بات غلط ہے کہ حق سبحانہ وتعالیٰ وراء عالم ہیں اور عالم وراء حق سبحانہ وتعالیٰ ہے، اللہ تعالیٰ اس سے بہت بُلند و بالا ہے۔ میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں ہر قسم کی لغزش و خلل اور تفسیر بالرائی سے، بلکہ یہ اللہ کا فضل و عطا ہے، یا ایھاالذین امنوا امنوا باللہ یعنی اے وہ لوگو جوغیب پر ایمان لاچکے ہو اب اللہ کی ملاقات سے کسی شک میں نہ رہو اور ہر متعین چیز میں بے تعین اللہ کا مشاہدہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ مشہود ہے اور ہر مقید و متعین میں اپنے اسماء وصفات کے ساتھ موجود ہے اور اللہ تعالیٰ بظاہر مقید نہیں ہے بلکہ تمام چیزوں سے علیحدہ مطلق موجود ہے۔
ہمہ عالم جمال حضرت اوست
او جمیل و جمال دارد دوست
اے بھائی! اللہ تمہاری عمر دراز کرے اور معرفت کے ساتھ تم کو زندہ رکھے، اچھی طرح سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ واجب الوجود ہے اور جب کہ اس کا وجود واجب ہے تو اور دوسری چیزوں کا عدم ضروری ہے اور کوئی یہ گمان کرے کہ اللہ تعالیٰ غیر اور سوا ہے تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ وہ اس سے بھی منزہ و پاک ہے، نیز اس کی جانب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشارتاً فرمایا ہے لا تبسوا الدھر فان اللہ ھو الدھر یعنی زمانہ کو برا نہ کہو کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی زمانہ ہے۔
یعنی وجود زمانہ دراصل وجود پروردگار ہے، اور یہ بات نہیں ہے کہ زمانہ سے اللہ تعالیٰ علیحدہ ہو، اللہ تعالیٰ بہت ہی بلند و بالا ہے، اگر جناب والا نہیں سمجھے تو اس سے زیادہ واضح طور پر سنئے یا ایھا الذین اٰمنوا اٰمنو باللہ کا مطلب یہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو یعنی تم نے اپنی ہستی و ذات کو اللہ کی جانب منسوب کر کے یقین کر لیا ہے کہ ہم موجود ہیں اور اللہ تعالیٰ کی حقیقت مستطاب سے تم خطاب کررہے ہواور وہ جواب دے رہا ہے کہ تم اس ملک وہاب تک رسائی حاصل کرو، اور اے مسلمانوں یعنی اپنی ذات پر یقین کرنے والو، اس چیز پر ایمان لاؤ کہ تمہارا وجود بغیر کسی ضرورت کے اللہ کا وجود ہے اور یہی حُضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے من عرف نفسہ فقد عرف ربہ اور جبکہ اول و آخر اور ظاہر وباطن اللہ تعالیٰ ہی ہے تو یہ امر خود ثابت ہوجاتا ہے کہ اے انسان تو اپنی ذات کے اعتبار سے موجود نہیں ہے بلکہ تو اللہ کی ذات کی وجہ سے موجود ہے اور جب اس طرح تم نے اپنی ذات کا عرفان حاصل کرلیا تو تم نے اللہ کی معرفت حاصل کرلی، ورنہ نعوذ باللہ اللہ کی ذات ایک جزوی حقیقت ہوگی جو عالم کے سوا ہوگا اور اللہ اس سے بہت ارفع و اعلیٰ ہے، ممکن ہے کہ ابھی آپ نے اچھی طرح نہ سمجھا ہو اس لیے وضاحت سے تحریر کرتا ہوں کہ یا ایھا الذین امنوا امنوا کا مطلب یہ ہے کہ اے