شاہ عبد الرزاق مکی سہروردی لاہوری
شاہ عبد الرزاق مکی سہروردی لاہوری (تذکرہ / سوانح)
شاہ عبد الرزاق مکی سہروردی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ
سبز واری سادات میں سے تھے۔غز نی سے پشاور آئے، وہاں سے دہلی پہنچے اور شاہی فوج میں بھرتی ہوئے ،پھر لاہور تشریف لائے اور یہاں ہی کے ہو رہے،آپ نے حضرت میراں محمد شاہ موج دریا بخاری رحمتہ اللہ علیہ سے بیعت کی تھی اور ان کے ممتاز خلفا ء میں شامل ہوئے تھے،آپ نے اپنے پیرو مرشد کی بہت خدمت کی اور انہیں کی خدمت میں زندگی کا بیشتر حصہ بسر کیا،کثرت سے عبا دت کیا کرتے تھے اور پیر روشن ضمیر کی خد مت کو ہر بات پر ترجیع دیتے تھے۔
کسی زمانہ میں مسمی دولا زمیند ار گو ت واڑی نے اس محلہ کو آباد کیا تھا، اب اس علاقہ کو ،نیلا گنبد ،کہتے ہیں،آپ مکہ مکرمہ سے ہندوستان آئے اور لاہور میں اقامت گزین ہوئے، لاہور کے امراء اغنیا آپ کی بیحد عزت کرتے تھے۔
آپ نصیر الدین ہمایوں بادشاہ دہلی کے زمانہ میں غز نی سے دہلی آکر بادشاہی فوج میں ملا زم ہوگئے،کافی عرصہ وہاں رہے پھر جب آپ لاہور تشریف لائے تو حضرت موج دریا بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ہی کے ہو رہے اور پھر کہیں نہ گئے، پیرو مرشد کے وصال کے بعد بھی آپ ان کے روضہ پر جاکر رات گزارتے اور عبادت وریاضت میں مشغول رہتے تھے، تارک الدنیا متقی زاہد اور عبا دت گز ار انسان تھے،جامع کمالات ظاہری و باطنی تھے، دنیا داروں کی طرف متوجہ نہ ہوتے تھے اور نہ اغینا اور امر ا سے میل جول رکھتے تھے، طبعیت تنہائی کی طرف مائل تھی اور یہی وجہ تھی کہ عبادت میں ہی دن رات کا بیشتر حصہ گز ارتے تھے،آپ کے پیرو مرشد حضرت میراں محمد شاہ سہروردی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ بھی آپ کی علمیت اور کمال کے معترف تھے۔
جہاں آپ کا مزار ہے آپ کی زندگی میں آپ نے وہاں ایک حجرہ اور دلان بنوا رکھا تھے جس میں آپ کی رہائش تھی،وصال کے وقت آپ نے اپنے عقیدت مندوں اور مریدوں سے فرمایا کہ جب ہماری وفات ہوجائے تو ہمیں یہاں ہی دفن کرنا چنا نچہ حسب وصیت ایسا ہی کیا گیا، کافی عرصہ تک قبر خام ہی رہی اس زمانہ میں مشہور تھا کہ ہر جمعرات کو یہاں شیر آتا ہے اور دم سے جا رو ب کشی کرتا ہے،کچھ زمانہ کے بعد متوفی خا نقاہ حضرت موج دریا بخاری رحمتہ اللہ علیہ کو خواب میں ارشاد ہوا کہ حضرت غوث الا عظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ اس خام قبر پر عظیم الشان مقبرہ تعمیر کیا جائے چنا نچہ عبدا لغفو ر نامی ایک معمار کے اہتمام سے یہ مقبرہ بنا۔
سکھوں کے عہد میں اس کی حالت
مصنف،تاریخ لاہور،لکھتا ہے کہ سکھوں کے عہد میں مسجد اور مقبرہ میں با رود بھری رہتی تھی اور مسجد کے صحن میں آہنی گولے لوہا ر لوگ بنایا کرتے تھے ،انگر یزوں کے وقت میں مسجد اور مقبرہ دونوں کو خالی کر وایا گیا اور انگر یز لوگ یہاں کھانا کھا یا کرتے تھے اور جب انار کلی سے چھا ؤ نی، میاں میر، منتقل ہوئی تو مسجد اور مقبرہ منشی نجم الدین ٹھیکید ار گو شت چھاؤنی نے لے لیا، مسجد کو از سرنو مرمت کروایا گیا اور آباد کردی نیز مقبرہ میں قبو ر دو بارہ بنوائی گئیں، باغ بھی ساتھ ہی تھا وہ اس زمانہ میں تباہ و برباد ہوگیا مزید برآں مسجد سے باہر ایک مکان بنوایا گیا تھا جس میں لوہا ر بندو قیں بھی تیار کرتے تھے۔
مسجد نیلا گنبد
۱۸۵۲ء میں اس مسجد کے امام مولوی احمد دن بگوی مقرر ہوئے تھے اور ان کی طرف سے ۱۸۶۷ء میں مسجد کی نائب امامت مولوی نو ر احمد کرتے تھے، موجودہ زمانے میں خطیب مولوی گل محمد تھے ان کے والد بزر گوار مولانا غلام محمد بھی بیسوں سال اس مسجد کے خطیب رہے تھے بلکہ مسجد کی خطابت ان کے خاندان کے فرائض میں تھی،اب جامعہ اشر فیہ کے دیوبندی مولوی صاحبان خطا بت کے فرائض سر انجام دیتے ہیں،کسی زمانہ میں عبد الغفو ر نامی ایک شخص کے اہتمام میں جب یہ مقبرہ پایہ تکمیل کو پہنچا تو ایک دن مہتمم کے خواب میں حضرت سید عبد الرزاق آئے اور کہا کہ مقبرہ کے نزدیک ایک عظیم الشان مسجد حضرت غوث الا عظم پیران پیر رحمتہ اللہ علیہ تعمیر کی جائے چنا نچہ اس حکم کی تکمیل میں یہاں ایک وسیع و عریض عظیم الشان مسجد مسلمانوں سے چندہ جمع کرکے بنوائی گئی، مسجد کو منشی نجم الدین ٹھیکید ار ڈبل روٹی والے نے سرکار انگلینڈ سے واگزار کروایا تھا اور مسجد نجم الدین کی مسجد کہلانے لگی اور اس کی مرمت و سفیدی بھی کر وائی گئی، مولوی غلام رسول ساکن قلعہ مہیسا سنگھ نے بہ سر پرستی منشی نجم الدین ٹھیکیدار یہاں وعظ شروع کیا تو یہ مسجد وہابیوں کی مشہو ر ہوگئی تھی اور بعد ازاں دوسرا انتظام کرلیا گیا تھا، وفات آپ کی ۱۰۸۴ء بمطابق ۱۶۷۳ھ بعہد اور نگریب عالمگیر ہوئی نیلا گنبد انار کلی میں مزار اقدس ایک گنبد ہشت پہلو اور عالیشاں کانسی کا ربر نگ سبز فیر وزی کے نیچے ہے۔
(لاہور کے اولیائے سہروردیہ)