ایمان والو جبکہ تم تمام اشیاء پر ایمان لائے اور تم نے یقین کرلیا کہ تمام اشیاء اپنا مستقل اور الگ وجود رکھتی ہیں اور حقیقت مطلقہ سے دور ہیں تو منجانب اللہ رَحَمت کا حکم نازل ہوا کہ اشیاء پر نہیں بلکہ اب اللہ پر ایمان لاؤ کیونکہ اعیان معلومہ ہمیشہ معدوم ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے وجود کے ساتھ موجود رہتے ہیں اور یہی حُضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مقصد ہے اللھم ارنا الاشیاء کماھی یعنی اے اللہ ہم کو اشیاء کی حقیقت سے آگاہ کردے
در نظر عین غیر اب نماندا
محو شد قطرہ و حباب نماند
اعیان اس لحاظ سے کہ ممکن ہیں معدوم ہیں اور اعیان وجود ظاہری میں ممکنات کے آثار ہیں، اعیان میں وجود عین حق ہے، اضافہ وجود اعیان کی طرف نسبتی اعتباری کے ذریعہ سے ہے، افعال و تاثرات تابع ہیں وجود کے اور اعیان معدوم ہیں اور معدوم نہ غافل بن سکتا ہے نہ موثر، بلکہ حقیقت میں موجود اللہ ہے جو واحد ہے اور باعتبار تقیدو تعین بصورت عبد موجود ہوتا ہے، یہ بھی ایک شان ذاتی ہے ذات کی شانوں میں سے، اللہ تعالیٰ معبود ہے باعتبار اطلاق اور اللہ تعالیٰ جو معبود ہے حقیقت عبد سے علیحدہ ہے، حقیقت عبد دراصل خود ذات الٰہی ہے اور اس کی ذات باعتبار کثرت و تعدد کے خلق و عالم ہے، پس عالم قبل ظہور عین حق تھااور ظہور کے بعد حق عین عالم بن گیا۔
برشکل تباں رہزن عشاق حق است
لا بلکہ عیاں درہمہ آفاق حق است
چیزے نبود زروئے تقیر جہاں
واللہ کہ ہماں زوجہ اطلاق حق است
اس اعتبار سے کوئی موجود نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور یہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ حجاب وحدانی ہے غیر نہیں ہے اس لیے واصل کے لیے جائز ہے انا الحق اور سبحانی ما اعظم شانی یعنی میں حق ہوں اور میری شان عظیم ہے، واصل اس طرح وصل کرجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنی صفات سے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو اپنی ذات سے واصل کرتا ہے اس لیے کہ اللہ کی ذات کے سوا کوئی ذات نہیں ہے اور اللہ کے وجود کے سوا کوئی وجود نہیں ہے جیسا کہ پہلے حُضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد لا تسبوا الدھر سے واضح کیا جا چکا ہے۔
اگر اس طرح بھی آپ کی سمجھ میں یہ مسئلہ نہ آیا ہوتو سنئے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا یہ ارشاد بیان فرمایا ہے۔ (اے میرے بندے میں بیمار ہوا تو نے میری عیادت نہیں کی اور میں نے سوال کیا تو نے بخشش نہیں کی)
اس ارشاد سے واضح طور پر یہ معلوم ہوگیا کہ مریض کا وجود عین وجود اللہ کا ہے اور سائل کا وجود اللہ کا وجود ہے اور جب یہ ثابت ہے کہ سائل کا وجود اللہ کا وجود ہے تو لا محالہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمام کائنات جواہر و اعراض کا وجود اللہ کا وجود ہے اور جب ایک ذرہ کا سر معلوم ہوتو سارے موجودات کا راز ظاہر ہوتا ہے، موجودات پوشیدہ ہوں یا ظاہر ۔
اگر اس طرح بھی آپ کی سمجھ میں نہیں آیا تو سنئے اور زیادہ وضاحت سے بیان کرتا ہوں اور وجدان کو کتاب کی طرف مبذول کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں فرماتا ہے الحمد للہ جس کی بابت تمام مفسرین نے لکھا ہے کہ الحمد میں الف لام استغراق و کل کے لیے ہے جس کے معنی یہ ہوئے کہ صحائف کائنات میں ثنا و حمد کی جتنی چیزیں ہیں ان سب کی ثنا ء محا ذات واحد ہے، الحمد للہ سے اشارتاً معلوم ہوا کہ اللہ کی ذات کے سوا کوئی ذات موجود نہیں ہے اور ممکن بھی نہیں ہے کہ ذات باری کے بغیر کوئی ذات موجود ہو، غرضیکہ اگر کوئی ذات وراء ذات حق موجود ہو تو اس صورت میں وہ صفات حق سے خالی نہیں ہے اس لیے کہ جو بھی ذات ذات مطلق سے علیحدہ ہو وہ حرکت و سکون فناء و بقاء ابتدا و انتہا سے خالی نہیں ہوتی اور ان کی ذات صفات الٰہی ہے اور پہلے یہ معلوم ہوچکا ہے کہ جملہ صفات صرف اللہ کے لیے ہیں پس یہ ثابت ہوا کہ نہیں ہے کوئی ذات بغیر ذات الٰہی کے، اس سے اور زیادہ وضاحت سے عرض کرتا ہوں قال اللہ قال یا ایھا الذین امنوا امنوا باللہ یعنی جو لوگ اللہ۔ پر بدیں طور ایمان لائے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خالق ہے اور تمہارے پہلے سے موجود ہے اپنی تمام صفات کمالیہ سے موصوف ہے لیکن تمہارا غیر نہیں ہے چونکہ نقص و زوال سے پاک ہے بلکہ یہ موصوف تم خود ہو، پس اس طرح ایمان لاؤ کہ تم صفات کمالیہ سے موصوف ہو لیکن اس حیثیت سے کہ تم نہیں ہو جب اس طرح ایمان لاؤ گے تو مومن ہوجاؤ گے جیسا کہ اللہ نے خود کہا ہے واللہ المومن، کسی دیوانہ و یگانہ نے کیا خوب کہا ہے۔
بیروں نے حدود کائنات است د عالم
بیروں ز احاطہ جہان است د لم
فارغ ز تقابل صفات است د لم
مرات تجلیات ذات است د لم
شیخ عبدالرزاق نے اپنے ایک دوسرے رسالہ میں لکھا ہے کہ قریب ترین راہ الٰہی ذکر حق ہے جس کی بہترین صورت یہ ہے کہ تصور پیر کرے اور جس کو اللہ تعالیٰ تصور شیخ نصیب کرے، اس سے زیادہ بہتر اور کوئی کام نہیں ہے۔
مرید اگر کوئی اور ریاضت نہ کرتا ہو لیکن صرف گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر تصور شیخ کرے تو یہی اس کو اللہ تک پہنچادیتا ہے، متبدی کے لیے تصور شیخ ضروری ہے اس لیے کہ عالم الٰہی وہ عالم معنی ہے جس کو دیکھنا ممکن نہیں ہے البتہ صاحب کمال کی صورت زیر نظر رکھنا ضروری ہے، کیونکہ انسان کامل کی ذات دراصل اللہ کی ذات ہے اور اس کے کمالات کا مظہر ہے۔
مظہر تام غیر انساں نیست
انبیاء و اولیاء را حق بداں
کہ ہمہ کون را مسخر کرو
سر مخفی کردہ ام با تو بیاں
مجھ عبدالرزاق کو میرے پیرومرشد نے اپنے تصور کو چار پایہ ہوکر ہمیشہ پیش نظر رکھنے کا حکم دیا چنانچہ میں تصور شیخ میں ایسا مشغول ہوا کہ ذکر کرنا بالکل چھوڑ دیا، البتہ نماز فرض اور سُنّت موکدہ ادا کرتا رہا۔
غرضیکہ جو کوئی اپنے شیخ کے تصور میں مشغول ہو وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا ہے اگرچہ کوئی ریاضت نہ کرے، کیونکہ جو صاحب حق اپنے مرشد کی اطاعت کرتے ہوئے ان کے رُخ روشن کی نورانیت کو اپنے آئینہ دل میں درخشاں کرے گا تو وہ اللہ کی صفائی باطن کی وجہ سے ان کو خود اپنے اندر پائے گا اور جو فیض و برکات مرشد کو حاصل ہیں وہ اس مرید کو بھی حاصل ہوجائیں گی جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا (جو کچھ اللہ نے میرے دل میں ڈالا ہے وہ میں نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دل میں ڈال دیا ہے)۔
حضرت پیرومرشد کا تصور مجھ پر اتنا غالب آیا کہ لوگ تو چاند کو دیکھتے تھے اور میں اپنے پیرومرشد کو دیکھتا تھا اور آخر میں تصور شیخ کا اتنا غلبہ ہوا کہ فقیر کو ہر چیز میں مرشد نظر آتا تھا، دیوار و در شجر و حجر جس چیز کو دیکھتا تو صرف پیرومرشد کا جمال ہی دکھائی دیتا۔
تصور جماؤں تو موجود پاؤں
کروں بند آنکھیں تو جلوہ نُما ہیں
(مُغیلانِ مدینہ)
اخبار الاخیار
حضرت شاہ عبدالرزادق جھنجانہ(رحمتہ اللہ علیہ)
حضرت شاہ عبدالرزاق جھنجانہ قادریہ سلسلہ سےوابستہ تھے۔
بیعت وخلافت:
آپ حضرت شیخ محمد حسن کےمریداورخلیفہ ہیں۔۱؎
شیخ امان پانی پتی سے تعلقات:
آپ کی حضرت شیخ امان پانی پتی سےتوحیدکےمسئلہ پربہت بحث ہوتی تھی۔
ایک واقعہ:
ایک مرتبہ آپ نےایک سیدکودیکھاجوپولیس کی حراست میں تھا،ان کوچھڑانے کی غرض سےآپ نے ان سید کی ضمانت کی،جب وہ سیدرہاہوئےتوآپ نےان سے کہاوہ شہرسے باہرچلےجائیں اورآپ خودان کےبدلےہرسختی برداشت کریں گے،چنانچہ وہ سیدفرارہوگئے،آپ پربحیثیت ضامن بہت سختی ہوئی،آپ نےہنسی خوشی سب کچھ برداشت کیا۔
وفات:
آپ نے۹۴۹ھ میں رحلت فرمائی مزارجھنجانہ میں ہے۔
مریدین:
آپ کےمریدین اورخلفاء کی تعدادبہت زیادہ ہے۔"سیدعلی لدھیانوی آپ ہی کےمریدہیں"۔
سیرت:
آپ عبادت ومجاہدات کرتےکرتےمشاہدہ کےدرجےتک پہنچے،آپ صابر،شاکراوربردبارتھے، آپ علم کےزیورسے آراستہ تھے،آپ نےکئی کتابیں لکھی ہیں۔
تعلیم:
آپ فرماتےہیں کہ۔
"قریب ترراستہ ذکرہےاوراس سےبھی قریب ترصورت پیرومرشدکےساتھ مشغول ہوناہے۔ حق سبحانہ تعالیٰ جس کسی کے توفیق رفیق حال کرے کہ اس کومشغولی واسطہ پیرہوجائے،اس کے لئےاس سے بہتراورکوئی کام نہیں اورایک گوشہ میں بیٹھ کراسی ملاحظہ میں مشغول رہے۔اگرچہ کوئی اورریاضت نہ کی،فقط یہی اس کوخداتک پہنچادےگی اورمبتدی کوپیرکی صورت میں مشغول ہونےکےبغیرچارہ نہیں ہے،کیوں کہ عالم الٰہی عالم معنی ہے اوراس کادیکھناممکن نہیں ہے،مگر صاحب کمال کی صورت میں کہ انسان کامل کی ذات،ذات حق ہےاورکمال حق کی مظہرہے"۔
حواشی
۱؎اخبارالاخیار(اردوترجمہ)صفحہ ۴۶۹
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)